6۔ 1 یعنی ایسے لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے ساتھ ہوئے تو نماز پڑھ لی بصورت دیگر نماز پڑھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے، یعنی صرف نمود و نمائس اور ریا کاری کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔
[٥] اگر اس آیت کو سابقہ آیت سے متعلق قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جیسی بھی وہ نماز پڑھتے ہیں وہ بھی اللہ کے حکم یا آخرت کے ڈر کی وجہ سے نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے کی خاطر پڑھتے ہیں۔ پھر اس ریا کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ منافق نماز اس لیے پڑھتے ہیں کہ دوسرے مسلمان انہیں دیکھ لیں اور ان کا شمار مسلمانوں میں ہوجائے۔ دوسری یہ کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص انہیں نماز پڑھتے دیکھ رہا ہے تو اس وقت وہ نماز بنا سنوار کر اور لمبی کرکے پڑھنے لگتے ہیں۔ ایسی نمازیں ان کو فائدہ پہنچانے کی بجائے ان کی ہلاکت کا سبب بن جائیں گی اور حقیقتاً ایسے لوگ بھی آخرت کے منکر ہی ہوتے ہیں۔
الَّذِيْنَ ہُمْ يُرَاۗءُوْنَ ٦ ۙ- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔
آیت ٦ الَّذِیْنَ ہُمْ یُرَآئُ وْنَ ۔ ” یہ وہ لوگ ہیں جو دکھاوا کرتے ہیں۔ “- وہ نماز کی ادائیگی سمیت ہر نیک کام لوگوں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی نیکی کا چرچاہو۔
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 10 یہ فقرہ ایک مستقل فقرہ بھی ہوسکتا ہے اور پہلے فقرے سے متعلق بھی ۔ اگر اسے ایک مستقل فقرہ قرار دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی نیک کام بھی وہ خالص نیت کے ساتھ خدا کے لیے نہیں کرتے بلکہ جو کچھ کرتے ہیں دوسروں کو دکھانے کے لیے کرتے ہیں تاکہ ان کی تعریف ہو ، لوگ ان کو نیکو کار سمجھیں ، ان کے کار خیر کا ڈھنڈورا دنیا میں پٹے ، اور اس کا فائدہ کسی نہ کسی صورت میں انہیں دنیا ہی میں حاصل ہوجائے ۔ اور اگر اس کا تعلق پہلے فقرے کے ساتھ مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ دکھاوے کی نمازیں پڑھتے ہیں ۔ مفسرین نے بالعموم دوسرے ہی معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ پہلی نظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس کا تعلق پہلے فقرے سے ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس سے مراد منافقین ہیں جو دکھاوے کی نماز پڑھتے تھے ، اگر دوسرے لوگ موجود ہوتے تو پڑھ لیتے اور کوئی دیکھنے والا نہ ہوتا تو نہیں پڑھتے تھے ۔ دوسری روایت میں ان کے الفاظ یہ ہیں تنہا ہوتے تو نہ پڑھتے اور علانیہ پڑھ لیتے تھے ( ابن جریر ، ابن المنذر ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ ، بیہقی فی الشعب ) قرآن مجید میں بھی منافقین کی یہ حالت بیان کی گئی ہے کہ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا اور جب وہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے اٹھتے ہیں ، لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں ۔ ( النساء ۔ 142 )
4: یعنی اگر پڑھتے بھی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے بجائے لوگوں کو دِکھاوا کرنے کے لئے پڑھتے ہیں۔ اصل میں تو یہ کام منافقوں کا تھا۔ اگرچہ مکہ مکرَّمہ میں جہاں یہ سورت نازل ہوئی، منافق موجود نہ ہوں، لیکن چونکہ قرآنِ کریم عام احکام بیان فرماتا ہے، اور آئندہ ایسے منافق پیدا ہونے والے تھے، اس لئے ان گناہوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