(١) الذی یوسوس فی صدور الناس : وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات سے اللہ کی پناہ مانگے کہ وہ اس کے دل میں کوئی وسوسہ ڈال دے اور اسے راہ حق سے ہٹا دے اور اس بات سے بھی کہ وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر انہیں اس کے خلاف بھڑکا دے، جس کے نتیجے میں دین پر عمل کرنے اور اس کی دعوت دینے کے راستے میں وہ اس کے لئے رکاوٹ بن جائیں ۔ دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ ہی اس کے شر سے بچا سکتا ہے ، اس لئے اسی کی پناہ مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔- (٢) آدمی کوئی نیکی کرے یا برائی اس کا آغاز دل میں اس کا خیال پیدا ہونے سے ہوتا ہے، خیال جما رہے تو وہ خواہش کو ابھارتا ہے، خواہش سے ارادہ بنتا ہے، ارادہ پختہ ہوجائے تو عزم بنتا ہے، عزم نیت کا باعث ہوتا ہے، نیت اعضا کو عمل کے لئے حرکت میں لے آتی ہے اور آخری مرحلہ اس نیکی یا بدی پر عمل کا ہوتا ہے۔ دل میں پیدا ہونے والا یہ خیال اگر نیکی کا ہو تو رحمان کے مقرر کئے وہئے فرشتے کی طرف سے ہوتا ہے اور الہام کہلاتا ہے، اگر بدی کا ہو تو وسوسہ کہلاتا ہے اور یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ ان دونوں کا فرق اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ یخال کتاب و سنت کی رو سے نیکی کا کام ہے تو الہام ہے، ورنہ وسوسہ۔ وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے پناہم انگنے کی تعلیم اس لئے دی گئی کہ جہاں سے برائی شروع ہوتی ہے وہیں تم اللہ کی پناہ میں چلے جاؤ، تاکہ اللہ تعالیٰ شروع ہی میں تمہیں اپنی پناہ میں لے لے۔ جس سے نہ وہ وسوسہ دل میں جگہ پکڑے گا اور نہ بعد کے مراحل کی نوبت آئے گی۔- (٢) وسوسہ ڈالنے والوں کا شر صرف ایک ہی قسم کا نہیں ہوتا ، بلکہ وہ کئی طرح سے آدمی کو راہ حق سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حافظ ابن قیم (رح) اور دوسرے اہل علم نے اس کی کئی صورتیں بیان کی ہیں۔ سب سے پہلے تو وہ آدمی کو صریح کفر و شرک اور اللہ اور اس کے رسول کی بغاوت اور دشمنی پر آمادہ کرتے ہیں، اگر اس میں ناکام ہوں اور آدمی ایمان پر قائم رہے تو وہ اسے دوسرے شریعتی بدعت میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدعت میں مبتلا کرنا انہیں آدمی کو بڑے سے بڑے گناہ میں مبتلا کرنے سے بھی زیادہ پسند ہے، کیونکہ یہ ایسا گناہ ہے جسے آدمی نیکی سمجھ کر کرتا ہے۔ اگر وہ سنت پر قائم رہے تو اسے کسی نہ کسی کبیرہ گناہ سے آلودہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خصوصاً اگر وہ دینی عالم ہو، تاکہ بدنام ہو کر دین کا کام نہ کرسکے۔ اگر اس میں کامیاب بھی نہ کرسکیں تو نیکی کے کاموں سے ہٹا کر ان کاموں میں لگانے کی کوشش کرتے ہیں جن میں نہ ثواب ہے نہ عذاب اور اس طرح اس طرح اس کی عمر برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر وہ اپنے وقت کو بےکار کاموں میں لگانے پر کسی صورت آمادہ نہ ہو تو نیکی کے بڑے کام سے ہٹا کر چھوٹے کام میں لگانے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً دعوت و جہاد سے ہٹا کر نفلی نماز روزے میں لگا دیتے ہیں۔ یہ بھی نہ ہو سکے تو دل میں ریا یا اپنے عمل پر غرور پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر وہ کسی صورت ان کے قابو میں نہ آئے تو شیطان اور اس کے وہ چیلے بیشمار طریقوں سے اسے بدنام کرنے اور تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ نہ ہو سکے تو اسے غصہ دلا کر فہم و شعور سے بیگانہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس وقت بھی اگر وہ اللہ کی پناہ میں چلا اجئے تو ان کی تمام کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(واما ینزغنک من الشیطن نزع فاستعذ باللہ) (الاعراف : ٢٠٠)” اور اگر تجھے شیطان کی طرف سے کوئی چوکا لگے (یعنی شیطان تجھے غصہ دلائے) تو اللہ کی پناہ مانگ۔ “ غرض موت تک یہ دشمن اپنی دشمنی سے باز نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آخر وقت تک اپنی پناہ میں رکھے۔ آیمن)
الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ ٥ ۙ- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