2۔ 1 آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد، لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی ہے اور یہ مقصد اس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ کتاب اس زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ سکیں، اس لئے ہر آسمانی کتاب اس قومی زبان میں نازل ہوئی، جس قوم کی ہدایت کے لئے اتاری گئی تھی۔ قرآن کریم کے مخاطب اول چونکہ عرب تھے، اس لئے قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا علاوہ ازیں عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت اور ادائے معانی کے لحاظ سے دنیا کی بہترین زبان ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس اشرف الکتاب (قرآن مجید) کو اشرف اللغات (عربی) میں اشرف الرسل (حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اشرف الملائکہ (جبرائیل) کے ذریعے سے نازل فرمایا اور مکہ، جہاں اس کا آغاز ہوا، دنیا کا اشرف ترین مقام ہے اور جس مہینے میں نزول کی ابتدا ہوئی وہ بھی اشرف ترین مہینہ۔ رمضان ہے۔
[١] قرآن کی عربی زبان اور روایت بالمعنی کی ضرورت :۔ قرآن ساری دنیا کے لیے ہدایت کی کتاب ہے۔ لیکن چونکہ اس کے اولین مخاطب اہل عرب تھے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اسے عربی زبان میں نازل کیا جاتا۔ تاکہ پہلے عرب اس کے مطالب کو خوب سمجھیں، پھر دوسرے لوگوں تک ان لوگوں کی زبان میں اسے پہنچائیں۔ اہل عجم عربی زبان سیکھ جائیں اس سے ایک نہایت اہم مسئلہ کی بھی وضاحت ہوجاتی ہے جو یہ ہے کہ روایت بالمعنی شرعی لحاظ سے قابل اعتبار چیز ہے اور روایت بالمعنی کے بغیر یہ ممکن ہی نہ تھا کہ قرآن کے مطالب کو دوسری زبانوں میں منتقل کیا جاسکتا۔ قرآن کی ایک صفت تو یہ ہے کہ وہ عربی زبان میں ہے اور دوسری یہ کہ وہ اپنے سارے مطالب واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ یعنی ایسے مطالب جن پر انسانی ہدایت کے لیے کسی عمل کی بنیاد رکھی جاسکتی ہو۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا ۔۔ :” اَنْزَلْنٰهُ “ میں ” ہٗ “ ضمیر ” اَلْکِتٰب “ کی طرف جا رہی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کتاب صرف اہل عرب کے لیے ہے دوسروں کے لیے نازل نہیں کی گئی ہے۔ بات یہ ہے کہ تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے جو کتاب اتاری جائے گی وہ کسی ایک ہی انسانی زبان میں ہوگی اور فطری طریقہ یہ ہے کہ یا تو اس کتاب کی زبان سیکھی جائے یا اس کا دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے، چناچہ یہی طریقہ قرآن کے بارے میں ملحوظ رکھا گیا۔ اس لیے عربوں سے، جو اس کے اولین مخاطب ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ہم نے یہ کتاب تمہاری اپنی زبان میں نازل کی ہے، کسی اور زبان میں نہیں اتاری کہ تم اسے ٹھیک طرح سے سمجھ نہ سکنے کا عذر پیش کرسکو۔ یہ کتاب عربی قرآن ہے، قرآن کا معنی پڑھنا ہے، بمعنی اسم مفعول، یعنی یہ ایسی کتاب ہے جو اتنی پڑھی جانے والی ہے کہ سراسر اس کا وجود ہی پڑھا جانا ہے۔ اس میں عقل والوں کے لیے عبرت کا بڑا سامان ہے ۔- ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ( اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ) اس لیے کہ لغت عرب تمام زبانوں سے زیادہ فصیح، سب سے واضح اور وسیع ہے، انسانی نفس میں آنے والے احساسات و جذبات اور مضامین و معانی کو سب سے زیادہ اور بہتر ادا کرنے والی ہے، اس لیے یہ تمام کتابوں سے اشرف (زیادہ بلندی اور شرف رکھنے والی) کتاب ہے۔ یہ کتاب تمام زبانوں سے زیادہ باشرف زبان میں، تمام رسولوں سے زیادہ شرف رکھنے والے رسول پر، تمام فرشتوں سے زیادہ شرف رکھنے والے فرشتے کی سفارت کے ذریعے سے اتری اور زمین کے تمام قطعوں اور علاقوں سے زیادہ باشرف علاقے مکہ میں، سال کے سب سے باشرف مہینے رمضان اور اس کے سب سے باشرف وقت لیلۃ القدر میں اتری۔ سو اس کا باشرف ہونا اور سب کتابوں سے اشرف ہونا ہر لحاظ سے کامل ہے۔ “ مختصر سی تفصیل اس کی یہ ہے کہ کئی زبانوں کے حروف تہجی پچاس (٥٠) سے لے کر اسی (٨٠) تک ہیں، جب کہ عربی زبان کے حروف تہجی کل انتیس (٢٩) ہیں، جنھیں سیکھنا آسان ہے۔ سیکھنے میں نہایت آسان ہونے کے باوجود اپنا مقصد اور دل کی بات ادا کرنے کے لیے اس زبان کی وسعت دنیا کی ہر زبان سے زیادہ ہے، مثلاً اکثر زبانوں میں فعل کے صیغوں میں فاعل مذکر یا مؤنث کے لیے الگ الگ الفاظ نہیں ہیں، مثلاً وہ گیا، وہ گئی، دونوں کے لیے فارسی میں ” رفت “ اور انگریزی میں ” (رض) “ ہے۔ ان زبانوں میں مذکر و مؤنث کی وضاحت کے لیے الگ الفاظ لانا پڑیں گے، نہ ہی ان زبانوں میں تثنیہ اور جمع کی وضاحت فعل کے لفظ سے ہوتی ہے، اس کے لیے بھی الگ الفاظ کی ضرورت ہے۔ غرض عربی زبان کی خوبیاں ایک مستقل مضمون ہے جس پر اہل علم کی کتابیں موجود ہیں۔ - عرب قوم پہاڑوں اور صحراؤں میں رہنے اور ہر وقت تقریباً حالت سفر میں رہنے کی وجہ سے نہایت جفاکش اور خود دار قوم تھی اور وہ ہمیشہ غیروں کی غلامی سے آزاد رہی تھی، اگرچہ ان میں بیشمار خرابیاں اور گمراہیاں موجود تھیں، مثلاً بت پرستی، شرک، ظلم و ستم، باہمی لڑائی، چوری، ڈاکے، جوا، شراب نوشی اور زنا وغیرہ، ان میں عام تھے، اس کے باوجود وہ بہت سی خوبیوں کی حامل بھی تھی، مثلاً غیرت، قبائلی زندگی کی وجہ سے حمیت اور دفاع کا جذبہ، کسی صورت غلامی قبول نہ کرنا، ایفائے عہد، سخاوت، صدق، ان پڑھ ہونے کی وجہ سے کمال درجے کا حافظہ۔ غرض وہ قوم بہت سی خوبیوں کی بھی حامل تھی، اپنی زبان کی خوبی، وسعت اور حسن ادا کی وجہ سے اپنے آپ کو عرب (اپنے مطلب کا واضح اظہار کرنے والے) اور دوسری تمام اقوام کو عجم (گونگے) قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی بیشمار مصلحتوں کے ساتھ ساتھ ان خوبیوں کی بنا پر بھی تمام اقوام عالم تک اپنا دین پہنچانے کے لیے عربوں کا انتخاب فرمایا۔ کیونکہ آخری نبی کا قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ قرآن مجید اپنی دوسری بیشمار خوبیوں کے ساتھ ادائے مطلب کے حسن میں بھی لاجواب تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے عربی زبان میں اتارا اور چیلنج کردیا کہ اس جیسی کتاب لاؤ، پھر دس سورتیں لانے کا اور آخر میں صرف تین آیات کی چھوٹی سی سورت کی مثال پیش کرنے کا چیلنج کیا، جس کا جواب آج تک نہ عرب دے سکے، نہ عجم اور نہ قیامت تک دے سکیں گے۔
(آیت) اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ یعنی ہم نے نازل کیا اس کو قرآن عربی بنا کر شاید تم سمجھ بوجھ حاصل کرلو،- اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ قصہ یوسف (علیہ السلام) کا سوال کرنے والے عرب کے یہودی تھے اللہ تعالیٰ نے انہی کی زبان میں یہ قصہ نازل فرما دیا تاکہ وہ غور کریں اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق و حقانیت پر ایمان لائیں اور اس قصہ میں جو احکام و ہدایات ہیں ان کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں - اسی لئے اس جگہ لفظ لعل بمعنے شاید لایا گیا ہے کیونکہ ان مخاطبوں کا حال معلوم تھا کہ ایسی واضح آیات بینات سامنے آنے کے بعد بھی ان سے قبول حق کی توقع مشکوک تھی،
اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ ٢- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] - ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ - عَرَبيُّ :- الفصیح البيّن من الکلام، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف 2] ، وقوله : بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ- [ الشعراء 195] ،- العربی - واضح اور فصیح کلام کو کہتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ قُرْآناً عَرَبِيًّا[يوسف 2] واضح اور فصیح قرآن ( نازل کیا ) بِلِسانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ [ الشعراء 195]- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں
(٢) یہ سورت قرآن کریم کی آیات ہیں جو کہ حلال و حرام اور امر و نواہی کو واضح طور پر بیان فرمارہا ہے۔
آیت ٢ (اِنَّآ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا)- یعنی وہ قرآن جو اُمّ الکتاب اور لوح محفوظ میں ہمارے پاس ہے ‘ اس کو ہم نے قرآن عربی بنا کر محمد رسول اللہ پر نازل کیا ہے ۔- (لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ )- یہ خطاب عرب کے امیینّ سے ہے کہ ہمارے آخری رسول کی اوّلین بعثت تمہاری طرف ہوئی ہے۔ آپ کے مخاطبین اولین تم لوگ ہو۔ چناچہ ہم نے قرآن کو تمہاری اپنی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم لوگ اسے اچھی طرح سمجھ سکو۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :1 قرآن مصدر ہے قَرَأَ یَقرأ سے ۔ اس کے اصل معنی ہیں”پڑھنا“ ۔ مصدر کو کسی چیز کے لیے جب نام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس شے کے اندر معنی مصدری بدرجہ کمال پایا جاتا ہے ۔ مثلا جب کسی شخص کو ہم بہادر کہنے کے بجائے ”بہادری“ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کے اندر شجاعت ایسی کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ گویا وہ اور شجاعت ایک چیز ہیں ۔ پس اس کتاب کا نام ”قرآن“ ( پڑھنا ) رکھنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لیے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :2 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کتاب مخصوص طور پر اہل عرب ہی کے لیے نازل کی گئی ہے ۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدعا یہ کہنا ہے کہ ” اے اہل عرب ، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جا رہی ہیں ، تمہاری اپنی زبان میں ہیں ، لہٰذا تم نہ تو یہ عذر پیش کر سکتے ہو کہ یہ باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور نہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو ہیں ، جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں ، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں“ ۔ بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض پیش کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہل عرب کے لیے ہے ، غیر اہل عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے ، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑ دیا جاتا ہے ۔ انسانوں کی عام ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہرحال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی ، اور اس کے پیش کرنے والے کی کوشش یہی ہوگی کہ پہلے وہ اس قوم کو اپنی تعلیم سے پوعی طرح متأثر کرے جس کی زبان میں وہ اسے پیش کر رہا ہے ، پھر وہی قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچنے کا وسیلہ بنے ۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا ۔