Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تعارف قرآن بزبان اللہ الرحمن سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں حروف مقطعات کی بحث گزر چکی ہے ۔ اس کتاب یعنی قرآن شریف کی یہ آیتیں بہت واضح کھلی ہوئی اور خوب صاف ہیں ۔ مبہم چیزوں کی حقیقت کھول دیتی ہیں یہاں پر تلک معنی میں ھذہ کے ہے ۔ چونکہ عربی زبان نہایت کامل اور مقصد کو پوری طرح واضح کر دینے والی اور وسعت و کثرت والی ہے ، اس لے یہ پاکیزہ تر کتاب اس بہترین زبان میں افضل تر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، رسول کے سردار فرشتے کی سفارت میں ، تمام روئے زمین کے بہتر مقام میں ، وقتوں میں بہترین وقت میں نازل ہو کر ہر ایک طرح کے کمال کو پہنچی تاکہ تم ہر طرح سوچ سمجھ سکو اور اسے جان لو ہم بہترین قصہ بیان فرماتے ہیں ۔ صحابہ نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی واقعہ بیان فرماتے ؟ اس پر یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ ایک زمانے تک قرآن کریم نازل ہوتا گیا اور آپ صحابہ کے سامنے تلاوت فرماتے رہے پھر انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی واقعہ بھی بیان ہو جاتا تو؟ اس پر یہ آیتیں اتریں پھر کچھ وقت کے بعد کہا کاش کہ آپ کوئی بات بیان فرماتے اس پر یہ ( اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ تَــقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِاللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ يَهْدِيْ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 23؀ ) 39- الزمر:23 ) اتری ۔ اور بات بیان ہوئی ۔ روش کلام کا ایک ہی انداز دیکھ کر صحابہ نے کہا یا رسول اللہ بات سے اوپر کی اور قرآن سے نیچے کی کوئی چیز ہوتی یعنی واقعہ ، اس پر یہ آیتیں اتریں ، پھر انہوں نے حدیث کی خواہش کی اس پر ( آیت اللہ نزل الخ ، ) اتری ۔ پس قصے کے ارادے پر بہترین قصہ اور بات کے ارادے پر بہترین بات نازل ہوئی ۔ اس جگہ جہاں کہ قرآن کریم کی تعریف ہو رہی ہے ۔ اور یہ بیان ہے کہ یہ قرآن اور سب کتابوں سے بےنیاز کر دینے والا ہے ۔ مناسب ہے کہ ہم مسند احمد کی اس حدیث کو بھی بیان کر دیں جس میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کو کسی اہل کتاب سے ایک کتاب ہاتھ لگ گئی تھی اسے لے کر آپ حاضر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور آپ کے سامنے سنانے لگے آپ سخت غضب ناک ہوگئے اور فرمانے لگے اے خطاب کے لڑکے کیا تم اس میں مشغول ہو کر بہک جانا چاہتے ہو اسکی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اس کو نہایت روشن اور واضح طور پر لے کر آیا ہوں ۔ تم ان اہل کتاب سے کوئی بات نہ پوچھو ممکن ہے کہ وہ صحیح جواب دیں اور تم سے جھٹلا دو ۔ اور ہو سکتا ہے کہ وہ غلط جواب دیں اور تم اسے سچا سمجھ لو ۔ سنو اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آج خود حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو انہیں بھی سوائے میری تابعداری کے کوئی چارہ نہ تھا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ بنو قریضہ قبیلہ کے میرے ایک دوست نے تورات میں سے چند جامع باتیں مجھے لکھ دی ہیں ۔ تو کیا میں انہیں آپ کو سناؤ؟ آپ کا چہرہ متغیر ہو گیا ۔ حضرت عبداللہ بن ثابت نے کہا کہ اے عمر کیا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے؟ اب حضرت عمر کی نگاہ پڑی تو آپ کہنے لگے ہم اللہ کے رب ہو نے پر ، اسلام کے دین ہو نے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو نے پر دل سے رضامند ہیں ۔ اب آپ کے چہرہ سے غصہ دور ہوا اور فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ اگر تم میں خود حضرت موسی ہوتے پھر تم مجھے چھوڑ کر ان کی اتباع میں لگ جاتے تو تم سب گمراہ ہو جاتے امتوں میں سے میرا حصہ تم ہو اور نبیوں میں سے تمہارا حصہ میں ہوں ۔ ابو یعلی میں ہے کہ سوس کا رہنے والا قبیلہ عبدالقیس کا ایک شخص جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس آیا آپ نے اس سے پوچھا کہ تیرا نام فلاں فلاں ہے؟ اس نے کہا ہاں پوچھا تو سوس میں مقیم ہے؟ اس نے کہا ہاں تو آپ کے ہاتھ میں جو خوشہ تھا اسے مارا ۔ اس نے کہا امیر المومنین میرا کیا قصور ہے؟ آپ نے فرمایا بیٹھ جا ۔ میں بتاتا ہوں پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر اسی سورت کی ( آیتیں لمن الغافلین ) تک پڑھیں تین مرتبہ ان آیتوں کی تلاوت کی اور تین مرتبہ اسے مارا ۔ اس نے پھر پوچھا کہ امیرالمومنین میرا قصور کیا ہے آپ نے فرمایا تو نے دانیال کی ایک کتاب لکھی ہے ۔ اس نے کہا پھر جو آپ فرمائیں ۔ میں کرنے کو تیار ہوں ، آپ نے فرمایا جا اور گرم پانی اور سفید روئی سے اسے بالکل مٹا دے ۔ خبردار آج کے بعد سے اسے خود پڑھنا نہ کسی اور کو پڑھانا ۔ اب اگر میں اس کے خلاف سنا کہ تو نے خود اسے پڑھا یا کسی کو پڑھایا تو ایسی سخت سزا کروں گا کہ عبرت بنے ۔ پھر فرمایا بیٹھ جا ، ایک بات سنتا جا ۔ میں نے جاکر اہل کتاب کی ایک کتاب لکھی پھر اسے چمڑے میں لئے ہوئے حضور علیہ السلام کے پاس آیا ۔ آپ نے مجھ سے پوچھا تیرے ہاتھ میں یہ کیا ہے؟ میں نے کہا ایک کتاب ہے کہ ہم علم میں بڑھ جائیں ۔ اس پر آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ غصے کی وجہ سے آپ کے رخسار پر سرخی نمودار ہو گئی پھر منادی کی گئی کہ نماز جمع کرنے والی ہے ۔ اسی وقت انصار نے ہتھیار نکال لیے کہ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کر دیا ہے اور منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف وہ لوگ ہتھیار بند بیٹھ گئے ۔ اب آپ نے فرمایا لوگو میں جامع کلمات دیا گیا ہوں اور کلمات کے خاتم دیا گیا ہوں اور پھر میرے لیے بہت ہی اختصار کیا گیا ہے میں اللہ کے دین کی باتیں بہت سفید اور نمایاں لایا ہوں ۔ خبردار تم بہک نہ جانا ۔ گہرائی میں اترنے والے کہیں تمہیں بہکا نہ دیں ۔ یہ سن کر حضرت عمر کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے میں تو یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رب ہو نے پر ، اسلام کے دین ہو نے پر آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو نے پر دل سے راضی ہوں ۔ اب جو صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اس کے ایک روای عبدالرحمن بن اسحاق کو محدثین ضعیف کہتے ہیں ۔ امام بخاری ان کی حدیث کو صحیح نہیں لکھتے ۔ میں کہتا ہوں اس کا ایک شاہد اور سند حافظ ابو بکر احمد بن ابراہیم اسماعیلی لائے ہیں کہ خلافت فاروقی کے زمانے میں آپ نے محصن کے چند آدمی بلائے ان میں دو شخص وہ تھے جنہوں نے یہودیوں سے چند باتیں منتخب کر کے لکھ لی تھیں ۔ وہ اس مجموعے کو بھی اپنے ساتھ لائے تاکہ حضرت سے دریافت کرلیں اگر آپ نے اجازت دی تو ہم اس میں اسی جیسی اور باتیں بھی بڑھا لیں گے ورنہ اسے بھی پھینک دیں گے ۔ یہاں آکر انہوں نے کہا کہ امیرالمومنین یہودیوں سے ہم بعض ایسی باتیں سنتے ہیں کہ جن سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو کیا وہ باتیں ان سے لے لیں یا بالکل ہی نہ لیں؟ آپ نے فرمایا شاید تم نے ان کی کچھ باتیں لکھ رکھیں ہیں؟ سنو میں اس میں فیصلہ کن واقعہ سناؤ ۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں خیبر گیا ۔ وہاں کے ایک یہودی کی باتیں مجھ بہت پسند آئیں ۔ میں نے اس سے درخواست کی اور اس نے وہ باتیں مجھے لکھ دیں ۔ میں نے واپس آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا آپ نے فرمایا جاؤ وہ لے کر آؤ میں خوشی خوشی چلا گیا شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا یہ کام پسند آگیا ۔ لاکر میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا ۔ اب جو ذرا سی دیر کے بعد میں نے نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو سخت ناراض ہیں ۔ میری زبان سے تو ایک حرف بھی نہ نکلا اور مارے خوف کے میر رواں رواں کھڑا ہوگیا ۔ میری یہ حالت دیکھ کر اب آپ نے ان تحریروں کو اٹھا لیا اور ان کا ایک ایک حرف مٹانا شروع کیا اور زبان مبارک سے ارشاد فرماتے جاتے تھے کہ دیکھو خبردار ان کی نہ ماننا ۔ یہ تو گمراہی کے گڑھے میں جا پڑے ہیں اور یہ تو دوسروں کو بھی بہکا رہے ہیں ۔ چنانچہ آپ نے اس ساری تحریر کا ایک حرف بھی باقی نہ رکھا ۔ یہ سنا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم نے بھی ان کی باتیں لکھی ہوئی ہوتیں تو میں تمہیں ایسی سزا کرتا جو اوروں کے لیے عبرت ہو جائے ۔ انہوں نے کہا واللہ ہم ہرگز ایک حرف بھی نہ لکھیں گے ۔ باہر آتے ہی جنگل میں جاکر انہوں نے اپنی وہ تختیاں گڑھا کھود کر دفن کر دیں ۔ مراسیل ابی داؤد میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایسی ہی روایت ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ :” الۗرٰ “ کے لیے دیکھیے سورة بقرہ کی پہلی آیت۔ ” الْمُبِيْنِ “ ” أَبَانَ یُبِیْنُ “ باب افعال سے اسم فاعل ہے، لازم بھی آتا ہے، جیسے : (اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ) [ البقرۃ : ١٦٨ ] ” بیشک وہ تمہارا کھلا (واضح) دشمن ہے۔ “ متعدی بھی، یعنی بیان کرنے والا، واضح کرنے والا۔ ” الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ “ یعنی جس کا انداز بیان واضح اور ہر ایک کی سمجھ میں آنے والا ہے، یا جس کا اللہ کا کلام ہونا بالکل عیاں اور ہر شک و شبہ سے بالا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- الرٰ اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ آیتیں ہیں ایک واضح کتاب کی (جس کے الفاظ اور معانی اولیہ بہت صاف ہیں) ہم نے اس کو اتارا ہے قرآن عربی زبان کا تاکہ تم (اہل زبان ہونے کی وجہ سے دوسروں سے پہلے) سمجھو (پھر تمہارے واسطے سے دوسرے لوگ سمجھیں) ہم نے جو یہ قرآن آپ کے پاس بھیجا ہے اس کے ذریعہ سے ہم آپ سے ایک بڑا عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں اور اس سے پہلے آپ (اس قصہ سے) بالکل بیخبر تھے (کیونکہ نہ آپ نے کوئی کتاب پڑھی تھی نہ کسی معلم سے کچھ سیکھا تھا اور قصہ کی شہرت بھی ایسی نہیں تھی کہ عوام جانتے ہوں آغاز قصہ) وہ وقت قابل ذکر ہے جبکہ یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والد (یعقوب علیہ السلام) سے کہا کہ ابا میں نے (خواب میں) گیارہ ستارے اور سورج اور چاند دیکھے ہیں ان کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے انہوں نے (جواب میں) فرمایا کہ بیٹا اپنے اس خواب کو اپنے بھائیوں کے سامنے بیان نہ کرنا (کیونکہ وہ خاندان نبوت میں سے ہونے کی وجہ سے اس خواب کی تعبیر جانتے ہیں کہ گیارہ ستارے گیارہ بھائی اور سورج والد اور چاند ماں ہے اور سجدہ کرنے سے مراد ان سب کا تمہارے لئے مطیع و فرمانبردار ہونا ہے) تو وہ تمہارے (ایذاء رسانی کے) لئے کوئی خاص تدبیر کریں گے (یعنی بھائیوں میں سے اکثر کیونکہ دس بھائی علاتی تھے ان سے خطرہ تھا صرف ایک بھائی حقیقی بنیامین تھے جن سے کسی خلاف کا تو اندیشہ نہ تھا مگر یہ احتمال تھا کہ انکے منہ سے بات نکل جائے) بلاشبہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے (اس لئے بھائیوں کے دل میں وسوسے ڈالے گا) اور (جس طرح اللہ تعالیٰ تم کو یہ عزت دے گا کہ سب تمہارے تابع ومطیع ہوں گے) اس طرح تمہارا رب تم کو (دوسری عزت نبوت کیلئے بھی) منتخب کرے گا اور تم کو خوابوں کی تعبیر دے گا اور (دوسری نعمتیں دے کر بھی) تم پر اور اولاد یعقوب پر اپنا انعام کامل کرے گا جیسا کہ اس سے پہلے تمہارے دادا ابراہیم واسحاق (علیہما السلام) پر اپنا انعام کامل کرچکا ہے واقعی تمہارا رب بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے - معارف و مسائل :- سورة یوسف چار آیتوں کے سوا پوری مکی سورة ہے اس سورة میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کا قصہ تسلسل اور ترتیب کے ساتھ بیان ہوا ہے اور یہ قصہ صرف اسی سورة میں آیا ہے پورے قرآن میں دوبارہ اس کا کہیں ذکر نہیں یہ خصوصیت صرف قصہ یوسف (علیہ السلام) ہی کی ہی ورنہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کے قصص و واقعات پورے قرآن میں خاص حکمت کے تحت اجزاء اجزاء کر کے لائے گئے ہیں اور بار بار لائے گئے،- حقیقت یہ ہے کہ تاریخ عالم اور ماضی کے تجربات میں انسان کی آئندہ زندگی کے لئے بڑے سبق ہوتے ہیں جن کی قدرتی تاثیر کا رنگ انسان کے قلب و دماغ پر عام تعلیمات سے بہت زیادہ گہرا اور بےمحنت ہوتا ہے اسی لئے قرآن کریم جو تمام اقوام عالم کے لئے آخری ہدایت نامہ کی حیثیت سے بھیجا گیا ہے اس میں پوری اقوام عالم کی تاریخ کا وہ منتخب حصہ لے لیا گیا ہے جو انسان کے حال اور مال کی اصلاح کے لئے نسخہ کیمیا ہے مگر قرآن کریم نے تاریخ عالم کے اس حصہ کو بھی اپنے مخصوص وبے مثال انداز میں اس طرح لیا ہے کہ اس کا پڑھنے والا یہ محسوس نہیں کر سکتا کہ کہ کوئی تاریخ کی کتاب ہے بلکہ ہر مقام پر جس قصہ کا کوئی ٹکڑا عبرت وموعظت کیلئے ضروری سمجھا گیا صرف اتنا ہی حصہ وہاں بیان کیا گیا اور پھر کسی دوسرے موقع پر اس حصہ کی ضرورت سمجھی گئی تو پھر اس کا اعادہ کردیا گیا اسی لئے ان قصوں کے بیان میں واقعاتی ترتیب کی رعایت نہیں کی گئی بعض جگہ قصہ کا ابتدائی حصہ بعد میں اور آخری حصہ پہلے ذکر کردیا گیا ہے اس خاص