دعوت حق سب کے لیے یکساں ہے آپ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ نصیحت تمہیں کر رہا ہوں جنتی خیر خواہی تمہاری کرتا ہوں اسکی کوئی اجرت تو تم سے نہیں مانگتا ، میری اجرت تو اللہ کے ذمے ہے ۔ تم جو مجھ سے کہتے ہو کہ ان غریب مسکین ایمان والوں کو میں دھکے دیدوں مجھ سے تو یہ کبھی نہیں ہو نے کا ۔ یہی طلب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کی گئی تھی جس کے جواب میں یہ آیت اتری ( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ 52 ) 6- الانعام:52 ) یعنی صبح شام اپنے رب کے پکارنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ نکال ۔ اور آیت میں ہے ( وَكَذٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِّيَقُوْلُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنْۢ بَيْنِنَا ۭ اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰكِرِيْنَ 53 ) 6- الانعام:53 ) اسی طرح ہم نے ایک کو دورے سے آزما لیا اور وہ کہنے لگے کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر ہم سب کو چھوڑ کر اللہ کا فضل نازل ہوا ؟ کیا اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نہیں جانتا ؟
29۔ 1 تاکہ تمہارے دماغوں میں یہ شبہ نہ آجائے کہ اس دعوائے نبوت سے اس کا مقصد تو دولت دنیا اکٹھا کرنا ہے۔ میں تو یہ کام صرف اللہ کے حکم پر اسی کی رضا کے لئے کر رہا ہوں، وہی مجھے اجر دے گا۔ 29۔ 2 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح (علیہ السلام) کے سرداروں نے بھی معاشرے میں کمزور سمجھے جانے والے اہل ایمان کو حضرت نوح (علیہ السلام) سے اپنی مجلس یا اپنے قرب سے دور رکھنے کا مطالبہ کیا ہوگا، جس طرح روسائے مکہ نے رسول اللہ سے اس قسم کا مطالبہ کیا تھا، جس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آیت نازل فرمائیں تھیں اے پیغمبر ان لوگوں کو اپنے سے دور مت کرنا جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ( سورة ، الا نعام 52) (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ ۭ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِّنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ 52) 6 ۔ الانعام :52) اپنے نفسوں کو ان لوگوں کے ساتھ جوڑے رکھئے جو اپنے رب کو صبح شام پکارتے ہیں، اپنے رب کی رضا چاہتے ہیں، آپ کی آنکھیں ان سے گزر کر کسی اور کی طرف تجاوز نہ کریں (سورۃ الکہف۔ 28) (وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَلَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ۚ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا) 18 ۔ الکہف :28) 29۔ 3 یعنی اللہ اور رسول کے پیروکار کو حقیر سمجھنا اور پھر انھیں قرب نبوت سے دور کرنے کا مطالبہ کرنا، یہ تمہاری جہالت ہے۔ یہ لوگ تو اس لائق ہیں کہ انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا جائے نہ کہ دور دھتکارا جائے۔
