Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 رات کے اندھیرے میں خطرناک درندے اپنی کچھاروں سے اور موذی جانور اپنے بلوں سے اور اسی طرح جرائم پیشہ افراد اپنے مذموم ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نکلتے ہیں ان الفاظ کے ذریعے سے ان تمام سے پناہ طلب کی گئی۔ غاسق، رات وقت داخل ہوجائے، چھا جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] جرائم زیادہ تر رات کی تاریکی میں کیے جاتے ہیں :۔ غَاسِقٍ ۔ غسق بمعنی شفق غائب ہوجانے کے بعد کا اندھیرا۔ اس لحاظ سے غاسق اس ابتدائی رات کو کہتے ہیں کہ جب وہ تاریک ہونے لگتی ہے اور وقب کسی چٹان وغیرہ میں گڑھے کو کہتے ہیں اور وَقَبَ بمعنی گڑھے میں داخل ہو کر غائب ہوجانا اور وَقَبَ الظَّلاَمُ بمعنی اتنی تاریکی چھانا جس کے اندر اشیاء غائب ہوجائیں اور تاریک رات کے شر سے پناہ مانگنے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر گناہ کے کام رات کی تاریکیوں میں کیے جاتے ہیں۔ چوری، ڈاکہ، لوٹ مار، زنا وغیرہ کے مجرم عموماً رات کی تاریکیوں میں ہی ایسے کام کرتے ہیں۔ اور عرب قبائل میں تو دستور ہی یہ تھا کہ جب کسی قبیلے پر لوٹ مار کرنا ہوتی تو رات میں سارا سفر ختم کرلیتے اور صبح کی روشنی نمودار ہوتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم کردیتے تھے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) ومن شر غاسق اذا وقب : اگرچہ ساری مخلوق کے شر سے پناہ مانگنے کے بعد کوئی چیز باقی نہیں رہی جس کے شر سے پناہ مانگی جائے، مگر مخلوق میں سے چند چیزوں کے شر سے خاص طور پر پناہ مانگنے کا سبق دیا گیا، کیونکہ یہ بہت ہی خوفناک ہیں اور ان کے شر سے پناہ مانگنے کی تو بہت ہی ضرورت ہے۔- (٢) ” غاشق “ کا معنی ہے تاریک، سخت اندھیرے والی۔ قاموس میں ہے :” غسق اللیل ای اشتدت ظلمتہ “ ” یعنی ” غسق اللیل “ کا معنی یہ ہے کہ رات کی تاریکی بہت سخت ہوگئی۔ “ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا :(الی غسق الیل) (بنی اسرائیل : ٨٨)” رات کے سخت تاریک ہونے تک۔ “” وقب “ (ض) داخل ہونا، غائب ہونا۔ فراء نے ” غاسق اذا وقب “ کا معنی کیا ہے :” اللیل اذا دخل کل شیء واظلم “” رات جب ہر چیز پر چھا جائے اور تاریک ہوجائے۔ “ تاریک رات کے شر سے خاص طور پر پناہ مانگنے کی تلقین اس لئے کی گئی ہے کہ اندھیری رات میں بیشمار شرور و خطرات ہوتے ہیں، اکثر مجرم ، چور، ڈاکو، زانی، قاتل اور شب خون مارنے والے رات ہی کو نکلتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات ہی میں قتل کرنے کے منصوبے بنائیگئے، تاکہ نہ آپ بچاؤ کرسکیں اور نہ قاتل کا پتا چل سکے۔ جنگلی جانوروں مثلاً شیر، چیتے، بھیڑے وغیرہ اور ح شرارت الارض مثلاً سانپ، بچھو وغیرہ کا خطرہ رات کو زیادہ ہوجاتا ہے اور مچھر، کھٹمل وغیرہ رتا کو جو تکلیف دیتے ہیں سب جانتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی تحقیق کے مطابق اکثر بیماریوں کے جراثیم اندھیرے میں پیدا ہوتے ہیں اور سورج کی روشنی میں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اندھیرے میں وہمی چیزوں کا خوف مزید بڑھ جاتا ہے۔ ان سب پر مزید یہ کہ ان سب شرور کے اندھیرے میں واقع ہونے کی وجہ سے انسان ان سے اپنا بچاؤ بھی نہیں کرسکتا، اس لئے اندھیری رات کی برائیوں سے پناہم انگنے کی تعلیم دی گئی۔