2۔ 1 یہ عام ہے اس میں شیطان اور اس کی ذریت، جہنم اور ہر اس چیز سے پناہ ہے جس سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
[٣] جو کچھ کائنات میں موجود ہے وہ سب کچھ اللہ ہی نے پیدا کیا خواہ وہ چیزیں جاندار ہوں یا بےجان۔ اور ہر چیز خواہ کتنی ہی فائدے مند ہو اس کا کچھ نہ کچھ نقصان بھی ہوتا ہے۔ اس آیت میں ہر چیز کے برے یا نقصان دہ پہلو سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے خواہ وہ شر وجود میں آچکا ہو یا اس سے کسی شر کے پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔ اس آیت میں تو ہر چیز کے شر سے پناہ مانگنے کا عمومیت کے ساتھ ذکر ہے۔ البتہ اگلی تین آیات میں ان چند مخصوص چیزوں کا ذکر ہے جن کا شر بہت واضح ہے۔
(١) من شر ما خلق :” اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی “ اس میں ہر مخلوق کے ہر شر سے پناہ مانگ لی گئی ہے۔ کوئی نقصان، تکلیف یا پریشانی باقی نہیں رہی جو اس میں نہ آگئی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ پناہ مانگنے کے لئے یہ بہت ہی جامع سورت ہے، کیونکہ جب بندہ ساری مخلوق کے ہر شر سے بچنے کے لئے اس کے رب کی پناہ میں چلا گیا تو پھر مخلوق میں سے کون ہے جو اسے نقصان پہنچا سکے اور اگر وہ مالک ہی اپنی مخلوق کو نقصان پہنچانے سے نہ روکے تو مخلوق کے شر سے کون بیچ سکتا ہے ؟- (٢) اس آیت میں مخلوق کے اس شر سے بھی پناہ مانگ لی گئی جو پہنچ چکا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ اسے دور کر دے اور اس سے بھی جس کا خوف ہے۔
من شر ما خلق کے لفظ میں ساری مخلوقات کا شرداخل ہے اس لئے یہ کلمہ تمام شرور آفتاب سے پناہ لینے کے لئے کافی تھا مگر اس جگہ تین چیزوں کو ممتاز کر کے ان کے شر سے پناہ مانگنے کا علیحدہ ذکر فرمایا جو اکثر آفات و مصائب کا سبب بنتی ہیں۔ پہلے فرمایا من شرعغاسق اذا وقب اس میں لفظ غاسق غسق سے مشتق ہے جس کے معنی اندھیری کا پھیل جانا اور چھا جانا ہے اس لئے غاسق کے معنی حضرت ابن عسا اور حسن اور مجاہد نے رات کے لئے ہی اور وقب وقوب کے مشتق ہے جس کے معنی اندھیری کے پوری طرح بڑھ جانے کے ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں رات سے جبکہ اس کی اندھیری پوری ہوجاوے رات کی تخصیص کی وجہ یہ ہے کہ یہی وقت جناب و شیاطین اور موذی جانوروں اور حشرات الارض اور چوروں ڈاکوؤں کے پھیلنے اور دشمنوں کے حملہ کرنے کا وقتہ وتا ہے اور جادو کی تاثیر بھی رات میں زیادہ ہوتی ہے صبح ہوتے ہی ان چیزوں کا تسلط ختم ہوجاتا ہے (ابن قیم) دوسری چیز یہ فرمائی کہ ومن شر النفثت فی العقد، نفاثات، نفث سے مشتق ہے جس کے معنی پھونک مارنے کے ہیں۔ اور عقد عقدة کی جمع ہے جس کے معنی گرہ کے ہیں جادو کرنے والے ڈورے وغیرہ میں گرہ لگا کر اس پر جادو کے کلمات پڑھ کر پھونکتے ہیں۔ نفاثات فی العقد کے معنی ہوئے گروہوں پر پھونکنے والیاں مراد جادو کرنے والیاں ہیں اور لفظ نفاثات کا موصوف نفوس بھی ہوسکتا ہے جس میں مرد عورت دونوں داخل ہیں اس صورت میں جادو کرنے والیوں سے مراد جادو کرنے والی جانیں ہوں گی اور ظاہر یہ ہے کہ اس کا موصوف عورتیں ہیں۔ عورتوں کی تخصیص شاید اس لئے کی گئی کہ جادو کا کام عموماً عورتیں کرتی ہیں اور کچھ خلقتہ عورتوں کو اس سے مناسبت بھی زیادہ ہے اور یا اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کرنے کا جو واقعہ ان سورتوں کا سبب نزول ہوا اس میں جادو کرنے والیاں ولید بن اعصم کی لڑکیاں تھیں جنہوں نے باپ کے کہنے سے یہ کام کیا تھا اس لئے اس جادو کی نسبت ان کی طرف کردی گئی اور جادو کرنے والو سے پناہ مانگنے کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کرنے کی یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ سبب نزول یہی جادو کا واقعہ ہے اور یہ بھی کہ اس کا شر اور ضرر اس لئے زیادہ ہے کہ انسان کو اس کی خبر بھی نہیں ہوتی بیخبر ی کی وجہ سے اس کے ازالہ کی طرف توجہ نہیں ہوتی، وہ بیماری سمجھ کردو ادوار میں لگا رہتا ہے اور تکلیف بڑھ جاتی ہے۔