Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تفسیر سورۃ تبت بدترین اور بدنصیب میاں بیوی:٭٭ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطحا میں جا کر ایک پہاڑی پر چڑھ گئے اور اونچی آواز سے یاصباحاہ یاصباحاہ کہنے لگے قریش سب جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا اگر میں تم سے کہوں کہ صبح یا شام دشمن تم پر چھاپہ مارنے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمھو گے؟ سب نے جواب دیا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اللہ کے سخت عذاب کے آنے کی خبر دے رہا ہوں تو ابو لہب کہنے لگا تجھے ہلاکت ہو ، کیا اسی لئے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ؟ اس پر یہ سورت اتری ( بخاری ) دوسری روایت میں ہے کہ یہ ہاتھ جھاڑتا ہوا یوں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ تبت بددعا ہے اور تب خبر ہے ، یہ ابو لہب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا تھا اس کا نام عبدالعزیٰ بن عبدالمطلب تھا ۔ اس کی کنیت ابو عتبہ تھی اس کے چہرے کی خوبصورتی اور چمک دمک کی وجہ سے اسے ابو لہب یعنی شعلے والا کہا جاتا تھا ، یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بدترین دشمن تھا ہر وقت ایذاء دہی تکلیف رسائی اور نقصان پہنچانے کے درپے رہا کرتا تھا ، ربیعہ بن عباد ویلی اپنے اسلام لانے کے بعد اپنا جاہلیت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ذوالمجاز کے بازار میں دیکھا کہ آپ فرما رہے ہیں لوگو لا الہ الا اللہ کہو تو فلاح پاؤ گے لوگوں کا مجمع آپ کے آس پاس لگا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ آپ کے پیچھے ہی ایک گورے چٹے چمکتے چہرے والا بھینگی آنکھ والا جس کے سر کے بڑے بالوں کے دو مینڈھیاں تھیں ۔ آیا اور کہنے لگا لوگو یہ بےدین ہے ، جھوٹا ہے ۔ غرض آپ لوگوں کے مجمع میں جا کر اللہ کی توحید کی دعوت دیتے تھے اور یہ دشمن پیچھے پیچھے یہ کہتا ہوا چلا جا رہا تھا ۔ میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ آپ کا چچا ابو لہب ہے ( لعنہ اللہ ) ( مسند احمد ) ابو الزنادنے راوی حدیث حضرت ربیعہ سے کہا کہ آپ تو اس وقت بچہ ہوں گے فرمایا نہیں میں اس وقت خاصی عمر کا تھا مشک لاد کر پانی بھر لایا کرتا تھا ، دوسری روایت میں ہے میں اپنے باپ کے ساتھ تھا میری جوان عمر تھی اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک قبیلے کے پاس جاتے اور فرماتے لوگو میں تمہاری طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں میں تم سے کہتا ہوں کہ ایک اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو مجھے سچا جانو مجھے میرے دشمنوں سے بچاؤ تاکہ میں اس کا کام بجا لاؤں جس کا حکم مجھے دے کر الہت عالیٰ نے بھیجا ہے ، آپ یہ پیغام پہنچا کر فارغ ہوتے تو آپ کا چچا ابو لہب پیچھے سے پہنچتا اور کہتا اے فلاں قبیلے کے لوگو یہ شخص تو تمہیں لات و عزیٰ سے ہٹانا چاہتا ہے اور بنو مالک بن اقیش کے تمہارے حلیف جنوں سے تمہیں دور کر رہا ہوں اور اپنی نئی لائی ہوئی گمراہی کی طرف تمہیں بھی گھسیٹ رہا ہے ، خبردار نہ اس کی سننا نہ ماننا ( احمد و طبرانی ) اللہ تعالیٰ اس سورت میں فرماتا ہے کہ ابو لہب برباد ہوا اس کی کوشش غارت ہوئی اس کے اعمال ہلاک ہوئے بالیقین اس کی بربادی ہو چکی ، اس کی اولاد اس کے کام نہ آئی ۔ اب مسعود فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا تو ابو لہب کہنے لگا اگر میرے بھتیجے کی باتیں حق ہیں تو میں قیامت کے دن اپنا مال و اولاد اللہ کو فدیہ میں دے کر اس کے عذاب سے چھوٹ جاؤں گا اس پر آیت مااغنی الخ ، اتری ، پھر فرمایا کہ یہ شعلے مارنے والی آگ میں جو سخت جلانے الی اور بہت تیز ہے داخل ہو گا ، اور اس کی بیوی بھی جو قریش عورتوں کی سردار تھی اس کی کنیت ام جمیل تھی نام ارویٰ تھا ، حرب بن امیہ کی لڑکی تھی ابو سفیان کی بہن تھی اور اپنے خاوند کے کفر و عناد اور سرکشی و دشمنی میں یہ بھی اس کے ساتھ تھی اسی لئے قیامت کے دن عذابوں میں بھی اسی کے ساتھ ہو گی ، لڑکیاں اٹھا اٹھا کر لائے گی اور جس آگ میں اس کا خاوند جل رہا ہو گا ڈالتی جائے گی اس کے گلے میں آگ کی رسی ہو گی اور جہنم کا ایندھن سمیٹتی رہے گی ، یہ معنی بھی کئے گئے ہیں کہ حمالتہ الحطب سے مراد اس کا غیب گو ہونا ہے ، امام ابن جریر اسی کو پسند کرتے ہیں ، ابن عباس وغیرہ نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ یہ جنگل سے خار دار لکڑیاں چن لاتی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں بچھا دیا کرتی تھی ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فقیری کا طعنہ دیا کرتی تھی تو اسے اس کا لکڑیاں چننا یاد دلایا گیا ، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے ، واللہ اعلم ۔ سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے پاس ایک نفیس ہار تھا کہتی تھی کہ اسے میں فروخت کر کے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مخالفت میں خرچ کروں گی تو یہاں فرمایا گیا کہ اس کے بدلے اس کے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے گا ۔ مسد کے معنی کھجور کی رسی کے ہیں ۔ حضرت عروہ فرماتے ہیں یہ جہنم کی زنجیر ہے جس کی ایک ایک کڑی ستر ستر گز کی ہے ۔ ثوری فرماتے ہیں یہ جہنم کا طوق ہے جس کی لمبائی ستر ہاتھ ہے ۔ جوہری فرماتے ہیں یہ اونٹ کی کھال کی اور اونٹ کے بالوں کی بنائی جاتی ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں یعنی لوہے کا طوق ۔ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ جب یہ سورت اتری تو یہ بھینگی عورت ام جمیل بنت کرب اپنے ہاتھ میں نوکدار پتھر لئے یوں کہتی ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ۔ یعنی ہم مذمم کے منکر ہیں ، اس کے دین کے دشمن ہیں اور اس کے نافرمان ہیں ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعتہ اللہ میں بیٹھے ہوئے تھے ، آپ کے ساتھ میرے والد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے صدیق اکبر نے اسے اس حالت میں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آ رہی ہے ایسا نہ ہو آپ کو دیکھ لے ، آپ نے فرمایا صدیق بےغم رہو یہ مجھے نہیں دیکھ سکتی ، پھر آپنے قرآن کریم کی تلاوت شروع کر دی تاکہ اس سے بچ جائیں ، خود قرآن فرماتا ہے واذا قرأت القران جعلنا بینک وبین الذین لایومنون بالاخرۃ حجابا مسوراً یعنی جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ہم تیرے اور ایمان نہ لانے والوں کے درمیان پوشیدہ پردے ڈال دیتے ہیں ۔ یہ ڈائن آ کر حضرت ابو بکر کے پاس کھڑی ہو گئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت صدیق اکبر کے پاس ہی بالکل ظاہر بیٹھے ہوئے تھے لیکن قدرتی حجابوں نے اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ سکی ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا نہیں نہیں رب البیت کی قسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیری کوئی ہجو نہیں کی تو یہ کہتی ہوئی لوٹ گئی کہ قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں ( ابن ابی حاتم ) ایک مرتبہ یہ اپنی لمبی چادر اوڑھے طواف کر رہی تھی پیر چادر میں الجھ گیا اور پھسل پڑی تو کہنے لگی مذمم غارت ہو ۔ ام حکیم بنت عبدالطلب نے کہا میں تو پاک دامن عورت ہوں اپنی زبان نہیں بگاڑوں گی اور دوست پسند ہوں پس داغ نہ لگاؤں گی اور ہم سارے ایک ہی دادا کی اولاد میں سے ہیں اور قریش ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ بزار میں ہے کہ اس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ تیرے ساتھی نے میری ہجو کی ہے تو حضرت صدیق نے قسم کھا کر جواب دیا کہ نہ تو آپ شعر گوئی جانت ہیں نہ کبھی آپ نے شعر کہے ، اس کے جانے کے بعد حضرت صدیق نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس نے آپ کو دیکھا نہیں؟ آپ نے فرمایا فرشتہ آڑ بن کر کھڑا ہوا تھا جب تک وہ واپس چلی نہ گئی ، بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اس کے گلے میں جہنم کی آگ کی رسی ہو گی جس سے اسے کھینچ کر جہنم کے اوپر لایا جائے گا پھر ڈھیلی چھوڑ کر جہنم کی تہہ میں پہنچایا جائے گا یہی عذاب اسے ہوتا رہے گا ، ڈول کی رسی کو عرب مسد کہدیا کرتے ہیں ۔ عربی شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں لایا گیا ہے ، ہاں یہ یاد رہے کہ یہ بابرکت سورت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک اعلیٰ دلیل ہے کیونکہ جس طرح ان کی بدبختی کی خبر اس سورت میں دی گئی تھی اسی طرح واقعہ بھی ہوا ان دونوں کو ایمان لانا آخر تک نصیب ہی نہ ہوا نہ تو وہ ظاہر میں مسلمان ہوئے نہ باطن میں نہ چھپے نہ کھلے ، پس یہ سورت زبردست بہت صاف اور روشن دلیل ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی اس سورت کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور اسی کے فضل و کرم اور اسی کے احسان و انعام کی یہ برکت ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 یدا، ید (ہاتھ) کا تثنیہ ہے، مراد اس سے اس کا نفس ہے، جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے یعنی ہلاک اور برباد ہوجائے یہ بد دعا ان الفاظ کے جواب میں ہے جو اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق غصے اور عداوت میں بولے تھے۔ وَ تَبَّ (اور وہ ہلاک ہوگیا) یہ خبر ہے یعنی بد دعا کے ساتھ ہی اللہ نے اس کی ہلاکت اور بربادی کی خبر دے دی، چناچہ جنگ بدر کے چند روز بعد یہ عدسیہ بیماری میں مبتلا ہوگیا، جس میں طاعون کی طرح گلٹی سی نکلتی ہے، اسی میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ تین دن تک اسکی لاش یوں ہی پڑی رہی، حتیٰ کہ سخت بدبو دار ہوگئی۔ بالآخر اس کے لڑکوں نے بیماری کے پھیلنے اور عار کے خوف سے، اس کے جسم پر دور سے ہی پتھر اور مٹی ڈال کر اسے دفنا دیا۔ (ایسر التفاسیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] ابو لہب کا تعارف :۔ ابو لہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سب سے بڑا حقیقی چچا تھا۔ نہایت ہی حسین و جمیل تھا۔ رنگ سیب کی طرح دمکتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی کنیت ابو لہب ہوئی۔ مالدار تھا مگر طبعاً بخیل تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی خبر اسے اس کی لونڈی ثویبہ نے دی تو اس خوشی میں اس نے ثویبہ کو آزاد کردیا۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب امھاتکم الٰتی ارضعنکم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والد تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت سے پیشتر ہی وفات پاچکے تھے۔ بڑا چچا ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کو باپ کا قائم مقام سمجھ کر اس نے اپنی طبیعت کے خلاف اس خوشی کا اظہار کیا تھا یا اسے کرنا پڑا تھا۔ یہ اس کے بخل ہی کا نتیجہ تھا کہ جب آپ کے دادا عبدالمطلب فوت ہونے لگے تو انہوں نے آپ کی کفالت (اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عمر آٹھ برس تھی) ابو لہب کے بجائے ابو طالب کے سپرد کی جو مالی لحاظ سے ابو لہب کی نسبت بہت کمزور تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد تین سال تک اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام نہایت خفیہ طور پر ہوتا رہا۔ پھر جب یہ حکم نازل ہوا۔ ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤؀ۙ ) 26 ۔ الشعراء :214) اپنے قریبی کنبہ والوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حکم کی تعمیل میں بنوہاشم اور بنو عبدالمطلب کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ کل ٤٥ آدمی جمع ہوئے۔- ابولہب کی مخالفت :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے سامنے لا الٰہ الا اللّٰہ کی دعوت پیش کی تو ابو لہب جھٹ سے بول اٹھا : دیکھو یہ سب حضرات تمہارے چچا یا چچازاد بھائی ہیں۔ نادانی چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتا۔ اور میں سب سے زیادہ حقدار ہوں کہ تمہیں پکڑ لوں۔ بس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اور اگر تم اپنی بات پر اڑے رہے اور عرب کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑے تو ایسی صورت میں تم سے زیادہ اور کون شخص اپنے خاندان کے لیے شر اور تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ ابو لہب کی یہ تلخ اور ترش باتیں سننے کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خاموشی اختیار کرلی اور دوسرے لوگ بھی اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔- ابوطالب کی حمایت :۔ چند دن بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوبارہ اپنے قرابتداروں کو مدعو کرکے اپنی دعوت ذرا کھل کر پیش کی۔ جس کے نتیجہ میں آپ کے چھوٹے چچا ابوطالب نے کھل کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حمایت کا اعلان کردیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ میں ذاتی طور پر عبدالمطلب کا دین چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ابو طالب کی اس حمیت کے جواب میں ابو لہب کہنے لگا :: خدا کی قسم یہ (یعنی دعوت توحید) برائی ہے۔ لہذا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم خود ہی پکڑ لو اس کے جواب میں ابو طالب نے کہا : اللہ کی قسم جب تک جان میں جان ہے ہم اس کی حفاظت کرتے رہیں گے اس دوسری دعوت کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین ہوگیا کہ معززین بنوہاشم میں کم از کم ایک آدمی (یعنی ابو طالب) ایسا ہے جس کی حمایت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔- کوہ صفا پر دشمنوں کا اعتراف :۔ اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک تیسرا جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔ ایک دن آپ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور ایک فریادی کی طرح وا صباحاہ کی آواز لگائی اور قریش کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر پکارا اور کہا اے بنی فہر، اے بنی عدی، اے بنی کعب وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ سب قبائل کے قابل ذکر اشخاص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اکٹھے ہوگئے اور جو نہ پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے پوچھا : اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے اس پار ایک لشکر جمع ہو رہا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے ؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا : ہاں اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق ہمارا ہمیشہ سچ ہی کا تجربہ رہا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اچھا تو سن لو کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں لہذا تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ میں تمہیں اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔- ابولہب کی برہمی :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی اتنا ہی کہہ : پائے تھے کہ ابو لہب یکدم بھڑک اٹھا اور کہنے لگا تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا (سارا دن تم پر ہلاکت ہو کیا اس بات کے لیے تو نے ہمیں جمع کیا تھا) (بخاری۔ کتاب التفسیر) - اگرچہ ابو لہب کی اس بدتمیزی کی وجہ سے یہ اجتماع کچھ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا تاہم اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حسب ِ ارشاد باری اپنے پورے قبیلے کو اپنی دعوت سے آگاہ کردیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ پکار مکہ کے ایک ایک فرد تک پہنچ گئی اور ابو لہب کی بدخلقی اور گستاخی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔- ابولہب کا ہی قرآن نے کیوں نام لیا ؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے دشمن تو اور بھی بہت تھے، بلکہ ابو لہب سے بھی زیادہ تھے۔ تو ان تمام دشمنوں میں صرف ابو لہب کا ہی قرآن میں کیوں نام لے کر ذکر کیا گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر ابو لہب کا جرم واقعی اتنا شدید جرم تھا کہ قرآن میں اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تو تھی نہیں، جہاں فریاد کی جاسکے۔ لے دے کر ایک قبائلی حمیت ہی وہ چیز تھی جو ایسے اوقات میں کام آتی تھی۔ مظلوم شخص فوراً اپنے قبیلے کو دادرسی کے لیے پکارتا اور پورا قبیلہ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوتا۔ اس لیے ان کو اضطراراً بھی صلہ رحمی کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا۔ ابو لہب ہی وہ واحد بدبخت شخص ہے جس نے اس دور کے واجب الاحترام قانون کو توڑ کر اپنے قبیلہ کے علی الرغم ڈٹ کر آپ کی مخالفت کی۔ علاوہ ازیں جب بنوہاشم اور بنو مطلب کو معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ سے شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا تھا تو اس وقت بھی ابو لہب نے اپنے قبیلے کا ساتھ نہیں دیا تھا اور یہ تو واضح ہے کہ شعب ابی طالب کے محصورین میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے تھے تاہم قبائلی حمیت کی بنا پر انہوں نے سب کچھ گوارا کیا تھا اور اس قانون کے احترام کا حق ادا کیا۔ حد یہ ہے کہ آپ کے چھوٹے چچا ابو طالب نے آپ کی حفاظت کے لیے زندگی بھر قریش مکہ کی مخالفت مول لی۔ حالانکہ آخری دم تک وہ ایمان نہیں لائے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ 56؀) 28 ۔ القصص :56) اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس قبائلی معاشرہ میں چچا کو بھی باپ کا درجہ حاصل تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ حقیقی والد فوت ہوچکا ہو۔ اس لحاظ سے بھی ابو لہب کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن بجا لانا چاہئے تھا خواہ وہ ایمان لاتا یا نہ لاتا۔ مگر وہ آپ کی حفاظت کی بجائے بغض وعناد میں اتنا آگے نکل گیا کہ اس کا شمار آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صف اول کے دشمنوں میں ہوتا ہے۔ اس نے کوہ صفا پر جس بدخلقی اور گستاخی کا مظاہرہ کیا اس پر آپ کے خاموش رہنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ معاشرتی سطح پر ابو لہب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے باپ کے مقام پر تھا اور باپ ہونے کے ادب کا تقاضا یہی تھا کہ آپ خاموش رہتے۔ لہذا اس کی اس بدتمیزی کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نام لے کر دے دیا۔- واضح رہے کہ (تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھبٍ ) سے یہ مراد نہیں کہ جسمانی لحاظ سے ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں بلکہ یہ بددعا کی قسم کے کلمات ہیں جو ناراضگی اور خفگی کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ اور ایسے الفاظ صرف عربی میں نہیں۔ ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) تبت یدا ابی لھب و تب : ابولہب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چچا تھا، نام عبدالعزیٰ بن عبد المطلب تھا۔” لھب “ شعلے کو کہتے ہیں،” ابی لھب “ شعلے کا باپ یا شعلے والا۔ رخس اورں کی خوبصورتی اور سرخی کی وجہ سے یا طبیعت کی تیزی اور جشو کی وجہ سے ابولہب کے نام سے مشہور ہوا، پھر جہنمی ہونے کی وجہ سے فی الواقع شعلے والا ہی بن گیا۔ اس شخص کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سخت عداوت تھی۔ باوجود اس کے کہ چچا باپ کی طرح ہوتا ہے، یہ ہر موقع پر آپ کی مخالفت کرتا اور ایذا پہنچانے کی کوشش کرتا۔ آپ کے دشمنوں میں سے یہ واحد شخص ہے جس کے نام سے قرآن میں اس کے برے انجام کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں نسب اور خاندان کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان اور کفر کی بنیاد پر اپنے اور غیر کا فیصلہ ہوتا ہے۔- (٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سخت مخالفت اور آپ کو ہلاکت کی بد دعا دینے کی وجہ سے سے اللہ تعالیٰ نے ” تبت یدا ابی لھب و تب “ فرمایا۔ اس کے دو معانی ہوسکتے ہیں، پہلا یہ کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ خود ہلاک ہوگیا ۔ یہ معنی تو ظاہر ہے۔ دوسرا یہ کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوجائیں اور وہ (فی الواقع ) ہلاک ہوگیا ۔ یہ معنی فزاء نے کیا ہے، یعنی اس کی بد دعا کے مقابلے میں اہل ایمان کی بد دعا کی جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ فرما دیے کہ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوجائیں پھر بتایا کہ وہ ہلاک ہوچکا۔- (٣) ” ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے “ یہاں ہاتھوں کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا کہ ایذا رسانی میں ہاتھوں کا حصہ دوسرے تمام اعضا سے زیادہ موثر ہوتا ہے اور ان کے ساتھ زیادہ تکلیف پہنچائی جاسکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہاتھوں سے مراد اولاد اورس ا تھی ہیں، جو مددگار ہوتے ہیں اور دست و بازو بنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ایسا ہی ہوا، اس کے مددگار جنگ بدر میں برباد ہوگئے، وہ خود جنگ میں نہیں گیا، شکست کی خبر آئی تو اسی صدمے سے مرگیا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ برباد ہوجائے۔ نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کی کمائی (مال سے مراد اصل سرمایہ اور کمائی سی مراد اس کا نفع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی سامان اس کو ہلاکت سے نہ بچاوے گا، یہ حالت تو اس کی دنیا میں ہوئی اور آخرت میں) وہ عنقریب (یعنی مرتے ہی) ایک شعلہ زن آگ میں داخل ہوگا، وہ بھی اور اس کی بیوی بھی جو لکڑیاں لاد کر لاتی ہے (مراد خار دار لکڑیاں ہیں جن کو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے راستہ میں بچھا دیتی تھی تاکہ آپکو تکلیف پہنچے اور دوزخ میں پہنچ کر) اس کے گلے میں ( دوزخ کی زنجیر اور طوق ہوگا کہ گویا وہ) ایک رسی ہوگی خوب بٹی ہوئی (تشبیہ شدت اور استحکام میں ہے) - معارف ومسائل - ابولہب کا اصلی نام عبدالعزٰی تھا، یہ عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہے۔ سرخ رنگ ہونے کی وجہ سے اس کی کنیت ابولہب مشہور تھی۔ قرآن کریم نے اس کا اصلی نام اس لئے چھوڑا کہ وہ نام بھی مشرکانہ تھا اور ابولہب کنیت میں، لہب جہنم سے ایک مناسبت بھی تھی۔ یہ شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بےحد دشمن اور اسلام کا شدید مخالف، آپ کو سخت ایذائیں دینے والا تھا، جب آپ لوگوں کو ایمان کی دعوت دیتے یہ ساتھ لگ جاتا اور آپ کی تکذیب کرتا جاتا تھا (ابن کثیر) - شان نزول :۔ صحیحین میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آیت وانذر عشیرتک الاقربین نازل ہوئی تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر اپنے قبیلہ قریش کے لوگوں کو آواز دی، بعض روایات میں ہے کہ یا صباحاہ کہہ کر یا بنی عبد مناف اور یا بنی عبدالمطلب وغیرہ ناموں کے ساتھ آواز دی (اس طرح آواز دینا عرب میں خطرہ کی علامت سجھا جاتا تھا) سب قریش جمع ہوگئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ دشمن (تم پر چڑھ آیا ہے اور) صبح شام میں تم پر ٹوٹ پڑنے والا ہے کیا آپ لوگ میری تصدیق کروگے۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا ہاں ضرور تصدیق کریں گے، پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ڈراتا ہوں ایک عذاب شدید سے (جو شرک و کفر پر اللہ کی طرف سے مقرر ہے) یہ سن کر ابولہب نے کہا تبا لک الھذا جمعتنا ہلاکت ہو تیرے لئے کیا تو نے ہمیں اس کے لئے جمع کیا تھا اور آپ کو مارنے کیلئے ایک پتھر اٹھالیا، اس پر یہ سورت نازل ہوئی۔- تبت یدا ابی لھب وتب، ید کے صلی معنی ہاتھ کے ہیں، چونکہ انسان کے سب کاموں میں بڑا دخل ہاتھوں کو ہے اس لئے کسی شخص کی ذات اور نفس کو ید سے تعبیر کردیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے بما قدمت یداک، اور بیہقی نے ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ابولہب نے ایک روز لوگوں سے کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد فلاں فلاں کام ہوں گے پھر اپنے ہاتھوں کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ ان ہاتھوں میں ان چیزوں میں سے کچھ بھی آیا نہیں پھر اپنے ہاتھوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا تبا لکما ما اری فیکما شیئا مما قال محمد، یعنی تم برباد ہوجاؤ میں تمہارے اندر ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہیں دیکھتا جن کے ہونے کی خبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دیتے ہیں اس کی مناسبت سے قرآن کریم نے ہلاکت کو ہاتھوں کی طرف منسوب کیا۔- تب، تباب سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں ہلاک و برباد ہو، اس آیت میں پہلا جملہ تبت یدا ابی لھب بطور بددعا کے ہے یعنی ابولہب ہلاک ہوجائے اور دوسرا جملہ یعنی وتب جملہ خبریہ ہے گویا بددعا کے ساتھ اس کا اظر بھی بتلادیا کہ وہ ہلاک ہوگیا اور جملہ بددعا کا مسلمانوں کے شفاء غیظ کے لئے ارشاد فرمایا گیا کیونکہ جس وقت ابولہب نے آپ کی شان میں تباً کہا تو مسلمانوں کے دل کی خواہش تھی کہ وہ اس کے لیے بددعا کریں، حق تعالیٰ نے گویا ان کے دل کی بات خود فرمادی اور ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی کہ یہ بددعا اس کو لگ بھی گئی اور وہ ہلاک ہوگیا۔ قرآن نے اس کی ہلاکت و بربادی کی خبر جو پہلے ہی دے دی تھی اس کا اثریہ ہو کہ واقعہ بدر کے ساتھ روز بعد اسکے طوفان کی گلٹی نکلی جس کو عرب عدسہ کہتے ہیں۔ مرض دوسروں کو لگ جانے کے خوف سے سب گھروالوں نے اس کو الگ ڈال دیا یہاں تک کہ اسی بےبسی کی حالت میں مر گیا اوت تین روز تک اس کی لاش یوں ہی پڑی رہی، جب سڑنے لگا تو مزدوروں سے اٹھوا کر دبوادیا۔ انہوں نے ایک گڑھا کھود کر ایک لکڑی سے اس کی لاش کو گڑھے میں ڈال دیا اوپر سے پتھر بھر دیئے (بیان القران بحوالہ روح) - ما اغنی عنہ مالہ وما کسب، ماکسب کے معنے ہیں جو کچھ اس نے کمایا، اس سے مراد وہ منافع تجارت وغیرہ بھی ہوسکتے ہیں جو مال کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں جیسا کہ خلاصہ تفسیر میں کہا گیا ہے اور اولاد بھی مراد ہوسکتی ہے کیونکہ اولاد کو بھی انسان کی کمائی کہا جاتا ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان اطیب ما اکل الرجل من کسیہ وان ولدہ، من کسیہ یعنی جو کھانا آدمی کھاتا ہے اس میں سب سے زیادہ حلال طیب وہ چیز ہے جو آدمی اپنی کمائی سے حاصل کرے اور آدمی کی اولاد بھی اسکے کسب میں داخل ہے یعنی اولاد کی کمائی کھانا بھی اپنی ہی کمائی سے کھانا ہے (قرطبی) اسی لئے حضرت عائشہ، مجاہد، عطائ، ابن سیرین وغیرہ نے اس جگہ ماکسب کی تفسیر اولاد سے کی ہے ابولہب