عقل و ہوش اور ایمان والے لوگ بروں کے ذکر کے بعد اچھے لوگوں کا بیان ہو رہا ہے جن کے دل ایمان والے ، جن کے جسمانی اعضا فرماں برداری کرنے والے تھے ، قول و فعل سے فرمان رب بجا لانے والے اور رب کی نافرمانی سے بچنے والے تھے یہ لوگ جنت کے وارث ہوں گے ۔ بلند و بالا بالا خانے ، بچھے بچھائے تخت ، چکھے ہوئے خوشوں اور میوؤں کے درخت ابھرے ابھرے فرش ، خوبصورت بیویاں ، قسم قسم کے خوش ذائقہ پھل ، چاہت کے لذیذ کھانے پینے اور سب سے بڑھ کر دیدار الٰہی یہ نعمتیں ہوں گی جو ان کے لیے ہمیشگی کے لیے ہوں گی ۔ نہ انہیں موت آئے گی نہ بڑھاپا ، نہ بیماری ، نہ غفلت ، نہ رفع حاجت ہوگی ، نہ تھوک ، نہ ناک مشک ، نہ بو والا پسینہ آیا اور غذا ہضم ۔ پہلے بیان کردہ کافر شقی لوگ اور یہ مومن متقی لوگ بالکل وہی نسبت رکھتے ہیں جو اندھے بہرے اور بینا ۔ اور سنتے میں ہے کافر دنیا میں حق کو دیکھنے میں اندھے تھے اور آخرت کے دن بھی بھلائی کی راہ نہیں پائیں گے نہ اسے دیکھیں گے ۔ وہ حقانیت کی دلیلوں کی سننے سے بہرے تھے ، نفع دینے والی بات سنتے ہی نہ تھے ، اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انہیں ضرور سناتا ۔ اس کے برخلاف مومن سمجھ دار ، ذکی ، عاقل ، عالم ، دیکھتا ، بھالتا ، سوچتا ، سمجھتا حق و باطل میں تمیز کرتا ۔ بھلائی لے لیتا ، برائی چھوڑ دیتا ، دلیل اور شبہ میں فرق کر لیتا اور باطل سے بچتا ، حق کو مانتا ۔ بتلائیے یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں؟ تعجب ہے کہ پھر بھی تم ایسے دو مختلف شخصوں میں فرق نہیں سمجھتے ۔ ارشاد ہے ( لَا يَسْتَوِيْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ 20 ) 59- الحشر:20 ) دوزخی اور جنتی ایک نہیں ہوتے جنتی تو بلکل کامیاب ہیں اور آیت میں ہے اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں ، اندھیرا اور اُجالا برابر نہیں ، سایہ اور دھوپ برابر نہیں ، زندہ اور مردہ برابر نہیں ۔ اللہ تو جسے چاہے سنا سکتا ہے تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا ۔ تو تو صرف آ گاہ کر دینے والا ہے ۔ ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ، ہر ہر امت میں ڈرانے والا ہو چکا ہے ۔
[٨ ٢] یہ درمیان میں ایمان والوں اور ان کی جزا کے متعلق جو آیت آئی ہے تو یہ اللہ کی اس سنت کے مطابق ہے کہ جہاں کفار اور ان کے انجام کا ذکر آتا ہے تو ساتھ ہی اہل ایمان اور ان کی جزا کا بھی ذکر آتا ہے اور اس کے برعکس بھی۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَخْبَتُوْٓا ۔۔ : ” وَاَخْبَتُوْٓا “ ” اِخْبَاتٌ“ کا معنی ہے جھکنا، عاجزی کرنا، مطمئن ہونا۔ جمل (رح) نے فرمایا : ” اَخْبَتَ لَہُ “ کا معنی ہے ” خَشَعَ وَ خَضَعَ لَہُ “ وہ اس کے سامنے عاجز ہوگیا اور ” اَخْبَتَ اِلَیْہِ “ کا معنی ہے ” اِطْمَءَنَّ اِلَیْہِ “ کہ وہ اس کی طرف سے مطمئن ہوگیا۔ سب سے بڑے ظالموں، یعنی اللہ پر جھوٹ باندھنے والے کفار و مشرکین کے بعد اب اہل ایمان کا تذکرہ فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اعمال صالحہ کیے اور اپنے رب کے سامنے عاجز اور اس کی تقدیر اور فیصلے پر مطمئن ہوگئے وہ جنت کے مالک ہوں گے۔ ” اخبات “ والوں کی کچھ صفات سورة حج (٣٤، ٣٥، ٥٤) میں آئی ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَخْبَتُوْٓا اِلٰي رَبِّہِمْ ٠ۙ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَــنَّۃِ ٠ۚ ہُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ ٢٣- خبت - الخَبْتُ : المطمئن من الأرض، وأَخْبَتَ الرّجل : قصد الخبت، أو نزله، نحو : أسهل وأنجد، ثمّ استعمل الإخبات استعمال اللّين والتّواضع، قال اللہ تعالی: وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ [هود 23] - ( خ ب ت ) الخبت - ۔ نشیبی اور نرم زمین کو کہتے ہیں اور اخبت الرجل کے معنی نشیبی اور نرم زمین کا قصد کرنے یا وہاں اترنے کے ہیں ( جیسے اسھل وانجد ) اس کے بعد لفظ الاخبات ( افعال ) نرمی اور تواضع کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَأَخْبَتُوا إِلى رَبِّهِمْ [هود 23] اپنے پروردگار کے آگے عاجزی کی ۔ - جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔
(٢٣) یقیناً جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور کامل طریقہ پر اطاعت خداوندی کی اور اپنے رب کی طرف جھکے اور ادل سے فرمانبرداری خشوع کو ظاہر کیا ایسے حضرات اہل جنت ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :27 یہاں عالم آخرت کا بیان ختم ہوا ۔