- تیسری چیز جو خصوصیت کے ساتھ ذکر کی گئی وہ حاسد اور حسد ہے اس کی تخصیص کی وجہ بھی یہی دونوں ہو سکتی ہیں کیونکہ آپ پر جادو کرنے کا اقدام اسی حسد کے سبب سے ہوا۔ یہود و منافقین آپ کی اور مسلمانوں کی ترقی کو دیکھ کر جلتے تھے اور ظاہری جنگ و قتال میں آپ پر غالب نہیں آسکے تو جادو کے ذریعہ اپنی حسد کی آگ کو بجھانا چاہا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حاسد دنیا میں بیشمار تھے اس لئے بھی خصوصیت سے پناہ مانگی گئی نیز حاسد کا حسد اس کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا وہ ہر وقت اس کو نقصان پہنچانے کے در پے رہتا ہے اس لئے یہ ضرر شدید بھی ہے۔- حسد کہتے ہیں کسی کی نعمت و راحت کو دیکھ کر جلنا اور یہ چاہنا کہ اس سے یہ نعمت زائل ہوجائے چاہے اس کو بھی حاصل نہ ہو، یہ حسد حرام اور گناہ کبیرہ ہے اور یہ سب سے پہلا گناہ ہے جو آسمان میں کیا گیا اور سب سے پہلا گناہ ہے جو زمین میں کیا گیا، کیونکہ آسمان میں ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے حسد کیا اور زمین پر ان کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل سے کیا (قرطبی) حسد سے ملتا جلتا غبطہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کی نعمت کو دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ یہ نعمت مجھے بھی حاصل ہوجائے یہ جائز ہے بلکہ مستحسن ہے۔ ے - یہاں تین چیزوں سے خصوصی پناہ مانگنے کا ذکر ہے مگر پہلی اور تیسری میں تو ایک ایک قید کا ذکر کیا گیا۔ پہلی غاسق کے ساتھ اذا وقب فرمایا اور تیسری میں حاسد کے ساتھ اذا حسد فرمایا اور درمیانی چیز یعنی جادو کرنے والوں میں کوئی قید ذکر نہیں فرمائی۔ سبب یہ ہے کہ جادو کی مضرت عام ہے اور رات کی مضرت اسی وقت ہوتی ہے جب اندھیری پوری ہوجائے، اسی طرح حاسد کا حسد جب تک وہ اپنے حسد کی وجہ سے کسی ایذا پنچانے کا اقدام نہ کرے اس وقت تک تو اس کا نقصان خد اسی کی ذات کو پہنچتا ہے کہ دوسرے کی نعمت کو دیکھ کر جلتا کڑھتا ہے، البتہ محسود کو اس کا نقصان اس وقت پہنچتا ہے جبکہ وہ متقضائی حسد پر عمل کر کے ایذا رسانی کی کوشش کرے اس لئے پہلی اور دوسری چیز میں یہ قیدیں لگا دی گئیں۔
مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ٢ ۙ- شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] ، وقد تقدّم تحقیق الشّرّ مع ذکر الخیر وذکر أنواعه ورجل شَرٌّ وشِرِّيرٌ: متعاط للشّرّ ، وقوم أَشْرَارٌ ، وقد أَشْرَرْتُهُ : نسبته إلى الشّرّ ، وقیل : أَشْرَرْتُ كذا : أظهرته واحتجّ بقول الشاعر :إذا قيل : أيّ الناس شرّ قبیلة ... أشرّت كليبٌ بالأكفّ الأصابعفإن لم يكن في هذا إلّا هذا البیت فإنه يحتمل أنها نسبت الأصابع إلى الشّرّ بالإشارة إليه، فيكون من : أشررته : إذا نسبته إلى الشّرّ ، والشُّرُّ بالضّمّ خصّ بالمکروه، وشَرَارُ النّار : ما تطایر منها، وسمّيت بذلک لاعتقاد الشّرّ فيه، قال تعالی: تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] .- ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں شر کا اصل معنی اور اس کے جملہ اقسام خیر کی بحث میں بیان ہوچکے ہیں ۔ رجل شریر و شریر شریر آدمی و قوم اشرار برے لوگ اشررتہ کسی کی طرف شر کی نسبت کرنا بعض نے کہا ہے کہ اشررت کذا کے معنی کسی چیز کو ظاہر کرنے کے بھی آتے ہیں ۔ اور شاعر کے اس قول سے استدلال کیا ہے ( الطویل ) ( 256 ) اذا قیل ای الناس شر قبیلۃ اشرت کلیب بالاکف الاصابعا جب یہ پوچھا جائے کہ کو نسا قبیلہ سب سے برا ہے تو ہاتھ انگلیوں سے بنی کلیب کی طرف اشارہ کردیتے مگر اس شعر کے علاوہ اس معنی پر اگر اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہاں اشرت کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ کہ ساتھ انگلیوں سے ان کی طرف شر کی نسبت کردیتے ہیں الشر ( بضمہ الشین ) شر مکروہ چیز شرار النار آگ کی چنگاری ۔ آگ کی چنگاری کو شرار اسلئے کہتے ہیں کہ اس سے بھی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے قرآن ؎ میں ہے تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] اس سے آگ کی ( اتنی اتنی بڑی ) چنگاریاں اڑتی ہیں جیسے محل - ما - مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف .- فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع .- فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي - نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] .- الثاني :- نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة - الثالث : الاستفهام،- ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا .- الرّابع : الجزاء نحو :- ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ- الآية [ فاطر 2] . ونحو : ما تضرب أضرب .- الخامس : التّعجّب - نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] .- وأمّا الحروف :- فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده .- الثاني : للنّفي - وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف 31] «1» .- الثالث : الکافّة،- وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو :- إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] ، وعلی ذلك :- قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي .- الرابع : المُسَلِّطَة،- وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو :- «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما .- الخامس : الزائدة- لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء 23] .- ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی - پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں - ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے - اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو - جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ - دوم ما نافیہ ہے - ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے - جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ - چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے - جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ - پانچواں مازائدہ ہے - جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے
آیت ٢ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ۔ ” (میں پناہ میں آتا ہوں) اس کی تمام مخلوقات کے شر سے۔ “- یعنی ” شر “ مستقل طور پر علیحدہ وجود رکھنے والی کوئی چیز نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مختلف مخلوقات کے اندر ہی کا ایک عنصر ہے۔ اس نکتے کو یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے نقص یا عیب سے پاک ہے۔ لیکن اس کی مخلوق اپنے خالق کی طرح کامل نہیں ہوسکتی۔ چناچہ ہر مخلوق کے اندر کمی یا تقصیر و تنقیص کا کوئی نہ کوئی پہلو یا عنصر بالقوہ ( ) موجود ہے۔ جیسے خود انسان کی متعدد کمزوریوں کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ سورة النساء میں فرمایا گیا : وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ۔ کہ انسان بنیادی طور پر کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ سورة بنی اسرائیل میں وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا ۔ کے الفاظ میں انسان کی جلد بازی کا ذکر ہوا۔ سورة المعارج میں اس کی تین کمزوریوں کا ذکر بایں الفاظ ہوا : اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا - اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا - وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا ۔ ” یقینا انسان پیدا کیا گیا ہے تھڑدلا۔ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بہت گھبرا جانے والا ہے۔ اور جب اسے بھلائی ملتی ہے تو بہت بخیل بن جاتا ہے۔ “ - گویا انسان روحانی طور پر اگرچہ احسن تقویم کے درجے میں پیدا کیا گیا ہے ‘ لیکن اس کے حیوانی اور مادی وجود میں مذکورہ خامیوں سمیت بہت سی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح ہر مخلوق میں مختلف کمزوریوں کے متعدد پہلو پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے ’ شر ‘ جنم لیتا ہے۔ چناچہ اس آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ اے پروردگار تیری جس جس مخلوق میں شر کے جو جو پہلو پائے جاتے ہیں میں ان میں سے ہر قسم کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
