Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اس مراد وہ لوگ ہیں نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پہلے پڑھتے رہے پھر سست ہوگئے یا نماز کو اس کے اپنے مسنوں وقت میں نہیں پڑھتے۔ جب جی چاہتا ہے پڑھ لیتے ہیں یا تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنا لیتے ہیں یا خشوع خضوع کے ساتھ نہیں پڑھتے۔ یہ سارے ہی مفہوم اس میں آجاتے ہیں اس لیے نماز کی مذکورہ ساری ہی کوتاہیوں سے بچنا چاہیے۔ کہاں اس مقام پر ذکر کرنے سے یہ بھی واضح ہے کہ نماز میں ان کوتاہیوں کے مرتکب وہی لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کی جزا اور حساب کتاب پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی لیے منافقین کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے۔ (وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا 142؁ۡۙ ) 4 ۔ النساء :142)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] اس سورت کی آیت نمبر ٤ اور ٥ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت مدنی ہے۔ کیونکہ ان میں منافقوں کی نماز کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اور منافقوں کا مکی دور میں کوئی وجود نہ تھا۔ یہ فرقہ مدنی دور میں ہی وجود میں آیا تھا جب مسلمانوں کی ریاست قائم ہوچکی تھی۔ نماز سے غافل رہنے سے مراد یہ ہے کہ کبھی پڑھ لی، کبھی نہ پڑھی، کبھی بےوقت پڑھ لی جب وقت تنگ ہوچکا ہو۔ جلدی جلدی چند ٹھونگیں مار لیں۔ نماز کو بس ایک عادت اور ورزش کے طور پر پڑھ لیا۔ مگر اللہ کی یاد ایک لمحہ کے لیے بھی نہ آئی۔ بس دنیوی خیالات میں مستغرق رہے۔ غرض نماز سے غفلت کی بیشمار صورتیں ہیں جو اسی ضمن میں آتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ ہُمْ عَنْ صَلَاتِہِمْ سَاہُوْنَ۝ ٥ ۙ- سها - السَّهْوُ : خطأ عن غفلة، وذلک ضربان :- أحدهما أن لا يكون من الإنسان جو البه ومولّداته، کمجنون سبّ إنسانا، والثاني أن يكون منه مولّداته، كمن شرب خمرا، ثم ظهر منه منکر لا عن قصد إلى فعله . والأوّل معفوّ عنه، والثاني مأخوذ به، وعلی نحو الثاني ذمّ اللہ تعالیٰ فقال :- فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات 11] ، عَنْ صَلاتِهِمْ ساهُونَ [ الماعون 5]- ( س ھ و ) السھو ( ن ) وہ غلطی جو غفلت کی وجہ سے سروز ہو اس کی دوقسمیں ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کے اسباب اور موارات انسان کے اپنے اختیار سے پیدا کردہ نہ ہوں جیسے مجنوں ادمی کا کسی انسان کو گالی دینا ۔ دوم یہ کہ اس کے مولدات انسان کے خود پیدا کردہ ہوں جسیے کوئی شخص شراب نوشی کرے اور پھر اس سے ( نشہ میں ) بغیر ارادہ کے کوئی برائی سادر ہو پہلی قسم کی خطا تو عفو کے حکم میں ہے لیکن دوسری قسم کی خطا پر ہو اخذہ ہوگا ۔ اور اس دوسری قسم کے سہو کی اللہ تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات 11] بیخبر ی میں بھولے ہوئے ہیں ۔ عَنْ صَلاتِهِمْ ساهُونَ [ الماعون 5] نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نمازوں سے غفلت پر تنبیہ - قول باری ہے (الذین ھم عن صلاتھم ساھون) جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں) حرضت ابن عباس (رض) نے فرمایا ” نماز کو اس کے وقت سے موخر کرتے ہیں۔ “ مصعب بن سعد نے حضرت سعد (رض) سے بھی اسی قسم کی روایت کی ہے۔ مالک بن دینار نے حسن سے روایت کی ہے کہ نماز کی اس کے وقت میں ادا کرنے سے غفلت برتتے ہیں یہاں تک کہ نماز کا وقت نکل جاتا ہے۔- اسماعیل بن مسلم نے حسن سے روایت کی ہے کہ ” یہ منافق لوگ ہیں، نماز کو اس کے وقت سے موخر کرتے ہیں اور جب نماز پڑھتے ہیں تو دکھلاوے کے طور پر پڑھتے ہیں۔ “ ابوالعالیہ کا قول ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جسے یہ پتہ نہیں چلتا کہ آیا اس نے دو رکعت کے بعد سلام پھیرا ہے یا ایک رکعت کے بعد۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس تاویل کی شاید وہ روایت ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے بیان کی۔ انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن حنبل نے، انہیں عبدالرحمن بن مہدی نے، انہیں سفیان نے ابومالک الاشجعی سے، انہوں نے ابوحازم سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے فرمایا (لا غرار فی الصلوٰۃ ولا تسلیم) جس کے معنی ہیں کہ کوئی شخص نماز میں غرار یعنی شک کی بنا پر سلام نہیں پھیرے گا۔- اس کی نظیر وہ روایت ہے جس کے راوی حضرت ابوسعید خدری (رض) ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من شک فی صلوٰتہ فلم یدراثلاثا صلی امرار بعا فلیصل رکعۃ اخری وان کانت قدتمت صلوتہ فالرکعۃ والسجد تان لہ نافلۃ۔ جس شخص کو اپنی نماز کی رکعتوں کے بارے میں شک ہوجائے اور اسے پتہ نہ ہو کہ آیا تین رکعتیں پڑھ لی ہیں یا چار تو وہ ایک رکعت اور پڑھ لے۔ اگر اس کی نماز مکمل ہوچکی ہوگی تو یہ رکعت اور اس کے دو سجدے اس کے لئے نفل ہوجائیں گے)- مجاہد سے مروی ہے کہ (ساھون) کے معنی ” لاھون “ (لاپرواہی کرنے والوں) کے ہیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ گویا مجاہد کی مرادیہ ہے کہ ایسے لوگوں کو نماز سے لاپرواہی کی بنا پر سہو لاحق ہوتا ہے اور یہ لوگ مذمت کے اس لئے مستحق قرار پائے کہ نماز کے اندر غور وفکر کی قلت کی وجہ سے اٹھیں سہو لاحق ہوا کیونکہ ان کی نماز دکھلاوے کی نماز تھی۔ ورنہ سہو کا لاحق ہونا ایک شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ اسے اس پر عذاب کا مستحق گردانا جائے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الماعون حاشیہ نمبر : 9 فِیْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ نہیں کہا گیا بلکہ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ کہا گیا ہے ۔ اگر فی سلوتہم کے الفاظ استعمال ہوتے تو مطلب یہ ہوتا کہ وہ اپنی نماز میں بھولتے نہیں ۔ لیکن نماز پڑھتے پڑھتے کچھ بھول جانا شریعت میں نفاق تو درکنار گناہ بھی نہیں ہے ، بلکہ سرے سے کوئی عیب یا قابل گرفت بات تک نہیں ہے ۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کسی وقت نماز میں بھول لاحق ہوئی ہے ۔ اور حضور نے اس کی تلافی کے لیے سجدہ سہو کا طریقہ مقرر فرمایا ہے ۔ اس کے برعکس عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی نماز سے غافل ہیں ۔ نماز پڑھی تو اور نہ پڑھہ تو ، دونوں کی ان کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ کبھی پڑھتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے ۔ پڑھتے ہیں تو اس طرح کہ نماز کے وقت کو ٹالتے رہتے ہیں اور جب وہ بالکل ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتے ہیں ۔ یا نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو بے دلی کے ساتھ اٹھتے ہیں اور بادل ناخواستہ پڑھ لیتے ہیں جیسے کوئی مصیبت ہے جو ان پر نازل ہوگئی ہے ۔ کپڑوں سے کھیلتے ہیں ، جمائیاں لیتے ہیں ، خدا کی یاد کا کوئی شائبہ تک ان کے اندر نہیں ہوتا ۔ پوری نماز میں نہ ان کہ یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں اور نہ یہ خیال رہتا ہے کہ انہوں نے کیا پڑھا ہے ۔ پڑھ رہے ہوتے ہیں نماز اور دل کہیں اور پڑا رہتا ہے ۔ مارا مار اس طرح پڑھتے ہیں کہ نہ قیام ٹھیک ہوتا ہے نہ رکوع نہ سجود ۔ بس کسی نہ کسی طرح نماز کی سی شکل بنا کر جلدی سے جلدی فارغ ہوجانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور بہت سے لوگ تو ایسے ہیں کہ کسی جگہ پھنس گئے تو نماز پڑھ لی ، ورنہ اس عابدت کا کوئی مقام ان کی زندگی میں نہیں ہوتا ، نماز کا وقت آتا ہے تو انہیں محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ نماز کا وقت ہے ۔ موذن کی آواز کان میں آتی ہے تو انہیں یہ خیال تک نہیں آتا کہ یہ کیا پکار رہا ہے ، کس کو پکار رہا ہے اور کس لیے پکار رہا ہے ۔ یہی آخرت پر ایمان نہ ہونے کی علامات ہیں ۔ کیونکہ دراصل اسلام کے مدعیوں کا یہ طرز عمل اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ نہ نماز پڑھنے پر کسی جزا کے قائل ہیں اور نہ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ کے نہ پڑھنے پر کوئٰ سزا ملے گی ۔ اسی بنا پر حضرت انس بن مالک اور عطا بن دینار کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے اس نے فِیْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ نہیں بلکہ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ فرمایا ۔ یعنی ہم نماز میں بھولتے تو ضرور ہیں مگر نماز سے غافل نہیں ہیں اس لیے ہمارا شمار منافقوں میں نہیں ہوگا ۔ قرآن مجید میں منافقین کی اس کیفیت کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَهُمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُمْ كٰرِهُوْنَ ۔ وہ نماز کے لیے نہیں آتے مگر کسمساتے ہوئے اور ( اللہ کی راہ میں ) خرچ نہیں کرتے مگر بادل ناخواستہ ( التوبہ 54 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تلک صلوۃ المنافق ، تلک صلوۃ المنافق ، تلک صلوۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی اذا کانت بین قرنی الشیطان قام فقر اربعا لا یذکر اللہ فیھا الا قلیلا یہ منافق کی نماز ہے یہ منافق کی نماز ہے ، یہ منافق کی نماز ہے ، عصر کے وقتبیٹحا سورج کو دیکھتا رہتا ہے ، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان پہنچ جاتا ( یعنی غروب کا وقت آجاتا ہے ) تو اٹھ کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے جن میں اللہ کو کم ہی یاد کرتا ہے ۔ ( بخاری ، مسلم ، مسند احمد ) حضرت سعد بن ابی وقاص سے ان کے صاحبزادے مصعب بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا تھا جو نماز سے غفلت برتتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو اس کا وقت ٹال کر پڑھتے ہیں ۔ ( ابن جریر ، ابو یعلی ، ابن المنذر ، ابن ابی حاتم ، طبرانی فی الاوسط ، ابن مردویہ ، بیہقی فی السنن ۔ ) یہ روایت حضرت سعد کے اپنے قول کی حیثیت سے بھی موقوفا نقل ہوئی ہے اور اس کی سند زیادہ قوی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی حیثیت سے اس کی مرفوعا روایت کو بیہقی اور حاکم نے ضعیف قرار دیا ہے ) حضرت مصعب کی دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے پوچھا کہ اس آیت پر آپ نے غور فرمایا ؟ کیا اس کا مطلب نماز کو چھوڑ دینا ہے؟ یا اس سے مراد نماز پڑھتے پڑھتے آدمی کا خیال کہیں اور چلا جانا ہے؟ خیال بٹ جانے کی حالت ہم میں سے کسی پر نہیں گزرتی؟ انہوں نے جواب دیا نہیں ، اس سے مراد نماز کے وقت کو ضائع کرنا اور اسے وقت ٹال کر پڑھنا ہے ( ابن جریر ، ابن ابی شیبہ ، ابو یعلی ، ابن المنذر ، ابن مردویہ ، بیہقی فی السنن ) اس مقام پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ نماز میں دوسرے خیالات کا آجانا اور چیز ہے اور نماز کی طرف کبھی متوجہ ہی نہ ہونا اور اس میں ہمیشہ دوسری باتیں ہی سوچتے رہنا بالکل دوسری چیز ۔ پہلی حالت تو بشریت کا تقاضا ہے ، بلا ارادہ دوسرے خیالات آ ہی جاتے ہیں ، اور مومن کو جب بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ نماز سے اس کی توجہ ہٹ گئی ہے تو وہ پھر کوشش کر کے اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔ دوسری حالت نماز سے غفلت برتنے کی تعریف میں آتی ہے ، کیونکہ اس میں آدمی صرف نماز کی ورزش کرلیتا ہے ، خدا کی یاد کوئی ارادہ اس کے دل میں نہیں ہوتا ، نماز شروع کرنے سے سلام پھیرنے تک ایک لمحہ کے لیے بھی اس کا دل خدا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ، اور جن خیالات کو لیے ہوئے وہ نماز میں داخل ہوتا ہے انہی میں مستغرق رہتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: نماز سے غفلت برتنے میں یہ بھی داخل ہے کہ نماز پڑھے ہی نہیں، اور یہ بھی کہ اس کو صحیح طریقہ سے نہ پڑھے۔