6۔ 1 یہ وسوسہ ڈالنے والوں کی دو قسمیں ہیں، شیاطین الجن کو تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو گمراہ کرنے کی قدرت دی ہے علاوہ ازیں ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان اس کا ساتھی ہوتا ہے جو اس کو گمراہ کرتا رہتا ہے چناچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات فرمائی تو صحابہ کرام نے پوچھا کہ یارسول اللہ کیا وہ آپ کے ساتھ بھی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں میرے ساتھ بھی ہے، لیکن اللہ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے، اور میرا مطیع ہوگیا ہے مجھے خیر کے علاوہ کسی بات کا حکم نہیں دیتا (صحیح مسلم) اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعتکاف فرما تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ حضرت صفیہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کے لیے آئیں رات کا وقت تھا، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں چھوڑنے کے لیے ان کے ساتھ گئے۔ راستے میں دو انصاری صحابی وہاں سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلا کر فرمایا کہ یہ میری اہلیہ، صفیہ بنت حیی، ہیں۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت ہمیں کیا بدگمانی ہوسکتی تھی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تو ٹھیک ہے لیکن شیطان انسان کی رگوں میں خوف کی طرح دوڑتا ہے۔ مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کچھ شبہ نہ ڈال دے۔ (صحیح بخاری) دوسرے شیطان، انسانوں میں سے ہوتے ہیں جو ناصح، مشفق کے روپ میں انسانوں کو گمراہی کی تر غیب دیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ شیطان جن کو گمراہ کرتا ہے یہ ان کی دو قسمیں ہیں، یعنی شیطان انسانوں کو بھی گمراہ کرتا ہے اور جنات کو بھی۔ صرف انسانوں کا ذکر تغلیب کے طور پر ہے، ورنہ جنات بھی شیطان کے وسوسوں سے گمراہ ہونے والوں میں شامل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جنوں پر بھی قرآن میں " رجال " کا لفظ بولا گیا ہے (وَّاَنَّهٗ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا ۙ ) 72 ۔ الجن :6) اس لیے وہ بھی ناس کا مصداق ہیں۔
[٣] شیطان کا انسان نفس بھی ہوسکتا ہے جو وسوسے ڈالتا ہے :۔ اَلجِنَّۃُ : انسان کے علاوہ دوسری مکلف مخلوق جن ّ ہے۔ جنوں میں سے کچھ نیک اور صالح بھی ہوتے ہیں اور کچھ خبیث، موذی اور بدکردار بھی۔ اس دوسری قسم کو شیطان کہتے ہیں۔ پھر شیطان کے لفظ کا اطلاق ہر موذی چیز، سرکش اور نافرمان پر بھی ہونے لگا خواہ انسان ہو یا جن یا کوئی جانور۔ مثلاً سانپ کو اس کی ایذا دہی کی وجہ سے شیطان اور جن ّاور جانّ (٢٧: ١٠) کہتے ہیں۔ پھر یہ شیطان یا خناس صرف جن اور انسان ہی نہیں ہوتے بلکہ انسان کا اپنا نفس بھی وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے۔ جیسے فرمایا : (وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ښ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ 16) 50 ۔ ق :16) (٥٠: ١٦) چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دفعہ مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھے تھے کہ رات کو آپ کی زوجہ محترمہ صفیہ بنت حیی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ملنے کے لیے آئیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں الوداع کرنے کے لیے ساتھ گئے۔ رستہ میں دو انصاری آدمی ملے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہے۔ وہ کہنے لگے۔ سبحان اللہ (یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کون شک کرسکتا ہے ؟ ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انَّ الشَّیْطَانَ یِجْرِیْ مِنْ ابْنِ اٰدَمَ مَجْرَی الدَّمِ (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب الشھادۃ تکون عند الحاکم۔۔ ) یعنی شیطان ہر انسان میں خون کی طرح دوڑتا پھرتا ہے۔ اس حدیث کی رو سے بھی انسان کے اپنے نفس کو بھی شیطان کہا گیا ہے۔ نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خطبہ مسنونہ کے یہ مشہور و معروف الفاظ ہیں۔ وَنَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أنْفُسِنَا یعنی ہم اپنے نفوس کی شرارتوں اور وسوسوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔- معوذات سے دم جھاڑ کرنا مسنون ہے :۔ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ سورة الفلق اور سورة الناس کو معوذتین کہتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ سورة اخلاص کو بھی ملا لیا جائے تو انہیں معوذات کہتے ہیں۔ اور آپ کا معمول تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ سورتیں پڑھ کر پہلے اپنے ہاتھوں پر پھونکتے پھر ہاتھوں کو چہرہ اور جسم پر پھیرا کرتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔- سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی مرض الموت میں معوذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ پھر جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری میں شدت ہوئی تو میں معوذات پڑھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پھونکتی اور اپنے ہاتھ کے بجائے برکت کی خاطر آپ ہی کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھراتی۔ معمر نے کہا : میں نے زہری سے پوچھا (یہ دونوں اس حدیث کی سند کے راوی ہیں) کہ کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا : دونوں ہاتھوں پر دم کرکے ان کو منہ پر پھیرتے (بخاری۔ کتاب الطب و المرضیٰ ۔ باب الرقی بالقرآن والمعوذات) - تعویذ لکھ کر پلانا یا لٹکانا سب ناجائز اور بدعت ہے :۔ واضح رہے کہ دم جھاڑ کے سلسلے میں مسنون طریقہ یہی ہے کہ قرآن کی کوئی آیت یا آیات یا مسنون دعائیں پڑھ کر مریض پر دم کردیا جائے۔ اس کے علاوہ جتنے طریقے آج کل رائج ہیں۔ مثلاً کچھ عبارت لکھ کر یا خانے بناکر اس میں ہند سے لکھ کر اس کا تعویذ بنا کر گلے میں لٹکانا۔ یا گھول کر پانی پلانا یا بازو یا ران پر باندھنا سب ناجائز ہیں۔ بلکہ اگر قرآنی آیات یا مسنون دعائیں بھی لکھی جائیں جن میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو تب بھی یہ خلاف سنت، بدعت اور ناجائز ہیں۔ اور ہم انہیں بدعت اور ناجائز اس لیے کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس طرح تعویذ لکھنے لکھوانے کو اچھا سمجھتے تو اس دور میں بھی لکھوا سکتے تھے اور اس میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ لہذا ایسے سب طریقے ناجائز اور خلاف سنت ہیں اور بدعت کی تعریف میں آتے ہیں ۔- اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے چوتھی جلد تمام ہوئی اور قرآن مجید کی یہ تفسیر مکمل ہوئی
(من الجنۃ والناس :) لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالنے والے شیطان جن بھی ہوتے ہیں اور انسان بھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وکذلک جعلنا لکل نبی عدوا شیطین الانس والجن یوحی بعضھم الی بعض زخرف القول غروراً (الانعام : ١١٢) ” اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے انسانوں اور جنوں کے شیاطین کو دشمن بنادیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لئے دل میں ڈالتا رہتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے ساتھ ایک جن شیطان اور ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے، شیطان کا کام برائی کا وسوسہ ڈالنا اور فرشتے کا کام بھلائی کا الہام کرنا ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ما منکم من احد الا وقد و کل اللہ بہ قرینہ من الجن ، قالوا وایاک یا رسول اللہ ؟ قال وایای الا ان اللہ اعاننی علیہ فاسلم فلا یامرنی الا بخیر) (مسلم، صفۃ القیامۃ باب تحریش الشیطان…: ٢٨١٣)” تم میں سے ہر ایک کیساتھ اللہ تعالیٰ نے جنوں میں سے اس کا ایک قرین (ساتھی) مقرر کر رکھا ہے۔ “ صحابہ نے پوچھا :” یا رسول اللہ اور آپ کے ساتھ بھی وہ مقرر ہے ؟ “ آپ نے فرمایا :” ہاں ، میرے ساتھ بھی ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابیل میں میری مدد کی ہے تو وہ تابع ہوگیا ہے اور وہ مجھے خیر کے علاوہ کوئی حکم نہیں دیتا۔ “ صحیح مسلم کی اسی حدیث میں سفیان سے مروی یہ الفاظ ہیں :(وقد و کل بہ فریتہ من الجن و قرینہ من الملائکۃ) (مسلم صفۃ القیامۃ ، باب تحریش الشیطان …: ٢٨١٣)”(ہر آدمی کے ساتھ) جنوں سے اس کا قرین (ساتھی ) اور فرشتوں سے اس کا قرین (ساتھی) مقرر کیا گیا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو انصار صحابہ سے فرمایا :(ان الشیطان یجزی من الانسان مجری الدام، وانی خثیث ان یفدف فی قلوبکما سوء ا او قال شیئاً ) (بخاری، بدء الخلق ، باب صفۃ ابلیس و جنودہ : ٣٢٨١)” شیطان انسان میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اور میں ڈرا کر وہ تمہارے دلوں میں کوئی وسوسہ، یا فرمایا کوئی چیز ڈال دے گا۔ “ شیطان اور اس کا جنی قبیلہ انسانوں کی نگاہوں سے مخفی رہ کر فتنہ انگیزی کرسکتا ہے اور کرتا ہے۔ (دیکھیے انعام : ٢٧) رہے انسانی شیطان تو وہ ہمیشہ چھپ کر تو حملہ آور نہیں ہوس کتے، مگر اپنی باتوں اور طرز عمل سے وسوسہ ڈالتے اور دل میں برائی کا بیج بو دیتے ہیں۔- دوسرے وسوسہ ڈالنے والوں کے علاوہ انسان کا اپنا نفس بھی وسوسہ ڈلاتا ہے۔ اس کی غلط خواہشات اور بد اعمالیوں اسے برائیکے لئے اکساتی اور ابھارتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولقد خلقنا الانسان و نعلم ماتوسوس بہ نفسہ) (ق : ١٦)” اور بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم ان چیزوں کو جانتے ہیں جن کا وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے :(ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیات اعمالنا) (ابن ماجہ، النکاح ، باب خطبۃ النکاح : ١٨٩٢، ترمذی : ١١٠٥، وصححہ الالبانی)” اور ہم اپنے نفس کی برائیوں سے اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ “ ان تمام وسوسہ ڈالنے والوں سے، خواہ وہ شیاطین الجن ہوں یا شیاطین الانس یا خود آدمی کا نفس ہو، اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہیے، کیونکہ وہی ان کے شر سے بچا سکتا ہے۔
من الجنتہ والناس :۔ یہ بیان ہے وسو اس کا یعنی وسوسہ ڈالنے والے جنات میں سے بھی ہوتے ہیں، اور انسانوں میں سے بھی، تو حاصل اس کا یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اس کی تلقین فرمائی کہ اللہ سے پناہ مانگیں جنات شیطاطین کے شر سے بھی اور انسانی شیاطین کے شر سے بھی۔ اگر یہ شبہ ہو کہ وسوسہ جناتی شیاطین کی رف سے ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ مخفی طور پر انسان کے قلب میں کوئی مخفی کام ڈال دلیں، مگر انسانی شیاطین تو کھلم کھلا سامنے آ کر بات کرتے ہیں ان کا وسوسہ سے کیا تعلق ہے تو جواب یہ ہے کہ انسانی شیاطین بھی اکثر ایسی باتیں کسی کے سامنے کرتے ہیں جن سے اس کے دل میں کسی معاملے کے متعلق ایسے شکوک و شبہات پیدا ہوجاتے ہیں جن کو وہ صراحتہ نہیں کہتے اور شیخ عزالدین بن عبدالسلام نے اپنی کتاب (الفوائد فی مشکلات القرآن) میں فرمایا کہ انسانی شیطان کے شر سے مراد خود اپنے نفس کا وسوسہ ہے کیونکہ جس طرح شیطان جن انسان کے دل میں برے کاموں کی طرف رغبت ڈالتا ہے اسی طرح خود انسان کا اپنا نفس بھی برے ہی کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنے نفس کے شر سے بھی پناہ مانگنا سکھلایا ہے حدیث میں ہے اللھم اعوذ بک من شر نفسی و شرالشیطان وشرکہ، یعنی یا اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں اپنے نفس کے شر سے بھی اور شیطان کے شر اور شرک سے بھی۔- شیطانی وساوس سے پناہ مانگنے کی بڑی اہمیت :۔ ابن کثیر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں انسان کو اس کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تین صفتیں (ب، ملک، الہ ذکر کر کے اس سے شیطانی وساوس اور وسائس سے پناہ مانگنا چاہئے کیونکہ ہر انسان کے ساتھ ایک قرین (ساتھی) شیطان لگا ہوا ہے جو ہر قدم پر اس کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو تباہ و برباد کر دے، اول تو اس کو گناہوں کی رغبت دیتا ہے اور طرح طرح سے اس کو بہلا کر گناہوں کی طرف لیجاتا ہے، اگر اس میں کامیاب نہ ہوا تو انسان جو طاعات و عبادت کرتا ہے اس کو خراب اور ضائع کرنے کے لئے ریاء و نمود اور غرور وتکبر کے وسوسے سے دل میں ڈالتا ہے علم والوں کے دلوں میں عقائد حقہ کے متعلق شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کے شر سے وہی بچ سکتا ہے جس کو اللہ ہی بچائے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم میں کوئی آدمی ایسا نہیں جس پر اس کا قرین (ساتھی) شیطان مسلط نہ ہو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ، کیا آپ کے ساتھ بھی یہ قرین ہے۔ فرمایا، ہاں مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں میری اعانت فرمائی اور اس کو ایسا کردیا کہ وہ بھی مجھے بجز خیز کے کسی بات کو نہیں کہتا۔- صحیحین میں حضرت انس کی حدیث ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد میں معتکف تھے ایک رات میں ام المومنین حضرت صفیہ آپ کی زیارت کے لئے مسجد میں گئیں واپسی کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ ہوئے، گلی میں دو انصاری صحابی سامنے آگئے تو آپ نے آواز دے کر فرمایا، ٹھہرو میرے ساتھ صفیہ بنت حیی ہیں، ان دونوں نے بکمال ادب عرض کیا سبحان اللہ یا رسول اللہ (یعنی کیا آپ نے ہمارے بارے میں یہ خیال کیا کہ ہم کوئی بدگمانی کریں گے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بیشک کیونکہ شیطان انسان کے خون کے ساتھ اس کی رگ و پے میں اثر انداز ہوتا ہے، مجھے یہ خطرہ ہوا کہ کہیں شیطان تمہارے دلوں میں کوئی وسوسہ بدگمانی کا پیدا کر دے (اس لئے میں نے بتلا دیا کہ کوئی غیر عورت میرے ساتھ نہیں) - فائدہ :۔ جیسا کہ خود برے کاموں سے بچنا انسان کے لئے ضروری ہے اسی طرح مسلمانوں کو اپنے بارے میں بدگمانی کا موقع دینا بھی درست نہیں، ایسے مواقع سے بچنا چاہئے جس سے لوگوں کے دلوں میں بدگمانی پیدا ہوتی ہو اور کوئی ایسا موقع آجائے تو بات واضح کر کے تہمت کے مواقع کو ختم کردینا چاہئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث نے شیطانی وسوسہ کا بڑا خطرناک ہونا ثابت کیا ہے جس سے بچنا آسان نہیں۔ بجز خدا کی پناہ کے۔- تنبیہ :۔ یہاں جس وسوسہ سے ڈرایا گیا ہے اس سے مراد وہ خیال ہے جس میں انسان با اختیار خود مشغول ہو اور غیر اختیاری وسوسہ و خیال جو دل میں آیا اور گزر گیا وہ کچھ مضر نہیں، نہ اس پر کوئی گناہ ہے۔- لطیفہ، سورة فلق اور ناس کے تعوذات میں ایک فرق :۔ سورة فلق میں تو اللہ تعالیٰ ، جس کی پناہ مانگی گئی ہے اس کی صرف ایک صفت پر اکتفا کیا گیا یعنی رب الفلق، اور جن چیزوں سے پناہ مانگی گئی وہ بہت ہیں جن کو اولا من شرما خلق میں اجمالا ذکر کیا، پھر ان میں سے خاص تین آفات کو الگ بیان فرمایا اور سورة ناس میں جس چیز سے پناہ مانگی گئی ہے وہ تو صرف ایک ہی ہے یعنی وسواس اور جس کی پناہ مانگی ہے اس کی اس جگہ تین صفات بیان کر کے پناہ کی دعا کی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا شر سب شرور و آفات سے بڑھا ہوا ہے، اول تو اس لئے کہ اور آفات و مصائب کا اثر تو انسان کے جسم اور دنیاوی امور پر پڑتا ہے بخلاف شیطان کے کہ یہ انسان کی دنیا کی آفات کا تو کچھ نہ کچھ علاج مادی بھی انسان کے قبضہ میں ہے اور وہ کرتا رہتا ہے بخلاف شیطان کے کہ اس کے ماقبلے کی کوئی مادی تدبیر انسان کے بس کی نہیں، وہ تو انسان کو دیکھتا ہے انسان اس کو نہیں دیکھتا وہ انسان کے باطن میں غیر معلوم طریقہ پر تصرف کرنے کی قدرت رکھتا ہے اس کا علاج صرف اللہ کا ذکر اور اس کی پناہ لینا ہے۔