کو اللہ تعالیٰ نے مال بھی بہت دیا تھا اولاد بھی، یہی دونوں چیزیں ناشکری کی وجہ سے اسکے فخر و غرور اور وطال کا سبب بنیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی قوم کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو ابولہب نے یہ بھی کہا تھا کہ جو کچھ یہ میرا بھتیجہ کہتا ہے اگر وہ حق ہی ہوا تو میرے پاس مال واولاد بہت ہے میں اس کو دے کر اپنی جان بچا لوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ما اغنی عنہ مالہ وماکسب یعنی جب اس کو خدا تعالیٰ کے عذاب نے پکڑا تو نہ اس کا مال کام آیا نہ اولاد، یہ تو حال اس کا دنیا میں ہوا، آگے آخرت کا ذکر ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَہَبٍ وَّتَبَّ۝ ١ ۭ- تبَ- التَبُّ والتَّبَابُ : الاستمرار في الخسران، يقال : تَبّاً له وتَبٌّ له، وتَبَبْتُهُ : إذا قلت له ذلك، ولتضمن الاستمرار قيل : اسْتَتَبَّ لفلان کذا، أي : استمرّ ، وتَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] ، أي : استمرت في خسرانه، نحو : ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ، وَما زادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ [هود 101] ، أي : تخسیر، وَما كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبابٍ [ غافر 37] .- ( ت ب ب ) التب والتبات - ( ض ) کے معنی مسلسل خسارہ میں رہنے کے ہیں کہا جاتا ہے تبالہ ( اللہ اسے خائب و خاسر کرے ( وتبیتہ کسی سے تبالک کہنا ۔ قرآن میں ہے ۔ وتَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹیں یعنی وہ ہمیشہ خسارے میں رہے یہی مفہوم ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] میں پایا جاتا ہے ۔ وَما زادُوهُمْ غَيْرَ تَتْبِيبٍ [هود 101] ان نقصان میں ڈالتے ( یعنی تباہ کرنے ) کے سوا ان کے حق میں اور کچھ نہ کرسکے ۔ وَما كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبابٍ [ غافر 37] اور فرعون کی تدبیر تو بیکار تھی ۔- لهب - اللَّهَبُ : اضطرام النار . قال تعالی: لا ظَلِيلٍ وَلا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ [ المرسلات 31] ، سَيَصْلى ناراً ذاتَ لَهَبٍ [ المسد 3] . واللَّهِيبُ : ما يبدو من اشتعال النار، ويقال للدّخان وللغبار : لَهَبٌ ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] فقد قال بعض المفسّرين :- إنه لم يقصد بذلک مقصد کنيته التي اشتهر بها، وإنما قصد إلى إثبات النار له، وأنه من أهلها، وسمّاه بذلک کما يسمّى المثیر للحرب والمباشر لها : أبا الحرب، وأخا الحرب . وفرس مُلْهِبٌ: شدید العدو تشبيها بالنّار المُلْتَهَبَةِ ، والْأُلْهُوبُ من ذلك، وهو العدو الشّديد، ويستعمل اللُّهَابُ في الحرّ الذي ينال العطشانَ.- ( ل ھ ب ) اللھب ۔ آگ کا شعلہ ۔ قرآن میں ہے : وَلا يُغْنِي مِنَ اللَّهَبِ [ المرسلات 31] اور نہ لپٹ سے بچائیگا ۔ سَيَصْلى ناراً ذاتَ لَهَبٍ [ المسد 3] وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں جلے گا ۔ اللھیب ۔ شعلہ ۔ اور لھب کا لفظ دھوئیں اور غبار پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد 1] ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو ۔ میں بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں ابولہب کے لفظ سے اس کی کنیت ۔۔۔ مراد نہیں ہے ۔ جس کے ساتھ وہ مشہور تھا ۔ بلکہ اس سے اس کے دوزخی ہونے کیطرف اشارہ کرنا مقصود ہے لہذا یہاں اس نام سے اسے موسوم کرنا ایسے ہی ہے ۔ جیسا کہ لڑائی بھڑکانے والے اور ہمیشہ لڑنے والے کو ابوالحرب یا اخرالحرب کہا جاتا ہے ۔ فرس ملھب برق رفتار گھوڑا گویا وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے ۔ اسی سے الھرب ہے جس کے معنی سخت دوڑ کے ہیں ۔ اللھاب ۔ پیاس کی شدت ، اندورنی سوزش جو پیاسی کی وجہ سے محسوس ہ وتی ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جس وقت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ اپنے قریبی کنبہ کو ڈرائیے آپ نے ان کو بلانے کے بعد کلمہ لا الہ الا اللہ کی دعوت دی اس پر ابولہب نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے ہاتھ ٹوٹ جائیں کیا اسی لیے آپ نے ہمیں جمع کیا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ذلیل و خوار ہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة اللھب حاشیہ نمبر : 1 اس شخص کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا ، اور اسے ابو لہب اس لیے کہا جاتا تھا کہ اس کا رنگ بہت چمکتا ہوا سرخ و سفید تھا ۔ لہب آگ کے شعلے کو کہتے ہیں اور ابو لہب کے معنی ہیں شعلہ ۔ یہاں اس کا ذکر اس کے نام کے بجائے اس کی کنیت سے کرنے کے کئی وجوہ ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ زیادہ تر اپنے نام سے نہیں بلکہ اپنی کنیت ہی سے معروف تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس کا نام عبدالعزیٰ ( بندہ عزی ) ایک مشرکانہ نام تھا اور قرآن میں یہ پسند نہیں کیا گیا کہ اسے اس نام سے یاد کیا جائے ۔ تیسرے یہ کہ اس کا جو انجام اس سورہ میں بیان کیا گیا ہے اس کے ساتھ اس کی یہ کنیت ہی زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ کے معنی بعض مفسرین نے ٹوٹ جائیں ابولہب کے ہاتھ بیان کیے ہیں اور وَّتَبَّ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ ہلاک ہوجائے یا وہ ہلاک ہوگیا ۔ لیکن درحقیقت یہ کوئی کوسنا نہیں ہے جو اس کو دیا گیا ہو ، بلکہ ایک پیشینگوئی ہے جس میں آئندہ پیش آنے والی بات کو ماضی کے صیغوں میں بیان کیا گیا ہے ، گویا اس کا ہونا ایسا یقینی ہے جیسے وہ ہوچکی ۔ اور فی الواقع آخر کار وہی کچھ ہوا جو اس سورہ میں چند سال پہلے بیان کیا جاچکا تھا ۔ ہاتھ ٹوٹنے سے مراد ظاہر ہے کہ جسمانی ہاتھ ٹوٹنا نہیں ہے ، بلکہ کسی شخص کا اپنے اس مقصد میں قطعی ناکام ہوجانا ہے جس کے لیے اس نے اپنا پورا زور لگا دیا ہو ۔ اور ابو لہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو زک دینے کے لیے واقعی اپنا پورا زور لگا دیا تھا ۔ لیکن اس سورہ کے نزول پر سات آٹھ سال ہی گزرے تھے کہ جنگ بدر میں قریش کے اکثر و بیشتر وہ بڑے بڑے سردار مارے گئے جو اسلام کی دشمنی میں ابو لہب کے ساتھی تھے ۔ مکہ میں جب اس شکست کی خبر پہنچی تو اس کو اتنا رنج ہوا کہ وہ سات دن سے زیادہ زندہ نہ رہ سکا ۔ پھر اس کی موت بھی نہایت عبرتناک تھی ۔ اسے عدسہ ( ) کی بیماری ہوگئی جس کی وجہ سے اس کے گھر والوں نے اسے چھوڑ دیا ، کیونکہ انہیں چھوت لگنے کا ڈر تھا ۔ مرنے کے بعد بھی تین روز تک کوئی اس کے پاس نہ آیا یہاں تک کہ اس کی لاش سڑ گئی اور اس کی بو پھیلنے لگی ۔ آخر کار جب لوگوں نے اس کے بیٹوں کو طعنے دینے شروع کیے تو ایک روایت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ حبشیوں کو اجرت دے کر اس کی لاش اٹھوائی اور انہی مزدوروں نے اس کو دفن کیا ۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ انہوں نے ایک گڑھا کھدوایا اور لکڑیوں سے اس کی لاش کو دھکیل کر اس میں پھینکا اور اوپر سے مٹی پتھر ڈال کر اسے ڈھانک دیا ۔ اس کی مزید اور مکمل شکست اس طرح ہوئی کہ جس دین کی راہ روکنے کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا ، اسی دین کو اس کی اولاد نے قبول کیا ۔ سب سے پہلے اس کی بیٹی درہ ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ پہنچیں اور اسلام لائیں ، پھر فتح مکہ پر اس کے دونوں بیٹے عتبہ اور معتب حضرت عباس کی وساطت سے حضور کے سامنے پیش ہوئے اور ایمان لاکر انہوں نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: ابو لہب، حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک چچا تھا جو آپ کی دعوتِ اسلام کے بعد آپ کا دُشمن ہوگیا تھا اور طرح طرح سے آپ کو تکلیف پہنچاتا تھا، جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلی بار اپنے خاندان کے لوگوں کو صفا پہاڑ پر جمع فرماکر اُن کو اسلام کی دعوت دی تو ابو لہب نے یہ جملہ کہا تھا کہ : تبا لک الھذا اجمعتنا : یعنی بربادی ہو تمہاری، کیا اس کام کے لئے تم نے ہمیں جمع کیا تھا؟ اس کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی، اور اس میں پہلے تو ابولہب کو بددعا دی گئی ہے کہ بربادی (معاذاللہ) نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ ہاتھ ابو لہب کے برباد ہوں (عربی محاورہ میں ہاتھوں کی بربادی کا مطلب اِنسان کی بربادی ہی ہوتا ہے) پھر فرمایا گیا ہے کہ وہ بربادی ہو ہی گیا یعنی اُس کی بربادی اتنی یقینی ہے جیسے ہو ہی چکی، چنانچہ جنگ بدر کے سات دن بعد اسے طاعون جیسی بیماری ہوئی جسے عدسہ کہتے ہیں، عرب کے لوگ چھوت چھات کے قائل تھے اور جسے ’’عدسہ‘‘ کی بیماری ہوتی، اُسے ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے، چنانچہ وہ اسی حالت میں مرگیا، اور اُس کی لاش میں سخت بدبو پیدا ہوگئی، یہاں تک کہ لوگوں نے کسی لکڑی کے سہارے سے اسے ایک گڑھے میں دفن کیا۔ (روح المعانی)۔