Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اور جو تمام کائنات کا پروردگار ہو، پوری کائنات پر اسی کی بادشاہی ہو، وہی ذات اس بات کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور وہی تمام لوگوں کا معبود ہو۔ چناچہ میں اسی عظیم و برتر ہستی کی پناہ حاصل کرتا ہوں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] شیطان کے شر سے پناہ دینے والے کی صفات :۔ اس سورت کی ابتدائی تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات بیان کرکے اس سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ ایک یہ کہ وہ تمام لوگوں کا پرورش کرنے والا ہے۔ اسے یہ خوب معلوم ہے کہ فلاں شخص کے فلاں شر سے فلاں انسان کو کیا تکلیف پہنچ سکتی ہے ؟ دوسرے یہ کہ تمام انسانوں کا بادشاہ بھی ہے۔ یعنی وہ انسانوں پر پورا اقتدار اور اختیار بھی رکھتا ہے اور ظاہری اسباب پر بھی اس کا پورا کنٹرول ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ الٰہ بھی ہے۔ اور الٰہ کے مفہوم میں یہ بات از خود شامل ہے کہ وہ ہر ایک کی فریاد سنتا اور اس کی داد رسی بھی کرسکتا ہے اور تمام باطنی اسباب پر بھی اس کا کنٹرول ہے۔ اور حقیقت میں ایسی ہی ہستی اس بات کی سزاوار ہوسکتی ہے کہ لوگ اس سے دوسروں کے شر سے پناہ طلب کریں۔ وہ پناہ دے بھی سکتا ہے اور دوسروں کے شر سے محفوظ بھی رکھ سکتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

الہ الناس لوگوں کا معبود، ان دو صفتوں کا اضافہ اس لئے کیا گیا کہ لفظ رب جب کسی خاص چیز کی طرف منسوب ہو تو اللہ تعالیٰ کے سوا بھی دوسروں کے لئے بولا جاتا ہے جیسا رب الدار گھر کے مالک کو، رب المال، مالک کے مالک کو کہا جاتا ہے اور ہر مالک بادشاہ نہیں ہوتا اس لئے ملک کا اضافہ کیا کہ وہ رب یعنی مالک بھی ہے اور ملک یعنی بادشاہ بھی، پھر ہر بادشاہ معبود نہیں ہوتا اس لئے تیسری صفت ذکر فرمائی الہ الناس، ان تینوں صفتوں کو جمع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ ان میں سے ہر صفت حفاظت کی داعی ہے کیونکہ ہر مالک اپنے مملوک کی حفاظت کرتا ہے۔ اسی طرح ہر بادشاہ اپنی رعیت کی حفاظت کرتا ہے اور معبود کا اپنے عابد کے لئے محافظ ہونا تو سب سے اظہر ہے۔ یہ تینوں صفتیں صرف حق تعالیٰ میں جمع ہیں اس کے سوا کوئی ان صفتوں کا جامع نہیں اس لئے اس کی پناہ حاصل کرنا سب سے بڑی پناہ ہے اور اللہ تعالیٰ سے ان تین صفتوں کے ساتھ پناہ مانگنا دعا کی قبولیت کے لئے اقرب ہے کہ یا اللہ آپ ہی ان صفات کے جامع ہیں ہم صرف آپ ہی سے پنا ہمانگتے ہیں۔ یہاں جبکہ پہلے جمہ میں رب الناس آ ڈکا تو بظاہر تقاضا مقام کا یہ تھا کہ آگے اس کی طرف ضمیریں راجع کرنے سے کام لیا جاتا ملکم والھم فرمایا جاتا مگر اس لفظ کا بار بار تکرار اس لئے ہے کہ مقام دعا اور مدح وثناء کا ہے اس میں تکرار رہی بہتر ہے اور بعض حضرات نے لفظ ناس کے بار بار تکرار میں یہ لطیفہ بیان کیا ہے کہ سا سورت میں یہ لفظ پانچ مرتبہ آیا ہے۔ پہلے لفظ ناس سے مراد بچے ہیں اور لفظ رب اور بوبیت اس کا قرینہ ہے کیونکہ پرورش کی حاجت سب سے زیادہ بچوں کو ہوتی ہے اور دوسرے لفظ ناس سے جوان مراد ہیں، اور لفظ ملک اس کا قرینہ ہے جو ایک سیاست کے معنی رکھتا ہے وہ جو ان کے مناسب ہے اور تیسرے لفظ م اس سے بوڑھے مراد ہیں جو دنیا سے منقطع ہو کر عبادت میں مشغول ہوں اور لفظ الہٰ اس کا قرینہ ہے جو عبادت لہ طرف مشیر ہے اور چوتھے لفظ ناس سے مراد اللہ کے صالح بندے ہیں اور لفظ وسوسہ اس کا قرینہ ہے کیونکہ شیطان نیک بندوں کا دشمن ہے ان کے دلوں میں وسوسے ڈالنا اس کا مشغلہ ہے اور پانچویں لفظ ناس سے مراد مفسد لوگ ہیں کیونکہ ان کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلٰہِ النَّاسِ۝ ٣ ۙ- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ اِلٰـہِ النَّاسِ ۔ ” تمام انسانوں کے معبود کی۔ “- انسانوں کا رب اور بادشاہ ہونے کے علاوہ وہ ان کا معبود بھی ہے ‘ چناچہ وہ ان پر کامل اقتدار اور اختیار رکھتا ہے اور ان کی حفاظت پر پوری طرح قادر ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الناس حاشیہ نمبر : 1 یہاں بھی سورہ فلق کی طرح اعوذ باللہ کہنے کے بجائے اللہ تعالی کو اس کی تین صفات سے یاد کر کے اس کی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ ایک اس کا رب الناس ، یعنی تمام انسانوں کا پروردگار و مربی اور مالک و آقا ہونا ۔ دوسرے اس کا ملک الناس ، یعنی تمام انسانوں کا بادشاہ اور حاکم و فرمانروا ہونا ۔ تیسرے اس کا الہ الناس ، یعنی انسانوں کا حقیقی معبود ہونا ۔ ( یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ الہ کا لفظ قرآن مجید میں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ ایک وہ شے یا شخص جس کو عبادت کا کوئی استحقاق نہ پہنچتا ہو مگر عملا اس کی عبادت کی جارہی ہو ۔ دوسرا وہ جسے عبادت کا استحقاق پہنچتا ہو اور جو حقیقت میں معبود ہو ، خواہ لوگ اس کی عبادت کر رہے ہوں یا نہ کر رہے ہوں ۔ اللہ کے لیے جہاں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اسی دوسرے معنی میں ہوا ہے ) ان تین صفات سے استعاذہ کا مطلب یہ ہوا کہ میں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو انسانوں کا رب ، بادشاہ ، اور معبود ہونے کی حیثیت سے ان پر کامل اقتدار رکھتا ہو ، جو اپنے بندوں کی حفاظت پر پوری طرح قادر ہے ، اور جو واقعی اس شر سے انسانوں کو بچا سکتا ہے جس سے خود بچنے اور دوسرے انسانوں کو بچانے کے لیے میں اس کی پناہ مانگ رہا ہوں ۔ یہی نہیں بلکہ چونکہ وہی رب اور بادشاہ اور الہ ہے ، اس لیے اس کے سوا اور کوئی ہے ہی نہیں جس سے میں پناہ مانگوں اور جو حقیقت میں پناہ دے بھی سکتا ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

2: مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں جو سب کا پروردگار بھی ہے۔ صحیح معنیٰ میں سب کا بادشاہ بھی، اور سب کا معبودِ حقیقی بھی۔