- انسان کے دو دشمن، انسان اور شیطان اور دونوں دشمنوں کا الگ الگ علاج :۔ انسان کا دشمن انسان بھی ہوتا ہے اور شیطان بھی اس کا دشمن ہی حق تعالیٰ نے انسانی دشمن کو اول تو حسن خلوق اور مدارات اور ترک انتقام و صبر کے ذریعہ رام کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور جواں تدبیروں سے باز نہ آئے اس کے ساتھ جہاد و قتال کا حکم دیا ہے۔ بخلاف دشمن شیطانی کے اس کا مقابلہ صرف استعاذہ اور اللہ کی پناہ لینے سے تلقین کیا گیا ہے۔ ابن کثیر نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں قرآن کریم کی تین آیتیں اس مضمون کی لکھی ہیں جن میں ان دونوں دشمنوں کا ذکر کر کے انسانی دشمن کا دفاع حسن خلق ترک انتقام اور اس کے ساتھ احسان کا سلوک کرنا بتلایا اور اس کے مقابلے میں شیطان کا دفاع استعاذہ تلقین فرمایا، ابن کثیر نے فرمایا کہ پورے قرآن میں یہ تین ہی آیتیں اس مضمون کی آئی ہیں۔ ایک آیت سرہ اعراب میں ہے کہ اول فرمایا، خذ العفو وا امر بالعرف و اعرض عن الجھلین یہ تو انسانی دشمن کے مقابلے کی تدبیر ارشاد فرمائی جس کا حاصل عفو و درگزر اور اس کو نیک کام کی تلقین اور اس کی برائی سے چشم پوشی بتلائی۔ اسی آیت میں آگے فرمایا واما ینزعنک من الشیطن نزع فاستعذ باللہ ان سمیع علیم یہ تلقین دشمن شیطانی کے مقابلے میں فرمائی جس کا حاصل اللہ سے پناہ مانگنا ہے۔ دوسری آیت سورة قد افلح المومنون میں اول دشمن انسانی کے مقابلے کے علاج میں فرمایا ادفع بالتھی احسن السئتہ یعنی برائی کو بھلائی کے ذریعہ دفع کرو پھر دشمن شیطانی کے مقابلے کے لئے فرمایا وقل رب اعوذ بک من ھمزت الشیطین واعوذ بک رب ان یحضرون یعنی اے میرے رب میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں شیطانوں کی چھیڑ سے اور اس سے کہ وہ میرے پاس آئیں اور تیسری آیت سورة حم سجدہ کی ہے جس میں اول دشمن انسانی کی مدافعت کے لئے ارشاد فرمایا ادفع بالتی ھی احسن فاذ الذین بینک وبینہ عداوة کانہ ولی حمیم یعنی تم برائی کو بھلائی کے ذریعہ دفع کرو اگر ایسا کرلو گے تو مشاہدہ ہوگا کہ تمہارا دشمن تمہارا مخلص دوست بن جائیگا۔ اسی آیت میں دوسرا جز دشمن شیطانی کے مقابلے میں یہ فرمایا واما ینزغنک من الشیطن نزع فاستعذ باللہ انہ ھو السمیع العلیم یہ تقریباً وہی الفاظ ہیں جو سورة اعراف میں شیطان کے مقابلے کے لئے ارشاد فرمائے ہیں اور حاصل اس کا یہ ہے کہ اس کا مقابلہ بجز استعاذہ کے کچھ نہیں (ابن کثیر) - ان تینوں آیتوں میں انسانی دشمن کا علاج عفو و درگزر اور حسن سلوک سے بتلایا گیا ہے کیونکہا نسانی فطرت یہی ہے کہ حسن خلق اور احسان سے مغلوب ہوجاتا ہے اور جو شریر النفس فطری انسانی صلاحیت کھو بیٹھے ہوں ان کا علاج دوسری آیات میں جہاد و قتال بتلایا گیا ہے کیونکہ وہ کھلے دشمن ہیں، کھلے ساز و سامان کے ساتھ سامنے آتے ہیں انکی قوت کا مقابلہ قوت سے کیا جاسکتا ہے۔ بخلاف شیطان العین کے کہ وہ اپنی فطرت میں شریر ہے احسان اور عفور و درگزر اس پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈالتا ہے جس سے یہ اپنی شرارت سے باز آجائے اور نہ ظاہری مقابلہ اس کا جہاد و قتال سے ہوسکتا ہے یہ دونوں قسم کی نرم و گرم تدبیریں صرف انسانی دشمن کے مقابلے میں چلتی ہیں شیطان کے مقابلے میں نہیں چلتی اس لئے اس کا علاج صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا اور ذکر اللہ میں مشغول ہوجانا ہے جو پورے قرآن میں تلقین کیا گیا ہے اور اسی پر قرآن کو ختم کیا گیا ہے۔- انسانی اور شیطانی دشمن کے مقابلے میں انجام کے اعتبار سے بڑا فرق :۔ اوپر قرآنی تعلیمات میں انسانی دشمن کا دفاع اول احسان اور صبر جمیل سے بتلایا گیا ہے اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو جہاد و قتال سے اور دونوں صورتوں میں مقابلہ کرنے والا مومن کامیاب ہی کامیاب ہے بالکل ناکامی مومن کے لئے ممکن ہی نہیں کیونکہ دشمن سے مقابلہ میں یہ غالب آ گیا تب تو اس کی کامیابی کھلی ہوئی ہے اور اگر شکست کھا گیا یا مقبول بھی ہوگیا تو آخرت کا اجر وثواب اور شہادت کے فضائل اس کو اتنے بڑے ملیں گے جو دنیا کی کامیابی سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ غرض انسانی دشمن کے مقابلے میں ہار جانا بھی مومن کے لئے کوئی مضرت نہیں، بخلاف شیطان کے کہ اس کی خوشامد اور اس کو راضی کرنا بھی گناہ ہے اور اس کے مقابلے میں ہار جانا تو آخرت کو تباہ کرلینا ہے یہی وجہ ہے جس کے لئے دشمن شیطانی کی مدافعت کے واسطے حق تعالیٰ ہی کی پناہ لینا علاج ہے اس کی پناہ کے سامنے شیطان کی ہر تدبیر ضعیف و بےاثر ہے۔- کید شیطانی ضعیف ہے :۔ مذکورہ وجود سے کسی کہ یہ خیال نہ ہونا چاہئے کہ شیطان کی طاقت بڑی ہے اس کا مقابلہ مشکل ہے اسی خیال کو دفع کرنے کے لئے حق تعالیٰ نے فرمایا ہے ان کید الشیطن کان ضعیفاً اور والوں اور اللہ پر بھروسہ رکھنے والوں پر یعنی اللہ کی پناہ لینے والوں پر شیطان کا کوئی تسلط نہیں ہوتا ارشاد ہے فاذا قرات القران فاسعذ باللہ من الشیطن الرجیم، انہ لیس لہ سلطن علی الذین امنوا وعلی ربھم یتوکلون، انما سلطنہ علی الذین یتولونہ والذین ھم بہ مشرکون، یعنی جب تو قرآن پڑھنے لگے تو پناہ لے اللہ کی شیطان مردود سے اس کا زور نہیں چلتا ان پر جو ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں اس کا زور تو انہی پر ہے جو اس کو رفیق سمجھتے ہیں اور جو اس کو شریک مانتے ہیں۔- سورة نحل کی تفسیر معارف القرآن جلد پنجم ص 387 میں اس آیت کی پوری تشریح اور استعاذہ کے مسائل اور شرعی احکام کی تفصیل گزر چکی ہے اس کو دیکھ لیا جاوے۔- قرآن کریم کے فاتحہ اور خاتمہ میں مناسبت :۔ قرآن کریم کو حق تعالیٰ نے سورة فاتحہ سے شروع فرمایا ہے جس کا خلاصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد اس کی مدد حاصل کرنا اور اس سے صراط مستقیم کی توفیق مانگنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور صراط مستقیم یہی دو چیزیں ہیں جن میں انسان کی دنیا و دین کے سب مقاصد کی کامیابی مضمر ہے۔ لیکن ان دونوں چیزوں کے حصول میں اور حصول کے بعد اس کے استعمال میں ہر قدم پر شیطان لعین کے مکرو فریب اور وسوسوں کا جال بچھا رہتا ہے اس لئے اس جال کو پاش پاش کرنے کی مؤ ثر تدبیر استعاذہ پر قرآن کو ختم کیا گیا۔ وباختتامہ تم بحمد اللہ وفضلہ وکرمہ وعونہ تفسیر القرآن الکریم واللہ الحمد اولہ، واخرہ وظاہر و باطنہ، فما کنا لنھتدی الیہ لولا ان ھدنا اللہ و صلی اللہ تعالیٰ علیہ خیر خلقہ و صفوة رسلہ و امام انبیاء محمد خاتم النبین وسید المرسلین علیہ وعلیھم صلوات اللہ وسلامہ وعلی الہ و اصحابہ اجمعین ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم و ذلک فی الحادی والعشرین من شعبان 1392 ھ ضحوة یوم السبت و من غریب الاتفاق ان ھذا الیوم ھوالیوم الذی ولدت فیہ فی ھذا الیوم تمت من عمر ھذا العبد الضعیف الجانی علی نفسہ سبعة وسبعون سنتہ واخذت فی الثامن والسبعین واللہ سبحانہ، وتعالیٰ ادعو وارجو ان یجعل خیر عمری اخرہ وخیر عملی خواتیمہ، وخیر ایامی یوم القاہ فیہ ببرکتہ المبین ونبیہ الامین وان یتقل منی جھد المقل الذی اتعبت فیہ نفسی فی امراض و ھموم و ضعیف القوی وما ھوالا بتوفیقہ وعونہ وان یغفرلی خطیاتی وتقصیراتی فی حقوق کتابہ الکریم وان ینفع بدرالمسلمین الی امد بعید وان یجعلہ ذخراً الیوم لابیع فیہ ولا خلال ولایجدی فیہ مال ولا ال فسبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم - وتم النظر الثانی علی المجلد الثامن من تفسیر معارف القران یوم الجمعتہ عاشر شوال 1392 بعد ما اخذت فیہ لثالث رمضان 1392 ھ فکان فی نحواربعین یوما واللہ الحمد
مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ ٦ ۧ- جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنة- جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔
آیت ٦ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ ۔ ” خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔ “- انسان کے دل و دماغ پر شیطانی وساوس کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اس کی وضاحت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان سے ملتی ہے۔ اُمّ المومنین حضرت صفیہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : (اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ ) (١) ” شیطان انسان کے وجود میں خون کی مانند گردش کرتا ہے “۔ گویا شیطان نفس انسانی کے اندر موجود حیوانی شہوات اور سفلی داعیات (فرائیڈ اسے یا کا نام دیتا ہے) کو بھڑکاتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ شیطان اپنی تھوتھنی انسان کے دل پر رکھ کر پھونکیں مارتا ہے اور اس طرح اس کے جذبات و شہوات میں اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو انسان کے دل میں وسوسے پیدا کرنے اور اس کے جذبات کو انگیخت دینے کی حد تک اختیار دیا ہے۔ اس سے بڑھ کر انسان سے زبردستی کوئی عمل کرانے کا اختیار اسے نہیں دیا گیا۔ بہرحال نفس انسانی بعض اوقات شیطان کے بہکاوے میں آکر متعلقہ انسان کے لیے شیطان کا نمائندہ بن جاتا ہے اور پھر بالکل شیطان ہی کی طرح اس کے دل میں وسوسہ اندازی شروع کردیتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة قٓ میں ارشاد فرمایا ہے : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ (آیت ١٦) ” اور ہم نے ہی انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم خوب جانتے ہیں جو اس کا نفس وسوسے ڈالتا ہے “۔ ایسے نفس انسانی کو سورة یوسف (علیہ السلام) کی آیت ٥٣ میں ” نفس امارہ “ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے اہم اور بنیادی بات سمجھنے کی یہ ہے کہ شیطان اسی دل پر اپنی تھوتھنی رکھ کر پھونکیں مارتا ہے اور اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے جو دل اللہ کی یاد سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو دل اللہ کی یاد میں مشغول اور اس کے ذکر سے معمور ہوتا ہے شیطان اس سے دور رہتا ہے۔ بہرحال شیطان کے تمام وسوسے اور حربے انسان کے اپنے نفس کے ذریعے سے ہی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ سورت خصوصی طور پر شیطانی وساوس کے توڑ کے لیے نازل ہوئی ہے۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایّاکم بالآیات والذّکر الحکیم
سورة الناس حاشیہ نمبر : 3 بعض اہل علم کے نزدیک ان الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ وسوسہ ڈالنے والا دو قسم کے لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے ، ایک جن ، دوسرے انسان ۔ اس بات کو اگر تسلیم کیا جائے تو لفظ ناس کا اطلاق جن اور انسان دونوں پر ہوگا ۔ وہ کہتے ہیں ایسا ہوسکتا ہے ، کیونکہ قرآن میں جب رجال ( مردوں ) کا لفظ جنوں کے لیے استعمال ہوا ہے ، جیسا کہ سورہ جن آیت 6 میں ہم دیکھتے ہیں ، اور جب نَفَر کا استعمال جنوں کے گروہ پر ہوسکتا ہے جیسا کہ سورہ احقاف آیت 29 میں ہوا ہے ، تو مجازا ناس کے لفظ میں بھی انسان اور جن دونوں شامل ہوسکتے ہیں ۔ لیکن یہ رائے اس لیے غلط ہے کہ ناس اور انس اور انسان کے الفاظ لغت ہی کے اعتبار سے لفظ جن کی ضد ہیں ۔ جن کے اصل معنی پوشیدہ مخلوق کے ہیں اور جن کو جن اسی بنا پر کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی آنکھ سے مخفی ہے ۔ اس کے برعکس ناس اور انس کے الفاظ انسان کے لیے بولے ہی اس بنا پر جاتے ہیں کہ وہ ظاہر اور مرئی اور محسوس ہے ۔ سورہ قصس آیت 29 میں ہے اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ ۔ یہاں آنَسَ کے معنی رَاَی ہیں ، یعنی حضرت موسی نے کوہ طور کے کنارے آگ دیکھی ۔ سورہ نساء آیت 6 میں ہے فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا ۔ اگر تم محسوس کرو کہ یتیم بچے اب ہوشمند ہوگئے ہیں ۔ یہاں انستم کے معنی احسستم یا رایتم ہیں ۔ پس ناس کا اطلاق لغر عرب کی رو سے جنوں پر نہیں ہوسکتا ، اور آیت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ اس وسوسہ انداز کے شر سے جو انسانوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے ، خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا خود انسانوں میں سے ۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وسوسہ اندازی کا کام شیاطین جن بھی کرتے ہیں اور شیاطین انس بھی ، اور دونوں کے شر سے پناہ مانگنے کی اس سورہ میں تلقین کی گئی ہے ۔ اس معنی کی تائید قرآن سے بھی ہوتی ہے اور حدیث سے بھی ۔ قرآن میں فرمایا: وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ( الانعام ، 112 ) اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے شیطان جنوں اور شیطان انسانوں کو دشمن بنا دیا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آیند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے ہیں ۔ اور حدیث میں امام احمد ، نسائی اور ابن حبان حضرت ابو ذر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے ۔ فرمایا ابو ذر تم نے نماز پڑھی؟ میں نے عرض کیا نہیں ۔ فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو ۔ چنانچہ میں نے نماز پڑھی اور پھر آکر بیٹھ گیا ۔ حضور نے فرمایا یا ابا ذر ، تعوذ باللہ من شر شیاطین الانس والجن ، اے ابو ذر شیاطین انس اور شیاطین جن کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ فرمایا ہاں ۔
4: قرآنِ کریم نے سورۂ انعام (۶:۱۱۲) میں بتایا ہے کہ شیطان جِنّات میں سے بھی ہوتے ہیں، اور اِنسانوں میں سے بھی، البتہ شیطان جو جِنّات میں سے ہے، وہ نظر نہیں آ تا، اور دِلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے، لیکن اِنسانوں میں سے جو شیطان ہوتے ہیں، وہ نظر آتے ہیں، اور ان کی باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اُنہیں سن کر اِنسان کے دِل میں طرح طرح کے بُرے خیالات اور وسوسے آ جاتے ہیں۔ اس لئے آیتِ کریمہ میں دونوں قسم کے وسوسے ڈالنے والوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔ ان آیتوں میں اگرچہ شیطان کے وسوسہ ڈالنے کی طاقت کا ذِکر فرمایا گیا ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کی تلقین کرکے یہ بھی واضح فرمادیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگنے اور اُس کا ذِکر کرنے سے وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے، نیز سورۂ نساء (۴:۷۶) میں فرمایا گیا ہے اُس کی چالیں کمزور ہیں، اور اُس میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اِنسان کو گناہ پر مجبور کرسکے۔ (سورۂ ابراہیم (۱۴:۲۲) میں خود اُس کا اعتراف اﷲ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے کہ مجھے اِنسانوں پر کوئی اِقتدار حاصل نہیں۔ یہ تواِنسان کی ایک آزمائش ہے کہ وہ اِنسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن جو بندہ اس کے بہکائے میں آنے سے انکار کرکے اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگ لے تو شیطان اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا۔ قرآنِ کریم کا آغاز سورۂ فاتحہ سے ہوا تھا جس میں اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد اﷲ تعالیٰ ہی سے سیدھے راستے کی ہدایت کی دعا کی گئی ہے، اور اختتام سورۂ ناس پر ہوا ہے، جس میں شیطان کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے، کیونکہ سیدھے راستے پر چلنے میں اُس کے شر سے جو رکاوٹ پید اہوسکتی تھی، اُسے دور کرنے کا طریقہ بتا دیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو نفس اور شیطان دونوں کے شر سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین، ثم آمین