سورة الفلق حاشیہ نمبر : 4 بالفاظ دیگر تمام مخلوقات کے شر سے میں اس کی پناہ مانگتا ہوں ۔ اس فقرے میں چند باتیں قابل غور ہیں: اول یہ کہ شر کو پیدا کرنے کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی گئی ، بلکہ مخلوقات کی پیدائش کی نسبت اللہ کی طرف اور شر کی نسبت مخلوقات کی طرف کی گئی ہے ۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ ان شرور سے پناہ مانگتا ہوں جو اللہ نے پیدا کیے ہیں ، بلکہ یہ فرمایا کہ ان چیزوں کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو اس نے پیدا کی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے کسی مخلوق کو شر کے لیے پیدا نہیں کیا ہے ۔ بلکہ اس کا ہر کام خیر اور کسی مصلت ہی کے لیے ہوتا ہے ، البتہ مخلوقات کے اندر جو اوصاف اس نے اس لیے پیدا کیے ہیں کہ ان کی تخلیق کی مصلحت پوری ہو ، ان سے بعض اوقات اور بعض اقسام کی مخلوقات سے اکثر شر رونما ہوتا ہے ۔ دوم یہ کہ اگر صرف اسی ایک فقرے پر اکتفا کیا جاتا اور بعد کے فقروں میں خاص قسم کی مخلوقات کے شرور سے الگ الگ خدا کی پناہ مانگنے کا نہ بھی ذکر کیا جاتا تو یہ فقرہ مدعا پورا کرنے کے لیے کافی تھا ، کیونکہ اس میں ساری ہی مخلوقات کے شر سے خدا کی پناہ مانگ لی گئی ہے ۔ اس عام اسعاذے کے بعد چند مخصوص شرور سے پناہ مانگنے کا ذکر خود بخود یہ معنی دیتا ہے کہ ویسے تو میں خدا کی پیدا کی ہوئی ہر مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ، لیکن خاص طور پر وہ چند شرور جن کا ذکر سورہ فلق کی باقی آیات اور سورہ ناس میں کیا گیا ہے ، ایسے ہیں جن سے خدا کی امان پانے کا میں بہت محتاج ہوں ۔ سوم یہ کہ مخلوقات کے شر سے پناہ حاصل کرنے کے لیے موزوں ترین اور موثر ترین استعاذہ اگر کوئی ہوسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ ان کے خالق کی پناہ مانگی جائے ، کیونکہ وہ بہرحال اپنی مخلوق پر غالب ہے ، اور ان کے ایسے شرور کو بھی جانتا ہے جنہیں ہم جانتے ہیں اور ایسے شرور سے بھی واقف ہے جنہیں ہم نہیں جانتے ۔ لہذا اس کی پناہ گویا اس حاکم اعلی کی پناہ ہے جس کے مقابلے کی طاقت کسی مخلوق میں نہیں ہے ، اور اس کی پناہ مانگ کر ہم ہر مخلوق کے ہر شر سے اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں خواہ وہ ہمیں معلوم ہو یا نہ ہو ۔ نیز اس میں دنیا ہی کے نہیں آخرت کے بھی ہر شر سے استعاذہ شامل ہے ۔ چہارم یہ کہ شرط کا لفظ نقصان ، ضرر ، تکلیف اور الم کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور ان اسباب کے لیے بھی جو نقصان و ضرر اور تکلیف و الم کے موجب ہوتے ہیں ۔ مثلا بیماری ، بھوک ، کسی حادثے یا جنگ میں زخمی ہونا ، آگ سے جل جانا ، سانپ بچھو وغیرہ سے ڈسا جانا ، اولاد کی موت کے غم میں مبتلا ہونا ، اور ایسے ہی دوسرے شرور پہلے معنی میں شر ہیں ۔ کیونکہ یہ بجائے خود تکلیف اور اذیت ہیں ۔ بخلاف اس کے مثال کے طور پر کفر ، شرک ، اور ہر قسم کے گناہ اور ظلم دوسرے معنی میں شر ہیں کیونکہ ان کا انجام نقصان اور ضرر ہے اگرچہ بظاہر ان سے فی الوقت کوئی تکلیف نہ پہنچتی ہو ، بلکہ بعض گناہوں سے لذت ملتی یا نفع حاصل ہوتا ہو ۔ پس شر سے پناہ مانگنا ان دونوں مفہومات کا جامع ہے ۔ پنجم یہ کہ شر سے پناہ مانگنے میں دو مفہوم اور بھی شامل ہیں ۔ ایک یہ کہ جو شر واقع ہوچکا ہے ، بندہ اپنے خدا سے دعا مانگ رہا ہے کہ وہ اسے دفع کردے ۔ دوسرے یہ کہ جو شر واقع نہیں ہوا ہے ، بندہ یہ دعا مانگ رہا ہے کہ خدا مجھے اس شر سے محفوظ رکھے ۔