Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

قبطی قوم کا سردار فرعون اور موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کی جماعت کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی آیتوں اور ظاہر باہر دلیلوں کے ساتھ بھیجا لیکن انہوں نے فرعون کی اطاعت نہ چھوڑی ۔ اسی کی گمراہ روش پر اس کے پیچھے لگے رہے ۔ جس طرح یہاں انہوں نے اس کی فرمان برداری ترک نہ کی اور اسے اپنا سردار مانتے رہے ۔ اسی طرح قیامت کے دن اسی کے پیچھے یہ ہوں گے اور وہ اپنی پیشوائی میں انہیں سب کو اپنے ساتھ ہی جہنم میں لے جائے گا اور خود دگنا عذاب برداشت کرے گا ۔ یہی حال بروں کی تابعداری کرنے والوں کا ہوتا ہے وہ کہیں گے بھی کہ اللہ انہیں لوگوں نے ہمیں بہکایا تو انہوں دوگنا عذاب دے ۔ مسند میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جاہلیت کے شاعروں کا جنڈا امرؤ القیس کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ انہیں لے کر جہنم کی طرف جائے گا ۔ اس آگ کے عذاب پر یہ اور زیادتی ہے کہ یہاں اور وہاں دونوں جگہ یہ لوگ ابدی لعنت میں پڑے ۔ قیامت کے دن کی لعنت مل کر ان پر دو دو لعنتیں پڑ گئیں ۔ یہ اور لوگوں کو جہنم کی دعوت دینے والے امام تھے ۔ اس لیے ان پر دوہری لعنت پڑی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

96۔ 1 آیات سے بعض کے نزدیک تورات اور سلطان مبین سے معجزات مراد ہیں، اور بعض کہتے ہیں کہ آیات سے، آیات تسعہ اور سلطان مبین (روشن دلیل) سے عصا مراد ہے۔ عصا، اگرچہ آیات تسعہ میں شامل ہے لیکن معجزہ چونکہ نہایت ہی عظیم الشان تھا، اس لئے اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٨] فرعون کو سیدنا موسیٰ کی دعوت :۔ سورة بقرہ اور پھر سورة اعراف میں موسیٰ (علیہ السلام) کے حالات اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے بیان فرمائے۔ لیکن یہاں نہایت اختصار کے ساتھ ان کی دعوت اور اس کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اجمال ہو یا تفصیل کسی واقعہ سے اصل مقصود تو انسان کا اس واقعہ سے یا بدکرداروں کے انجام سے عبرت حاصل کرنا ہے اور وہ ان تین آیات میں بھی ذکر کردیا گیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) خود بڑے مضبوط جسم کے، طاقتور، جرأت مند اور جلالی طبیعت کے مالک تھے اور انھیں جس جابر و قاہر بادشاہ کی طرف بھیجا گیا اس کی نخوت اور قہر مانی کا یہ عالم تھا کہ خود خدا بنا بیٹھا تھا اور اس کی رعایا اسے فی الواقع اپنا خدا تسلیم کرتی تھی۔ اسی لیے آپ کو نبوت کے ساتھ ہی دو ایسے واضح معجزے بھی بن مانگے عطا کیے گئے تھے جن کی بنا پر آپ فرعون جیسے دبدبہ اور شان و شوکت والے بادشاہ کے سامنے کھل کر اپنی دعوت پیش کرنے کے قابل ہوگئے چناچہ آپ بلاروک ٹوک فرعون کے کھلے دربار میں چلے گئے اور سب درباریوں کے سامنے اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا کہ وہ ایک اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرلے اور اپنی خدائی کے دعویٰ سے دستبردار ہوجائے اور بنی اسرائیل پر ظلم کرنا چھوڑ دے اور انھیں اپنی غلامی سے آزاد کرکے انھیں کے (سیدنا موسیٰ کے) ہمراہ کردے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ : اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف اپنی جو آیات اور ” سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ “ (واضح دلیل) دے کر بھیجا تھا، ان سے کیا مراد ہے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نو آیات بینات دی تھیں (دیکھیے بنی اسرائیل : ١٠١) جو وقتاً فوقتاً ظاہر ہوئیں : 1 عصائے موسیٰ 2 ید بیضا 3 سنین (قحط سالیاں) 4 نقص من الثمرات 5 طوفان 6 جراد 7 قمل 8 ضفادع 9 دم انھی کو ” سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ “ کہا گیا ہے۔ واؤ ہمیشہ مغایرت کے لیے نہیں ہوتی، جیسا کہ سورة عصر میں فرمایا : (اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بالْحَقِّ ڏ وَتَوَاصَوْا بالصَّبْر) اس میں ہر بعد والی چیز اپنے سے پہلے والی تمام چیزوں میں داخل اور اس کا حصہ ہے۔ - ایک جواب یہ ہے کہ ” سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ “ سے مراد عصائے موسیٰ اور ید بیضا ہیں، جو سب سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیے۔ ان کی خصوصیت کے پیش نظر انھیں علیحدہ بھی ذکر فرمایا، حالانکہ یہ آیات میں داخل تھے اور ایک جواب یہ کہ ” سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ “ سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام ہے جو موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) فرعون کے پاس لے کر گئے اور وہ عقلی اور فطری دلائل ہیں جو لاٹھی پھینکنے سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے بحث کے دوران پیش فرمائے اور وہ ان دلائل سے لاجواب ہو کر قید کی دھمکی دینے لگا اور معجزے کا مطالبہ کرنے لگا۔ دیکھیے سورة طٰہٰ (٤٧ تا ٥٥) اور شعراء (١٥ تا ٢٩) یہ تینوں تفسیریں صحیح ہیں۔ بعض حضرات نے ” بِاٰیٰتِنَا “ سے مراد نو معجزے اور ” سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ “ سے مراد تورات بیان کی ہے، مگر تورات تو فرعون کے غرق ہونے کے بعد نازل ہوئی، اس لیے یہ تفسیر صحیح نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے موسیٰ ( علیہ السلام) کو ( بھی) اپنے معجزات اور دلیل روشن دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا سو ( نہ فرعون نے مانا اور نہ ان کے سرداروں نے مانا بلکہ فرعون بھی اپنے کفر پر رہا اور) وہ لوگ ( بھی) فرعون ( ہی) کی رائے پر چلتے رہے اور فرعون کی رائے کچھ صحیح نہ تھی وہ ( فرعون) قیامت کے دن اپنی قوم سے آگے آگے ہوگا پھر ان ( سب) کو دوزخ میں جا اتارے گا، اور وہ ( دوزخ) بہت ہی بری جگہ ہے اترنے کی جس میں یہ لوگ اتارے جاویں گے اور اس دنیا میں بھی لعنت ان کے ساتھ ساتھ رہی اور قیامت کے دن بھی ( ان کے ساتھ رہے گی، چناچہ یہاں قہر سے غرق ہوئے اور وہاں دوزخ نصیب ہوگا) برا انعام ہے جو ان کو دیا گیا، یہ ( جو کچھ اوپر قصص میں مذکور ہوا) ان ( غارت شدہ) بستیوں کے بعض حالات تھے جن کو ہم آپ سے بیان کرتے ہیں ( سو) بعضی بستیاں تو ان میں ( اب بھی) قائم ہیں ( مثلاً مصر کہ آل فرعون کے ہلاک ہونے کے بعد بھی آباد رہا) اور بعض کا بالکل خاتمہ ہوگیا اور ( ہم نے جو ان مذکورہ بستی والوں کو سزائیں دیں سو) ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا ( کہ بلا قصور سزا دی ہو جو کہ صورةً ظلم ہے) لیکن انہوں نے خود ہی اپنے اوپر ظلم کیا ( کہ ایسی حرکتیں کیں جن سے مستوجب سزا ہوئے) سو ان کے وہ معبود جن کو وہ خدا کو چھوڑ کر پوجتے تھے ان کو کچھ فائدہ نہ پہنچا سکے جب آپ کے رب کا حکم (عذاب کے لئے) آپہنچا ( کہ ان کو عذاب سے بچا لیتے) اور ( فائدہ تو کیا پہنچا اور) الٹا ان کو نقصان پہنچایا ( یعنی سبب نقصان کے ہوئے کہ ان کی پرستش کی بدولت سزا یاب ہوئے ) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ۝ ٩٦ۙ- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- بایتنا - ۔ وہی الایات السنع ( یہ نو نشانیاں تھیں) (1) العصا۔ (2) الید البیضأ ۔ (3) الطوفان۔ (4) الجراد ( مڈی) (5) القمل غلہ کو کھا جانے والا کیڑا چچڑی۔ (6) الضفادع ( مینڈک) ۔ (7) الدم ( خون) ۔ (8) النقص من الثمرات ( پھلوں میں کمی) ۔ (9) النقص من الانفس ( جانوروں کی تلفی)- سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٦۔ ٩٧) اور ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نومعجزے اور دلیل روشن دے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس بھیجا تھا اور معجزات خود دلیل روشن ہیں، چناچہ فرعون کی قوم نے بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بات کو چھوڑ کر فرعون ہی کی راہ اختیار کی اور فرعون کی رائے کچھ درست نہ تھی ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani