2۔ 1 جو ذات، تمام انسانوں کی پرورش اور نہگداشت کرنے والی ہے، وہی اس لائق ہے کہ کائنات کی حکمرانی اور بادشاہی بھی اسی کے پاس ہو۔
ملک الناس یعنی لوگوں کا بادشاہ
مَلِكِ النَّاسِ ٢ ۙ- ملك ( مالک)- فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] ، وقال :- أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] وفي غيرها من الآیات - ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں
(1 ۔ 6) ۔ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ فرمائیے کہ میں جن و انس کے رب جن و انس کے مالک اور جن و انس کے خالق کی پناہ لیتا ہوں۔ شیطان کے شر سے جو کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو وہ اس کے دل پر غلبہ کر کے اسے چھپا دیتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کرتا تو وسوسہ ڈالتا ہے خواہ وہ انسانوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالے یا جنات کے دلوں میں۔ یہ دونوں سورتیں لبید بن اعصم یہودی کے متعلق نازل ہوئی ہیں جس نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کردیا تھا آپ نے جادو پر ان سورتوں کو پڑھا تو وہ اس طرح زائل ہوگیا جیسا کہ رسی کی گرہ کھل جاتی ہے۔- شان نزول : معذتین - امام بیہقی نے دلائل النبوة میں بواسطہ کلبی، ابو صالح، حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت بیمار ہوئے تو آپ کے پاس دو فرشتے آئے ایک آپ کے سر مبارک کے پاس بیٹھا اور دوسرا پیروں کی طرف۔ تو جو پیروں کی طرف بیٹھا ہوا تھا اس نے اس فرشتہ سے جو کہ سر کے پاس تھا کہا آپ کو کیا محسوس ہوتا ہے اس نے کہا کہ تکلیف ہے وہ کہنے لگا کیا تکلیف ہے تو اس نے کہا جادو ہے اس فرشتہ نے کہا کہ کس نے جادو کیا ہے اس فرشتہ نے کہا لبید بن اعصم یہودی نے کیا ہے وہ فرشتہ کہنے لگا کہ کس جگہ ہے اس فرشتہ نے کہا وہ فلاں خاندان کے کنوئیں میں پتھر کے نیچے ایک بالوں کے جوڑے میں ہے چناچہ وہاں جاؤ اور اس کا پانی نکالو اور پتھر کو اٹھا کر اس جادو کو جلا دو چناچہ جب صبح ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمار بن یاسر (رض) کو ایک جماعت کے ساتھ اس کنوئیں کے پاس بھیجا تو اس کا پانی مہندی کی طرح سرخ ہورہا تھا چناچہ انہوں نے پانی نکالا اور پتھر کو اٹھا کر اس جادو کو نکال لیا اور اس کو جلا دیا اور اس میں ایک دھاگہ کا ٹکڑا بھی تھا جس میں گیارہ گرہیں تھیں اور آپ پر یہ دونوں سورتیں یعنی قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس نازل ہوئی چناچہ جب اس پر ان سورتوں میں سے ایک ایک آیت پڑھنی شروع کی تو ایک ایک گرہ کھل گئی۔- اس کی اصلیت کے لیے بغیر سبب نزول کے ذکر کیے ہوئے صحیح میں شاہد موجود ہے اور نیز ان سورتوں کے نزول کے تذکرہ کے ساتھ شاہد موجود ہے۔- اور ابو نعیم نے دلائل میں ابوجعفر رازی، ربیع بن انس، حضرت انس (رض) کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچانے کے لیے کچھ حرکت کی جس سے آپ سخت بیمار ہوگئے صحابہ کرام آپ کے پاس حاضر ہوئے تو سمجھے کہ آپ بیمار ہیں چناچہ جبریل امین معوذتین لے کر آپ کے پاس آئے اور آپ نے یہ سورتیں پڑھ کر دم کیا جس سے آپ صحیح و تندرست ہو کر اپنے صحابہ کے پاس تشریف لے گئے۔
آیت ٢ مَلِکِ النَّاسِ ۔ ” تمام انسانوں کے بادشاہ کی۔ “- وہ تمام انسانوں کا صرف پروردگار ہی نہیں ‘ ان کا بادشاہ اور فرماں روا بھی ہے۔ اس کا حکم ہر وقت ‘ ہر جگہ اور ہرچیز پر نافذ ہے۔