[٣٧] نبوت اور رسالت پر اجر ؟ میں نہ تمہارا تنخواہ دار ہوں نہ تم سے کسی معاوضہ کا مطالبہ کرتا ہوں پھر تم مجھ سے یہ مطالبہ کیسے کرسکتے ہوں کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انھیں میں اپنے ہاں سے رخصت کردوں تم یہ کیسی جہالت کی باتیں کرتے ہو۔ میں انھیں اس لحاظ سے تم سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہوں کہ انہوں نے حق کو حق سمجھ کر قبول کرلیا ہے یہ لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں تمہاری طرح سرکش اور ہٹ دھرم نہیں اللہ کے ہاں تو معزز وہ ہے جو ایمان دار اور پرہیزگار ہو ذات کا اونچا یا نیچا ہونا چنداں فائدہ نہیں دیتا اور اگر بالفرض میں تمہارے کہنے پر انھیں اپنے ہاں سے نکال دوں تو میں تو خود اللہ کے ہاں مجرم ٹھہرتا ہوں پھر اللہ کے مقابلہ میں کوئی ہے جو اس وقت میری مدد کرسکے ؟
وَيٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا۔۔ : اور اے میری قوم میں اللہ کا یہ پیغام تمہیں پہنچانے پر تم سے کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا، مبادا تم سمجھو کہ نوح نے مال کھینچنے کے لیے نبوت کا بہانہ کھڑا کرلیا۔ میری اجرت تو اللہ کے سوا کسی کے ذمے بھی نہیں اور نہ دنیا کی کسی چیز کا تم سے مطالبہ ہے۔- وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : یعنی جس طرح اللہ کی رحمت (اسلام) کے دامن میں آنے سے جب تک تم نفرت اور کراہت کرتے رہو گے، میں تمہیں زبردستی اسلام لانے پر مجبور نہیں کرسکتا، اسی طرح جیسے تم چاہتے ہو کہ جن لوگوں نے میری پیروی اختیار کی ہے، چونکہ وہ نچلے طبقے کے لوگ ہیں، اس لیے میں انھیں دھکے دے کر نکال دوں، یہ کام میں ہرگز نہیں کرسکتا۔ یہ اسی قسم کا مطالبہ تھا جو قریش کے سردار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔ دیکھیے سورة انعام (٥٢) ، کہف (٢٨) اور سورة عبس۔- اِنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ : یعنی اگر میں ان کو ستاؤں یا اپنی مجلس سے نکال دوں تو وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا انصاف چاہیں گے، اس کا میں کیا جواب دوں گا۔ یا یہ کہ وہ لوگ تو اللہ کے ہاں عزت پالیں گے اور اس بارگاہ عالی میں ان کو ایمان و عمل کے باعث مقام و مرتبہ ملے گا، پھر تمہارے ان کو ذلیل سمجھنے سے کیا ہوتا ہے ؟ یہ ان کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے کہ اے نوح آپ کے متبع ہمارے رذالے ہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” کافروں نے مسلمانوں کو رذالہ ٹھہرایا اور چاہا کہ ان کو ہانک دو تو ہم تمہارے پاس بیٹھیں اور بات سنیں۔ سو فرمایا کہ دل کی بات اللہ تعالیٰ تحقیق کرے گا جب اسے ملیں گے، میں اگر مسلمانوں کو ہانکوں تو اللہ سے کون چھڑوائے مجھ کو۔ اور رذالہ ٹھہرایا اس پر کہ وہ کسب کرتے تھے۔ کسب سے بہتر کمائی نہیں، اس واسطے فرمایا کہ تم جاہل ہو۔ “ (موضح)- وَلٰكِنِّيْٓ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْـهَلُوْنَ : یعنی تم کسی بات کو بھی صحیح طرح نہیں سمجھتے، تمہاری نظر صرف ظاہر چیزوں پر ہے اور انجام پر غور نہیں کرتے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ فلاں شخص نیچ قوم کا ہے، اس لیے اسے اپنے پاس نہ بیٹھنے دو ؟ اللہ کے نزدیک اسی کو عزت ہے جو ایمان دار اور پرہیزگار ہے۔ بےایمان اور بدکار کتنے ہی اونچے خاندان کا ہو اللہ کے نزدیک چوہڑے اور چمار سے بھی بدتر ہے۔
