Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

خالق ، پرورش کنندہ ، مالک ، حکمران ، معبود حقیقی اور پناہ دہندہ٭٭ اس میں اللہ تعالیٰ عزوجل کی تین صفتیں بیان ہؤی ہیں ، پالنے اور پرورش کرنے کی ، مالک اور شہنشاہ ہونے کی ، معبود اور لائق عبادت ہونے کی تمام چیزیں اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اسی کی ملکیت میں ہیں اور اسی کی غلامی میں مشغول ہیں ، پس وہ حکم دیتا ہے کہ ان پاک اور برت رصفات والے اللہ کی پناہ میں آ جائے جو بھی پناہ اور بچاؤ کا طالب ہو ، شیطان جو انسان پر مقرر ہے اس کے وسوسوں سے وہی بچانے والا ہے ، شیطان ہر انسان کے ساتھ ہے ۔ برائیوں اور بدکاریوں کو وب زینت دار کر کے لوگوں کے سامنے وہ پیش کرتا رہتا ہے اور بہکانے میں راہ راست سے ہٹانے میں کوئ کمی نہیں کرتا ۔ اس کے شر سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جسے اللہ بچا لے ۔ صحیح حدیث شری میں ہے تم میں سے ہر شخص کے ساتھ ایک شیطان ہے لوگوں نے کہا کیا آپ کے ساتھ بھی آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی ہے پس میں سلامت رہتا ہوں وہ مجیھ صرف نیکی اور اچھائی کی بات ہی کہتا ہے ۔ بخاری مسلم کی اور حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی ایک واقعہ منقول ہے جس میں بیان ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف میں تھے تو ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے پاس رات کے وقت آئیں جب واپس جانے لگیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دے کر ٹھہرایا اور فرمایا سنو میرے ساتھ میری بیوی صفیہ بنت حی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا ) ہیں انہوں نے کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس فرمان کی ضرورت ہی کیا تھی؟ آپ نے فرمایا انس ان کے خون کے جاری ہنے کی جگہ شیطان گھومتا پھرتا رہتا ہے ، مجیھ خیال ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں وہ کوئی بدگمانی نہ ڈال دے ، حافظ ابو یعلی موصلی رحمتہ اللہ نے ایک حدیث وارد کی ہے جس میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شیطان اپنا ہاتھ انسان کے دل پر رکھے ہوئے ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تب تو اس کا ہاتھ ہٹ جاتا ہے اور اگر یہ ذکر اللہ بھول جاتا ہے تو وہ اس کے دل پر پورا قبضہ کر لیتا ہے ، یہی وسو اس الحناس ہے ، یہ حدیث غریب ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے ایک صحابی آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے گدھے نے ٹھوکر کھائی تو ان کے منہ سے نکلا شیطان برباد ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں نہ کہو اس سے شیطان پھول کر بڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اپنی قوت سے گرا دیا اور جب تم بسم اللہ کہو تو و گھٹ جاتا ہے یہاں تک مکھی کے برابر ہو جاتا ہے ، اس سے ثابت ہوا کہ ذکر اللہ سے شیطان پست اور مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کے چھوڑ دینے سے وہ بڑا ہو جاتا ہے اور غالب آ جاتا ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئ مسجد میں ہوتا ہے اس کے پاس شیطان آتا ہے اور اسے تھپکتا اور بہلاتا ہے جیسے کوئ شخص اپنے جانور کو بہلاتا ہو پھر اگر وہ خاموش رہا تو وہ ناک میں نکیل یا منہ میں لگام چڑھا دیتا ہے ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰعنہ نے یہ حدیث بیان فرما کر فرمایا تم خود اسے دیکھتے ہو نکیل والا تو وہ ہے جو ایک طرف جھکا کھڑا ہوا اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو اور لگام والا وہ ہے جو منہ کھولے ہوئے ہو اور اللہ کا ذکر نہ کرتا ہو ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں شیطان ابن آدم کے دل پر چنگل مارے ہوئے ہے جہاں یہ بھولا اور غفلت کی کہ اس نے وسوسے ڈالنے شروع کئے اور جہاں اس نے ذکر اللہ کیا اور یہ پیچھے ہٹا ، سلیمان فرماتے ہیں مجھ سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ شیطان راحت و رنج کے وقت انسان کے دل میں سوراخ کرنا چاہتا ہے یعنی اسے بہکانا چاہتا ہے اگر یہ اللہ کا ذکر کرے تو یہ بھاگ کھڑا ہوتا ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ شیطان برائی سکھاتا ہے جاں انسان نے اسکی مان لی پھر ہٹ جاتا ہے ، پھر فرمایا جو وسوسے ڈالتا ہے لوگوں کے سینے میں ، لفظ ناس جو انسان کے معنی میں ہے اس کا اطلاق جنوں پر بھی بطور غلبہ کے آ جاتا ہے ۔ قرآن میں اور جگہ ہے برجال من الجن کہا گیا ہے تو جنات کو لفظ ناس میں داخل کر لینے میں کوئ قباحت نہیں ، غرض یہ ہے کہ شیطان جنتا کے اور انسان کے سینے میں وسوسے ڈالتا رہتا ہے ۔ اس کے بعد کے جملے من الجنتہ والناس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن کے سینوں میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے وہ جن بھی ہیں اور انسان بھی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ وسو اس ڈالنے والا خواہ کوئی جن ہو خواہ کوئی انسان جیسے اور جگہ ہے ( وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ۭ وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوْهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُوْنَ ١١٢؁ ) 6- الانعام:112 ) یعنی اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمنی انسانی اور جناتی شیطان بنائے ہیں ایک دوسرے کے کان میں دھوکے کی باتیں بنا سنور کر ڈالتے رہتے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں آیا اور بیٹھ گیا ، آپ نے فرمایا نماز بھی پڑھی؟ میں نے کہا نہیں ۔ فرمایا کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعت ادا کر لو ۔ میں اٹھا اور دو رکعت پڑھ کر بیٹھ گیا ۔ آپ نے فرمایا اے ابو ذر اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو انسان شیطانوں اور جن شیطانوں سے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کیسی چیز ہے ، آپ نے ارشاد فرمایا بہترین چیز ہے ، جو چاہے کم کرے جو چاہے اس عمل کو زیادہ کرے ، میں نے پوچھا روزہ؟ فرمایا کافی ہونے والا فرض ہے اور اللہ کے پاس اجر و ثواب لا انتہا ہے ۔ میں نے پھر پوچھا صدقہ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت ہی بڑھا چڑھا کر کئی گنا کر کے بدلہ دیا جائے گا ۔ میں نے پھر عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کونسا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا باوجود مال کی کمی کے صدقہ کرنا یا چپکے سیچ ھپا کر کسی مسکین فقیر کے ساتھ سلوک کرنا ، میں نے سوال کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے نبی کون تھے؟ آپ نے فرمایا حضرت آدم علیہ السلام ، میں نے پوچھا کیا وہ نبی تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ نبی تھے اور وہ بھی وہ جن سے اللہ تعالیٰ نے بات چیت کی ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسول کتنے ہوئے؟ فرمایا تین سو کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت اور کبھی فرمایا تین سو پندرہ ، میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ان سب سے بڑی عظمت والی آیت کونسی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آیت الکرسی ( اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ٢٥٥؁ ) 2- البقرة:255 ) یہ حدیث نسائی میں بھی ہے اور ابو حاتم بن حبان کیصحیح ابن حبان میں تو دوسری سند سے دوسرے الفاظ کے ساتھ یہ حدیث بہت بڑی ہے ، فا اللہ اعلم ، مسند احمد کی ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے دل میں تو ایسے ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان کا زبان سے نکالنا مجھ پر آسمان سے گر پڑنے سے بھی زیادہ برا ہے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ ہی کے لئے حمد و ثناء ہے جس نے شیطان کے مکر و فریب کو وسوسے میں ہی لوٹا دیا ، یہ حدیث ابو داؤد اور نسائی میں بھی ہے ۔ الحمد اللہ اللہ تعالیٰ کے احسان سے یہ تفسیر ختم ہوئی ۔ والحمد اللہ رب العالمین اللہ کے فضل و کرم سے تیسویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی اور تفسیر ابن کثیر کا ترجمہ تفسیر محمدی بالکل کامل ہو گیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے پاک کلام کی صحیح سمجھ دے اور اس پر عمل نصیب فرمائے اور پھر قبول کرے ۔ آمین الہ الحق امین والحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام و علی جمیع المرسلین

