7۔ 1 معن شیء قلیل کہتے ہیں۔ بعض اس سے مراد زکوٰۃ لیتے ہیں، کیونکہ وہ بھی اصل مال کے مقابلے میں بالکل تھوڑی سی ہوتی ہے (ڈھائی فی صد) اور بعض اس سے گھروں میں برتنے والی چیزیں مراد لیتے ہیں جو پڑوسی ایک دوسرے سے عاریتا مانگ لیتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ گھریلو چیزیں عاریتا دے دینا اور اس میں کبیدگی محسوس نہ کرنا اچھی صفت ہے اور اس کے برعکس بخل اور کنجوسی برتنا، یہ منکرین قیامت ہی کا شیوہ ہے۔
[٦] مَاعُوْن ہر اس برتنے والی چیز کو کہتے ہیں جو معمولی قسم کی ہو اور عام لوگوں کے استعمال میں آنے والی ہو۔ برتنے کی اشیاء گھریلو استعمال کی چھوٹی موٹی چیزیں مثلاً کلہاڑی، ہنڈیا، کھانے کے برتن، ماچس وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ زر پرستی کی ہوس اور آخرت سے انکار نے ان لوگوں میں اتنا بخل پیدا کردیا ہے کہ یتیموں کو ان کا حق ادا کرنا اور محتاجوں کی ضروریات کا خیال رکھنا تو درکنار، وہ معمولی معمولی عام برتنے کی چیزیں عاریتاً مانگنے پر بھی دینے سے انکار کردیتے ہیں۔- رہی یہ بات کہ بعض لوگ مانگ کر کوئی برتنے کی چیز لے لیتے ہیں پھر واپس ہی نہیں کرتے یا اس چیز کا نقصان کردیتے ہیں تو ایسی صورت میں شریعت نے جو احکام دیئے ہیں وہ درج ذیل احادیث میں ملاحظہ فرمائیے :- خ عاریتاً مانگی ہوئی چیز کے متعلق احکام :۔ ١۔ سیدنا انس فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی بیوی کے ہاں قیام پذیر تھے۔ کسی دوسری بیوی نے کھانے کی رکابی بھیجی تو اس بیوی نے جس کے ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹھہرے ہوئے تھے (از راہ رقابت) خادم کے ہاتھ کو جھٹکا دیا۔ رکابی گرگئی اور ٹوٹ گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رکابی کے ٹکڑے اور جو کھانا اس میں تھا اسے جمع کرنے لگے اور فرمایا : تمہاری ماں کو غیرت آگئی پھر خادم کو ٹھہرایا اور اس بیوی سے ایک سالم رکابی لے کر اس بیوی کے ہاں بھجوا دی جس نے بھیجی تھی اور یہ ٹوٹی ہوئی رکابی اسی گھر میں رکھ لی، جہاں ٹوٹی تھی۔ (بخاری، کتاب المظالم، باب اذاکسر قصعۃ اوشیأا لغیرہ) - ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مانگی ہوئی چیز واپس کرنا، ضامن کو تاوان بھرنا، اور قرضہ کی ادائیگی لازم ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب البیوع، باب ان العاریۃ مؤادۃ) - ٣۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس ہاتھ نے جو کچھ لیا ہو اسی پر اس کا ادا کرنا واجب ہے۔ (خواہ نقد رقم ہو یا کوئی اور چیز) (ابوداؤد۔ کتاب البیوع۔ باب فی تضمین العاریہ )
(ویمنعون الماعون : آخرت پر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا معاملہ تو ان کی نمازوں ہی سے ظاہر ہے، لوگوں سے بھی ان کا معاملہ درست نہیں۔ وہ معمولی چیز کے ساتھ بھی کسی کو فائدہ پہنچانے پر تیار نیہں ہیں، جب اس کے عوض انہیں دنیا میں کچھ ملنے کی توقع نہ ہو۔ (الماعون “ ” معن “ سے ہے، جس کا معنی ” شیء قلیل “ (تھوڑی سی چیز ) ہے۔ ” تفسیر الوسیط للطنطاوی “ میں ہے :” الماعون “ کی اصل ” معونۃ “ ہے جس کا مادہ ” عون “ (مدد) ہے، اس کا ” الف “” تائ “ کے بدلے میں لایا گیا ہے جو آخر سے حذف کردی گئی ہے۔ گویا ” الماعون “ سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے عام ضرورتوں میں مدد لی جاتی ہے۔ “ (الوسیط (علی (رض) اورب عض مفسرین نے اس سے مراد زکوۃ لی ہے، کیونکہ وہ کل مال کے مقابلے میں بالکل قلیل یعنی اڑھئای فیصد ہوتی ہے، یعنی یہ لوگ اتنا معمولی صدقہ کرنے پر بھی تیار نہیں۔ ابوہریرہ ، ابن مسعود اور ابن عباس (رض) اور بہت سے مفسرین نے اس سے گھروں میں برتنے کی وہ چیزیں مراد لی ہیں جو ہر وقت ہر گھر میں نہیں ہوتیں بلکہ ضرورت کے وقت ایک دور سے سے مانگ لی جاتی ہیں، مثلاً سوئی، ہانڈی، کلہاڑی، پیالہ، آگ اور پانی وغیرہ اور عام طور پر ” ماعون “ کا اطلاق انھی چیزوں پر ہوتا ہے۔ یعنی وہ معمولی سے معمولی چیز جو استعمال کے بعد انہیں واپس مل جائے گی، وہ بھی کسی کو دینے پر تیار نہیں، کیونکہ آخرت میں اس کے ثواب کی انہیں امید نہیں اور دنیا میں انہیں اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کو جھٹلانے والے ایسے لوگوں کے لئے تباہی اور بربادی کی وعید ذکر فرمائی ہے۔- مکہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوت اسلام دینے کے بعد آپ پر بہت مشکل حالات گزرے ، سب لوگ دشمن بن گئے ، ہر طرف مخالفت ، ملای پریشانیاں الگ، ایمان لانے والے بالکل تھوڑے سے ، مزید یہ کہ نرینہ اولاد جو ہؤی وہ فوت ہوگئی، اس پر دشمن کا خوش ہونا اور آپ کا غمگین اور پریشان ہونا ایک فطری امر تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح سورة ضحی میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا :(وللاخرۃ خیر لک من الاولی ، ولسوف یعطیک ربک فترضی) (الضحیٰ : ٣، ٥) اور یقیناً پیچھے آنے والی حالت تیرے لئے پہلی سے بہتر ہے اور عنقریب تیرا رب تجھے ضرور اتنا عطا کرے گا کہ تو خوش ہوجائے گا) اور سورة انشراح میں فرمایا :(ورفعنا لک ذکرک) (الانشراح : ٣) اور ہم نے تیرے لئے تیرا ذکر بلند کردیا) اسی طرح اس سورت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا تذکرہ فرما کر آپ کو تسلی دی ہے۔
وَيَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ ٧ ۧ- منع - المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ- الْماعُونَ [ الماعون 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] ، ويقال في الحماية، ومنه :- مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] أي : ما حملک ؟- وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟- يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل :- مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ.- ( م ن ع ) المنع ۔- یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معنی محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔- الماعون - : اسم للحاجة ممّا ينتفع به في البیت حقیرا کان أو ذا قيمة، قيل وزنه فاعول من المعن وهو الشیء القلیل۔ قاله قطرب۔ أو هو علی وزن مفعول۔ علی القلب۔ والأصل اسم مفعول من عان يعون وحقّه أن يكون معون والأصل معو ون ثمّ قدّمت عين الکلمة علی فائها فقیل موعون ثمّ قلبت الواو ألفا لفتح ما قبلها ماعون .- الفوائد :- الحضّ علی الماعون :- اختلف العلماء في الماعون، فروي عن علي أنه الزکاة . وقال ابن مسعود :- الماعون : الفأس والدلو والقدر وقال مجاهد : الماعون العارية، وقال عکرمة : الماعون أعلاه الزکاة المفروضة، وأدناه عارية المتاع وقال محمد بن کعب القرظي : الماعون المعروف کله الذي يتعاطاه الناس فيما بينهم . ومعنی الآية : منع البخل والزجر عنه .- قال العلماء : يستحبّ أن يستکثر الرجل في بيته مما يحتاج إليه الجیران، فيعيرهم، ويتفضل عليهم، ويجوز الثواب .- الماعون سے کیا مراد ہے اس میں چند اقوال ہیں :۔ - (1) لغت میں ماعون تھوڑی سی چیز کو کہتے ہیں۔ اور یہاں مراد زکوۃ ہے ( حضرت علی (رض) حسن بصری (رح)۔ قتادہ۔ ضحاک) زکوۃ کو ماعون کہنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے مال کی زکوٰۃ تھوڑی سی ہوتی ہے ( صرف ڈھائی فیصد)- (2) ماعون سے مراد روزمرہ کے استعمال کی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں۔ مثلا کلہاڑی، ڈول، ہانڈی وغیرہ ( حضرت ابن مسعود (رض) حضرت ابن عباس (رض) (3) ماعون سے مراد مستعارلی ہوئی چیز ہے۔ ( مجاہد)- (4) ماعون سے مراد معروف چیزیں ہیں جن کا لین دین لوگ آپس میں کرتے ہیں۔ ( عکرمہ)- (5) قطرب نے کہا۔ ماعون سے قلیل ہے عرب کا محاورہ ہے۔ مالہ سعۃ ولا معنۃ نہ اس کے پاس کوئی بڑی چیز ہے اور نہ چھوٹی۔- (6) بعض لوگوں کا قول ہے ماعون وہ چیز ہے جس سے کسی کو روکنا شرعا حلال نہیں جیسے پانی، نمک، آگ وغیرہ۔- (7) ماعون لغت اضداد میں سے ہے جو چیز کسی مانگنیوالے کی مدد کے لئے دیجائے وہ بھی ماعون ہے اور جو روک لی جائے وہ بھی ماعون ہے۔- (8) اس کے علاوہ ماعون بمعنی بھلائی، حسن سلوک، بارش ، پانی، گھر کا سامان۔ فرمانبرداری، زکوٰۃ وغیرہ بھی مستعمل ہے۔- ( اعراب القرآن)
معمولی ضرورت کی اشیاء نہ دینے والا قابل مذمت ہے - قول باری ہے (ویمنعون الماعون اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں) حضرت علی (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) (ایک روایت کے مطابق) حضرت ابن عمر (رض) اور سعید بن المسیب تاقول ہے کہ ماعون زکوۃ کو کہتے ہیں۔ حارث نے حضرت علی (رض) سے روایت کی ہے کہ ماعون سے مراد آری، ہانڈی اور ڈول وغیرہ ہیں۔- حضرت ابن مسعود (رض) کا بھی یہی قول ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کے مطابق عادیت میں کوئی چیز دینا مرا ہے۔ سعید بن المسیب کا قول ہے کہ ماعون مال کو کہتے ہیں۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ ہر ایسی چیز ماعون کہلاتی ہے جس میں منفعت کا پہلو موجود ہو۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ماعون کے متعلق جو اقوال مروی ہیں ان سب کا مراد ہونا درست ہے کیونکہ مذکورہ بالا چیزوں کو عاریت کے طور پر دینا واجب ہوتا ہے ۔ جب ان کی ضرورت پیش آتی ہو، اور انہیں دینے سے انکار کرنے والا قابل مذمت ہوتا ہے۔ کبھی ایک شخص ان چیزوں کو بلا ضرورت دینے سے انکار کردیتا ہے۔ یہ بات اس کے بخل اور مسلمانوں کے اختلاق سے اس کی پہلو تہی کی نشاندہی کرتی ہے۔ جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (بعثت لا تمم مکارم الاخلاق میری بعثت اس لئے ہوتی ہے کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کروں) ۔
آیت ٧ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ ۔ ” اور عام استعمال کی چیز بھی (مانگنے پر) نہیں دیتے۔ “- مَاعُوْن کے معنی روز مرہ استعمال کی چیزیں ہیں ‘ جو ہر پڑوسی بوقت ضرورت اپنے پڑوسی سے عاریتاً لے لیتا ہے اور اپنی ضرورت پوری کر کے واپس لوٹا دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے کردار کی پستی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے پاس سے آگ کی چنگاری (ماچس وغیرہ) اور نمک جیسی معمولی اشیاء تک بھی کسی کو دینا پسند نہیں کرتے۔
سورة الماعون حاشیہ نمبر : 11 اصل میں لفظ ماعون استعمال ہوا ہے ۔ حضرت علی ، ابن عمر ، سعید بن جبیر ، قتادہ ، حسن بصری ، محمد بن حنفیہ ، ضحاک ، ابن زید ، عکرمہ ، مجاہد ، عطاء اور زہری رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃ ہے ۔ ابن عباس ، ابن مسعود ، ابراہیم نخعی ، ابو مالک ، رضی اللہ عنہم ، اور بہت سے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ اس سے مراد عام ضرورت کی اشیاء مثلا ہنڈیا ، ڈول ، کلہاڑی ، ترازو ، نمک ، پانی ، آگ ، چقماق ( جن کی جانشین اب دیا سلائی ہے ) وغیرہ ہیں جو عموما لوگ ایک دوسرے سے عاریۃ مانگتے رہتے ہیں ۔ سعید بن جبیر اور مجاہد کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے ۔ حضرت علی کا بھی ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد زکوٰۃ بھی ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی عام ضروریات کی چیزیں بھی ۔ عکرمہ سے ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے کہ ماعون کا اعلی مرتبہ زکوۃ ہے اور ادنی ترین مرتبہ یہ ہے کہ کسی کو چھلنی ، ڈول یا سوئی عاریۃ دی جائے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہا کرتے تھے ( اور بعض روایات میں ہے کہ حضور کے عہد مبارک میں یہ کہا کرتے تھے ) کہ ماعون سے مراد ہنڈیا ، کلہاڑی ، ڈول ، ترازو ، اور ایسی ہی دوسری چیزیں مستعار دینا ہے ( ابن جریر ، ابن ابی شیبہ ، ابو داؤد ، نسائی ، بزار ، ابن المنذر ، ابن ابی حاتم ، طبرانی فی الاوسط ، ابن مردویہ ، بیہقی فی السنن ، سعد بن عیاض ناموں کے تصریح کے بغیر قریرب قریب یہی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے نقل کرتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے متعدد صحابہ سے یہ بات سنی تھی ( ابن جریر ، ابن ابی شیبہ ) دیلمی ، ابن عساکر اور ابو نعیم نے حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی یہ تفسیر بیان فرمائی کہ اس سے مراد کلہاڑی اور ڈول اور ایسی ہی دوسری چیزیں ہیں ۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو غالبا یہ دوسرے لوگوں کے علم میں نہ آئی ہوگی ، ورنہ ممکن نہ تھا کہ پھر کوئی شخص اس آیت کی کوئی اور تفسیر کرتا ۔ اصل بات یہ ہے کہ ماعون چھوٹی اور قلیل چیز کو کہتے ہیں جس میں لوگوں کے لیے کوئی منفعت یا فائدہ ہو ۔ اس معنی کے لحاظ سے زکوۃ بھی ماعون ہے ، کیونکہ وہ بہت سے مال میں سے تھوڑا سا مال ہے جو غریبوں کی مدد کے لیے دنیا ہوتا ہے ، اور وہ دوسری عام ضرورت کی اشیاء کی بھی ماعون ہیں جن کا ذکر حضرت عبداللہ بن مسعود اور ان کے ہم خیال حضرات نے کیا ہے ۔ اکثر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ ماعون کا اطلاق ان تمام چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہوتا ہے جو عادۃ ہمسایے ایک دوسرے سے مانگتے رہتے ہیں ۔ ان کا مانگنا کوئی ذلت کی بات نہیں ہوتا ، کیونکہ غریب اور امیر سب ہی کو کسی نہ کسی وقت ان کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے ۔ البتہ ایسی چیزوں کو دینے سے بخل برتنا اخلاقا ایک ذلیل حرکت سمجھا جاتا ہے ، عموما ایسی چیزیں بجائے خود باقی رہتی ہیں اور ہمسایہ ان سے کام لے کر انہیں جوں کا توں واپس دے دیتا ہے ۔ اسی ماعون کی تعریف میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی کے ہاں مہمان آجائیں اور وہ ہمسائے سے چارپائی یا بستر مانگ لے ، یا کوئی اپنے ہمسائے کے تنور میں اپنی روٹی پکا لینے کی اجازت مانگے ۔ یا کوئی کچھ دنوں کے لیے باہر جارہا ہو اور حفاظت کے لیے اپنا کوئی قیمتی سامان دوسرے کے ہاں رکھوانا چاہے ۔ پس آیت کا مقصود یہ بتانا ہے کہ آخرت کا انکار آدمی کو اتنا تنگ دل بنا دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے لیے کوئی معمولی ایثار کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا ۔
5: ’’معمولی چیز‘‘ قرآنِ کریم کے لفظ ’’مَاعُوْنْ‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے، اسی لفظ کے نام پر سورت کا نام ماعون ہے۔ اصل میں ’’ماعون‘‘ اُن برتنے کی معمولی چیزوں کو کہتے ہیں جو عام طور سے پڑوسی ایک دوسرے سے مانگ لیا کرتے ہیں، جیسے برتن وغیرہ۔ پھر ہر قسم کی معمولی چیز کو بھی ماعون کہہ دیتے ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور کئی صحابہؓ سے منقول ہے کہ اُنہوں نے اِس کی تفسیر زکوٰۃسے کی ہے، کیونکہ وہ بھی اِنسان کی دولت کا معمولی (چالیسواں) حصہ ہوتا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے اس کی تفسیر یہی فرمائی ہے کہ کوئی پڑوسی دوسرے سے کوئی برتنے کی چیز مانگے تو اِنسان اُسے منع کرے۔