دوسرے یہ بتلایا گیا کہ تم جو ایمان قبول کرنے کے لئے یہ شرط پیش کرتے ہو کہ میں غریب لوگوں کو اپنے پاس سے نکال دوں تو سمجھ لو کہ یہ میں نہیں کرسکتا کیونکہ یہ لوگ اگرچہ غریب ہیں مگر بارگاہ رب العزت میں ان کی رسائی اور اعزاز ہے ایسے لوگوں کو نکالنا کوئی عقل کا کام نہیں،- اور مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ اگر بالفرض میں ان کو نکال دوں تو قیامت کے روز یہ لوگ جب اپنے رب کے سامنے جائیں گے اور فریاد کریں گے تو میرے پاس کیا جواب ہوگا، چوتھی آیت کا یہی مضمون ہے کہ اگر میں ان کو نکال دوں تو مجھے خدا کے عذاب سے کون بچائے گا۔ آخر میں فرمایا کہ یہ سب تمہاری جہالت ہے کہ تم آدمیت کو نبوت کے منافی سمجھتے ہو یا غریب لوگوں کو نکال دینے کی فرمائش کرتے ہو۔
وَيٰقَوْمِ لَآ اَسْـــَٔـلُكُمْ عَلَيْہِ مَالًا ٠ ۭ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَي اللہِ وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ٠ۭ اِنَّہُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَلٰكِنِّيْٓ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْـہَلُوْنَ ٢٩- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- طرد - الطَّرْدُ : هو الإزعاج والإبعاد علی سبیل الاستخفاف، يقال : طَرَدْتُهُ ، قال تعالی: وَيا قَوْمِ مَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ [هود 30] - ( ط ر د) الطرد - ( ن ) کسی کو حقیر اور ذلیل سمجھ کر دور کردینا ہٹا دینا کہاجاتا ہے طردتہ میں نے اسے بھگا دیا قرآن میں ہے : وَيا قَوْمِ مَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ طَرَدْتُهُمْ [هود 30] برادران قوم اگر میں ان کو نکال دوں تو عذاب خدا سے کون میری مدد کرسکتا ہے ۔ - لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔
(٢٩) اور اے قوم میں تم سے اس تبلیغ توحید پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا میرا معاوضہ تو صرف اللہ کے ذمہ ہے اور تمہارے کہنے سے میں تو ان ایمان والوں کو نہیں نکالتا یہ لوگ تو اپنے رب کے پاس جانے والے ہیں، اس چیز پر وہاں جا کر یہ مجھ سے مخاصمہ کریں گے لیکن تم ہی لوگ خواہ مخواہ جہالت کررہے ہو۔
آیت ٢٩ (وَیٰقَوْمِ لَآ اَسْءَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالاً ط اِنْ اَجْرِیَ الاَّ عَلَی اللّٰہِ وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا)- جن لوگوں کے بارے میں تم کہتے ہو کہ وہ ادنیٰ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ‘ وہ سب اہل ایمان ہیں ‘ اور اس لحاظ سے میرے نزدیک وہ بہت اہم اور معزز لوگ ہیں۔ اب میں تمہارے کہنے پر ان کو خود سے دور نہیں ہٹا سکتا۔
سورة هُوْد حاشیہ نمبر :35 یعنی میں ایک بے غرض ناصح ہوں ۔ اپنے کسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ تمہارے ہی بھلے کے لیے یہ ساری مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کر رہا ہوں ۔ تم کسی ایسے ذاتی مفاد کی نشان دہی نہیں کر سکتے جو اس امر حق کی دعوت دینے میں اور اس کے لیے جان توڑ محنتیں کرنے اور مصیبتیں جھیلنے میں میرے پیش نظر ہو ۔ ( ملاحظہ ہو المومنون ، حاشیہ ۷۰ ۔ یٰس حاشیہ ۱۷ ۔ الشوریٰ ، حاشیہ ٤۱ ) سورة هُوْد حاشیہ نمبر :36 یعنی ان کی قدر و قیمت جو کچھ بھی ہے وہ ان کے رب کو معلوم ہے اور اسی کے حضور جا کر وہ کھلے گی ۔ اگر یہ قیمتی جواہر ہیں تو میرے اور تمہارے پھینک دینے سے پتھر نہ ہو جائیں گے ، اور اگر یہ بے قیمت پتھر ہیں تو ان کے مالک کو اختیار ہے کہ انہیں جہاں چاہے پھینکے ۔ ( ملاحظہ ہو الانعام ، آیت ۵۲ ۔ الکہف ، آیت ۲۸ )