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

رب (پروردگار) کا مطلب ہے جو ابتدا سے ہی جب کہ انسان ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے اس کی تدبیرو اصلاح کرتا ہے، حتٰی کہ وہ بالغ عاقل ہوجاتا ہے پھر وہ یہ تدبیر چند مخصوص افراد کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانوں کے لیے کرتا ہے اور تمام انسانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ اپنی تمام مخلوقات کے لیے کرتا ہے، یہاں صرف انسانوں کا ذکر انسان کے اس شرف افضل کے اظہار کے لیے ہے جو تمام مخلوقات پر اس کو حاصل ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) قل اعوذ برب الناس…: پناہ کا مطلب پچھلی سورت میں گزر چکا ہے۔ آدمی جب کسی سے خطرہ محسوس کرتا ہے تو سب سے پہلے اپنے کسی مربی (پرورش کرنے والے) ، مثلاً ماں یا باپ کی پناہ لیتا ہے، ان سے چمٹ جاتا ہے، تاکہ وہ اسے بچا لیں۔ اگر وہ کمزور ہوں اور نہ بچا سکتے ہں تو بادشاہ سے بچانے کی درخواست کرتا ہے اور اس کی پناہ لیتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ بادشاہ اپنی قوت اور فوج کے ذریعے سے اسے بچا سکتا ہے۔ اگر نظر آرہا ہو کہ اس خطرے سے بچانا بادشاہ کے بس کی بات بھی نہیں تو پھر اس ہستی کی پناہ لیتا ہے جسے وہ غیبی قوتوں کا مالک سمجھتا اور جس کی عبادت کرتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ دنیوی اسباب ختم ہونے کے بعد اسے اس کے علاوہ کہیں سے پناہ نہیں مل سکتی۔- اس سورت میں وسوسہ ڈلانے والے کے شر سے پناہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ کی تین صفات کے ساتھ پناہ پکڑنے کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر اپنے کسی پر وشر کرنے والے کی پناہ پکڑنا چاہو تو بجائے اس کے کہ کسی ایسے شخص کی پناہ پکڑو جو کسی ایک آدھ یا چند آدمیوں کی پر وشر کر رہا ہو اور حقیقت میں وہ خود محتاج ہو، تم اس کی پناہ پکڑو جو سب لوگوں کا رب اور سب کی پرورش کرنے والا ہے، جو کسی کا محاتج نہیں اور سب اس کے محتاج ہیں۔ اگر کسی صاحب قوت بادشاہ کی پناہ پکڑنا چاہو تو بجائے اس کے کہ ان بادشاہوں کی پناہ پکڑو جو فوجوں کے محتاج ہیں، جن کا اقتدار محدود اور عارضی ہے اور جن کی اپنی زندگی اور اپنا نفع و نقصان ان کے ہاتھ میں نہیں، تم اس کی پناہ پکڑو جو تمام لوگوں کا بادشاہ ہے اور اس کی قوت اور بادشاہی کسی فوج یا سالار کی محتاج نہیں اور اگر کسی ایسی ہستی کی پناہ لینا چاہو جسے غیبی قوتوں کا مالک ہونے کی وجہ سے تم عبادت کا حق دار سمجھتے ہو تو وہ صرف اور صرف ایک ہی ہے، جو تمام لوگوں کا معبود برحق ہے اور صرف وہی تمہیں ان خطرات میں پناہ دے سکتا ہے جن کے سامنے تمام مربی اور تمام بادشاہ بےبس ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ کوئی غیبی قوتوں کا مالک ہے، نہ کائنات کی کسی چیز میں کسی دوسرے کا دخل ہے اور نہ کسی کا حق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔- (٢) سورة فلق میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ” برب الفلق “ کے ساتھ ساری مخلوق کے شر سے عمومًا اور مخلوق میں سے تین چیزوں کے شر سے خصوصاً پناہ مانگی گئی ہے۔ یعنی اندھیری رات، گرہوں میں پھونکنے والیوں اور حاسد کے شر سے اور اس سورت میں صرف ایک چیز یعنی ہٹ ہٹ کر وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے اللہ تعالیٰ کی تین صفات کے ساتھ پناہ مانگی گئی، کیونکہ پہلی تینوں چیزیں انسان کے جسم و جان کو نقصان پہنچانے والی ہیں، جب کہ وسوسہ اس کے ایمان کو نقصان پہنچانے والا ہے اور ایمان کی حفاظت کی فکر جسم و جان سے بھی اہم ہے۔