Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عبرت کدے کچھ آباد ہیں کچھ ویران نبیوں اور ان کی امتوں کے واقعات بیان فرما کر ارشاد باری ہوتا ہے کہ یہ ان بستیوں والوں کے واقعات ہیں ۔ جنہیں ہم تیرے سامنے بیان فرما رہے ہیں ۔ ان میں سے بعض بستیاں تو اب تک آباد ہیں اور بعض مٹ چکی ہیں ۔ ہم نے انہیں ظلم سے ہلاک نہیں کیا ۔ بلکہ خود انہوں نے ہی اپنے کفر و تکذیب کی وجہ سے اپنے اوپر اپنے ہاتھوں ہلاکت مسلط کر لی ۔ اور جن معبودان باطل کے انہیں سہارے تھے وہ بروقت انہیں کچھ کام نہ آسکے ۔ بلکہ ان کی پوجا پاٹ نے انہیں اور غارت کر دیا ۔ دونوں جہاں کا وبال ان پر آپڑا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

100۔ 1 قائم سے مراد وہ بستیاں، جو اپنی چھتوں پر قائم ہیں اور حَصِیْد بمعنی محصود سے مراد وہ بستیاں جو کٹے ہوئے کھیتوں کی طرح نابود ہوگئیں۔ یعنی جن گزشتہ بستیوں کے واقعات ہم بیان کر رہے ہیں، ان میں سے بعض تو اب بھی موجود ہیں، جن کے آثار و کھنڈرات نشان عبرت ہیں اور بعض بالکل ہی صفہ ہستی سے معدوم ہوگئیں اور ان کا وجود صرف تاریخ کے صفحات پر باقی رہ گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰي ۔۔ : ” مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، یعنی گزشتہ بستیوں کی یہ چند خبریں ہیں جو ہم آپ کو بیان کر رہے ہیں۔ اس سورت میں انبیاء کے حالات زمانے کی ترتیب کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، یعنی نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط، شعیب اور موسیٰ (علیہ السلام) ۔ ” قَائِمٌ“ کھڑی (کھیتی) ، ” حَصِیٌد “ وہ کھیتی جو کاٹی جا چکی ہو، یعنی ان بستیوں میں سے بعض کے نشانات اب بھی قائم ہیں، مثلاً صالح (علیہ السلام) کی قوم کے پہاڑوں میں تراشے ہوئے مکانات اور بعض کے نام و نشان تک مٹ چکے ہیں، جیسے کٹی ہوئی کھیتی کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰي نَقُصُّہٗ عَلَيْكَ مِنْہَا قَاۗىِٕمٌ وَّحَصِيْدٌ۝ ١٠٠- نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے - قرية- الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية .- ( ق ر ی ) القریۃ - وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں - قصص - الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] - ( ق ص ص ) القص - کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔- قائِمٌ- وفي قوله : أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] . وبناء قَيُّومٍ :- ( ق و م ) قيام - أَفَمَنْ هُوَ قائِمٌ عَلى كُلِّ نَفْسٍ بِما كَسَبَتْ [ الرعد 33] تو کیا جو خدا ہر نفس کے اعمال کا نگہبان ہے ۔ یہاں بھی قائم بمعنی حافظ ہے ۔- حصد - أصل الحَصْد قطع الزرع، وزمن الحَصَاد والحِصَاد، کقولک : زمن الجداد والجداد، وقال تعالی: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام 141] ،- ( ح ص د ) الحصد والحصاد - کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں اور زمن الحصاد والحصاد یہ زمن من الجداد والجداد کی طرح ( بکسرہ حا وفتحہا ) دونوں طرح آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ آتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام 141] اور جس دن ( پھل توڑ و اور کھیتی ) کا نو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو ۔ میں وہ کھیتی مراد ہے جو اس کی صحیح وقت میں کاٹی گئی ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠٠) یہ اوپر جو کچھ واقعات بیان کیے گئے یہ ان گزری ہوئی بستیوں کے چند واقعات تھے جن کی اطلاع بذریعہ جبریل امین ہم آپ کو کرتے ہیں بعض بستیاں تو ان میں اب بھی قائم ہیں کہ ان کے رہنے والے نیست ونابود ہوچکے اور بعض کا مع ان کے رہنے والوں کے بالکل خاتمہ ہوچکا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠٠ (ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْقُرٰي نَقُصُّهٗ عَلَيْكَ مِنْهَا قَاۗىِٕمٌ وَّحَصِيْدٌ)- حَصِیْدٌ کا لفظ اس کھیت کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی فصل کاٹ لی گئی ہو۔ فصل کے کٹنے کے بعد کھیت میں جو ویرانی کا منظر ہوتا ہے اس کے ساتھ عذاب استیصال سے تباہ شدہ بستیوں کو تشبیہہ دی گئی ہے۔ پھر ان بستیوں میں کچھ تو ایسی ہیں جن کا نام و نشان تک مٹ چکا ہے مگر بعض ایسی بھی ہیں جن کے آثار کو باقی رکھا گیا ہے۔ مثلاً قوم عاد کی آبادیوں کا کوئی نشان تک نہیں ملتا جس سے معلوم ہو سکے کہ یہ قوم کہاں آبادتھی (اگرچہ حال ہی میں سیٹلائٹ کے ذریعے ان کے شہر اور شداد کی جنت کے کچھ آثار زیر زمین ملنے کا دعویٰ سامنے آیا ہے) ۔ دوسری طرف قوم ثمود کے مکانات کے کھنڈرات آج تک موجود ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

59: مثلا فرعون کا ملک مصر فرعون کے غرق ہونے کے بعد بھی باقی رہا، اور عاد و ثمود اور قوم لوط علیہ السلام کی بستیاں ایسی تباہ ہوئیں کہ بعد میں آباد نہ ہو سکیں