اسلوب قرآنی میں یہ مستقل ہدایت ہے کہ دنیا کی تاریخ اور اس کے گذشتہ واقعات کا پڑھنا یادرکھنا خود کوئی مقصد نہیں بلکہ انسان کا مقصد ہر قصہ وخبر سے کوئی عبرت و نصیحت حاصل کرنا ہونا چاہئے،- اسی لئے بعض اہل تحقیق نے فرمایا کہ انسان کے کلام کی جو دو قسمیں خبر اور انشاء مشہور ہیں ان دونوں قسموں میں سے مقصود اصلی انشاء ہی ہے خبر بحیثیت خبر کبھی مقصود نہیں ہوتی بلکہ دانشمند انسان کا مقصد ہر خبر اور واقعہ کو سننے اور دیکھنے سے صرف اپنے حال اور عمل کی اصلاح ہونی چاہئے،- حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ کو ترتیب کے ساتھ بیان کرنے کی ایک حکمت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تاریخ نگاری بھی ایک مستقل فن ہے اس میں اس فن والوں کے لئے خاص ہدایات ہیں کہ بیان میں نہ اتنا اختصار ہونا چاہئے جس سے بات ہی پوری نہ سمجھی جاسکے اور نہ اتنا طول ہونا چاہئے کہ اس کا پڑھنا اور یاد رکھنا مشکل ہوجائے جیسا کہ اس قصہ کے قرآنی بیان سے واضح ہوتا ہے،- دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ یہود نے آزمائش کیلئے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو ہمیں بتلائیے کہ آل یعقوب ملک شام سے مصر کیوں منتقل ہوئے اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ کیا تھا ؟ ان کے جواب میں بذریعہ وحی یہ پورا قصہ نازل کیا گیا جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ اور آپ کی نبوت کا بڑا شاہد تھا کہ آپ امی محض تھے اور عمر بھر مکہ میں مقیم رہے کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی اور نہ کوئی کتاب پڑھی پھر وہ تمام واقعات جو تورات میں مذکور تھے صحیح صحیح بتلا دیئے بلکہ بعض وہ چیزیں بھی بتلا دیں جن کا ذکر تورات میں نہ تھا اور اس کے ضمن میں بہت سے احکام و ہدایات ہیں جو آگے بیان ہوں گی - سب سے پہلی آیت میں حروف الٰر ٰمقطعات قرآنیہ میں سے ہیں جن کے متعلق جمہور سلف صحابہ وتابعین کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ متکلم اور مخاطب یعنی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک راز ہے جس کو کوئی تیسرا آدمی نہیں سمجھ سکتا اور نہ اس کے لئے مناسب ہے کہ اس کی تحقیق کے درپے ہو۔ - (آیت) تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ یعنی یہ ہیں آیتیں اس کتاب کی جو احکام حلال و حرام اور ہر کام کی حدود وقیود بتلا کر انسان کو ہر شعبہ زندگی میں ایک معتدل سیدھا نظام حیات بخشی ہیں جن کے نازل کرنے کا وعدہ تورات میں پایا جاتا ہے اور یہود اس سے واقف ہیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الۗرٰ۝ ٠ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ۝ ١ ۣ- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١) الر۔ میں اللہ ہوں جو کچھ تم کہہ رہے ہو اور کر رہے ہو میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کچھ تمہارے سامنے پڑھ کر سناتے ہیں وہ میرا کلام ہے یا یہ کہ قسم ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے کھائی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ )- یہ اس کتاب روشن کی آیات ہیں جو اپنا مدعا واضح طور پر بیان کرتی ہے اور کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani