Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 الوسواس، بعض کے نزدیک اسم فاعل الموسوس کے معنی میں ہے اور بعض کے نزدیک یہ ذی الوسو اس ہے۔ وسوسہ، مخفی آواز کو کہتے ہیں، شیطان بھی نہایت غیر محسوس طریقوں سے انسان کے دل میں بری باتیں ڈال دیتا ہے اسی کو وسوسہ کہتے ہیں۔ الخناس (کھسک جانے والا یہ شیطان کی صفت ہے۔ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو یہ کھسک جاتا ہے اور اللہ کی یاد سے غفلت برتی جائے تو دل پر چھا جاتا ہے)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] خناس کا لغوی مفہوم :۔ وَسْوَاس طبی ّ نقطہ نگاہ سے یہ ایک مرض ہے جسے وہم بھی کہتے ہیں۔ یہ مرض غلبہ سودا کی وجہ سے ذہن کو ماؤف کردیتا ہے اور انسان ایسی فضول باتیں کرنے لگتا ہے جو پہلے اس کے ذہن میں نہیں ہوتیں۔ دل میں آنے والی برائی اور بےنفع بات اور شرعی نقطہ نگاہ سے اس کا معنی شیطان کا کسی برے کام کی طرف راغب کرنا اور برے خیال دل میں ڈالتے رہنا اور اس کی نسبت صرف شیطان کی طرف ہوتی ہے۔ جس کی ایک صفت خَنَّاس ہے اور خَنَّاس شیطان ہی کا صفاتی نام ہے۔ خَنَّاس بمعنی ظاہر ہو کر چھپ جانے والا یا سامنے آکر پھر پیچھے ہٹ جانے والا۔ شیطان کا یہ عمل صرف ایک بار ہی نہیں ہوتا بلکہ بار بار ہوتا ہے۔ وَسوَس کے لفظ میں تکرار لفظی ہے جو تکرار معنوی پر بھی دلالت کرتا ہے۔ شیطان ایک بار وسوسہ ڈال کر چھپ جاتا ہے۔ پھر دوبارہ حملہ آور ہوتا ہے پھر چھپ جاتا ہے تاآنکہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) من شر الوسواس، الخناس :” الوسواس “ واؤ کے کسرہ کے ساتھ ہو تو یہ ” وسوس یوسوس “ کا مصدر ہے، وسوسہ ڈالنا، جیسے ” زلزال “ (زاء کے کسرہ کے ساتھ) ہے ، سخت ہلانا۔ (زمخشری) یہاں ” الوسواس “ واؤ کے فتحہ کیساتھ ہے، یہ مصدر نہیں بلکہ صفت ہے، جو اسم فاعل کے معنی میں ہے، بہت وسولہ ڈالنے والا، جس طرح ” ترثار “ (بہت باتیں کرنے والا ) اور ”’ حداح “ (بہت چھوٹے قد والا) وغیرہ ہیں۔ (تفسیر ابن قیم)- (٢)” الوسواس “ مضاعف رباعی ہے، اس کے مفوہم میں تکرار (بار بار وسوسہ ڈلنا) شامل ہے، جس طرح ” زلزل “ کے مفہوم میں بار بار ہلانا اور ” ثرثر “ میں بولتے چلے جانا شامل ہے۔” الوسواس “ کا معنی بہت وسوسہ ڈالنے والا جو بار بار وسوسہ ڈالتا ہے۔- (٣)” وسوسۃ “ کا اصل معنی وہ ہلکی یا دبی ہوئی حرکت یا آواز ہے جو عام طور پر محسوس نہ ہوتی ہو۔ اس سے مراد وہ بات بھی ہوتی ہے جو بالکل آہستہ آواز سے کسی کے کان میں کیہ جائے اور صرف اسی کو سنائی دے اور وہ بھی جو آواز کے بغیر کسی کے دل میں ڈال دی جائے، جیسے شیطان انسان کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔- (٤) ” الخناس “ ” خنس یخنس “ (ض ، ن) پیچھے ہٹنا، ہٹانا۔ سورة تکویر میں ستاروں کو ” الخنس “ فرمایا ہے، کیونکہ وہ روزانہ مغرب میں غروب ہوتے ہیں، پھر پیچھے ہٹتے ہوئے دوبارہ مشرق سے نمودار ہوجاتے ہیں۔” الخناس “ مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی بہت پیچھے ہٹنے والا۔ اس سے یہ بات خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ وہ ایک دفعہ ہی وسوسہ ڈال کر پیچھے نہیں ہٹ جاتا، بلکہ بار بار وسوسہ ڈالتا ، بار بار پیھچے ہٹتا اور پھر ہٹ ہٹ کر وسوسہ ڈالتا ہے۔ شیطان کو ” الوسواس ، الخناس “ اس لئے کہا یا ہے کہ وہ آدمی کے دل میں برے خیالات ڈالتا ہے، جب وہ اللہ کا ذکر کرے تو پیچھے ہٹ جاتا ہے، جب ذکر سے غافل ہو تو دوبارہ لوٹ کر وسوسہ ڈالنا شروع کر دیات ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(اذا نودی للصلاۃ ادبر الشیطان ولہ ضراط حتی لایسمع التاذین فاذا قضی النداء اقبل حتیٰ اذا توب بالصلاۃ ادبر، حتی اذا قضی التتویب اقبل حتی یخطر بین المرء و نفسہ، یقول اذکر کذا، ادکر، کذاء لمالم یکن یذکر، حتی یظل الرجل لایدری کم صلی) (بخاری، الاذان ، باب فضل التاذین : ٦٠٨)” جب نماز کے لئے اذان ہوتی ہے تو شیطان گوز مارتا ہوا پیٹھ دے کر بھگا جاتا ہے، تاکہ اذان نہ سنے ۔ جب اذا نپوری ہوتی ہے تو آجاتا ہے، پھر جب نماز کی اقامت ہوتی ہے چلا جاتا ہے، جب اقامت مکمل ہوتی ہے تو واپس آکر آدمی اور اس کے دل کے درمیان خیالات ڈالنا شروع کر دیات ہے ۔ کہتا ہے فلاں چیز یاد کر، فلاں چیز یاد کر، وہ چیزیں جو اسے یاد نہیں تھیں، یہاں تک کہ آدمی کی حالت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس نے کتنی نمازپڑھی۔ “ معلوم ہوا کہ آدمی نماز میں دل سے حاضر نہ ہو تو شیطان اپنا کام جاری رکھتا ہے۔ وہ صرف اس ذکر سے پیچھے ہٹتا ہے جس میں زبان کے ساتھ دل بھی شریک ہو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

من شرالوسو اس الخناس، اللہ تعالیٰ کی تین صفات ذکر کر کے اب اس کا بیان ہے جس سے پناہ مانگنا مقصود ہے وہ ہے وسو اس خناس، وسو اس مصدر دراصل بمعنی وسوسہ ہے یہاں شیطان کو وسو اس مبالغتہ فرمایا گویا کہ وہ سراپا وسوسہ ہے اور وسوسہ کے معنی شیطان کا اپنی اطاعت کی طرف ایک مخفی کلام کے ذریعہ بلانا ہے جس کا مفہوم انسان کے دل میں آجائے اور کوئی آواز سنائی نہ دے (قرطبی) - خناس، خنس کے مشتق ہے جس کے معنی پیچھے لوٹنے کے ہیں۔ شیطان کو خناس اس لئے کہا گیا کہ اس کی عادت یہ ہے کہ انسان جب اللہ کا نام لیتا ہے تو پیچھے بھاگتا ہے پھر جب ذرا غفلت ہوئی پھر آجاتا ہے پھر وہ اللہ کا نام نام لیتا ہے تو پھر پیچھے لوٹ جاتا ہے یہی عمل مسلسل جاری رکھتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ہر انسان کے قلب میں دو گھر ہیں ایک میں فرشتہ رہتا ہے دوسرے میں شیطان (فرشتہ اس کو نیک کاموں کی رغبت دلاتا رہتا ہے اور شیطان برے کاموں کی) پھر جب انسان اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے اور جب تک وہ ذکر اللہ میں مشغول نہی ہوتا تو اپنی چونچ انسان کے دل پر رکھ کر اس میں برائیوں کے وسوسے ڈالتا ہے (رواہ ابویعلی عن انس مرفوعاً مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ۝ ٠ۥۙ الْخَنَّاسِ۝ ٤ - وسوس - الوَسْوَسَةُ : الخطرةُ الرّديئة، وأصله من الوَسْوَاسِ ، وهو صوت الحلي، والهمس الخفيّ. قال اللہ تعالی: فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه 120] ، وقال : مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس 4] ويقال لهمس الصّائد وَسْوَاسٌ.- ( وس وس ) الوسوسۃ - اس برے خیال کو کہتے ہیں جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور اصل میں سے ماخوز ہے جس کے معنی زیور کی چھنکار یا ہلکی سی آہٹ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه 120] تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس 4] شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے جو ( خدا کا نام سنکر ) پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ اور وسواس کے معنی شکار ی کے پاؤں کی آہٹ کے بھی آتے ہیں ۔- خنس - قوله تعالی: مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ الْخَنَّاسِ [ الناس 4] ، أي : الشیطان الذي يَخْنُسُ ، أي : ينقبض إذا ذکر اللہ تعالی، وقوله تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ [ التکوير 15] ، أي : بالکواکب التي تخنس بالنهار، وقیل : الخنّس هي زحل والمشتري والمرّيخ لأنها تخنس في مجراها أي : ترجع، وأَخْنَسْتُ عنه حَقَّه : أخّرته .- ( خ ن س ) الخنس ( ن ) کے معنی پیچھے ہٹنے اور سکڑجانے کے ہیں اسی سے شیطان کو خناس کہاجاتا ہے کیونکہ وہ ذکر الہی سے پیچھے ہٹ جانا ہے ۔ اور وسوسہ انداز نہیں ہوپاتا ۔ قرآن میں ہے :۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ الْخَنَّاسِ [ الناس 4] شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے جو ( خدا کا نام سن کر ) پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ [ التکوير 15] ہم کو ان ستاروں کی قسم جو پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔ میں خنس سے وہ ستارے مراد ہیں جو دن کو الٹی رفتار چلتے ہیں یہ خانس کی جمع ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس سے زحل ۔ مشتری اور مریخ مراد ہیں ۔ کیونکہ یہ الٹی چال سکتے رہتے ہیں ۔ اخنست عنہ حقہ میں نے اس کے حق کو موخر کردیا ۔ روک لیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِلا الْخَنَّاسِ ۔ ” اس بار بار وسوسہ ڈالنے والے ‘ پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے۔ “- شیطان کی وسوسہ اندازی کا طریق کار یہ ہے کہ وہ لگاتار اپنی کوشش جاری رکھتا ہے اور انسان کو گمراہ کرنے کی کوششوں سے تھکتا نہیں۔ کبھی حملہ کرتا ہے ‘ کبھی دفاعی پسپائی اختیار کرتا ہے اور پھر پلٹ کر حملہ آور ہوتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الناس حاشیہ نمبر : 2 اصل میں وَسْوَاسِ ڏ الْخَنَّاسِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ وسو اس کے معنی ہیں بار بار وسوسہ ڈالنے والا ۔ اور وسوسے کے معنی ہیں پے در پے ایسے طریقے یا طریقوں سے کسی کے دل میں کوئی بری بات ڈالنا کہ جس کے دل میں وہ ڈالی جارہی ہو اسے یہ محسوس نہ ہوسکے کہ وسوسہ انداز اس کے دل میں ایک بری بات ڈال رہا ہے ۔ وسوسے کے لفظ میں کود تکرار کا مفہوم شامل ہے ، جیسے زلزلہ میں حرکت کی تکرار کا مفہوم شامل ہے ۔ چونکہ انسان صرف ایک دفعہ بہکانے سے نہیں بہکتا بلکہ اسے بہکانے کی پے در پے کوشش کرنی ہوتی ہے ، اس لیے ایسی کوشش کو وسوسہ اور کوشش کرنے والے کو وسو اس کہا جاتا ہے ۔ رہا لفظ خناس تو یہ خنوس سے ہے جس کے معنی ظاہر ہونے کے بعد چھپنے یا آنے کے بعد پیچھے ہٹ جانے کے ہیں ، اور خناس چونکہ مبالغہ کا صیغہ ہے اس لیے اس کے معنی یہ فعل بکثرت کرنے والے کے ہوئے ۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ وسوسہ ڈالنے والے کو بار بار وسوسہ اندازی کے لیے آدمی کے پاس آنا پڑتا ہے ، اور ساتھ ساتھ جب اسے خناس بھی کہا گیا تو دونوں الفاظ کے ملنے سے خودبخود یہ مفہوم پیدا ہوگیا کہ وسوسہ ڈال ڈال کر وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور پھر پے در پے وسوسہ اندازی کے لیے پلٹ کر آتا ہے ۔ بالفاظ دیگر ایک مرتبہ وسوسہ اندازی کی کوشش جب ناکام ہوتی ہے تو وہ چلا جاتا ہے ، پھر وہی کوشش کرنے کے لیے دوبارہ ، سہ بارہ اور بار بار آتا رہتا ہے ۔ وسو اس الخناس کا مطلب سمجھ لینے کے بعد اب اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس کے شر سے پناہ مانگنے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پناہ مانگنے والا خود اس کے شر سے خدا کی پناہ مانگتا ہے ، یعنی اس شر سے کہ وہ کہیں اس کے اپنے دل میں کوئی وسوسہ نہ ڈال دے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے خلاف جو شخص بھی لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا پھرے اس کے شر سے داعی حق خدا کی پناہ مانگتا ہے ۔ داعی الی الحق کے بس کا یہ کام نہیں ہے کہ اس کی ذات کے خلاف جن جن لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالے جارہے ہوں ان سب تک خود پہنچے اور ایک ایک شخص کی غلط فہمیوں کو صاف کرے ۔ اس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ۃے کہ اپنی دعوت الی اللہ کا کام چھوڑ چھاڑ کر وسوسہ اندازوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کو صاف کرنے اور ان کے الزامات کی جواب دہی کرنے میں لگ جائے ۔ اس کے مقام سے یہ بات بھی فروتر ہے کہ جس سطح پر اس کے مخالفین اترے ہوئے ہیں اسی پر خود بھی اتر آئے ۔ اس لیے اللہ تعالی نے دعوت حق دینے والے کو ہدایت فرمائی کہ ایسے اشرار کے شر سے بس خدا کی پناہ مانگ لے اور پھر بے فکری کے ساتھ اپنی دعوت کے کام میں لگا رہ ۔ اس کے بعد ان سے نمٹنا تیرا کام نہیں بلکہ رب الناس ، ملک الناس اور الہ الناس کا کام ہے ۔ اس مقام پر یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ وسوسہ عمل شر کا نقطہ آغاز ہے ۔ وہ جب ایک غافل یا خالی الذہن آدمی کے اندر اثر انداز ہوجاتا ہے تو پہلے اس میں برائی کی خواہش پیدا ہوتی ہے ۔ پھر مزید وسوسہ اندازی اس بری خواہش کو بری نیت اور برے ارادے میں تبدیل کردیتی ہے ۔ پھر اس سے آگے جب وسوسے کی تاثیر بڑھتی ہے تو ارادہ عزم بن جاتا ہے اور آخری قدم پر پھر عمل شر ہے ۔ اس لیے وسوسہ انداز کے شر سے خدا کی پناہ مانگنے کا مطلب یہ ہے کہ شر کا آغاز جس مقام سے ہوتا ہے اللہ تعالی اسی مقام پر اس کا قلع قمع فرمادے ۔ دوسرے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو وسوسہ اندازوں کے شر کی ترتیب یہ نظر آتی ہے کہ پہلے وہ کھلے کھلے کفر ، شرک ، دہریت ، یا اللہ اور رسول سے بغاوت اور اللہ والوں کی عداوت پر اکساتے ہیں ۔ اس میں ناکامی ہو اور آدمی دین اللہ میں داخل ہی ہوجائے تو وہ اسے کسی نہ کسی بدعت کی راہ سمجھاتے ہیںَ یہ بھی نہ ہوسکے تو معصیت کی رغبت دلاتے ہیں ۔ اس میں بھی کامیابی نہ ہوسکے تو آدمی کے دل میں یہ خیال ڈالتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے گناہ کرلینے میں تو کوئی مضائقہ نہیں تاکہ یہی اگر کثرت سے صادر ہوجائیں تو گناہوں کا بار عظیم انسان پر لد جائے ۔ اس سے بھی اگر آدمی بچ نکلے تو بدرجہ آخر وہ کوشش کرتے ہیں کہ آدمی دین حق کو بس اپنے آپ تک ہی محدود رکھے ، اسے غالب کرنے کی فکر نہ کرے ، لیکن اگر کوئی شخس ان تمام چالوں کو ناکام کردے تو پھر شیاطین جن و انس کی پوری پارٹی ایسے آدمی پر پل پڑتی ہے ، اس کے خلاف لوگوں کو اکساتی اور بھڑکاتی ہے ، اس پر گالیوں اور الزامات کی بوجھاڑ کراتی ہے ، اسے ہر طرف بدنام اور رسوا کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ پھر شیطان اس مرد مومن کو آکر غصہ دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سب کچھ برداشت کرلینا تو بڑی بزدلی کی بات ہے ، اٹھ اور ان حملہ آوروں سے بھڑ جا ۔ یہ شیطان کا آخری حربہ ہے جس سے وہ دعوت حق کی رہ کھوٹی کرانے اور داعی حق کو راہ کے کانٹوں سے الجھا دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ اس سے بھی اگر داعی حق بچ نکلے تو شیطان اس کے آگے بے بس ہوجاتا ہے ۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں ارشا ہوتا ہے وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ اور اگر شیطان کی طرف سے تمہیں کوئی اکساہٹ محسوس ہو تو اللہ کی پناہ مانگو ( الاعراف 200 ۔ حم السجدہ 36 ) وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ کہو میرے پروردگار میں شیطانین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں ( المومنون 97 ) اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰۗىِٕفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ جو لوگ پرہیزگار ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جائے تو وہ فورا چونک جاتے ہیں اور پھر انہیں ( صحیح راستہ ) صاف نظر آنے لگتا ہے ( الاعراف 201 ) اور اسی بنا پر جو لوگ شیطان کے اس آخری حربے سے بچ نکلیں ان کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ یہ چیز بڑے نصیبے والے کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی ( حم السجدہ 35 ) اس سلسلے میں ایک بات اور بھی نگاہ میں رہنی چاہیے ۔ وہ یہ کہ انسان کے دل میں وسوسہ اندازی صرف باہر سے شیاطین جن و انس ہی نہیں کرتے بلکہ اندر سے کود انسان کا اپنا نفس بھی کرتا ہے ۔ اس کے اپنے غلط نظریات اس کی عقل کو گمراہ کرتے ہیں ۔ اس کی اپنی ناجائز اغراض و خواہشات اس کی قوت تمیز اور قوت ارادی اور قوت فیصلہ کو بد راہ کرتی ہیں ۔ اور باہر کے شیاطین ہی نہیں ، انسان کے اندر اس کے اپنے نفس کا شیطان بھی اس کو بہکاتا ہے ۔ یہی بات ہے جو قرآن میں ایک جگہ فرمائی گئی ہے کہ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ ( ق ، 16 ) اور ہم اس کے اپنے نفس سے ابھرنے والے وسوسوں کو جانتے ہیں ۔ اسی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشہور خطبہ مسنونہ میں فرمایا ہے نعوذ باللہ من شرور انفسنا ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اپنے نفس کی شرارتوں سے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: ایک مستند حدیث میں حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ :’’ جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے، اُس کے دِل پر وسوسہ ڈالنے والا (شیطان) مسلط ہوجاتا ہے۔ جب وہ ہوش میں آ کر اﷲ تعالیٰ کا ذِکر کرتا ہے تو یہ وسوسہ ڈالنے والا پیچھے کو دبک جاتا ہے، اور جب وہ غافل ہوتا ہے تو دوبارہ آکر وسوسے ڈالتا ہے۔‘‘ (روح المعانی بحوالہ حاکم وابن المنذر و ضیاء)