20۔ 1 یعنی ان کا حق سے اعراض اور بغض اس انتہا تک پہنچا ہوا تھا کہ یہ اسے سننے اور دیکھنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے تھے یا یہ مطلب ہے کہ اللہ نے ان کو کان اور آنکھیں تو دی تھیں لیکن انہوں نے ان سے کوئی بات نہ سنی اور نہ دیکھی۔ گویا ( فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ ) 46 ۔ الاحقاف :26) نہ ان کے کانوں نے انھیں کوئی فائدہ پہنچایا، نہ ان کی آنکھوں اور دلوں نے کیونکہ وہ حق سننے سے بہرے اور حق دیکھنے سے اندھے بنے رہے، جس طرح کہ وہ جہنم میں داخل ہوتے ہوئے کہیں گے ( لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْٓ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ 10 ) 67 ۔ الملک :10) اگر ہم سنتے اور عقل سے کام لیتے تو آج جہنم میں نہ جاتے۔
[٤ ٢] اللہ کے ذمہ جھوٹ لگانے پر سخت ترین عذاب کیوں ہوگا :۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو دنیا میں ہی ان کو سزا دے کر تباہ و برباد کرسکتا تھا اور یہ لوگ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے تھے اور آج قیامت کے دن بھی ان کا کوئی حامی و ناصر نہیں ہوگا اور انھیں دگنا عذاب اس لیے دیا جائے گا کہ ایک تو خود گمراہ ہوئے دوسرے یہی گمراہی کی میراث اپنی اولاد کے لیے اور دوسرے پیروکاروں کے لیے چھوڑ گئے۔ جن کے عذاب سے حصہ رسدی ان کے کھاتے میں بھی جمع ہوتا رہا۔- [٥ ٢] دگنے عذاب کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک تو خود وہ سیدھی راہ دیکھنے کی کوشش ہی نہ کرتے تھے اور دوسرے اس لیے کہ اگر انھیں کوئی سیدھی راہ بتلانے کی کوشش کرتا تو اس کی بات سننا بھی انھیں گوارا نہ تھی بلکہ اس کے درپے آزار ہوجاتے تھے۔
اُولٰۗىِٕكَ لَمْ يَكُوْنُوْا مُعْجِزِيْنَ ۔۔ : یعنی یہ لوگ کبھی بھی اللہ کو عاجز کرکے اس کی گرفت سے بھاگ نہیں سکتے۔ وہ جب پکڑنا چاہے گا، اس زمین پر بھی پکڑ لے گا اور آخرت کا تو کہنا ہی کیا ہے۔ پھر اللہ کے سوا کبھی کوئی ان کا مددگار نہیں ہوگا جو انھیں اللہ کے عذاب اور پکڑ سے چھڑا سکے۔ - يُضٰعَفُ لَهُمُ الْعَذَابُ : ایک اپنے گمراہ ہونے کا عذاب، دوسرا لوگوں کو اللہ کی راہ سے روک کر گمراہ کرنے کا عذاب۔ دیکھیے سورة اعراف (٣٧، ٣٨) اور عنکبوت (١٢، ١٣) ۔- مَا كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ : یعنی کان اور آنکھیں رکھنے کے باوجود حق سنتے یا دیکھتے نہیں تھے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٧٩) اور ایک معنی یہ ہے کہ انھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اتنا بغض تھا کہ وہ آپ کی بات سن سکتے تھے نہ وہ آپ کو دیکھنا گوارا کرتے تھے۔
اُولٰۗىِٕكَ لَمْ يَكُوْنُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَمَا كَانَ لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ مِنْ اَوْلِيَاۗءَ ٠ ۘ يُضٰعَفُ لَہُمُ الْعَذَابُ ٠ۭ مَا كَانُوْا يَسْتَطِيْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا كَانُوْا يُبْصِرُوْنَ ٢٠- عجز - عَجُزُ الإنسانِ : مُؤَخَّرُهُ ، وبه شُبِّهَ مُؤَخَّرُ غيرِهِ. قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] ، والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال تعالی: أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة 31] ، وأَعْجَزْتُ فلاناً وعَجَّزْتُهُ وعَاجَزْتُهُ : جعلته عَاجِزاً. قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] ، وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری 31] ، وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج 51] ، وقرئ : معجزین فَمُعَاجِزِينَ قيل : معناه ظانّين ومقدّرين أنهم يُعْجِزُونَنَا، لأنهم حسبوا أن لا بعث ولا نشور فيكون ثواب و عقاب، وهذا في المعنی کقوله : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت 4] ، و «مُعَجِّزِينَ» : يَنسُبُون إلى العَجْزِ مَن تَبِعَ النبيَّ صلّى اللہ عليه وسلم، وذلک نحو : جهّلته وفسّقته، أي : نسبته إلى ذلك . وقیل معناه :- مثبّطين، أي : يثبّطون الناس عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کقوله : الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 45] ، وَالعَجُوزُ سمّيت لِعَجْزِهَا في كثير من الأمور . قال تعالی: إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] ، وقال : أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] .- ( ع ج ز ) عجز الانسان - عجز الانسان ۔ انسان کا پچھلا حصہ تشبیہ کے طور ہر چیز کے پچھلے حصہ کو عجز کہہ دیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] جیسے کھجوروں کے کھو کھلے تنے ۔ عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ [ المائدة 31] اے ہے مجھ سے اتنا بھی نہ ہوسکا کہ میں ۔۔۔۔ ۔ اعجزت فلانا وعجزتہ وعاجزتہ کے معنی کسی کو عاجز کردینے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ [ الشوری 31] اور تم زمین میں خدا کو عاجز نہیں کرسکتے ۔ وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آياتِنا مُعاجِزِينَ [ الحج 51] اور جہنوں نے ہماری آیتوں میں کوشش کی کہ ہمیں ہرادیں گے ۔ ایک قرات میں معجزین ہے معاجزین کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے وہ یہ زعم کرتے ہیں کہ ہمیں بےبس کردیں گے کیونکہ وہ یہ گمان کرچکے ہیں کہ حشر ونشر نہیں ہے کہ اعمال پر جذا وسزا مر تب ہو لہذا یہ باعتبار معنی آیت کریمہ : أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ أَنْ يَسْبِقُونا [ العنکبوت 4] کیا وہ لوگ جو برے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارے قابو سے نکل جائیں گے ۔ کے مترادف ہوگا اور اگر معجزین پڑھا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ وہ آنحضرت کے متبعین کیطرف عجز کی نسبت کرتے ہیں جیسے جھلتہ وفسقتہ کے معنی کسی کی طرف جہالت یا فسق کی نسبت کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک معجزین بمعنی مثبطین ہے یعنی لوگوں کو آنحضرت کی اتباع سے روکتے ہیں جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ الأعراف 45] جو خدا کی راہ سے روکتے ( ہیں ) اور بڑھیا کو عجوز اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اکثر امور سے عاجز ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِلَّا عَجُوزاً فِي الْغابِرِينَ [ الصافات 135] مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ گئی ۔ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ [هود 72] اے ہے میرے بچہ ہوگا اور میں تو بڑھیا ہوں ۔- دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ضعف ( دوگنا)- ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] - ( ض ع ف ) الضعف - الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے - الاستطاعۃ - . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] - ( ط و ع ) الطوع - الاستطاعۃ ( استفعال )- یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔
(٢٠) یہ لوگ کسی مقام پر اللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے اور عذاب الہی سے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی انہیں بچا نہیں سکتا ایسے سرداروں کو دوہری سزا ہوگی۔- یہ لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بغض کی وجہ سے آپ کے کلام کو سن نہ سکتے تھے یا یہ کہ آپ کے کلام کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے اور نہ دشمنی کی غرض سے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھتے تھے یا یہ کہ بغض کی وجہ سے آپ کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔- یہ امراء وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو برباد کربیٹھے نہ ان کو جنت میں اہل و عیال ملیں گے اور نہ محلات اور نہ شان شوکت بلکہ ان کے علاوہ دوسرے مومنین ان نعمتوں کے وارث ہوں گے۔
آیت ٢٠ (اُولٰۗىِٕكَ لَمْ يَكُوْنُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ )- یہ لوگ اللہ کے قابو سے باہر نہیں ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کو ہرگز شکست نہیں دے سکتے۔- (مَا کَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوْا یُبْصِرُوْنَ )- وہ بالکل اندھے اور بہرے ہوگئے تھے۔ سورة البقرۃ میں ایسے لوگوں کی کیفیت اس طرح بیان کی گئی ہے : (صُمٌّم بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لاَ یَرْجِعُوْنَ ) ۔ حق کے لیے ان لوگوں کے اسی رویہ کی وجہ سے ان کا عذاب بڑھایا جاتا رہے گا۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :24 یہ پھر عالم آخرت کا بیان ہے ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :25 ایک عذاب خود گمراہ ہو نے کا ۔ دوسرا عذاب دوسروں کو گمراہ کرنے اور بعد کی نسلوں کے لیے گمراہی کی میراث چھوڑ جانے کا ۔ ( ملاحظہ ہو سورہ اعراف ، حاشیہ نمبر ۳۰ )
15: ایک عذاب خود ان کے کفر کا، اور دوسرا اس بات کا کہ وہ دوسروں کو حق کے راستے سے روکتے تھے۔