Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 اغواء بمعنی اضلال (گمراہ کرنا ہے) ۔ یعنی تمہارا کفر وجحود اگر اس مقام پر پہنچ چکا ہے، جہاں سے کسی انسان کو پلٹ کر آنا اور ہدایت کو اپنا لینا ناممکن ہے، تو اسی کیفیت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر لگا دینا کہا جاتا ہے، جس کے بعد ہدایت کی کوئی امید باقی نہیں رہ جاتی۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم بھی اسی خطرناک موڑ تک پہنچ چکے ہو تو پھر میں تمہاری خیر خواہی بھی کرنی چاہوں یعنی ہدایت پر لانے کی اور زیادہ کوشش کروں، تو یہ کوشش اور خیر خواہی تمہارے لئے مفید نہیں، کیونکہ تم گمراہی کے آخری مقام پر پہنچ چکے ہو۔ 34۔ 2 ہدایت اور گمراہی بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹ کر جانا ہے، جہاں وہ تمہیں تمہارے عملوں کی جزا دے گا۔ نیکوں کو انکے نیک عمل کی جزا اور بروں کو ان کی برائی کی سزا دے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤١] البتہ تمہارے عذاب پر اصرار اور ہٹ دھرمی سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ تم پر وہ عذاب آکر رہے گا اور میں تمہاری کتنی ہی خیر خواہی کرنا چاہوں اس کا کچھ فائدہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ پھر یہ معاملہ یہیں تک محدود نہ رہے گا کہ اللہ کا عذاب تمہیں ہلاک کردے بلکہ آخرت میں بھی اللہ تم سب کو حاضر کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللہُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ۝ ٠ۭ ہُوَرَبُّكُمْ۝ ٠ۣ وَاِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ٣٤ۭ- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- نصح - النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ [هود 34] وهو من قولهم : نَصَحْتُ له الوُدَّ. أي : أَخْلَصْتُهُ ، ونَاصِحُ العَسَلِ : خَالِصُهُ ، أو من قولهم : نَصَحْتُ الجِلْدَ : خِطْتُه، والنَّاصِحُ : الخَيَّاطُ ، والنِّصَاحُ : الخَيْطُ ، وقوله : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] فمِنْ أَحَدِ هذين، إِمَّا الإخلاصُ ، وإِمَّا الإِحكامُ ، ويقال : نَصُوحٌ ونَصَاحٌ نحو ذَهُوب وذَهَاب،- ( ن ص ح ) النصح - کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔ یہ یا تو نصحت لہ الود کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی سے خالص محبت کرنے کے ہیں اور ناصح العسل خالص شہد کو کہتے ہیں اور یا یہ نصحت الجلد سے ماخوذ ہے جس کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں ۔ اور ناصح کے معنی درزی اور نصاح کے معنی سلائی کا دھاگہ کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو ۔ میں نصوحا کا لفظ بھی مذکورہ دونوں محاوروں میں سے ایک سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی خالص یا محکم توبہ کے ہیں اس میں نصوح ور نصاح دو لغت ہیں جیسے ذھوب وذھاب - رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - غوی - الغَيُّ : جهل من اعتقاد فاسد، وذلک أنّ الجهل قد يكون من کون الإنسان غير معتقد اعتقادا لا صالحا ولا فاسدا، وقد يكون من اعتقاد شيء فاسد، وهذا النّحو الثاني يقال له غَيٌّ. قال تعالی: ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] . وقوله : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] ، أي : عذابا، فسمّاه الغيّ لمّا کان الغيّ هو سببه، وذلک کتسمية الشیء بما هو سببه، کقولهم للنّبات ندی «1» . وقیل معناه : فسوف يلقون أثر الغيّ وثمرته . قال : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] ، وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] ، إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] ، وقوله : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه 121] ، أي : جهل، وقیل : معناه خاب نحو قول الشاعر : ومن يغو لا يعدم علی الغيّ لائما وقیل : معنی ( غَوَى) فسد عيشُه . من قولهم : غَوِيَ الفصیلُ ، وغَوَى. نحو : هوي وهوى، وقوله : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود 34] ، فقد قيل : معناه أن يعاقبکم علی غيّكم، وقیل : معناه يحكم عليكم بغيّكم . وقوله تعالی: قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63] ، إعلاما منهم أنّا قد فعلنا بهم غاية ما کان في وسع الإنسان أن يفعل بصدیقه، فإنّ حقّ الإنسان أن يريد بصدیقه ما يريد بنفسه، فيقول : قد أفدناهم ما کان لنا وجعلناهم أسوة أنفسنا، وعلی هذا قوله تعالی: فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات 32] ، فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف 16] ، وقال : رَبِّ بِما أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ [ الحجر 39] .