بیماری ، وبا ، جادو اور ان دیکھی بلاؤں سے باؤ کی دعا٭٭ حضرت جابر وغیرہ فرماتے ہیں فلق کہتے ہیں صبح کو ، خود قرآن میں نور جگہ ہے فالق الاصباح ابن عباس سے مروی ہے فلق سے مراد مخلوق ہے ، حضرت کعب احبار فرماتے ہیں فلق جہنم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ۔ لیکن وہ حدیث منکر ہے ۔ یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے ۔ امام بخاری بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے ۔ تمام مخلوق کی برائی سے جسم میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی ۔ غاسق سے مراد رات ہے ۔ اذا وقت یس مراد سورج کا غروب ہو جانا ہے ، یعنی رات جب اندھیرا لئے ہوئے آ جائے ، ابن زید کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو غاسق کہتے ہیں ۔ بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں ۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ غاسق ہے ، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ، بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے ، ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ اور روایت میں ہے کہ غاسق اذا وقب سے یہی مراد ہے ، دونوں قولوں میں با آسانییہ تطبیق ہو سکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آ جائے ، واللہ اعلم ۔ گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں ، حضرت مجاہد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں نہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی یعنی اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفا دے ۔ اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفا بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کر دیا اور ان کی تدبیروں کو بے اثر کر دیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا ، لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفا عطا فرمائی ۔ مسند احمد میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی نے جادہ کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ جادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گر ہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گر ہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا ، صحیح بخاری شریف کتاب الطب میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہا آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے ، حضرت سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے ، جب یہ حالت آپ کی ہو گئی ایک دن آپ فرمانے لگے عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتا دیا دو شخص آئے ایک میری سرہانے ایک پائیتوں کی طرف ، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا ان کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ کہا عبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے ، کہا کس چیز میں؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں ، پھر حضور صلی اللہ علیہ السلام اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے ، میں نے کہا بھی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسے بدلہ لینے چائے آپ نے فرمایا الحمد اللہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفا دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا ، دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کر چکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حم سے بند کر دیا گیا ، یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی ، تفسیر ثعلبی میں حضرت ابن عباس اور حضرت ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہکا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لئے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذرو ان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیما ہوگئے سر کے بال جھڑنے لگے خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہو گیا اور آپ نے حضرت علی حضرت زبیر اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی ، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گر ہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہوگئے ، ادھر جبرائیل علیہ السلام نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گذر چکی ہے ، لوگوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کر دیں آپ نے فرمایا نہیں اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا ۔ یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں واللہ اعلم ۔
1۔ 1 فلَق کے معنی صبح کے ہیں۔ صبح کی تخصیص اس لئے کی کہ جس طرح اللہ تعالیٰ رات کا اندھیرا ختم کر کے دن کی روشنی لاسکتا ہے، وہ اللہ اسی طرح خوف اور دہشت کو دور کر کے پناہ مانگنے والے کو امن بھی دے سکتا ہے۔ یا انسان جس طرح رات کو اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ صبح روشنی ہوجائے گی، اسی طرح خوف زدہ آدمی پناہ کے ذریعے سے صبح کامیابی کے طلوع کا امیدوار ہوتا ہے۔ (فتح القدیر)
[١] فلق کا لغوی مفہوم :۔ فَلَقٌ کے معنی پھٹنا اور الگ ہونا بھی ہے۔ اور پھاڑنا بھی۔ (فَالِقُ الْاِصْبَاحِ 96) 6 ۔ الانعام :96) بمعنی صبح کو پھاڑنے اور ظلمت سے الگ کرنے والا۔ اور اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جو رات کی تاریکی سے صبح کی روشنی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور حقیقت میں دیکھا جائے تو جو چیز بھی ظہور میں آتی ہے۔ وہ تاریکی اور پردہ غیب سے ہی ظہور میں آتی ہے۔ جیسے اس سے پہلی آیت میں فرمایا : (فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى 95) 6 ۔ الانعام :95) یعنی وہ ذات جو زمین کو پھاڑ کر اس سے دانہ اور گٹھلی کی کونپل نکالنے والا۔ اسی طرح انڈے کا چھلکا توڑ کر چوزے کو باہر نکالنے والا۔ یا رحم مادر سے بچہ کو باہر لانے والا۔ زمین یا پتھر کو پھاڑ کر اس سے چشمے جاری کرنے والا۔ حتیٰ کہ اللہ نے ایک ملے جلے مادے کو ہی پھاڑ کر اس سے آسمان و زمین کو الگ الگ کیا اور انہیں وجود میں لایا تھا۔ اس لحاظ سے فالق اور خالِقٌ تقریباً ہم معنی ہیں۔- [٢] اللہ کے علاوہ دوسرے سے پناہ مانگنا شرک ہے :۔ پناہ اس وقت مانگی جاتی ہے جب انسان کو کوئی ایسا خطرہ درپیش ہو جس کی مدافعت کرنے کی وہ اپنے آپ میں ہمت نہ پاتا ہو۔ اور اس ہستی سے پناہ مانگی جاتی ہے جو نہ صرف یہ کہ پناہ مانگنے والے سے زیادہ طاقتور ہو بلکہ اس چیز سے بھی طاقتور ہو جس سے حملہ یا تکلیف کا خطرہ درپیش ہے۔ اور سب سے زیادہ طاقتور اور ظاہری اسباب کے علاوہ باطنی اسباب پر حکمران اللہ کی ذات ہے۔ لہذا پناہ صرف اسی سے مانگنی چاہیے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ ظاہری اسباب مفقود ہوں۔ ایسی صورت میں اللہ کے علاوہ کسی دوسرے سے پناہ مانگنا شرک ہے جیسا کہ دور جاہلیت میں لوگ جب کسی جنگل میں مقیم ہوتے تو اپنے مزعومہ عقائد کے مطابق وہاں کے جنوں کے بادشاہ سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ ہاں اگر ظاہری اسباب کی بنا پر کسی سے پناہ مانگی جائے تو یہ جائز ہے۔ تاہم بھروسہ صرف اللہ کی ذات پر ہی کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ سورة الفلق اور سورة الناس دونوں میں مختلف اشیاء سے اللہ کی پناہ مانگنے کا ذکر ہے۔ اور دونوں کا مضمون باہم ملتا جلتا ہے۔ لہذا ان دونوں سورتوں کو معوذتین کہا جاتا ہے یعنی وہ سورتیں جنہیں پڑھ کر اپنے پروردگار سے پناہ مانگی جاتی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان دونوں سورتوں کو پڑھکر پہلے اپنے ہاتھوں پر پھونکتے پھر ہاتھوں کو جسم کے ہر اس حصے پر پھیرتے تھے جہاں تک ہاتھ پہنچ سکتے تھے۔
(١) قل اعوذ…:” اعوذ “ ” عاد یعوذ عوذاً و معاذا “ (ن) پناہ پکڑنا۔ پناہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کسی چیز سے خوف محسوس کرے اور سمجھے کہ میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو اس سے بچنے کے لئے وہ کسی دوسرے کی حفاظت میں چلا جائے یا کسی چیز کی آڑ لے لے۔ ظاہر ہے پناہ اسی کی لی جاتی ہے جس کے متعلق سمجھا جائے کہ وہ اس خوف ناک چیز سے بچا سکتا ہے۔ پناہ بعض اوقات ایسی چیزوں کی لی جاتی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بعض خوف ناک چیزوں سے بچنے کا سبب بنادیا ہے، مثلاً دشمن سے بچنے کے لئے کسی قلعہ یا خندق یا مورچے وغیرہ کی پناہ لینا اور کسی ظالم سے بچنے کے لئے کسی طاقتور آدمی یا قوم کی پناہ لینا، یہ پناہ کسی بھی چیز کی لی جاسکتی ہے اور بعض اوقات یہ سمجھ کر پناہ لی جاتی ہے کہ وہ خطرات جن میں دنیا کے بچاؤ کے تمام ذرائع و اسباب بےکار ہوجائیں ان میں ف لاں ہستی بچا سکتی ہے۔ سورة فلق اور سورة ناس میں جس پناہ کا ذکر ہے، بلکہ قرآن و حدیث میں جہاں بھی اللہ سے پناہ مانگی گئی ہے اس سے مراد پناہ کی دوسری قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے سے یہ پناہ مانگنا شرک ہے۔ مشرک لوگ اپنے تحفظ کے لئے اللہ کو چھوڑ کر دیوی دیوتاؤں، جنوں، فرشتوں یا پیروں، پیغمبروں کی پناہ لیتے اور ان کو مدد کے لئے پکارتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان سورتوں میں تعلیم دی کہ ایسے تمام خطرات سے بچنے کے لئے میری ان صفات کی پناہ لو جن سے ثابت ہو رہا ہے کہ ایسے تمام خطرات سے میں ہی تمہیں بچا سکتا ہوں۔- (٢) برب الفلق :” فلق یفلق فلقا “ (ض) پھاڑنا۔ یہاں مصدر ” الفقلق “ مفعول ” مفلوق “ کے معنی میں ہے۔ اس کی تفسیر میں معتبر اقوال دو ہیں، پہلا قول جابر بن عبدا للہ (رض) عنہماکا ہے جو ابن ابی حاتم نے حسن سند کے ساتھ بیان کیا ہے، ان کے علاوہ کئی تابعین کا بھی یہی قول ہے کہ ” الفلق “ کا معنی صبح ہے، کیونکہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(فالق الاصباح) (الانعام : ٩٦) ” یعنی وہ رات کی تاریکی کو پھڑا کر صبح لانے والا ہے ۔ “ صبح کے رب کی پناہل ینے کا مطلب یہ ہے کہ جو رب رات کی تاریکی کو دور کر کے روشن صبح لانے والا ہے میں ساری مخلوق کے شر سے اس کی پناہ مانگتا ہوں، کیونکہ جب وہ رات کی تاریکی کو دور کردیتا ہے جس میں بیشمار شرور پائے جاتے ہیں تو اس کے لئے دوسرے شرور کو دور کرنا اور ان سے بچانا تو معمولی بات ہے۔ دوسرا قول ابن عباس (رض) عنہماکا ہے جو طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور ضحاک کا قول بھی یہی ہے کہ ” الفلق “ سے وہ تمام چیزیں مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو پھاڑ کر نکالا ہے، مثلاً زمین سے نباتات ، پہاڑوں سے چشمے، بادلوں سے بارش اور رحم مادر اور انڈوں سے حیوانات۔ ان کے عالوہ جہاں بھی پیدائش کا معاملہ ہے اکثر میں انشقاق (پھٹنے) کا سلسلہ موجود ہے۔ گویا ” الفلق “ کا معنی مخلوق ہے، مطلب یہ ہوگا کہ میں ساری مخلوق کے مالک کی پناہ پکڑتا ہوں کہ وہ مجھے اپنی مخلوق کے شر سے بچا لے۔ یہ معنی زیادہ جامع ہے، اس لئے ترجمہ میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔
سورة الفلق - خلاصہ تفسیر - آپ (اپنے استعازہ یعنی اللہ سے پناہ مانگنے کے لئے اور دو رسوں کو بھی یہ استعاذہ سکھلانے کے لئے جس کا حاصل اللہ پر توکل اور مکمل بھروسہ کی تعلیم ہے۔ یوں) کہئے کہ میں صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں۔ تمام مخلوقات کے شر سے اور (بالخصوص) اندھیری رات کے شر سے جب وہ رات آجاوے (رات میں شرور و آفات کا احتمال ظاہر ہے) اور (بالخصوص گنڈے کی) گروہوں پر پڑھ پڑھ کر پھنکنے والیوں کے شر سے اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرنے لگے (اول تمام مخلوقات کے شر سے پناہ لینے کا ذکر کرنے کے بعد خاص خاص چیزوں کا ذکر شاید بمناسبت مقام یہ ہوا کہ اکثر سحر کی ترتیب اور ترکیب رات کو ہوتی ہے (کذا فی الخازن) تاکہ کسی کو اطلاع نہ ہو اطمینان سے اس کی تکمیل کرسکیں اور گنڈہ پر دم کرنے والی جانوں یا عورتوں کی مناسبت اس لفظ نقاثات کا موصوف نفوس بھی ہو سکتے ہیں جو مرد و عورت دونوں کو شامل ہیں اور عورتیں بھی اس کی موصوف ہو سکتی ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جو یہودیوں نے سحر کیا تھا اس کا اصل منشاء حسد تھا۔ اس طرح سحر کے متعلقہ جتنی چیزیں تھیں سب سے استعاذہ ہوگیا اور باقی شرور آفات کو شامل کرنے کے لئے من شرما خلق فرما دیا اور آیت میں جو اللہ کی صفت رب الفلق یعنی صبح کا مالک ذکر کی گئی حالانکہ اللہ تو صبح اور شام سبھی چیزوں کا رب اور مالک ہے۔ اس تخصیص میں شاید اشارہ اس طرف ہو کہ جیسے اللہ تعالیٰ رات کی اندھیری کا ازالہ کر کے صبح کی روشنی نکال دیتا ہے اسی طرح سحر کا بھی ازالہ کرسکتا ہے۔- معارف و مسائل - یہ سورت فلق اور اس کے بعد کی سورة ناس دونوں سورتیں ایک ساتھ ایک ہی واقعہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حافظ ابن قیم نے ان دونوں سورتوں کی تفسیر یکجا لکھی ہے اس میں فرمایا ہے کہ ان دونوں سورتوں کے منافع اور برکات اور سب لوگوں کو ان کی حاجت و ضرورت ایسی ہے کہ کوئی انسان ان سے مستغنی نہیں ہوسکتا ان دونوں سورتوں کو سحر اور نظر بد اور تمام آفات جسمانی و روحاین کے دور کرنے میں تاثیر عظیم ہے اور حقیقت کو سمجھا جائے تو انسان کو اس کی ضرورت اپنے سانس اور کھانے پینے اور لباس سب چیزوں سے زیادہ ہے اس کا واقعہ مسند احمد میں اس طرح آیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک یہودی نے جادو کردیا تھا جس کے اثر سے آپ بیمار ہوگئے۔ جبرئیل امین نے آ کر آپ کو اطلاع کی کہ آپ پر ایک یہودی نے جادو کیا ہے اور جادو کا عمل جس چیز میں کیا گیا ہے وہ فلاں نوئیں کے اندر ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہاں آدمی بھیجے وہ یہ جادو کی چیز کنوئیں سے نکال لائے اس میں گر ہیں لگی ہوئی تھیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان گرہوں کو کھول دیا اسی وقت آپ بالکل تندرست ہو کر کھڑے ہوگئے (اور اگرچہ جبرئیل (علیہ السلام) نے آپ کو اس یہودی کا نام بتلا دیا تھا اور آپ اس کو جانتے تھے مگر اپنے نفس کے عاملے میں کسی سے انتقام لینا آپ کی عادت نہ تھی اسلئے) عمر بھر اس یہودی سے کچھ نہیں کہا اور نہ کبھی اس کی وموجوگدی میں آپ کے چہرہ مبارک سے کسی شکایت کے آثار پائے گئے (وہ منافق ہونے کی وجہ سے حاضر باش تھا) اور صحیح بخاری کی روایت حضرت عائشہ سے یہ ہے کہ آپ پر ایک یہودی نے سحر کیا تو اس کا اثر آپ پر یہ تھا کہ بعض اوقات آپ محسوس کرتے تھے کہ فلاں کام کرلیا ہے مگر وہ نہیں کیا ہوتا۔ پھر ایک روز آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا ہے کہ میری بیماری کیا ہے اور فرمایا کہ (خواب میں) دو شخص آئے، ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا، ایک پاؤں کی طرف، سرہانے والے نے دوسرے سے کہا کہ ان کو کیا تکلیف ہے، دوسرے نے کہا کہ یہ محسور ہیں، اس نے پوچھا کہ سحر ان پر کس نے کیا ہے ؟ تو اس نے جواب دیا کہ لبیدین اعصم نے جو یہودیوں کا حلیف منافق ہی اس نے پوچھا کہ کس چیز میں جادو کیا ہے، اس نے بتلایا کہ ایک کنگھے اور اس کے دندانوں میں، پھر اس نے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے بتلایا کہ کھجور کے اس غلاف میں جس میں کھجور کا پھل پیدا ہوتا ہے برذروان (ایک کنوئیں کا نام ہے) میں ایک پتھر کے نیچے مدفون ہے۔ آپ اس کنوئیں پر تشریف لے گئے اور اس کو نکال لیا، اور فرمایا کہ مجھے خواب میں یہی کنواں دکھلایا گیا تھا۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ آپ نے اس کا اعلان کیوں نہ کردیا (کہ فلاں شخص نے یہ حرکت کی ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے اللہ نے شفا دے دی اور مجھے یہ پسند نہیں کہ میں کسی شخص کے لئے کسی تکلیف کا سبب بنوں (مطلب یہ تھا کہ اس کا اعلان ہوتا تو لوگ اس کو قتل کردیتے یا تکلیف پہنچاتے) اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ آپ کا یہ مرض چھ مہینے تک رہا اور بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ جن صحابہ کرام کو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ کام لبیدین اعصمم نے کیا ہے انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم اس خبیث کو کیوں قتل نہ کردیں، آپ نے وہی جواب دیا جو صدیقہ عائشہ کو دیا تھا اور امام ثعلبی کی روایت میں ہے کہا یک لڑکا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کرتا تھا، اس منافقع یہودی نے اس کو بہلا پھسلا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کنگھا اور کچھ اس کے دندانے اس سے حاصل کر لئے اور ایک تانت کے تار میں گیارہ گرہیں لگائیں، ہر گرہ میں ایک سوئی لگائی، کنگھے کے ساتھ اس کو کھجور کے پھل کے غلاف میں رکھ کر ایک کنوئیں میں پتھر کے نیچے دبا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دو سورتیں نازل فرمائیں جن میں گیارہ آیتیں ہیں، آپ ہر گزہ پر ایک ایک آیت پڑھ کر ایک ایک کھولتے رہے یہاں تک کہ سب گرہیں کھل گئیں اور آپ سے اچانک ایک بوجھ سا اتر گیا (یہ سب روایتیں تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں۔ ) - سخر کے اثر سے متاثر ہوجانا نبوت و رسالت کے منافی نہیں :۔ جو لوگ سحر کی حقیقت سے ناواقف ہیں ان کو تعجب وتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر کیسے ہوسکتا ہے۔ سحر کی حقیقت اور اس کے اقسام و احکام پوری تفصیل کے ساتھ سورة بقرہ کی تفسیر معارف القرآن جلد اول ص 217 تا 223 میں بیان کئے جا چکے ہیں وہاں دیکھ لئے جائیں۔ خلاصہ اس کا جس کا جاننا یہاں ضروری ہے اتنا ہے کہ سحر کا اثر بھی اسباب طبعیہ کا اثر ہوتا ہے جیسے آگ سے جلنا یا گرم ہونا، پانی سے سرد ہونا۔ بعض اسباب طبعیہ سے بخار آجانا یا مختلف قسم کے درود و امراض کا پیدا ہوجانا ایک امر طبعی ہے جس سے پیغمبر و انبیاء مستثنیٰ نہیں ہوتے اسی طرح سحر و جادو کا اثر بھی اسی قسم سے ہے اس لئے کوئی بعید نہیں۔- معوذتین ہر قسم کی دنیوی اور دینی آفات سے حفاظت کا قلعہ ہیں، ان کے فضائل :۔ یہ تو ہر مومن کا عقیدہ ہے کہ دنیا و آخرت کا ہر نفع نقصان اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے بغیر اس کی مشیت کے کوئی کسی کو ایک ذرہ کا نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا تو دنیا و آخرت کی تمام آفات سے محفوظ رہنے کا اصل ذریعہ ایک ہی کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کی پناہ میں دیدے اور اپنے عمل سے اس کی پناہ میں آنے کے قابل بننے کی کوشش کرے۔ ان دونوں سورتوں میں پہلی یعنی سورة فلق میں تو دنیاوی آفات سے اللہ کی پناہم انگنے کی تعلیم ہے اور دوسری سورت یعنی سورة ناس میں اخروی آفات سے بچنے کے لئے اللہ کی پناہ مانگی گئی ہے۔ مستند احادیث میں ان دونوں سورتوں کے بڑے فضائل اور برکات منقول ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عقبہ بن عامر کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تمہیں کچھ خبر ہے کہ آج کی رات اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسی آیات نازل فرمائی ہیں کہ ان کی مثل نہیں دیکھی یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس اور ایک روایت میں ہے کہ تو رات۔ انجیل اور زبور اور قرآن میں بھی ان کی مثل کوئی دوسری سورت نہیں ہے۔ ایک دوسرے روایت انہی حضرت عقبہ سے ہے کہ ایک سفر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو معوذتین پڑھائی اور پھر مغرب کی نماز میں انہی دونوں سورتوں کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا کہ ان سورتوں کو سونے کے وقت بھی پڑھا کرو اور پھر اٹھنے کے وقت بھی (رواہ النسائی) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ان دونوں سورتوں کو ہر نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین فرمائی (رواہ ابو داؤد النسائی) - اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب کوئی بیماری پیش آتی تو یہ دونوں سورتیں پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر دم کر کے سارے بدن پر پھیر لیتے تھے پھر جب مرض وفات میں آپ کی تکلیف بڑھی تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ کے ہاتھوں پر دم کردیتی تھی آپ اپنے تمام بدن پر پھیر لتے تھے۔ میں یہ کام اس لئے کرتی تھی کہ حضرت کے مبارک ہاتھوں کا بدل میرے ہاتھ نہ ہو سکتے تھے (رواہ الامام مالک) (یہ سب روایتیں تفسیر ابن کثیر سے نقل کی گئی ہیں) اور حضرت عبداللہ بن حبیب سے روایت ہے کہ ایک رات میں بارش اور سخت اندھیری تھی ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کرنے کے لئے نکلے، جب آپ کو پا لیا تو آپ نے فرمایا کہ کہو، میں نے عرض کیا کہ کیا کہوں، آپ نے فرمایا قل ہو اللہ احد اور معوذتین پڑھو، جب صبح ہو اور جب شام ہو تین مرتبہ یہ پڑھنا تمہارے لیے ہر تکلیف سے امان ہوگا (رواہ الترمذی ابو داؤد و النسائی۔ مظہری) - خلاصہ یہ ہے کہ تمام آفات سے محفوظ رہنے کے لئے یہ دو سورتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا معمول تھیں۔ آگے سورت کے الفاظ کے ساتھ تفسیر دیکھئے۔- قل اعوذ برب الفلق فلق کے لفظی معنے پھٹنے کے ہیں مراد رات کی پوپھٹنا اور صبح کا نمودار ہونا جیسا ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی صفت فالق الاصباح آئی ہے۔ اس کلمہ میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات میں سے اس کو اختیار کرنے کی حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ رات کی اندھیری اکثر شرور و آفات کا سبب بنتی ہے اور صبح کی روشنی اس کو دور کردیتی ہے اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں یہ اشارہ ہے کہ جو اس کی پناہ مانگے گا اللہ تعالیٰ اس کی تمام آفات کو دور فرما دے گا (مظہری) - لفظ شر کے معنی از علامہ ابن قیم :۔ من شرما خلق، علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ لفظ ظر دو چیزوں کے لئے عام اور شامل ہے۔ ایک آلام و آفات، جن سے براہ راست انسان کو رنج و تکلیف پہنچتی ہے دوسرے وہ چیزیں جو آلام و آفات کے موجباب اور اسباب ہیں۔ اس دوسری قسم میں کفر و شرک اور تمام معاصی بھی لفظ شر کے مفہوم میں داخل ہیں۔ قرآن و حدیث میں جن چیزوں سے پناہ کا ذکر آیا ہے وہ ان دونوں قسموں سے کسی ایک میں داخل ہوتی ہیں کہ یا تو وہ خود آفت یا مصیبت ہوتی ہیں یا اس کے لئے سبب موجب ہوتی ہیں۔ نماز کے آخر میں جو دعا، استعاذہ مسنون ہے اس میں چار چیزیں مذکورہ ہیں۔ عذاب قبر، عذاب نار، فتنہ المحیاو الممات ان میں پہلی دو چیزیں خو دصمیبت و عذاب ہیں اور آخری دو چیزیں مصیبت و عذاب کے اسباب ہیں۔
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ١ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- فلق - الفَلْقُ : شقّ الشیء وإبانة بعضه عن بعض . يقال : فَلَقْتُهُ فَانْفَلَقَ. قال تعالی: فالِقُ الْإِصْباحِ- [ الأنعام 96] ، إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] ، فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] ، وقیل للمطمئنّ من الأرض بين ربوتین : فَلَقٌ ، وقوله : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [ الفلق 1] ، أي : الصّبح، وقیل : الأنهار المذکورة في قوله : أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً وَجَعَلَ خِلالَها أَنْهاراً [ النمل 61] ، وقیل : هو الکلمة التي علّم اللہ تعالیٰ موسیٰ فَفَلَقَ بها البحر، والْفِلْقُ : الْمَفْلُوقُ ، کالنّقض والنّكث للمنقوض والمنکوث، وقیل الْفِلْقُ : العجب، والْفَيْلَقُ كذلك، والْفَلِيقُ والْفَالِقُ : ما بين الجبلین وما بين السّنامین من ظهر البعیر .- ( ف ل ق ) الفلق ( ض ) کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے اور اس کے ایک ٹکڑے کو دوسرے سے الگ کرنے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ فلقتہ میں اسے پھاڑ دیا فانفلق چناچہ وہ چیز پھٹ گئ۔ قرآن میں ہے : فالِقُ الْإِصْباحِ [ الأنعام 96] وہی رات کے اندھیرے سے ) صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے ۔إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام 95] بیشک خدا ہی والے اور کٹھلی کو پھاڑ کر ان سے درخت وغیرہ اگاتا ہے ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑہ یوں ہوگیا یا بڑا پہاڑ ہے ۔ اور دوٹیلوں کے درمیان پست جگہ کو بھی فلق کہاجاتا ہ اور آیت کریمہ : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [ الفلق 1] کہو کہ میں صبح پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔ میں فلق سے مراد صبح ہے بعض نے کہا ہے کہ اس سے نہریں مراد ہیں جن کا آیت کریمہ : أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً وَجَعَلَ خِلالَها أَنْهاراً [ النمل 61] بھلا کس نے زمین کو قراسگاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں ۔ میں تذکرہ پایا جاتا ہے ۔ اور بعض نے وہ کلمہ مراد لیا ہے جس کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تعلیم دی تھی اور انہوں نے اس کی برکت سے سمندر پھاڑ دیا تھا اور فلق بمعنی مفلوق ہے جس طرح کہ نقض بمعنی منقوض اور نکث بمعنی منکوث آتا ہے بعض نے کہا ہے کہ فلق اور فیلق کے معنی تعجب کے ہیں اور دو پہاڑوں کی درمیانی جگہ کو فیلق وفالق کہاجاتا ہے اور اونٹ کی دوکہاں کے درمیانی حصہ کو بھی فلیق وفالق کہتے ہیں ۔
معوذتین کی فضیلت - ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں عبداللہ بن محمد التفیلی نے، انہیں محمد بن سلمہ نے محمد بن اسحاق سے، انہوں نے سعید بن ابی سعید المقبری سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عقبہ بن عامر (رض) سے کہ میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حجفہ اور ابواء کے درمیان سفر کررہا تھا کہ اچانک تیز آندھی چلی اور اندھیرا چھا گیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعوذ برب الفلق اور اعوب برب الناس کی سورتیں پڑھنی شروع کردیں اور فرمایا عقبہ ان دونوں سورتوں کے ذریعے تعوذ کیا کرو ، کیونکہ ان دونوں سورتوں کے ذریعے پناہ مانگنے والے کی طرح کوئی پناہ مانگنے والا نہیں ہوتا۔ “- حضرت عقبہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھانے کے دوران بھی ان سورتوں کی قرات کرتے سنا ہے۔ جعفر بن محمد سے مروی ہے ، انہوں نے کہا کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ کو معوذتین پڑھ کر پھونک ماری۔- حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا ” مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نظر بد سے بچنے کے لئے جھاڑ پھونک کرنے کا حکم دیا تھا۔ شعبی نے حضرت بریدہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا رقبۃ الامن عین اوحمی صرف نظر بد اور بخار کے اندر جھاڑ پھونک کی جاتی ہے) حضرت انس (رض) نے بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی قسم کی روایت کی ہے۔- جھاڑ پھونک ، تعویذ اور جادو سب شرک ہیں - ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں دائود نے، انہیں محمد بن العلاء نے، انہیں ابو معاویہ نے، انہیں اعمش نے عمرو بن مرہ سے ، انہوں نے یحییٰ الجزار سے ، انہوں نے عبداللہ کی بیوی زینب کے بھتیجے سے، انہوں نے زینب سے ، انہوں نے اپنے شوہر عبداللہ سے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ (ان الرقی ولتمائم والتولۃ شرک بیشک جھاڑ پھونک، تعویذ اور جادو سب شرک ہیں)- بیوی نے یہ سن کر کہا۔ آپ یہ کیوں کہتے ہیں، خدا کی قسم میری آنکھوں میں تکلیف ہوجاتی تھی، میں فلاں یہودی کے پاس جاتی اور وہ پھونک مارتا تو میری آنکھ کو سکون ہوجاتا۔ “ حضرت عبداللہ نے یہ سن کر کہا۔ یہ شیطان کی کارستانی تھی، شیطان اپنا ہاتھ آنکھ میں لگا دیتا۔ جب یہودی پھونک مارتا تو شیطان اپنا ہاتھ روک لیتا۔ “- تمہارے لئے یہی کہنا کافی ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہا کرتے تھے (اذھب الباس، رب الناس اشف اتت الشافی لا شفاء الا شفاء ک شفاء لا یغا دروسقما) اے لوگوں کے رب تکلیف دور کردے، شفا عطا فرما تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں۔ ایسی شفا دے جس سے کوئی بیماری باقی نہ رہے) ۔
(1 ۔ 5) ۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرمائیے میں صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تمام مخلوقات کے شر سے اور رات کے شر سے جب وہ آکر چھا جائے اور گرہوں پر پڑھ پڑھ پھونک مارنے والی جادو گرنیوں کے شر سے اور حاسد کے شر سے لبید بن اعصم یہودی نے حضور پر حسد میں جادو کردیا تھا اس کو رفع کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سورتیں نازل کیں۔
آیت ١ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ۔ ” کہو کہ میں پناہ میں آتا ہوں صبح کے رب کی۔ “- فَلَقَ یَفْلِقُکے معنی کسی چیز کو پھاڑنے کے ہیں۔ سورة الانعام کی آیت ٩٦ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے حوالے سے فَالِقُ الْاِصْبَاحِ کے الفاظ آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رات کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے سپیدئہ سحر نمودار کرتا ہے۔ البتہ اسی سورت کی آیت ٩٥ میں یہ لفظ دانوں اور گٹھلیوں وغیرہ کے پھاڑنے کے مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے : اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے زمین کے اندر دانوں یا گٹھلیوں کو پھاڑتا ہے تو پودوں یا درختوں کی پتیاں اور جڑیں نکلتی ہیں۔ چناچہ فلق سے مراد یہاں صرف صبح ہی نہیں بلکہ ہر وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عدم کا پردہ چاک کر کے وجود بخشا ہے۔ جیسے کہ اگلی آیت میں واضح کردیا گیا :
سورة الفلق حاشیہ نمبر : 1 چونکہ قُلْ ( کہو ) کا لفظ اس پیغام کا ایک حصہ ہے جو تبلیغ رسالت کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے ، اس لیے اگرچہ اس ارشاد کے اولین مخاطب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ، مگر آپ کے بعد ہر مومن بھی اس کا مخاطب ہے ۔ سورة الفلق حاشیہ نمبر : 2 پناہ مانگنے کے فعل میں لازم تین اجزاء شامل ہوتے ہیں ۔ ایک بجائے خود پناہ مانگنا ۔ دوسرے پناہ مانگنے والا ۔ تیسرا وہ جس کی پناہ مانگی جائے ۔ پناہ مانگنے سے مراد کسی چیز سے خوف محسوس کر کے اپنے آپ کو اس سے بچانے کے لیے کسی دوسرے کی حفاظت میں جانا ، یا اس کی آڑ لینا ، یا اس سے لپٹ جانا یا اس کے سایہ میں چلا جانا ہے ۔ پناہ مانگنے والا بہرحال وہی شخص ہوتا ہے جو محسوس کرتا ہے کہ جس چیز سے وہ ڈر رہا ہے اس کا مقابلہ وہ خود نہیں کرسکے گا بلکہ وہ اس کا حاجت مند ہے کہ اس سے بچنے کے لیے دوسرے کی پناہ لے ۔ پھر جس کی پناہ مانگی جاتی ہے وہ لازما کوئی ایسا ہی شخص یا وجود ہوتا ہے جس کے متعلق پناہ لینے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس خوفناک چیز سے وہی اس کو بچا سکتا ہے ۔ اب پناہ کی ایک قسم تو وہ ہے جو قوانین طبعی کے مطابق عالم اسباب کے اندر کسی محسوس مادی چیز یا شخص یا طاقت سے حاصل کی جاتی ہے ۔ مثلا دشمن کے حملہ سے بچنے کے لیے کسی قلعہ میں پناہ لینا ، یا گولیوں کی بوجھاڑ سے بچنے کے لیے خندق یا کسی دمدمے یا کسی دیوار کی آڑ لینا ، یا کسی طاقتور ظالم سے بچنے کے لیے کسی انسان یا قوم یا حکومت کے پاس پناہ لینا ، یا دھوپ سے بچنے کے لیے کسی درخت یا عمارت کے سایہ میں پناہ لینا ۔ بخلاف اس کے دوسری قسم وہ ہے جس میں ہر طرح کے خطرات کی مادی ، اخلاقی یا روحانی مضرتوں اور نقصان رساں چیزوں سے کسی فوق الفطری ہستی کی پناہ اس عقیدے کی بنا پر مانگی جاتی ہے کہ وہ ہستی عالم اسباب پر حکمراں ہے اور بالا تر از حس و ادراک طریقے سے وہ اس شخس کی ضرور حفاظت کرسکتی ہے جو اس کی پناہ ڈھونڈ رہا ہے ۔ پناہ کی یہ دوسری قسم ہی نہ صرف سورہ فلق اور سورہ ناس میں مراد ہے بلکہ قرآن اور حدیث میں جہاں بھی اللہ تعالی کی پناہ مانگنے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد یہی خاص قسم کی پناہ ہے ۔ اور عقیدہ توحید کا لازمہ یہ ہے کہ اس نوعیت کا تعوذ یا استعاذہ ( پناہ مانگنا ) اللہ کے سوا کسی اور سے نہ کیا جائے ۔ مشرکین اس نوعیت کا تحفظ اللہ کے سوا دوسری ہستیوں مثلا جنوں یا دیویوں اور دیوتاؤں سے مانگتے تھے اور آج بھی مانگتے ہیں ۔ مادہ پرست لوگ اس کے لیے بھی مادی ذرائع و وسائل ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ، کیونکہ وہ کسی فوق الفطری طاقت کے قائل نہیں ہیں ۔ مگر مومن ایسی تمام آفات و بلیات کے مقابلے میں جن کو دفع کرنے پر وہ خود اپنے آپ کو قادر نہیں سمجھا ، صرف اللہ کی طرف رجوع کرتا اور اسی کی پناہ مانگتا ہے ، مثال کے طور پر مشرکین کے متعلق قرآن میں بیان کیا گیا ہے: وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ ۔ اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے ۔ ( الجن6 ) اور اس کی تشریح کرتے ہوئے ہم سورہ جن حاشیہ 7 میں حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت نقل کرچکے ہیں کہ مشرکین عرب کو جب رات کسی سنسان وادی میں گزارنی پڑتی تو وہ پکار کر کہتے ہم اس وادی کے رب کی ( یعنی اس جن کی جو اس وادی پر حکمران ہے یا اس وادی کا مالک ہے ) پناہ مانگتے ہیں ۔ بخلاف اس کے فرعون کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ حضرت موسی کی پیش کردہ عظیم نشانیوں کو دیکھ کر فَتَوَلّٰى بِرُكْنِهٖ وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا ۔ ( الذاریات ، 39 ) لیکن خدا پرستوں کا رویہ قرآن میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس چیز کا بھی وہ خوف محسوس کرتے ہیں ، خواہ وہ مادی ہو یا اخلاقی یا روحانی ، اس کے شر سے بچنے کے لیے وہ خدا کی پناہ مانگتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت مریم کے متعلق بیان ہوا ہے کہ جب اچانک تنہائی میں خدا کا فرشتہ ایک مرد کی شکل میں ان کے سامنے آیا ( جبکہ وہ نہ جانتی تھیں کہ یہ فرشتہ ہے ) تو انہوں نے کہا قَالَتْ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِيًّا ۔ اگر تو خدا سے ڈرنے والا آدمی ہے تو میں تجھ سے خدائے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں ( مریم 18 ) حضرت نوح نے جب اللہ تعالی سے ایک بے جا دعا کی اور جواب میں اللہ کی طرف سے ان پر ڈانٹ پڑی تو انہوں نے فورا عرض کیا رَبِّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْـــَٔـلَكَ مَا لَيْسَ لِيْ بِهٖ عِلْمٌ ۔ میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں تجھ سے ایسی چیز کی درخواست کروں جس کا مجھے علم نہیں ( ہود 47 ) حضرت موسی نے جب بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے کہا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں ، تو انہوں نے جواب میں فرمایا اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں ( البقرہ 67 ) یہی شان ان تمام تعوذات کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتب حدیث میں منقول ہوئے ہیں ۔ مثال کے طور پر حضور کی حسب ذیل دعاؤں کو ملاحظہ کیجے: عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول فی دعائہ اللھم انی اعوذبک من شر ما عملت ومن شر ما لم اعمل ( مسلم ) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں ان کاموں کے شر سے جو میں نے کیے اور ان کاموں کے شر سے جو میں نے نہیں کیے ( یعنی اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کے برے نتیجے سے پناہ مانگتا ہوں ، اور اگر کوئی کام جو کرنا چاہیے تھا میں نے نہیں کیا تو اس کے نقصان سے بھی پناہ مانگتا ہوں ، یا اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ جو کام نہ کرنا چاہیے وہ میں کبھی کر گزروں ) عن ابن عمر کان من دعاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللھم انی اعوذبک من زوال نعمتک ، وتحول عافیتک ، وفجأۃ نقمتک و جمیع سخطک ۔ ( مسلم ) ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تیری جو نعمت مجھے حاصل ہے وہ چھن جائے ، اور تجھ سے جو عافیت مجھے نصیب ہے وہ نصیب نہ رہے ، اور تیرا غضب یکایک ٹوٹ پڑے ، اور پناہ مانگتا ہوں تیری ہر طرح کی ناراضی سے ۔ عن زید بن ارقم کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع ومن نفس لا تشبع ومن دعوۃ لا یستجاب ( مسلم ) زید بن ارقم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نافع نہ ہو ، اس دل سے جو تیرا خوف نہ کرے ، اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو ، اور اس دعا سے جو قبول نہ کی جائے ۔ عن ابی ھریرۃ کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من الجوع فانہ بئس الضجیع و اعوذبک من الخیانۃ فانہ بئست الطانۃ ۔ ( ابو داؤد ) حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کیونکہ وہ بدترین چیز ہے جس کے ساتھ کوئی رات گزارے ، اور تیری پناہ مانگتا ہوں خیانت سے کیونکہ وہ بڑی بد باطنی ہے ۔ عن انس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول اللھم انی اعوذبک من البرص والجنون والجذام وسیء الاسقام ( ابوداؤد ) حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں کوڑھ اور جنون اور جذام اور تمام بری بیماریوں سے ۔ عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یدعو بھؤلاء الکلمات اللھم انی اعوذبک من فتنۃ النار ومن شر الغنی والفقر ( ترمذی و ابو داؤد ) حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حضور ان کلمات کے ساتھ دعا مانگا کرتے تھے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں آگ کے فتنے سے اور مالداری اور مفلسی کے شر سے ۔ عن قطبۃ بن مالک کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من منکرات الاخلاق والاعمال والاھواء ( ترمذی ) قطبہ بن مالک کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خدایا میں برے اخلاق اور برے اعمال اور بری خواہشات سے تیری پناہ مانگتا ہوں شکل بن حمید نے حضور سے عرض کیا مجھے کوئی دعا بتائیے ۔ فرمایا کہو: اللھم انی اعوذبک من شر سمعی و من شر بصری و من شر لسانی ومن شر قلبی و من منیی ۔ ( ترمذی و ابوداؤد ) خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنی سماعت کے شر سے ، اور اپنی بصارت کے شر سے ، اور اپنی زبان کے شر سے ، اور اپنے دل کے شر سے ، اور اپنی شہوت کے شر سے ۔ عن انس بن مالک کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول اللھم انی اعوذبک من العجز والکسل والجبن والھرم والبخل و اعوذبک من عذاب القبر من فتنۃ المحیا والممات ( وفی روایۃ لمسلم ) و ضلع الدین و غلبۃ الرجال ( بخاری و مسلم ) انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے خدایا میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی اور سستی اور بزدلی اور بڑھاپے اور بخ سے ، اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب اور زندگی و موت کے فتنے سے ( اور مسلم کی ایک روایت میں یہ بھی ہے ) اور قرض کے بوجھ سے اور اس بات سے کہ لوگ مجھ پر غالب ہوں ۔ عن خولۃ بنت حکیم السلمیۃ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول من نزل منزلا ثم قال اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق لم یضرہ شیء حتی یرتحل من ذلک المنزل ( مسلم ) خولہ بنت حکیم سلمیہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص کسی نئی منزل پر اترے اور یہ الفاظ کہے کہ میں اللہ کے بے عیب کلمات کی پناہ مانگتا ہوں مخلوقات کے شر سے ، تو اسے کوئی چیز نقصان نہ پہنچائے گی یہاں تک کہ وہ اس منزل سے کوچ کر جائے ۔ یہ حضور کے چند تعوذات بطور نمونہ ہم نے احادیث سے نقل کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا کام ہر خطرے اور شر سے خدا کی پناہ مانگنا ہے نہ کہ کسی اور کی پناہ ، اور نہ اس کا یہ کام ہے کہ خدا سے بے نیاز ہوکر وہ اپنے آپ پر بھروسہ کرے ۔ سورة الفلق حاشیہ نمبر : 3 اصل میں لفظ رَبِّ الْفَلَقِ استعمال ہوا ہے ۔ فلق کے اصل معنی پھاڑنے کے ہیں ۔ مفسرین کی عظیم اکثریت نے اس سے مراد رات کی تاریکی کو پھاڑ کر سپیدی صبح نکالنا لیا ہے کیونکہ عربی زبان میں فلق الصبح کا لفظ طلوع صبح کے معنی میں بکثرت استعمال ہوتا ہے ، اور قرآن میں بھی اللہ تعالی کے لیے فالق الاصباح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، یعنی وہ جو رات کی تاریکی کو پھاڑ کر صبح نکالتا ہے ( الانعام 96 ) فلق کے دوسرے معنی خلق بھی لیئے گئے ہیں ، کیونک دنیا میں جتنی چیزیں بھی پیدا ہوتی ہیں وہ کسی نہ کسی چیز کو پھاڑ کر نکلتی ہیں ۔ تمام نباتات بیج اور زمین کو پھاڑ کر اپنی کونپل نکالتے ہیں ۔ تمام حیوانات یا تو رحم مادر سے برآمد ہوتے ہیں ، یا انڈا توڑ کر نکلتے ہیں ، یا کسی اور مانع ظہور چیز کو چیر کر باہر آتے ہیں ۔ تمام چشمے پہاڑ یا زمین کو شق کر کے نکلتے ہیں ۔ دن رات کا پردہ چاک کر کے نمودار ہوتا ہے ، بارش کے قطرے بادلوں کو چیر کر زمین کا رخ کرتے ہیں ، غرض موجودات میں سے ہر چیز کسی نہ کسی طرح کے انشقاق کے نتیجے میں عدم سے وجود میں آتی ہے ، حتی کہ زمین اور سارے آسمان بھی پہلے ایک ڈھیر تھے جس کو پھاڑ کر انہیں جدا جدا کیا گیا ، كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا ( الانبیاء 30 ) پس اس معنی کے لحاظ سے فلق کا لفظ تمام مخلوقات کے لیے عام ہے ۔ اب اگر پہلے معنی لیے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ میں طلوع صبح کے مالک کی پناہ لیتا ہوں ۔ اور دوسرے معنی لیے جائیں تو مطلب ہوگا میں تمام خلق کے رب کی پناہ لیتا ہوں ۔ اس جگہ اللہ تعالی کا اسم ذات چھوڑ کر اس کا اسم صفت رب اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ پناہ مانگنے کے ساتھ اللہ تعالی کے رب یعنی مالک و پروردگار اور آقا و مربی ہونے کی صفت زیادہ مناسبت رکھتی ہے ۔ پھر رَبِّ الْفَلَقِ سے مراد اگر طلوع صبح کا رب ہو تو اس کی پناہ لینے کے معنی یہ ہوں گے کہ جو رب تاریکی کو چھانٹ کر صبح روشن نکالتا ہے میں اس کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ آفات کے ہجوم کو چھانٹ کر میرے لیے عافیت پیدا کردے ، اور اگر اس سے مراد بِرَبِّ خَلق ہو تو معنی یہ ہوں گے کہ میں ساری خلق کے مالک کی پناہ لیتا ہوں تاکہ وہ اپنی مخلوق کے شر سے مجھے بچائے ۔
1: قرآنِ کریم کی یہ آخری دوسورتیں مُعوَّ ذتین کہلاتی ہیں، یہ دونوں سورتیں اُس وقت نازل ہوئی تھیں جب کچھ یہودیوں نے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم) پر جادو کرنے کی کوشش کی تھی، اور اُس کے کچھ اثرات آپ پر ظاہر بھی ہوئے تھے۔ ان سورتوں میں آپ کو جادُو ٹونے سے حفاظت کے لئے ان الفاظ میں اللہ تعالے کی پناہ ما نگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، اور کئی احادیث سے ثابت ہے کہ ان سورتوں کی تلاوت اور اُن سے دَم کرنا جادو کے اثرات دور کرنے کے لئے بہترین عمل ہے اور حضور نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) رات کو سونے سے پہلے ان سورتوں کی تلاوت کرکے اپنے مبارک ہاتھوں پر دم کرتے اور پھر ان ہاتھوں کو پورے جسم پر پھیر لیتے تھے۔