- (٣) عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاند دیکھا تو فرمایا :(یا عائشۃ استعیذی باللہ من شر مذا، فان ھذا ھو الغاسق اذا وقب) (ترمذی، تفسیر القرآن، باب ومن سورة المعوذتین : ٣٣٤٦٦، وصححہ الترمذی والالبانی)- ” اے عائشہ اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو، کیونکہ یہی ” غاسق اذا وقب “ ہے۔ “ اس صورت میں ” غاسق “ کا معنی ” اندھیرے والا “ اور ” اذا وقب “ کا معنی ” اذا غاب “ ہے، یعنی ” جب غائب ہوجائے۔ “ شاہ رفیع الدین نے ترجمہ یوں کیا ہے :” اور برائی اندھیرا کرنے والے کی سے، جب وہ چھپ جائے۔ “ یعنی چاند غروب ہو کر اندھیرا پھیلا دیتا ہے۔ بعض مفسرین نے ” غاسق اذا وقب “ سے سورج مراد لیا ہے، کیونکہ سورج غائب ہو کر سخت تاریکی پھیلنے کا باعث بنتا ہے۔ بہرحال ان تفسیروں اور پہلی تفسیر میں کوئی تضاد نہیں ، کیونکہ مراد تاریکی کے شر سے پناہ مانگنا ہی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ۝ ٣ ۙ- غسق - غَسَقُ اللیل : شدّة ظلمته . قال تعالی: إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ [ الإسراء 78] ، والْغَاسِقُ : اللیل المظلم . قال : وَمِنْ شَرِّ غاسِقٍ إِذا وَقَبَ [ الفلق 3] ، وذلک عبارة عن النائبة باللیل کالطارق، وقیل : القمر إذا کسف فاسودّ. والْغَسَّاقُ : ما يقطر من جلود أهل النار، قال :إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25]- ( غ س ق )- غسق اللیل کے معنی ( ابتدائے ) رات کی سخت تاریکی کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ [ الإسراء 78] رات کی تاریکی تک الغاسق تاریک رات قرآن میں ہے ۔: وَمِنْ شَرِّ غاسِقٍ إِذا وَقَبَ [ الفلق 3] اور شب تاریک کی برائی سے جب اسکی تاریکی چھا جائے ۔ اور اس سے مراد رات کے وقت پیش آنے والی مصیبت یا حادثہ کے ہیں جیسے طارق رات کے وقت آنے والا بعض نے کہا کہ غاسق چاند کو کہتے ہیں جب کہ وہ گہن لگ کر سیاہ ہوجائے الغساق دوزخیوں کے جسموں سے بہنے والا لہو یا پیب ۔ قرآن میں ہے :إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25] مگر گرم پانی اور بہتی پیب ۔- - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- وقب - الوَقْبُ کالنّقرة في الشیء، ووَقَبَ : إذا دخل في وَقْبٍ ومنه وَقَبَتِ الشمسُ : غابت . قال تعالی: وَمِنْ شَرِّ غاسِقٍ إِذا وَقَبَ [ الفلق 3] والإِيقَابُ : تغييبُهُ ، والوَقِيبُ : صوتُ قُنْبِ الدّابّةِ ، وقبّبه، وقبّه - ( و ق ب ) الوقب کے اصل معنی چٹان پتھر وغیرہ میں گڑھا کے ہیں ۔ اور وقب ( ض ) کے معنی گڑھے وغیرہ میں داخل ہوکر غائب ہوجانے کے اسی سے وقبت الشمس ہے جس کے معنی آفتاب غروب ہونے کے ہیں ۔ اور وقب الظلام کے معنی ہیں تاریکی چھاگئی اور اشیار اس کے اندر غائب ہوگئیں ، قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمِنْ شَرِّ غاسِقٍ إِذا وَقَبَ [ الفلق 3] اور شب تاریک کی برائی سے جب اس کا اندھیرا چھا جائے ۔ الوقیب گھوڑے کے ذکر ایستادہ ہونے کی اواز ۔ وقبتہ وقبتہ اس نے اسے اکٹھا کرلیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ۔ ” اور (خاص طور پر) اندھیرے کے شر سے جب وہ چھا جائے ۔ “- ظاہر ہے رات کے اندھیرے میں انسانوں ‘ جنوں اور ضرر رساں جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کی صورت میں شر پھیلانے والے عناصر زیادہ فعال اور مستعد ہوجاتے ہیں۔ گویا رات کا اندھیرا بذات خود ایک بہت بڑا شر ہے جس سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا ضروری ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الفلق حاشیہ نمبر : 5 مخلوقات کے شر سے عموما خدا کی پناہ مانگنے کے بعد اب بعض خاص مخلوقات کے شر سے خصوصیت کے ساتھ پناہ مانگنے کی تلقین کی جارہی ہے ۔ آیت میں غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ غاسق کے لغوی معنی تاریک کے ہیں ۔ چنانچہ قرآن میں ایک جگہ ارشاد ہوا ہے اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ نماز قائم کرو زوال آفتاب کے وقت سے رات کے اندھیرے تک ( بنی اسرائیل 78 ) اور وقب کے معنی داخل ہونے یا چھا جانے کے ہیں ۔ رات کی تاریکی کے شر سے خاص طور پر اس لیے پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے کہ اکثر جرائم اور مظالم رات ہی کے وقت ہوتے ہیں ۔ موذی جانور بھی رات ہی کو نکلتے ہیں ۔ اور عرب میں طوائف الملوکی کا جو حال ان آیات کے نزول کے وقت تھا اس میں تو رات بڑی خوفناک چیز تھی ، اس کے اندھیرے میں چھاپہ مار نکلتے تھے اور بستیوں پر غارت گری کے لیے ٹوٹ پڑتے تھے ۔ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے تھے وہ بھی رات ہی کے وقت آپ کو قتل کردینے کی تجویزیں سوچا کرتے تھے تاکہ قاتل کا پتہ نہ چل سکے ۔ اس لیے ان تمام شرور و آفات سے خدا کی پناہ مانگنے کا حکم دیا گیا جو رات کے وقت نازل ہوتی ہیں ۔ یہاں اندھیری رات کے شر سے طلوع فجر کے رب کی پناہ مانگنے میں جو لطیف مناسبت ہے وہ کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک اشکال یہ پیش آتا ہے کہ متعدد صحیح احادیث میں حضرت عائشہ کی یہ روایت آئی ہے کہ رات کو چاند نکلا ہوا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اللہ کی پناہ مگو ، ھذا الفاسق اذا وقت ، یعنی یہ الفاسق اذا وقتب ہے ( احمد ، ترمذی ، نسائی ، ابن جریر ، ابن المنذر ، حاکم ، ابن مردویہ ) اس کی تاویل میں بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اِذَا وَقَبَ کا مطلب یہاں اِذَا خَسَفَ ہے ، یعنی جبکہ وہ گہنا جائے یا چاند گرہن اس کو ڈھانک لے ۔ لیکن کسی روایت میں بھی یہ نہیں آیا ہے کہ جس وقت حضور نے چاند کی طرف اشارہ کر کے یہ بات فرمائی تھی اس وقت وہ گرہن میں تھا ۔ اور لغت عرب میں بھی اِذَا وَقَبَ کے معنی اِذَا خَسَفَ کسی طرح نہیں ہوسکتے ۔ ہمارے نزدیک اس حدیث کی صحیح تاویل یہ ہے کہ چاند نکلنے کا وقت چونکہ رات ہی کو ہوتا ہے ، دن کو اگر چاند آسمان پر ہوتا بھی ہے تو روشن نہیں ہوتا ، اس لیے حضور کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ( یعنی چاند کے ) آنے کے وقت یعنی رات سے خدا کی پناہ مانگو ، کیونکہ چاند کی روشنی مدافعت کرنے والے کے لیے اتنی مددگار نہیں ہوتی جتنی حملہ کرنے والے کے لیے ہوتی ہے ، اور جرم کا شکار ہونے والے کے لیے اتنی مددگار نہیں ہوتی جتنی مجرم کے لیے ہوا کرتی ہے ۔ اسی بنا پر حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ان الشمس اذا غربت انتشرت الشیاطین ، فاکفتوا صبیانکم واحبسوا مواشیکم حتی تذھب فحمۃ العشاء جب سورج غروب ہوجائے تو شیاطین ہر طرف پھیل جاتے ہیں ، لہذا اپنے بچوں کو گھروں میں سمیٹ لو اور اپنے جانوروں کو باندھ رکھو جب تک رات کی تاریکی ختم نہ ہوجائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: اندھیری رات کے شر سے خاص طور پر اس لئے پناہ مانگی گئی ہے کہ عام طور پر جادُوگروں کی کاروائیاں رات کے اندھروں میں ہوا کرتی ہیں۔