- ( غ و ی ) الغی ۔ اس جہالت کو کہتے ہیں جو غلطاعتقاد پر مبنی ہو ۔ کیونک جہالت کبھی تو کسی عقیدہ پر مبنی ہوتی ہے اور کبھی عقیدہ کو اس میں داخل نہیں ہوتا پہلی قسم کی جہالت کا نام غی ) گمراہی ہے قرآن پاک میں ہے : ما ضَلَّ صاحِبُكُمْ وَما غَوى[ النجم 2] کہ تمہارے رفیق محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) نہ رستہ بھولے ہیں اور نہ بھٹکے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِّ [ الأعراف 102] اور ان ( کفار ) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا[ مریم 59] سو عنقریب ان کو گمراہی ( کی سزا ) ملے گی ۔ میں غی سے عذاب مراد ہے اور عذاب کو غی اس لئے کہاجاتا ہے کہ گمراہی عذاب کا سبب بنتی ہے لہذا عذاب کو غی کہنا مجازی ہے یعنی کسی شے کو اس کے سبب نام سے موسوم کردینا جیسا کہ نبات کو ندی ( طرادت ) کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے آیت کے یہ معنی کہتے ہیں کہ یہ لوگ عنقریب ہی اپنی گمراہی کا نتیجہ اور ثمرہ پالیں گے مگر مآل کے لحاظ سے دونوں معنی ایک ہی ہیں ۔ غاو بھٹک جانے والا گمراہ جمع غادون وغاوین جیسے فرمایا : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی ۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء 224] اور شاعروں کی پیروی گمرا ہلوگ کیا کرتے ہیں ۔ ( الغوی ۔ گمراہ غلط رو ۔ جیسے فرمایا :إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ [ القصص 18] کہ تو تو صریح گمراہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ فَغَوى[ طه 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا ( تو وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ میں غویٰ کے معنی یہ ہیں ک آدم نے جہالت کا ارتکاب کیا اور بعض نے اس کے معنی خاب کئ ہیں یعنی انہوں نے سراسر نقصان اٹھایا ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (334) ومن یغولا بعدم علی الغی لائما اور اگر ناکام ہوجائے تو ناکامی پر بھی ملامت کرنے والون کی کمی نہیں ہے ؛بعض نے غوی کے معنی ففدعیشہ کئے ہیں یعنی اس کی زندگی تباہ ہوگئی اور یہ غوی الفصیل وغویٰ جیسے ھویٰ وھوی ٰ ۔ سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں اونٹ کے بچے نے بہت زیادہ دودھ پی لیا جس سے اسے بدہضمی ہوگئی اور آیت کریمہ : إِنْ كانَ اللَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ [هود 34] اور اگر خدا یہ چاہے کہ تمہیں گمراہ کرے ۔ میں یغویکم سے مراد گمراہی کی سزا دینے کے ہیں اور بعض نے اس کے معنی گمراہی کا حکم لگانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : قالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنا هؤُلاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنا أَغْوَيْناهُمْ كَما غَوَيْنا تَبَرَّأْنا إِلَيْكَ [ القصص 63]( تو جن لوگوں پر ) عذاب کا حکم ثابت ہوچکا ہوگا وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار ی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہی کیا تھا اور جس طرح ہم خود گمراہ تھے اسی سطرح انہیں گمراہ کیا تھا ۔ میں بتایا گیا ہے کہ کفار قیامت کے دن اعلان کریں گے کہ ہم ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ سلوک کیا تھا جو کہ ایک انسان اپنے دوست سے کرسکتا ہے کیونکہ انسان کا سب سے بڑا فرض ی ہے کہ وہ اپنے دوست کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے تو وہ کہیں گے کہ ہم انہیں اپنی طرف سے فائدہ پہنچایا اور انہیں اپنے جیسا سمجھا تھا اور یہی معنی آیت ؛ فَأَغْوَيْناكُمْ إِنَّا كُنَّا غاوِينَ [ الصافات 32] ہم نے تم کو بھی گمراہ کیا ( اور ) ہم نے خود بھی گمراہ تھے ۔ کے ہیں ۔ فَبِما أَغْوَيْتَنِي [ الأعراف 16] جیسا کہ تم نے مجھے رستے سے الگ کیا ہے میں بھی زمین میں لوگوں کے لئے ( گناہوں کو ) آراستہ کر دکھاؤں گا اور ان ۔ کو بہکاؤں گا ۔- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے ولا ینفعکم نصحی ان اردتا انصح لکم ان کان اللہ یرید ان یغویکم ۔ اب اگر میں تمہاری کچھ خیر خواہی کرنا بھی چاہوں تو میری خیر خواہی تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جبکہ اللہ ہی نے تمہیں بھٹکا دینے کا ارادہ کرلیا ہو ۔ اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جملہ شرطیہ میں شرط اور جزاء کے درمیان آ جانے والی شرط کا یہ حکم ہے کہ وہ معنی کے لحاظ سے اپنے ما قبل پر مقدم ہوتی ہے مثلاً کوئی شخص یہ کہتا ہے ۔ ان دخلت الدار ان کلمت زیدا ً فعبدی حر ۔ اگر میں گھر میں داخل ہوجائوں ، اگر زید سے کلام کروں تو میرا غلام آزاد ہے۔ یہ شخص اس وقت حانث ہوگا جب زید سے کلام کرے گا اور پھر گھر میں داخل ہوگا اس لیے کہ اس کا قول ان کلمت زیدا ً ۔ پہلی شرط کے درمیان آ جانے والی شرط ہے اور یہ جواب شرط یعنی جزا کی تکمیل سے پہلے ہی آ گئی ہے۔ اسی طرح قول باری ان کان اللہ یرید ان یغویکم شرط ہے جو قول باری ان اردت ان انصح لکم اور اس کی جزاء کے درمیان میں آ گئی ہے جبکہ ابھی جواب شرط کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ اس طرح عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگئی ہے۔ ولا ینفع لکم فصحی ان کان اللہ یرید ان یغویکم ان اردت ان انصح لکم اس مفہوم کے بارے میں امام ابو یوسف ، امام محمد اور فراء نحوی کے درمیان بہت سے مسائل میں اختلاف رائے ہے جن کا ہم نے جامع صغیر کی شرح میں تذکرہ کیا ہے۔ قول باری یرید ان یغویکم کا مفہوم ہے اگر اللہ تمہیں اپنی رحمت سے محروم کرنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے۔ غوی یغوی غیا گمراہ ہوگیا محروم ہوگیا ۔ اسی معنی میں یہ قول باری ہے فسوف فلقون غیا ۔ سو وہ عنقریب خرابی سے دو چار ہوں گے۔ شاعر کا قول ہے۔- ؎ فمن یلق خیرا یحمد الناس امرہ ومن یغولا یعد م علی الخی لائما ً- جو شخص کس سے نیکی اور حسن سلوک دیکھے گا وہ لوگوں کے سامنے اس کی تعریفیں کرے گا اور جو شخص گمراہی اختیارکرے گا تو اسے اپنی اس گمراہی پر کوئی نہ کوئی ملامت کرنے والا مل ہی جائے گا ۔- ہمیں ثعلب کے غلام ابوعمرو نے ثعلب سے اور انہوں نے ابن الاعرابی سے یہ بیان کیا کہ کہا جاتا ہے غوی الرجل یغوی غیا ( فلاں شخص کا معاملہ خراب ہوگیا ، یا فلاں شخص نے اپنا معاملہ خود خراب کرلیا) انہوں نے مزید کہا کہ اس معنی میں یہ قول باری ہے جس کا تعلق حضرت آدم (علیہ السلام) کے واقعہ سے ہے۔ وعصی ادم ربہ فغوی اور آدم سے اپنے پروردگار کا قصور ہوگیا سو وہ غلطی میں پڑے گئے۔ یعنی آدم (علیہ السلام) کے لیے ان کی جنت والی زندگی خراب ہوگئی ۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ مفہوم بھی پہلے معنی کی طرف راجع ہے وہ اس طرح کہ خیبت یعنی ناکامی کے اندر بھی زندگی خراب اور بگڑ جاتی ہے اس لیے قول باری یغویکم کا مفہوم یہ ہے کہ تمہیں اپنی رحمت سے محروم کر کے تمہاری زندگی اور تمہارا معاملہ خراب کردے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٤) اور میری دعوت اور میرا عذاب الہی سے تمہیں ڈرانا تمہارے کام نہیں آسکتا، خواہ میں تمہیں کیسا ہی عذاب الہی سے ڈراؤں اور توحید کی دعوت دوں جب کہ اللہ ہی کو تمہارا گمراہ کرنا منظور ہو۔- وہی مجھ سے زیادہ تمہارا خیرخواہ اور تمہارا مالک ہے اور مرنے کے بعد تمہیں اسی تمہیں کی طرف لوٹ جانا ہے وہ تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دے گا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَان اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ ) - اگر تمہاری اس خواہ مخواہ کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث اللہ نے تمہاری گمراہی کے فیصلے پر مہر ثبت کردی ہو تو پھر میری نصیحت اور خیر خواہی تمہارے حق میں کچھ بھی مفید نہیں ہوسکتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :38 یعنی اگر اللہ نے تمہاری ہٹ دھرمی ، شرپسندی اور خیر سے بے رغبتی دیکھ کر یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہیں راست روی کی توفیق نہ دے اور جن راہوں میں تم خود بھٹکنا چاہتے ہو انہی میں تم کو بھٹکا دے تو اب تمہاری بھلائی کے لیے میری کوئی کوشش کارگر نہیں ہو سکتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani