5۔ 1 حسد یہ ہے کہ حاسد، محسود سے زوال کی نعمت کی آرزو کرتا ہے چناچہ اس سے بھی پناہ طلب کی گئی ہے کیونکہ حسد بھی ایک نہایت بری اخلاقی بیماری ہے جو نیکیوں کو کھا جاتی ہے۔
[٦] حَسَدَ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت، فضیلت، عزوشرف عطا کیا ہو تو اس پر کوئی دوسرا شخص اس سے جلے اور یہ چاہے کہ اس سے یہ نعمت چھن کر حاسد کو مل جائے یا کم از کم اس سے ضرور چھن جائے۔ البتہ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اس جیسی نعمت مجھے بھی اللہ عطا کردے تو یہ حسد نہیں بلکہ رشک ہے جسے عربی زبان میں (غِبطہ) کہتے ہیں اور یہ جائز ہے۔ حاسد سے پناہ اس صورت میں مانگی گئی ہے جب وہ حسد کرے اور حسد کی بنا پر کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ اس سے پہلے وہ محسود کے لیے ایسا شر نہیں بنتا کہ اس سے پناہ مانگی جائے۔ وہ اپنے طور پر اندر ہی اندر جلتا ہے تو جلتا رہے۔ اسے اپنے اس عمل کی یہی سزا کافی ہے۔
(١) ومن شر حاسد اذا حسد :” حسد “ کا معنی ہے کسی شخص پر اللہ کی نعمت سے جلنا کہ یہ نعمت اسے کیوں ملی اور اس کے زوال کی تمنا کرنا۔ پھر خواہ یہ خواہش یا کوشش ہو کہ وہ حسد کرنے والے کو ملے یا نہ ہو۔ قباحت کے لحاظ سے حسد کے کئی درجے ہیں، سب سے بدتر یہ ہے کہ کسی شخص کو اللہ نے جو نعمت دی ہے اس سے چھن جانے کی تمنا کے ساتھ ساتھ قول و عمل کے ذریعے سے یہ کوشش بھی کرے کہ وہ نعمت اس سے چھن جائے۔ پھر بعض کی کوشش ہوئی ہے کہ اس سے چھن کر مجھے مل جائے اور بعض کو اس سے غرض نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس پر خوش ہوتے ہیں کہ اس کے پاس یہ نعمت نہیں رہی۔ دوسرا یہ کہ عملی طور پر تو اسے نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرے، لیکن دل میں یہ خواہش رکھے کہ اس کے پاس سے یہ نعمت نہ رہے۔ یہ دونوں صورتیں حرام ہیں۔- (٢) سوال پیدا ہوتا ہے کہ حاسد کے شر سے پناہ مانگتے وقت ” اذا حسد “ (جب وہ حسد رے) کی قید کیوں لگائی ؟ جواب یہ ہے کہ حاسد کے حسد کا نقصان دوسرے شخص کو اسی وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے حسد کے تقاضے کے مطابق قول یا فعل سے اسے نقصان پہنچانے کی - کوشش کرے، یا حسد کے تقاضے کے مطابق یہ خواہش رکھے کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے۔ حسد کی ایک صورت یہ ہے کہ دل میں خیال آتا ہے کہ فلاں شخص کو یہ نعمت کیوں ملی، مگر آدمی اس خیال کو ہٹا دیتا ہے، نہ اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ایسا ارادہ یا خواہش رکھتا ہے کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے ، اس پر مواخذہ نہیں۔ ایسے خیالات آہی جاتے ہیں، کیونکہ انسان کی طبیعت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ وہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کا کوئی ہم جنس کسی خوبی میں اس سے بڑھ کر ہو، تو جو شخص حسد کے تقاضے پر عمل نہ کرے بلکہ ایسے خیال آنے پر انہیں دور کرنے کی کوشش کرے اور محسود (جس کے ساتھ حسد ہو) کے ساتھ احسان کرے، اس کے لئے دعا کرے اور اس کی خوبیاں عام بیان کرنا شروع کر دے، تاکہ دل میں اس بھائی کے ساتھ حسد کے بجائے محبت پیدا ہوا ہوجائے تو اس کے شر سے پناہ مانگنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس کا حسد کے تقاضے پر عمل کرنے کے بجائے اس سے مقابلہ کرنا اور اسے دور کرنے کی کوشش کرنا تو ایمان کے اعلیٰ درجے کی علامت ہے اور حسد سے نجات پانے کا طریقہ بھی یہی ہے۔- (٣) حسد کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حاسد دراصل اللہ تعالیٰ پر ناراض ہوتا ہے کہ اس نے اسے وہ نعمت کیوں دی۔ پھر بندے پر اس کے کسی جرم کے بغیر ناراض ہوتا ہے، کیونکہ اس نعمت کے حصول میں اس کا کچھ اختیار نہیں۔ تو حاسد دراصل اللہ کا بھی دشمن ہے اور اللہ کے بےگناہ بندوں کا بھی ہے۔- (٤) حسد کا علاج یہ ہے کہ بندہ سوچے کہ حسد کا نقصان دین و دنیا میں حسد کرنے والے ہی کو ہے، محسود کو کوئی نقصان نہیں، نہ دنیا میں نہ دین میں، بلکہ اسے دین و دنیا میں حاسد کے حسد سے فائدہ ہی حاصل ہوتا ہے۔ دین میں فائدہ یہ ہے کہ وہ مظلوم ہے، خصوصاً جب حاسد قول یا عمل سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، تو قیامت کو اسے ظلم کا بدلا ملے گا اور ظالم حاسد نیکیوں سے مفلس رہ جائے گا اور دنیاوی فائدہ یہ ہے کہ لوگوں کی دلی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کے دشمن غم و فکر اور عذاب میں مبتلا رہیں اور حاسد جس عذاب اور مصیبت میں گرفتا رہے اس سیب ڑی مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے ؟ وہ ہر وقت حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے اور اطمینان اور دلی سکون سے محروم ہوتا ہے۔- (٥) حسد آدمی کو اللہ کی نافرمانی کی طرف لے جاتا ہے، اہل علم فرماتے ہیں کہ آسمان میں اللہ تعالیٰ کی سب سے پہلی نافرمانی حسد کی وجہ سے واقع ہوئی کہ ابلیس نے آدم (علیہ السلام) پر حسد کی وجہ سے اسے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور زمین پر پہلی نافرمانی یعنی آدم (علیہ السلام) کے دو یٹوں میں سے ایک کے دوسرے کو قتلک رنے کا باعث بھی یہی حسد تھا۔ برادران یوسف نے یوسف (علیہ السلام) اور ان کے والدین پر جو ظلم کیا اس کا باعث بھی حسد تھا۔ یہودی لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رسول برحق ہیں، ایمان نہ لائے تو اس کا باعث بھی یہی حسد تھا اور یہی حسد تھا جس کی بنا پر انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا۔ گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر کے پیچھے بھی عموماً حسد ہی کا جذب چھپا ہوتا ہے، اس لئے ان کے شر کے بعد حاسد کے شر سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی۔- (٦) بعض اوقات حسد کا لفظ ” غیطۃ “ (رشک اور ریس) کے معنی میں بھی آجاتا ہے، یعنی کسی شخص پر اللہ تعالیٰ کی نعمت دیکھ کر یہ خواہش کرنا کہ مجھے بھی یہ نعمت مل جائے، لیکن یہ خواہش نہ ہو کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے۔ یہ خواہش حرام نہیں، مگر صرف دو چیزوں میں رشک کرنا پسندیدہ ہے، ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(لا حسد الا فی اثنتین ، رجل اتاہ اللہ القرآن فھو یقوم بہ آناء اللیل وآناء النھار و رجل آتاہ اللہ مالا فھو ینفقہ آناء اللیل وآناء النھار) (مسلم ، صلاۃ المسافرین و قصرھا ، باب فضل من یقوم بالقرآن…: ٨١٥۔ بخاری : ٥٠٢٥)” حسد (رشک کرنا) نہیں مگر دو چیزوں میں، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے قرآن دیا تو وہ رات کی گھڑیوں اور دن کی گھڑیوں میں اس کے ساتھ قائم رہتا ہے اور ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال دیا ہے تو وہ رات اور دن کی گھڑیوں میں اس میں سے (نیک کاموں میں) خرچ کرتا رہتا ہے۔ “
وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ٥ ۧ- شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] ، وقد تقدّم تحقیق الشّرّ مع ذکر الخیر وذکر أنواعه ورجل شَرٌّ وشِرِّيرٌ: متعاط للشّرّ ، وقوم أَشْرَارٌ ، وقد أَشْرَرْتُهُ : نسبته إلى الشّرّ ، وقیل : أَشْرَرْتُ كذا : أظهرته واحتجّ بقول الشاعر :إذا قيل : أيّ الناس شرّ قبیلة ... أشرّت كليبٌ بالأكفّ الأصابعفإن لم يكن في هذا إلّا هذا البیت فإنه يحتمل أنها نسبت الأصابع إلى الشّرّ بالإشارة إليه، فيكون من : أشررته : إذا نسبته إلى الشّرّ ، والشُّرُّ بالضّمّ خصّ بالمکروه، وشَرَارُ النّار : ما تطایر منها، وسمّيت بذلک لاعتقاد الشّرّ فيه، قال تعالی: تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] .- ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے ہیں شر کا اصل معنی اور اس کے جملہ اقسام خیر کی بحث میں بیان ہوچکے ہیں ۔ رجل شریر و شریر شریر آدمی و قوم اشرار برے لوگ اشررتہ کسی کی طرف شر کی نسبت کرنا بعض نے کہا ہے کہ اشررت کذا کے معنی کسی چیز کو ظاہر کرنے کے بھی آتے ہیں ۔ اور شاعر کے اس قول سے استدلال کیا ہے ( الطویل ) ( 256 ) اذا قیل ای الناس شر قبیلۃ اشرت کلیب بالاکف الاصابعا جب یہ پوچھا جائے کہ کو نسا قبیلہ سب سے برا ہے تو ہاتھ انگلیوں سے بنی کلیب کی طرف اشارہ کردیتے مگر اس شعر کے علاوہ اس معنی پر اگر اور کوئی دلیل نہ ہو تو یہاں اشرت کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ کہ ساتھ انگلیوں سے ان کی طرف شر کی نسبت کردیتے ہیں الشر ( بضمہ الشین ) شر مکروہ چیز شرار النار آگ کی چنگاری ۔ آگ کی چنگاری کو شرار اسلئے کہتے ہیں کہ اس سے بھی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے قرآن ؎ میں ہے تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] اس سے آگ کی ( اتنی اتنی بڑی ) چنگاریاں اڑتی ہیں جیسے محل - حسد - الحسد : تمنّي زوال نعمة من مستحق لها، وربما کان مع ذلک سعي في إزالتها، وروي :- «المؤمن يغبط والمنافق يحسد» وقال تعالی: حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ [ البقرة 109] ، وَمِنْ شَرِّ حاسِدٍ إِذا حَسَدَ [ الفلق 5] .- ( ح س د ) الحسد ( ن ) کسی مستحق نعمت سے اس نعمت سے اس نعمت کے زائل ہونے کی تمنا کرنے کا نام حسد ہے بسا اوقات اس میں اسی مقصد کے لئے کوشش کرنا بھی شامل ہوتا ہے ایک روایت میں ہے : ۔ کہ مومن رشک کرتا ہے اور منافق حسد کرتا ہے قرآن میں ہے : ۔ حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ [ البقرة 109] اپنے دل کی جلن سے ۔ وَمِنْ شَرِّ حاسِدٍ إِذا حَسَدَ [ الفلق 5] اور حسد کرنے والے کی برانی سے جب حسد کرنے لگے ۔
حاسد کی نظر بد اور شر سے خدا کی پناہ مانگنا - قول باری ہے (ومن شر حاسد اذا حسد اور حاسد کے شر سے جب وہ حسد کرے) ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں الحسن بن ابی ربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے ، انہوں نے قتادہ سے اس قول باری کی تفسیر میں بیان کیا کہ ” انسان کہے کہ حاسد کی نظر بد اور اس کی ذات کے شر سے۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں نظر بد سے بچنے کے لئے جھاڑ پھونک کا حکم دیا تھا ۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابوہریرہ (رض) نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (العین حق نظر بد برحق ہے) نظر بد کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی روایات ایک دوسری کی تائید کرتی ہیں۔- ہمیں ابن قانع نے روایت بیان کی، انہیں القاسم بن زکریا نے، انہیں سوید بن سعید نے، انہیں ابوابراہیم السقاء نے لیث سے، انہوں نے طائوس سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (العین حق فلوکان شیء یسبق القدر لبسقتہ العین فاذا استغسلتم فاغسلوا۔ نظر بد برحق ہے۔ اگر کوئی چیز قضا وقدر سے سبقت لے جاسکتی تو نظر بد ضرور سبقت لے جاتی۔ جب تم غسل کرنے لگو تو آنکھوں کو دھولیا کرو)- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نظر بد کا نقصان اس جہت سے ہوتا ہے کہ کوئی چیز نظر لگانے والے سے جدا ہوکر نظرزدہ کو لگ جاتی ہے لیکن یہ بات جہالت اور شرارت پر مبنی ہے۔ نظر تو اس چیز میں لگتی ہے جو نظر لگانے والے کے نزدیک پسندیدہ اور مستحسن ہوتی ہے اور اکثر اوقات یہ اتفاق ہوتا ہے کہ نظر زدہ انسان کو نقصان پہنچ جاتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت ایسا کرتا ہے جب انسان کوئی چیز دیکھ کر اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔- اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے مواقع پر اسے نصیحت کی جاتی ہے تاکہ وہ دنیا کی طرف مائل نہ ہو اور دنیا کی کسی چیز کا گرویدہ نہ بن جائے۔ جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اونٹنی عضباء کے متعلق مروی ہے کہ کوئی اونٹنی اس سے آگے نہیں نکل سکتی تھی، پھر ایک بدوی اپنا ایک جوان اونٹ لے کر آیا اور عضباء کے ساتھ دوڑا۔ وہ اونٹ عضباء سے آگے نکل گیا۔- یہ باتحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو بہت گراں گزری۔ اس موقعہ پر آپ نے فرمایا (حق علی اللہ ان لا یرفع شیئا من الدنیا الا وضعہ، اللہ کے ذمہ یہ بات ہے کہ وہ دنیا کی جس چیز کو بلندی عطا کرے اسے پست بھی کردے)- ہمارے نزدیک نظر لگانے والے شخص کا معاملہ بھی اسی طرح ہے اگر اسے کوئی چیز اچھی لگے تو وہ فوراً اللہ کو یاد کرے اور اس کی قدرت کا ذکر کرے پھر اس کی طرف رجوع کرکے اس پر توکل کرے۔ ارشاد باری ہے (ولولا اذدخلت جنتک قلت ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ۔ ) اور جب تو اپنی جنت میں داخل ہورہا تھا تو اس تیری زبان سے کیوں نہ نکلا کہ ماشآء اللہ لا قوۃ الا باللہ۔- اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ جب اس شخص کو اپنے باغ کے سلسلے میں غرور اور تکبر پیدا ہوا تو اس کا باغ تباہ کردیا گیا چناچہ ارشاد ہوا (ودخل جنتہ وھو ظالم لنفسہ قال ما اظن ان تبید ھذہ ابدا۔ پھر وہ اپنی جنت میں داخل ہوا اور اپنے نفس کے حق میں ظالم بن کر کہنے لگا : ” میں نہیں سمجھتا کہ یہ دولت کبھی فنا ہوجائے گی) تاقول باری (ولولا اذدجلت جنتک قلت ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ) تاکہ تجھ پر تیری وفات تک اللہ کی نعمتیں باقی رہتیں۔- ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی، انہیں اسماعیل بن الفضل نے، انہیں عباس بن ابی طالب نے، انہیں حجاج نے، انہیں ابوبکر الہندلی نے ثمامہ سے، انہوں نے حضرت انس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من رای شیئا اعجبہ فقال اللہ اللہ ما شاء اللہ لا قوۃ الا باللہ لم یضرہ شیء جو شخص کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے بھلی لگے اور وہ اللہ اللہ ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ کہے تو کوئی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گی) واللہ الموفق
آیت ٥ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ۔ ” اور حسد کرنے والے کے شر سے بھی (میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں) جب وہ حسد کرے۔ “- ظاہر ہے جب ایک انسان کسی دوسرے انسان سے حسد کرتا ہے تو عین ممکن ہے وہ اپنے حاسدانہ جذبات سے مغلوب ہو کر عملی طور پر بھی اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہوجائے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اَلْعَیْنُ حَقٌّ) (١) یعنی نظر لگ جانا برحق ہے۔ چناچہ حاسدانہ نگاہ بذات خود بھی منفی اثرات کی حامل ہوسکتی ہے ۔ اس لیے حاسد کے شر سے بچنے کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ کی ضرورت ہے۔- بہرحال جادو ‘ ٹونے ‘ تعویذ گنڈے ‘ نظر بد وغیرہ کے اثرات اپنی جگہ مسلم ّہیں۔ سورة البقرۃ کی آیت ١٠٢ میں شیاطین ِجن کا ذکر آیا ہے جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے میں لوگوں کو جادو سکھایا کرتے تھے۔ بلکہ یہ گھنائونا کاروبار کسی نہ کسی انداز سے ہر زمانے میں چلتا رہا ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسی چیزیں سیکھنے سکھانے اور پھر مختلف دعو وں کے ساتھ اپنا کاروبار چمکانے میں مصروف ہیں۔ البتہ جیسا کہ قبل ازیں بھی وضاحت کی جا چکی ہے ہماری شریعت میں ایسی چیزیں سیکھنا اور پھر کسی بھی انداز میں ان سے استفادہ کرنا حرام ہے ۔ اس حوالے سے ایک بندئہ مومن کو اپنے دل میں پختہ یقین رکھنا چاہیے کہ ان میں سے کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر اسے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ‘ جیسا کہ سورة البقرۃ کی مذکورہ آیت میں بھی واضح کیا گیا ہے : وَمَاھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِط (آیت ١٠٢) ۔ ایک بندئہ مومن کو یہ بھی یقین رکھنا چاہیے کہ جو تکلیف بھی آئے گی وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہی آئے گی (یہ بھی ممکن ہے کہ کسی وجہ سے اللہ تعالیٰ خود کسی انسان کو کسی تکلیف یا مشکل سے دوچار کرنا چاہے) اور اللہ کے اذن سے ہی دور ہوگی۔ جہاں تک ایسی چیزوں سے حفاظتی تدابیر اپنانے یا ایسے کسی شیطانی حملے کے توڑ کرنے کا تعلق ہے تو ان دو سورتوں (مُعَوِّذَتَین) کے ہوتے ہوئے ایک بندئہ مسلمان کو کسی اور عمل ‘ تعویذ یا تدبیر کی ضرورت نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہ سورتیں اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکھائی تھیں اور اس لحاظ سے یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے امت کے لیے ایک بیش بہا تحفے کا درجہ رکھتی ہیں۔ - حضرت عائشہ صدیقہ (رض) روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معمول تھا کہ ہر شب آرام کرنے سے پہلے آخری تینوں سورتیں (سورۃ الاخلاص اور معوذتین) پڑھ کر اپنے مبارک ہاتھوں پر دم فرماتے اور پھر اپنے سارے جسم پر پھیر لیتے۔ مزید برآں شیطانی اثرات اور نظربد وغیرہ سے حفاظت کے لیے احادیث میں متعدد ادعیہ ماثورہ بھی وارد ہوئی ہیں ‘ جن کو ہمیں اپنا معمول بنانا چاہیے۔
سورة الفلق حاشیہ نمبر : 7 حسد کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو اللہ نے جو نعمت یا فضیلت یا خوبی عطا کی ہو اس پر کوئی دوسرا شخص جلے اور یہ چاہے کہ وہ اس سے سلب ہوکر حاسد کو مل جائے یا کم از کم یہ کہ اس سے ضرور چھن جائے ۔ البتہ حسد کی تعریف میں یہ بات نہیں آتی کہ کوئی شخص یہ چاہے کہ جو فضل دوسرے کو ملا ہے وہ مجھے بھی مل جائے ۔ یہاں حاسد کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ اس حالت میں مانگی گئی ہے جب کہ وہ حسد کرے ، یعنی اپنے دل کی آگ بجھانے کے لیے قول یا عمل سے کوئی اقدام کرے ۔ کیونکہ جب تک وہ کوئی اقدام نہیں کرتا اس وقت تک اس کا جلنا بجائے خود چاہے برا سہی ، مگر محسود کے لیے ایسا شر نہیں بنتا کہ اس سے پناہ مانگی جائے ۔ پھر جب ایسا شر کسی حاسد سے ظاہر ہو تو اس سے بچنے کے لیے اولین تدبیر یہ ہے کہ اللہ کی پناہ مانگی جائے ۔ اس کے ساتھ حاسد کے شر سے امان پانے کے لیے چند چیزیں اور بھی مددگار ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ انسان اللہ پر بھروسہ کرے اور یقین رکھے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ دوسرے یہ کہ حاسد کی باتوں پر صبر کرے ، بے صبر ہوکر ایسی باتیں یا کارروائیاں نہ کرنے لگے جن سے وہ خود بھی اخلاقی طور پر حاسد ہی کی سطح پر آجائے ۔ تیسرے یہ کہ حاسد خواہ خدا سے بے خوف اور خلق سے بے شرم ہوکر کیسی ہی بے ہودہ حرکتیں کرتا رہے ، محسود بہرحال تقوی پر قائم رہے ۔ چوتھے یہ کہ اپنے دل کو اس کی فکر سے بالکل فارغ کرلے اور اس کو اس طرح نظر انداز کردے کہ گویا وہ ہے ہی نہیں ۔ کیونکہ اس کی فکر میں پڑنا حاسد سے مغلوب ہونے کا پیش خیمہ ہوتا ہے ۔ پانچویں یہ کہ حاسد کے ساتھ بدی سے پیش آنا تو درکنار ، جب کبھی ایسا موقع آئے کہ محسوس اس کے ساتھ بھلائی اور احسان کا برتاؤ کرسکتا ہو تو ضرور ایسا ہی کرے ، قطع نظر اس سے کہ حاسد کے دل کی جلن محسوس کے اس نیک رویہ سے مٹتی ہے یا نہیں ۔ چھٹے یہ کہ محسود توحید کے عقیدے کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اس پر ثابت قدم رہے ، کیونکہ جس دل میں توحید بسی ہوئی ہو اس میں خدا کے خوف کے ساتھ کسی اور کا خوف جگہ ہی نہیں پاسکتا ۔