- (٣) پہلی تین آیات میں ” الناس “ کا لفظ بار بار لایا گیا ہے، حالانکہ ” برب الناس “ کے بعد والی آیات میں ” الناس “ کی ضمیر بھی لائی جاسکتی تھی۔ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے (واللہ اعلم) کہ لوگوں کے وسوسے کا شراتنا خوف ناک ہے کہ بندہ بار بار اس کا حوالہ دیتا ہے کہ یا ال لہ لوگوں کا رب بھی تو ہے ، لوگوں کا بادشاہ بھی تو ہے اور لوگوں کا الہ بھی تو ہے، اس لئے لوگوں کے شر سے پناہ بھی تو ہی دے سکتا ہے۔ اس سورت میں ان تینوں صفات کی پناہ پکڑتے وقت ضمناً بھی بار بار لوگوں کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے، پھر ” من شر الوسواس…“ کے ساتھ صاف لفظوں میں بھی لوگوں کے وسوسے کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے۔ تفسیر قاسمی میں شیخ الاسلام ابن تیمیمہ اور شیخ ناصر سے ایک اور حکمت نقل کی گئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پناہ مانگنے والے بھی چونکہ لوگ ہیں، اس لئے پناہ مانگتے وقت بار بار ان نسبتوں کا حوالہ دیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے درمیان اور لوگوں کے درمیان موجود ہیں کہ یا اللہ تو لوگوں کا رب بھی ہے، لوگوں کا بادشاہ بھی اور لوگوں کا معبود برقح بھی، تو جب لوگوں کا سبھی کچھ تو ہی ہے تو تیرے علاوہ انہیں پناہ دینے والا اور کون ہوسکتا ہے ؟ (قاسمی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - آپ کہئے کہ میں آدمیوں کے مالک، آدمیوں کے بادشاہ، آدمیوں کے معبود کی پناہ لیتا ہوں وسوسوہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے (شیطان) کے شر سے (پیچھے ہٹنے کا مطلب یہ کہ حدیث میں ہے کہ اللہ کا نام لینے سے شیطان ہٹ جاتا ہے) جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے خواہ وہ (وسوسہ ڈالنے والا) جن ہو یا آدمی (یعنی جس طرح میں شیاطین الجن سے پناہ مانگتا ہوں، اسی طرح شیاطین الانس سے بھی پناہ مانگتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ کنات اور انسان دونوں میں شیاطین ہونے کا ذکر ہے وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیطین الانس والجن) - معارف ومسائل - سورة فلق میں دنیوی آفات و مصائب سے پناہ مانگنے کی تعلیم ہے اور اس صورت میں اخریو آفات سے پناہ مانگنے کی تاکید ہے اور جیسا کہ لفظ شر کا مفہوم سورة فلق میں بیان کیا گیا ہے کہ آلام اور موجبات آلام دونوں کو شامل ہے اس سورت میں اس شر سے پناہ مانگی گئی ہے جو تمام گناہوں کا سبب ہے یعنی شیطان وساوس و اثرات، چونکہ آخرت کی مضرت اشد ہے اس لئے اس کی تاکید پر قرآن ختم کیا گیا۔- قل اعوذ برب الناس رب کے معنی پالنے والے اور ہر حال کی اصلاح کرنے والے کے ہیں اس جگہ رب کی اضافت ناس کی طرف کی گئی اور پہلی سورت میں فلق کی طرف وجہ یہ ہے کہ سورة فلق میں ظاہری اور جسمانی آفات سے پناہ مانگتا مقصود ہے اور وہ انسان کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جانوروں کو بھی بدنی آفات و مصائب پہنچتے ہیں بخلاف وسوسہ شیطانی کے کہ اس کا نقصان انسان کے ساتھ مخصوص ہے اور جنات بھی اس میں بعاً شامل ہیں۔ اس لئے یہاں رب کی اضافت ناس کی طرف کی گئی۔ (مظہری عبن البیضاوی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ۝ ١ ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122]- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

یہ پوری سورت مکی ہے اس میں چھ آیات اور بیس کلمات ہیں

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۔ ” کہیے کہ میں پناہ میں آتا ہوں تمام انسانوں کے رب کی۔ “- یہاں سب سے پہلے ” رَبّ الناس “ (لوگوں کا پروردگار) کے کلمات سے اللہ تعالیٰ کا تعارف کرایا گیا ہے کہ تمہیں ایسی ذات سے پناہ مانگنے کا حکم دیا جا رہا ہے جو تمہاری جملہ ضروریات کا کفیل ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: پچھلی سورت کا حاشیہ نمبر 1 ملاحظہ فرمائیے۔