Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تخلیق کائنات کا تذکرہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اسے ہر چیز پر قدرت ہے ۔ آسمان و زمین کو اس نے صرف چھ دن میں پیدا کیا ہے ۔ اس سے پہلے اس کا عرش کریم پانی کے اوپر تھا ۔ مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بنو تمیم تم خوشخبری قبول کرو ۔ انہوں نے کہا خوشخبریاں تو آپ نے سنا دیں اب کچھ دلوائیے ۔ آپ نے فرمایا اے اہل یمن تم قبول کرو ۔ انہوں نے کہا ہاں ہمیں قبول ہے ۔ مخلوق کی ابتدا تو ہمیں سنائے کہ کس طرح ہوئی؟ آپ نے فرمایا سب سے پہلے اللہ تھا ۔ اس کا عرش پانی کے اوپر تھا ۔ اس نے لوح محفوظ میں ہر چیز کا تذکرہ لکھا ۔ راوی حدیث حضرت عمران کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا ہی فرمایا تھا جو کسی نے آن کر مجھے خبر دی کہ تیری اونٹنی زانو کھلوا کر بھاگ گئی ، میں اسے ڈھونڈنے چلا گیا ۔ پھر مجھے نہیں معلوم کہ کیا بات ہوئی؟ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ ایک روایت میں ہے اللہ تھا اور اس سے پہلے کچھ نہ تھا ۔ ایک روایت میں ہے اس کے ساتھ کچھ نہ تھا ۔ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ اس نے ہر چیز کا تذکرہ لکھا ۔ پھر آسمان و زمین کو پیدا کیا ۔ مسلم کی حدیث میں ہے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر لکھی اس کا عرش پانی پر تھا ۔ صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر کے موقع پر ایک قدسی حدیث لائے ہیں کہ اے انسان تو میری راہ میں خرچ کر میں تجھے دوں گا اور فرمایا اللہ کا ہاتھ اوپر ہے ۔ دن رات کا خرچ اس میں کوئی کمی نہیں لاتا ۔ خیال تو کرو کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے اب تک کتنا کچھ خرچ کیا ہوگا لیکن اس کے داہنے ہاتھ میں جو تھا وہ کم نہیں ہوتا اس کا عرش پانی پر تھا ۔ اس کے ہاتھ میں میزان ہے جھکاتا ہے اور اونچا کرتا ہے مسند میں ہے ابو رزین لقیط بن عامر بن متفق عقیلی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مخلوق پیدائش کرنے سے پہلے ہمارا پروردگار کہاں تھا ؟ آپ نے فرمایا عما میں نیچے بھی ہوا اور اوپر بھی ہوا پھر عرش کو اس کے بعد پیدا کیا ۔ یہ روایت ترمذی کتاب التفسیر میں بھی ہے ۔ سنن ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن کہتے ہیں ۔ مجاہد کا قول ہے کہ کسی چیز کو پیدا کرنے سے پہلے عرش الٰہی پانی پر تھا ۔ وہب ، ضمرہ ، قتادہ ، ابن جریر وغیرہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ قتادہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے ابتداء مخلوق کس طرح ہوئی ۔ ربیع بن انس کہتے ہیں کہ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ جب آسمان و زمین کو پیدا کیا تو اس پانی کے دوحصے کر دیئے ۔ نصف عرش کے نیچے یہی بحر مسجود ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں بوجہ بلندی کے عرش کو عرش کہا جاتا ہے ۔ سعد طائی فرماتے ہیں کہ عرش سرخ یاقوت کا ہے ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں اللہ اسی طرح تھا جس طرح اس نے اپنے نفس کریم کا وصف کیا ۔ اس لیے کہ کچھ نہ تھا ، پانی تھا ، اس پر عرش تھا ، عرش پر ذوالجلال و الاکرام ذوالعزت والسلطان ذوالملک و ققدرہ ذوالعلم والرحمتہ والنعمہ تھا جو جو چاہے کر گزرنے والا ہے ۔ ابن عباس سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا کہ پانی کس چیز پر تھا ؟ آپ نے فرمایا ہوا کی پیٹھ پر ۔ پھر فرماتا ہے ۔ آسمان و زمین کی پیدائش تمہارے نفع کے لیے ہے اور تم اس لیے ہو کہ اسی ایک خالق کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ۔ یاد رکھو تم بیکار پیدا نہیں کئے گئے ۔ آسمان و زمین اور ان کے درمیان چیزیں باطل پیدا نہیں کیں یہ گمان تو کافروں کا ہے اور کافروں کے لیے آگ کا عذاب اور آیت میں ہے ۔ ( اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ ١١٥؁ ) 23- المؤمنون:115 ) کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہ جاؤ گے؟ اللہ جو سچا مالک ہے وہی حق ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عرش کریم کا رب ہے اور آیت میں ہے انسانوں اور جنوں کو میں نے صرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے وہ تمہیں آزما رہے ہیں کہ تم میں سے اچھے عمل والے کون ہیں؟ یہ نہیں فرمایا کہ زیادہ عمل والے کون ہیں؟ اس لیے کہ عمل حسن وہ ہوتا ہے جس میں خلوص ہو اور شریعت محمدیہ کی تابعداری ہو ۔ ان دونوں باتوں میں سے اگر ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل بیکار اور غارت ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ انہیں کہیں کہ تم مرنے کے بعد زندہ کئے جاؤ گے جس اللہ نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا ہے وہ دوبارہ بھی پیدا کرے گا تو صاف کہہ دیں گے کہ ہم اسے نہیں مانتے حلانکہ قائل بھی ہیں کہ زمین آسمان کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ شروع جس پر گراں نہ گزرا ۔ اس پر دوبارہ کی پیدائش کیسے گراں گزرے گی؟ یہ تو بہ نسبت اول مرتبہ کے بہت ہی آسمان ہے ۔ فرمان الٰہی ہے ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ ۭ وَلَهُ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ 27؀ۧ ) 30- الروم:27 ) اسی نے پہلی پیدائش شروع میں کی وہی دوبارہ پیدائش کرے گا اور یہ تو اس پر نہایت ہی آسان ہے اور آیت میں ہے کہ تم سب کا بنانا اور مار کر زندہ کرنا مجھ پر ایسا ہی ہے جیسا ایک کا ۔ لیکن یہ لوگ اسے نہیں مانتے تھے اور اسے کھلے جادو سے تعبیر کرتے تھے ۔ کفر و عناد سے اس قول کو جادو کا اثر خیال کرتے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر ہم عذاب و پکڑ کو ان سے کچھ مقرر مدت تک کے لیے موخر کردیں تو یہ اس کو نہ آنے والا جان کر جلدی کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ عذاب ہم سے موخر کیوں ہوگئے؟ ان کے دل میں کفر و شرک اس طرح بیٹھ گیا ہے کہ اس سے چھٹکارا ہی نہیں ملتا ۔ امت کا لفظ قرآن و حدیث میں کئی ایک معنی میں مستعمل ہے ۔ اس سے مراد مدت بھی ہے اس آیت اور ( وَقَالَ الَّذِيْ نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ اُمَّةٍ اَنَا اُنَبِّئُكُمْ بِتَاْوِيْـلِهٖ فَاَرْسِلُوْنِ 45؀ ) 12- یوسف:45 ) جو سورۃ یوسف میں ہے یہی معنی ہیں ۔ امام و مقتدی کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے ۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں ( اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِيْفًا ۭ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ ١٢٠؀ۙ ) 16- النحل:120 ) آیا ہے ۔ ملت اور دین کے بارے میں بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے مشرکوں کا قول ( بَلْ قَالُـوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّةٍ وَّ اِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِهِمْ مُّهْتَدُوْنَ 22؀ ) 43- الزخرف:22 ) ہے جماعت کے معنی میں بھی آتا ہے ( وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ ۋ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ 23؀ ) 28- القصص:23 ) والی آیت میں اور آیت ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا 36؀ ) 16- النحل:36 ) میں ان آیتوں میں امت سے مراد کافر مومن سب امتی ہیں ۔ جیسے مسلم کی حدیث ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت کا جو یہودی نصرانی میرا نام سنے اور مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنمی ہے ۔ ہاں تابعدار امت وہ ہے جو رسولوں کو مانے جیسے ( كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭمِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ١١٠؁ ) 3-آل عمران:110 ) والی آیت میں ۔ صحیح حدیث میں ہے میں کہوں گا امتی امتی اسی طرح امت کا لفظ فرقے اور گروہ کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے جیسے ( وَمِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓي اُمَّةٌ يَّهْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَبِهٖ يَعْدِلُوْنَ ١٥٩؁ ) 7- الاعراف:159 ) اور جیسے ( مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَاۗىِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَ ١١٣؁ ) 3-آل عمران:113 ) میں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یہی بات صحیح احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل، مخلوقات کی تقدیر لکھی اس وقت اس کا عرش پانی پر تھا۔ صحیح مسلم 7۔ 2 یعنی یہ آسمان و زمین یوں ہی عبث اور بلا مقصد نہیں بنائے، بلکہ اس سے مقصود انسانوں (اور جنوں) کی آزمائش ہے کہ کون اچھے اعمال کرتا ہے۔ ملحوظہ : اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کون زیادہ عمل کرتا ہے بلکہ فرمایا کون زیادہ اچھے عمل کرتا ہے۔ اس لیے کہ اچھا عمل وہ ہوتا ہے جو صرف رضائے الہی کی خاطر ہو اور دوسرا یہ کہ وہ سنت کے مطابق ہو۔ ان دو شرطوں میں سے ایک شرط بھی فوت ہوجائے گی تو وہ اچھا عمل نہیں رہے گا، پھر وہ چاہے کتنا بھی زیادہ ہو، اللہ کے ہاں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] مادی اشیاء میں پانی سب سے پہلے پیدا کیا گیا :۔ اس آیت سے اور مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کی تخلیق زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے ہوچکی تھی یہ پانی کہاں تھا اور آیا یہ پانی وہی پانی ہے جو معروف ہے یا کوئی مائع قسم کا مادہ تھا ؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہیں اور انھیں سمجھنے کے ہم مکلف بھی نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش سے پہلے تو اللہ کا عرش پانی پر تھا اور تخلیق کے بعد یہ عرش سات آسمانوں اور کرسی کے بھی اوپر ہے۔- [١٢] تخلیق کائنات کا مقصد تخلیق آدم ہے دنیا دارالامتحان ہے :۔ اس آیت سے کئی حقائق سامنے آتے ہیں مثلاً زمین و آسمان اور کائنات کی دوسری اشیاء کی تخلیق کا مقصد تخلیق آدم ہے اور یہ زمین یہ آسمان یہ سورج یہ چاند یہ ہوائیں یہ فضائیں اس لیے پیدا کی گئیں کہ ان کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا تھا اور تخلیق آدم کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا اس دنیا میں امتحان لیا جائے اور امتحان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اچھے عمل کریں اور کامیاب ہوں اور کچھ برے عمل کریں اور ناکام ہوں، کامیاب اور اچھے لوگوں کو ان کے اچھے اعمال کا اچھا بدلہ دیا جائے اور بدکرداروں کو پوری پوری سزا دی جائے پھر بعض اچھے اعمال یا برے اعمال اپنے پورے پورے بدلہ کے لیے ایک طویل مدت کا تقاضا کرتے ہیں جو اس دنیا میں میسر آنا ناممکن ہے لہذا ضروری ہے کہ اس عالم دنیا کے بعد ایک اور عالم قائم کیا جائے جس میں ہر قسم کے انسانوں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جاسکے یہ معاد پر ایک دلیل ہوئی علاوہ ازیں اس موجودہ کائنات کا مربوط اور منظم نظام اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ یہ کسی علیم وخبیر ہستی کا پیدا کردہ ہے اور اسی کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے نہ ہی یہ ممکن ہے کہ یہ کائنات محض اتفاقات کا نتیجہ ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ایک کھیل تماشا ہو کیونکہ کھیل تماشہ کے کاموں میں ایسی ہم آہنگی ناممکن ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ انسان اس دنیا میں بری بھلی جیسی بھی چاہے زندگی گزار کر مرجائے اور اس سے کوئی باز پرس کرنے والا ہی نہ ہو۔ لہذا عالم آخرت کا قیام اور مرنے والوں کو دوبارہ زندگی دے کر اٹھا کھڑا کرنا ضروری ہوا اور کافر جو یوم آخرت کے منکر ہیں جب وہ ایسے دلائل سنتے ہیں تو فوراً پکار اٹھتے ہیں کہ یہ بیان تو کھلا ہوا جادو ہے جس نے بہت سے لوگوں کو مرعوب اور مسحور کرلیا ہے مگر ہم پر یہ جادو کار گر نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ : اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کے کمال علم کو ثابت فرمایا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کا بیان ہے۔ آسمان و زمین کی چھ دنوں میں پیدائش کے متعلق دیکھیے سورة اعراف (٥٤) اور حم السجدہ (٩ تا ١٢) ۔- وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ : اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ آسمان و زمین پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، پھر سب سے پہلے کیا پیدا کیا ؟ اس کے متعلق مختلف روایات آئی ہیں۔ عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ اہل یمن کے کچھ لوگوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس امر (کائنات) کی ابتدا کے متعلق پوچھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَان اللّٰہُ وَلَمْ یَکُنْ شَيْءٌ قَبْلَہٗ وَکَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ ثُمَّ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَکَتَبَ فِيْ الذِّکْرِ کُلَّ شَيْءٍ ) [ بخاری، التوحید، باب : ( و کان عرشہ علی الماء ) : ٧٤١٨ ] ” اللہ تعالیٰ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ پھر اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا اور ذکر (لوح محفوظ) میں ہر چیز لکھ دی۔ “ عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (کَتَبَ اللّٰہُ مَقَادِیْرَ الْخَلَاءِقِ قَبْلَ أَنْ یَّخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ قَالَ وَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَاءِ ) [ مسلم، القدر، باب حجاج آدم و موسیٰ صلی اللہ علیہما وسلم : ٢٦٥٣ ] ” اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمان و زمین کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ دیں اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ “ - سنن ترمذی (٣١٠٩) اور ابن ماجہ (١٨٢) کی روایات میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : ” خلق کی پیدائش سے پہلے ہمارا پروردگار کہاں تھا ؟ “ اس کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( کَانَ فِیْ عَمَاءٍ مَا تَحْتَہُ ھَوَاءٌ وَمَا فَوْقَہُ ھَوَاءٌ ) ” عَمَاءٌ“ کا معنی نہایہ میں لکھا ہے، بادل، پتلا سا بادل یا نامعلوم چیز، جس کی حقیقت سے ہم ناواقف گویا اعمیٰ ہیں۔ حدیث کا ترجمہ ہے : ” اللہ تعالیٰ ایک عماء (نامعلوم چیز) میں تھا، اس کا اوپر خالی تھا اور اس کے نیچے بھی خلا تھا۔ “ مگر شیخ ناصر الدین البانی (رض) اور ان سے پہلے رازی اور دوسرے اہل علم نے اسے ضعیف کہا ہے، جبکہ استدلال خصوصاً عقیدے میں اور اتنے اہم مسئلہ میں صحیح حدیث ہی سے ہوسکتا ہے۔ صحیح حدیث جس سے اس مسئلے پر روشنی پڑتی ہے، یہ ہے کہ عبادہ بن صامت (رض) فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ( إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالَی الْقَلَمَ فَقَالَ لَہُ اکْتُبْ فَقَالَ رَبِّ وَ مَاذَا أَکْتُبُ ؟ قَالَ اکْتُبْ مَقَادِیْرَ کُلِّ شَيْءٍ حَتّٰی تَقُوْمَ السَّاعَۃُ ) [ أبوداوٗد، السنۃ، باب في القدر : ٤٧٠٠۔ ترمذی : ٣٣١٩ ] ” بیشک اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جو پیدا کیا قلم تھا تو اسے فرمایا : ” لکھ۔ “ اس نے کہا : ” اے میرے رب میں کیا لکھوں ؟ “ فرمایا : ” ہر چیز کی تقدیریں لکھ، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو۔ “ یہ حدیث صحیح ہے، شیخ البانی (رض) نے بھی اسے صحیح کہا ہے۔ ہمارے شیخ محمد عبدہ (رض) نے لکھا ہے کہ یہی (بات) صحیح ہے، البتہ شیخ محمد عبدہ (رض) نے قلم کی پیدائش اور تقدیر کا لکھا جانا پانی اور عرش کے بعد لکھا ہے۔ شاید ان کا استدلال اس آیت : (وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ ) سے ہو۔ (واللہ اعلم) حافظ ابن حجر (رض) نے بھی قلم سے پہلے عرش اور پانی کے پیدا کیے جانے کا ذکر کیا ہے اور اس کے کچھ دلائل ذکر کیے ہیں۔ دیکھیے فتح الباری میں ” کِتَابُ بَدْءِ الْخَلْقِ “ کا پہلا باب۔ ایک روایت میں ہے کہ سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا، مگر وہ روایت ضعیف ہے۔ ابن قیم (رض) نے ” المنار المنیف “ میں لکھا ہے کہ عقل کے متعلق تمام احادیث باطل ہیں۔ - لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا : اللہ تعالیٰ کو جس طرح گزشتہ اور موجودہ ہر بات کا علم ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ آئندہ کیا ہوگا، مگر آئندہ ہونے والی چیز کے متعلق یہ علم کہ وہ واقع ہوچکی ہے، اس کے واقع ہونے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ آزمانے کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق جو کچھ آئندہ ہونا ہے وہ وجود میں آ کر سب کے سامنے آجائے اور نتیجہ دوسروں کے سامنے بھی ظاہر ہوجائے۔ قرآن مجید میں ” لِیَعْلَمَ “ اور ” لِیَبْلُوَکُم “ وغیرہ الفاظ جہاں بھی آئے ہیں ان سے مراد یہی ہے۔ - اَحْسَنٗ عَمَلاً : یعنی آزمائش یہی نہیں کہ عمل میں برا کون ہے اور اچھا کون، بلکہ اللہ تعالیٰ ایسا قدر دان ہے کہ عمل میں اچھائی کے درجات کو بھی ملحوظ رکھتا ہے کہ زیادہ اچھا کون ہے، جیسے فرمایا : (ھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ بَصِيْرٌۢ بِمَا يَعْمَلُوْنَ ) [ آل عمران : ١٦٣ ] ” وہ لوگ (اللہ کی رضا چاہنے والے) اللہ کے ہاں کئی درجوں والے ہیں اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ “ بلکہ برے عمل میں بھی سب کو ایک جیسا نہیں رکھا، منافقین آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہیں، جبکہ ابو طالب صرف آگ کے جوتے پہنے ہوئے ہے۔ رہی یہ بات کہ کیسے پتا چلے گا کہ میں اچھا عمل کر رہا ہوں تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کے بتانے ہی سے معلوم ہوسکتا ہے، اس لیے اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ اچھے عمل کے لیے دو شرطیں ہیں، ایک یہ کہ عمل خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہو، دوسری یہ کہ کتاب و سنت کے مطابق ہو، کیونکہ اس میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا ہے۔ - وَلَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ کے علم، قدرت اور خلق (پیدا کرنے) جیسی صفات کو بادلائل ذکر کرنے کے بعد بھی اگر آپ ان مشرکوں سے کہیں کہ اتنی زبردست قوتوں والے رب نے تمہیں موت کے بعد دوبارہ زندہ کرنا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے علم، قدرت، زمین و آسمان اور خود ان کو پیدا کرنے اور عرش عظیم کا مالک ہونے کو جاننے اور ماننے کے باوجود دوبارہ زندہ کرنے کی بات کرنے پر عقل و دانش سے مکمل عاری ہو کر کہہ دیں گے کہ یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں، یعنی دوبارہ زندہ ہونے کی کچھ حقیقت نہیں، جو لوگ اسے مان بیٹھے ہیں ان پر جادو ہوگیا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ پھر تم اس جادو کی زد میں آنے سے کیسے بچ گئے ؟

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں حق تعالیٰ کے علم محیط اور قدرت قاہرہ کا ایک اور مظہر ذکر کیا گیا ہے کہ اس نے تمام آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا فرمایا اور ان چیزوں کے پیدا کرنے سے پہلے عرش رحمن پانی پر تھا۔- اس سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے پانی پیدا کیا گیا ہے اور آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کرنے کی تفصیل سورة حم سجدہ کی آیت (١١، ١٠) میں اس طرح آئی ہے کہ دو دن میں زمین بنائی گئی دو دن میں زمین کے پہاڑ، دریا، درخت اور جانداروں کی غذا وبقاء کا سامان بنایا گیا، دو دن میں سات آسمان بنائے گئے۔- تفسیر مظہری میں ہے کہ آسمان سے مراد وہ تمام علویات ہیں جو اوپر کی سمت میں ہیں اور زمین سے مراد تمام سفلیات ہیں جو نیچے کی جہت میں ہیں، اور دن سے مراد وہ مقدار وقت ہے جو آسمان زمین کی پیدائش کے بعد آفتاب کے طلوع سے غروب تک ہوتا ہے اگرچہ آسمان زمین کی پیدائش کے وقت نہ آفتاب تھا نہ اس کا طلوع و غروب۔- حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ میں یہ بھی تھا کہ ان تمام چیزوں کو ایک آن میں پیدا فرما دیں مگر اس نے اپنی حکمت سے اس عالم کے نظام کو تدریجی بنایا ہے جو انسان کے مزاج کے مناسب ہے۔- آخر آیت میں آسمان و زمین کے پیدا کرنے کا مقصد یہ بتلایا ہے (آیت) لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا، یعنی یہ سب چیزیں اس لئے پیدا کی گئیں کہ ہم تمہارا امتحان لیں کہ کون تم میں سے اچھا عمل کرنے والا ہے۔- اس سے معلوم ہوا کہ آسمان و زمین کا پیدا کرنا خود کوئی مقصد نہ تھا بلکہ ان کو عمل کرنے والے انسانوں کے لئے بنایا گیا ہے تاکہ وہ ان چیزوں سے اپنے معاش کا فائدہ بھی حاصل کریں اور ان میں غور کرکے اپنے مالک اور رب کو بھی پہچانیں۔- حاصل یہ ہوا کہ آسمان و زمین کی پیدائش سے اصل مقصود انسان ہے بلکہ انسان میں بھی اہل ایمان ہیں اور ان میں بھی وہ انسان جو سب سے اچھا عمل کرنے والا ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ سارے بنی آدم میں سب سے اچھا عمل کرنے والے ہمارے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، اس لئے یہ کہنا صحیح ہوا کہ تمام کائنات کے پیدا کرنے کا اصل مقصد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وجود باجود ہے۔ ( مظہری ) ۔- یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حق تعالیٰ نے اس جگہ اَحْسَنُ عَمَلًا فرمایا ہے، یعنی کون اچھا عمل کرنے والا ہے، یہ نہیں فرمایا کہ کون زیادہ عمل کرنے والا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ اعمال صالح نماز، روزہ، تلاوت و ذکر کی عملی کثرت اور بہت بڑی مقدار سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی نظر حسن عمل پر ہے، اسی حسن عمل کو ایک حدیث میں احسان سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ عمل خالص اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے ہو اور کوئی دنیوی غرض اس میں نہ ہو اور اس عمل کی صورت بھی وہ اختیار کی جائے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہے، جس کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عمل سے بتلایا اور امت کے لئے اتباع سنت کو لازم قرار دیا، خلاصہ یہ ہے کہ تھوڑا عمل جو پورے اخلاص کے ساتھ سنت کے مطابق ہو وہ اس زیادہ عمل سے بہتر جس میں یہ چیزیں نہ ہوں یا کم ہوں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّۃِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُہٗ عَلَي الْمَاۗءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا۝ ٠ ۭ وَلَىِٕنْ قُلْتَ اِنَّكُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ مِنْۢ بَعْدِ الْمَوْتِ لَيَقُوْلَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْــرٌ مُّبِيْنٌ۝ ٧- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - عرش - العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100]- ( ع رش ) العرش - اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ - ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] ، وقال عزّ وجل : إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] ، - وسمي التکليف بلاء من أوجه :- أحدها : أن التکالیف کلها مشاق علی الأبدان، فصارت من هذا الوجه بلاء .- والثاني : أنّها اختبارات، ولهذا قال اللہ عزّ وجل : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] .- والثالث : أنّ اختبار اللہ تعالیٰ للعباد تارة بالمسار ليشکروا، وتارة بالمضار ليصبروا، فصارت المحنة والمنحة جمیعا بلاء، فالمحنة مقتضية للصبر، والمنحة مقتضية للشکر .- والقیام بحقوق الصبر أيسر من القیام بحقوق الشکر فصارت المنحة أعظم البلاء ین، وبهذا النظر قال عمر : ( بلینا بالضراء فصبرنا وبلینا بالسراء فلم نشکر) «4» ، ولهذا قال أمير المؤمنین : من وسع عليه دنیاه فلم يعلم أنه قد مکر به فهو مخدوع عن عقله «1» .- وقال تعالی: وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] ، وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً [ الأنفال 17] ، وقوله عزّ وجل : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] ، راجع إلى الأمرین، إلى المحنة التي في قوله عزّ وجل : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49] ، وإلى المنحة التي أنجاهم، وکذلک قوله تعالی: وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] ، راجع إلى الأمرین، كما وصف کتابه بقوله : قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] . وإذا قيل : ابْتَلَى فلان کذا وأَبْلَاهُ فذلک يتضمن أمرین : أحدهما تعرّف حاله والوقوف علی ما يجهل من أمره، والثاني ظهور جو دته ورداء ته، وربما قصد به الأمران، وربما يقصد به أحدهما، فإذا قيل في اللہ تعالی: بلا کذا وأبلاه فلیس المراد منه إلا ظهور جو دته ورداء ته، دون التعرف لحاله، والوقوف علی ما يجهل من أمره إذ کان اللہ علّام الغیوب، وعلی هذا قوله عزّ وجل : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] . ويقال : أَبْلَيْتُ فلانا يمينا : إذا عرضت عليه الیمین لتبلوه بها - ( ب ل ی )- بلی الوقب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ ۔ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ الآية [ البقرة 155] اور ہم کسی قدر خوف سے تمہاری آزمائش کریں گے ۔ إِنَّ هذا لَهُوَ الْبَلاءُ الْمُبِينُ [ الصافات 106] بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی ۔ اور تکلف کو کئی وجوہ کی بناہ پر بلاء کہا گیا ہے ایک اسلئے کہ تکا لیف بدن پر شاق ہوتی ہیں اس لئے انہیں بلاء سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ دوم یہ کہ تکلیف بھی ایک طرح سے آزمائش ہوتی ہے ۔ جیسے فرمایا وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّى نَعْلَمَ الْمُجاهِدِينَ مِنْكُمْ وَالصَّابِرِينَ وَنَبْلُوَا أَخْبارَكُمْ [ محمد 31] اور ہم تو لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ جو تم میں لڑائی کرنے اور ثابت قدم رہنے والے ہیں ان کو معلوم کریں ۔ سوم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کبھی تو بندوں کو خوش حالی سے آزماتے ہیں کہ شکر گزار بنتے ہیں یا نہیں اور کبھی تنگی کے ذریعہ امتحان فرماتے ہیں کہ ان کے صبر کو جانچیں ۔ لہذا مصیبت اور نعمت دونوں آزمائش ہیں محنت صبر کا تقاضا کرتی ہے اور منحتہ یعنی فضل وکرم شکر گزاری چاہتا ہے ۔ اور اس میں شک نہیں کہ کہا حقہ صبر کرنا کہا حقہ شکر گزاری سے زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے نعمت میں یہ نسبت مشقت کے بڑی آزمائش ہے اسی بنا پر حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تکا لیف پر تو صابر رہے لیکن لیکن فراخ حالی میں صبر نہ کرسکے اور حضرت علی فرماتے ہیں کہ جس پر دنیا فراخ کی گئی اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ آزامائش کی گرفت میں ہے تو و فریب خوردہ اور عقل وفکر سے مخزوم ہے قرآن میں ہے ۔ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً [ الأنبیاء 35] اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں ۔ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلاءً حَسَناً «2» [ الأنفال 17] اس سے غرض یہ تھی کہ مومنوں کو اپنے ( احسانوں ) سے اچھی طرح آزما لے ۔ اور آیت کریمہ : وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہاراے پروردگار کی طرف سے بڑی ( سخت ) آزمائش تھی میں بلاء کا لفظ نعمت و مشقت دونوں طرح کی آزمائش کو شامل ہی چناچہ آیت : يُذَبِّحُونَ أَبْناءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِساءَكُمْ [ البقرة 49]( تہمارے بیٹوں کو ) تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔ میں مشقت کا بیان ہے اور فرعون سے نجات میں نعمت کا تذکرہ ہے اسی طرح آیت وَآتَيْناهُمْ مِنَ الْآياتِ ما فِيهِ بَلؤُا مُبِينٌ [ الدخان 33] اور ان کو نشانیاں دی تھیں جنیہں صریح آزمائش تھی میں دونوں قسم کی آزمائش مراد ہے جیسا کہ کتاب اللہ کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدىً وَشِفاءٌ وَالَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ فِي آذانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى [ فصلت 44] ( کسی کا امتحان کرنا ) یہ دو امر کو متضمن ہوتا ہے ( 1) تو اس شخص کی حالت کو جانچنا اور اس سے پوری طرح باخبر ہونا مقصود ہوتا ہے دوسرے ( 2 ) اس کی اچھی یا بری حالت کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا ۔ پھر کبھی تو یہ دونوں معنی مراد ہوتے ہیں اور کبھی صرف ایک ہی معنی مقصود ہوتا ہے ۔ جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف تو صرف دوسرے معنی مراد ہوتے ہیں یعنی اس شخص لہ خوبی یا نقص کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔ کیونکہ ذات ہے اسے کسی کی حالت سے باخبر ہونے کی ضرورت نہیں لہذا آیت کریمہ : وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ [ البقرة 124] اور پروردگار نے چند باتوں میں ابراھیم کی آزمائش کی تو وہ ان میں پورے اترے ۔ دوسری معنی پر محمول ہوگی ( یعنی حضرت ابراھیم کے کمالات کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا ) ابلیت فلانا یمینا کسی سے آزمائش قسم لینا ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، - فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر - ( ب ع ث ) البعث ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بیجھنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا - پس بعث دو قمخ پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا ) - دوم بعث الہی یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ - دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- سحر - والسِّحْرُ يقال علی معان :- الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی:- سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] - والثاني :- استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی:- هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ، - والثالث :- ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15] ، - ( س ح ر) السحر - اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے - جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ - دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا - جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔- اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں - یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174)- ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧) اور تمہارا معبود برحق وہی ہے جس نے تمام آسمانوں اور زمینوں کے دنیا کے ابتدائی دنوں میں سے چھ دن، کے اندر پیدا کیا ان میں سے ہر ایک دن کا رزق ہزار سال کے برابر تھا، ان چھ دنوں کی ابتدا اتوار کے دن سے تھی اور ان ایام میں آخری دن جمعہ کا تھا اور آسمان و زمین کے پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور اللہ تعالیٰ عرش اور پانی کے پیدا کرنے سے بھی پہلے موجود تھا اور تمہیں پیدا کرنا اس لیے ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ موت وحیات کے درمیان تم میں اچھا عمل کرنے والا کون ہے اور اگر آپ ان کفار مکہ سے کہتے ہیں کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جاؤ گے تو کفار مکہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ بیان کررہے ہیں یہ تو کھلا جادو ہے ایسا نہیں ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ ( وَهُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّكَانَ عَرْشُهٗ عَلَي الْمَاۗءِ )- میرے نزدیک یہ آیت آج بھی متشابہات میں سے ہے ‘ لیکن شاید یہ اس دور کی طرف اشارہ ہے جب یہ دنیا معرض وجود میں آئی۔ زمین کی تخلیق کے بارے میں سائنسی اور تاریخی ذرائع سے اب تک ملنے والی معلومات کو مجتمع کر کے جو آراء سامنے آئی ہیں ان کے مطابق زمین جب ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی تو اس سے بخارات اور مختلف اقسام کی گیسیں خارج ہوئیں۔ انہی گیسوں میں سے ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ملنے سے پانی پیدا ہوا جو لاکھوں سال تک بارشوں کی صورت میں زمین پر برستا رہا۔ پھر جب زمین ٹھنڈی ہو کر سکڑی تو اس کی سطح پر نشیب و فراز پیدا ہونے سے پہاڑ اور سمندر وجود میں آئے۔ اس وقت تک کسی قسم کی کوئی مخلوق پیدا نہیں ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس زمین کی حد تک اللہ تعالیٰ کا تخت حکومت (اس کا تصور انسانی ذہن سے ماوراء ہے) پانی پر تھا۔ پھر وہ دور آیا جب زمین کی آب وہوا زندگی کے لیے موافق ہوئی تو مٹی اور پانی سے وجود میں آنے والے دلدلی علاقوں میں نباتاتی یا حیوانی مخلوق کی ابتدائی شکلیں پیدا ہوئیں۔ (واللہ اعلم )- (لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ) - یعنی انسانی زندگی کا وہ حصہ جو اس دنیا میں گزرتا ہے اس کا اصل مقصد امتحان ہے۔ علامہ اقبال نے اس شعر میں اس آیت کی بہت خوبصورت ترجمانی کی ہے :- قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب - اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة هُوْد حاشیہ نمبر :7 جملہ معترضہ ہے جو غالبًا لوگوں کے اس سوال کےجواب میں فرمایا گیا ہے کہ آسمان و زمین اگر پہلے نہ تھے اور بعد میں پیدا کیے گئے تو پہلے کیا تھا ؟ اس سوال کو یہاں نقل کیے بغیر اس کا جواب مختصر سے فقرے میں دے دیا گیا ہے کہ پہلے پانی تھا ۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس پانی سے مراد کیا ہے ۔ یہی پانی جسے ہم اس نام سے جانتے ہیں؟ یا یہ لفظ محض استعارے کے طور پر مادے کی اس مائع ( ) حالت کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو موجودہ صورت میں ڈھالے جانے سے پہلے تھی؟ رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا ، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :8 اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو اس لیے پیدا کیا کہ تم کو ( یعنی انسان کو ) پیدا کرنا مقصود تھا ، اور تمہیں اس لیے پیدا کیا کہ تم پر اخلاقی ذمہ داری کا بار ڈالا جائے ، تم کو خلافت کے اختیارات سپرد کیے جائیں اور پھر دیکھا جائے کہ تم میں سے کون ان اختیارات کو اور اس اخلاقی ذمہ داری کے بوجھ کو کس طرح سنبھالتا ہے ۔ اگر اس تخلیق کی تہہ میں یہ مقصد نہ ہوتا ، اگر اختیارات کو تفویض کے باوجود کسی امتحان کا ، کسی محاسبہ اور باز پرس کا اور کسی جزا و سزا کا کوئی سوال نہ ہوتا ، اور اگر انسان کو اخلاقی ذمہ داری کا حامل ہونے کے باوجود یونہی بے نتیجہ مر کر مٹی ہو جانا ہی ہوتا ، تو پھر یہ سارا کار تخلیق بالکل ایک مہمل کھیل تھا اور اس تمام ہنگامہ وجود کی کوئی حیثیت ایک فعل عبث کے سوا نہ تھی ۔ سورة هُوْد حاشیہ نمبر :9 یعنی ان لوگوں کی نادانی کا یہ حال ہے کہ کائنات کو ایک کھلنڈرے کا گھروندا اور اپنے آپ کو اس کے جی بہلانے کا کھلونا سمجھے بیٹھے ہیں اور اس احمقانہ تصور میں اتنے مگن ہیں کہ جب تم انہیں اس کارگاہ حیات کا سنجیدہ مقصد ، اور خود ان کے وجود کی معقول غرض و غایت سمجھاتے ہو تو قہقہہ لگاتے ہیں اور تم پر پھبتی کستے ہیں کہ یہ شخص تو جادو کی سی باتیں کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: اس سے معلوم ہوا کہ عرش اور پانی کی تخلیق زمین اور آسمانوں سے پہلے ہوچکی تھی۔ اور مفسرین نے فرمایا کہ آسمانوں سے مراد عالمِ بالا کی تمام چیزیں ہیں، اور زمین سے مراد نیچے کی تمام چیزیں ہیں، اور سور حم السجدہ ( آیت 10،11) میں اس تخلیق کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے۔ 6: اس آیت نے واضح فرما دیا ہے کہ اس کائنات کو پیدا کرنے کا اصل مقصد اِنسان کی آزمائش ہے۔ اور آزمائش یہ ہے کہ کون اچھا عمل کرتا ہے، یہ نہیں کہ کون زیادہ عمل کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نفلی اعمال کی گنتی سے زیادہ اِنسان کو اس کی فکر کرنی چاہئے کہ اس کا عمل اِخلاص اور خضوع و خشوع کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہو۔ 7: یعنی یہ قرآن جو آخرت کی زندگی کی خبر دے رہا ہے، یہ (معاذ اللہ) جادو ہے۔