3۔ 1 قصص، یہ مصدر ہے معنی ہیں کسی چیز کے پیچھے لگنا مطلب دلچسپ واقعہ ہے قصہ، محض کہانی یا طبع زاد افسانے کو نہیں کہا جاتا بلکہ ماضی میں گزر جانے والے واقعے کے بیان کو قصہ کہا جاتا ہے۔ یہ گویا ماضی کا واقعی اور حقیقی بیان ہے اور اس واقع میں حسد وعناد کا انجام، تائید الٰہی کی کرشمہ سازیاں، نفس امارہ کی شورشیں اور سرکشیوں کا نتیجہ اور دیگر انسانی عوارض و حوارث کا نہایت دلچسپ بیان اور عبرت انگیز پہلو ہیں، اس لئے اس قرآن نے احسن القصص (بہترین بیان) سے تعبیر کیا ہے۔ 3۔ 2 قرآن کریم کے ان الفاظ سے بھی واضح ہے نبی کریم عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیخبر قرار نہ دیتا، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ آپ اللہ کے سچے نبی ہیں کیونکہ آپ پر وحی کے ذریعے سے ہی سچا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ نہ کسی کے شاگرد تھے، کہ کسی استاد سے سیکھ کر بیان فرما دیتے، نہ کسی اور سے ہی ایسا تعلق تھا کہ جس سے سن کر تاریخ کا یہ واقعہ اپنے اہم جزئیات کے ساتھ آپ نشر کردیتے۔ یہ یقیناً اللہ تعالیٰ ہی نے وحی کے ذریعے سے آپ پر نازل فرمایا ہے جیسا کہ اس مقام پر صراحت کی گئی ہے۔
[٢] قریش مکہ کا یہود کے کہنے پر آپ سے سوال بنی اسرائیل مصر کیسے پہنچ گئے ؟:۔ اس سورة کا شان نزول یہ ہے کہ کفار مکہ نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال بتلاؤ جو ہم اس پیغمبر سے پوچھیں اور اس سوال کا وہ جواب نہ دے سکے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس نبی کا سب بھرم کھل جائے گا۔ وہ جواب تو نہ دے سکے گا یا پھر مہلت مانگے گا اور دریں اثنا وہ ادھر ادھر کی کچھ معلومات مہیا کرے گا جس کا علم ہوجانا بعید از قیاس نہیں۔ یہود یہ تو جانتے تھے کہ یہ نبی امی ہے لہذا انہوں نے سوچ سمجھ کر ایک تاریخی قسم کا سوال کفار مکہ کو بتایا جو یہ تھا کہ سیدنا ابراہیم، سیدنا اسحاق اور سیدنا یعقوب (اسرائیل) سب کا مسکن تو شام و فلسطین کا علاقہ تھا۔ پھر بنی اسرائیل مصر میں کیسے جا پہنچے جنہیں اہل مصر کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے سیدنا موسیٰ مبعوث ہوئے تھے ؟ جب کفار مکہ نے آپ سے یہ سوال کیا تو اسی وقت یہ سورة پوری کی پوری نازل ہوگئی اور آپ کی زبان سے مسلسل یہ سورة ادا ہوتی گئی اور حقیقت یہ ہے کہ اس سوال کے جواب سے اس وقت نہ آپ - واقف تھے اور نہ اہل مکہ اور اس جواب میں سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے حالات زندگی کی پوری داستان بھی آگئی اور کئی ایسی باتوں کی طرف واضح اشارات بھی پائے جاتے تھے جو کفار مکہ اور برادران یوسف کے درمیان مشترک پائے جانے والے تھے اور اس میں کفار مکہ کے لیے عبرت کے کئی نشان بھی تھے۔ گویا یہ پوری سورة قریش مکہ کے حق میں ایک طرح کی پیشین گوئی کی حیثیت رکھتی تھی اور وہ سب نشان عبرت پورے ہو کر رہے۔ مثلاً :- اس سورة کا شان نزول اور آپ کی نبوت کا ثبوت :۔ پہلی عبرت کی بات یہ تھی کہ آپ نے فوراً ان کے سوال کا جواب دے کر یہ ثابت کردیا کہ آپ فی الواقع اللہ کے نبی ہیں کیونکہ وحی الٰہی کے علاوہ آپ کے پاس معلومات کا کوئی ذریعہ ممکن نہ تھا، لیکن پھر بھی یہ لوگ آپ پر ایمان نہ لائے اور اپنی ہٹ پر قائم رہے۔- دوسرے یہ کہ جس طرح برادران یوسف نے اپنے بھائی کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ اس لیے کیا کہ کھٹکتے خار کو راستہ سے ہٹا کر اپنی راہ صاف کی جائے۔ بعینہ اسی غرض کے تحت کفار مکہ نے بھی آپ کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا تھا۔- قصہ یوسف اور قریش میں مماثلت کی وجوہ :۔ تیسرے یہ کہ جو تدابیر برادران یوسف نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنی راہ سے ہٹانے کے لیے اختیار کی تھیں۔ انہی تدابیر کو اللہ نے سیدنا یوسف کے عروج اور سربلندی کا ذریعہ بنادیا۔ اسی طرح بعینہ جو تدابیر کفار مکہ نے پیغمبر اسلام اور اسلام کو نیست و نابود کرنے کے لیے اختیار کی تھیں۔ انہی سے اسلام کا عروج اور سربلندی حاصل ہوئی اور یہی تدابیر کفار مکہ اور کفر کی موت کا سبب بن گئیں۔- چوتھے یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف کو حکومت عطا فرمائی اور ان کے بھائی نادم و شرمسار ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے انھیں (لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۭ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ۡ وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ 92 ۔ ) 12 ۔ یوسف :92) کہہ کر معاف فرما دیا۔ اسی طرح رسول اللہ نے فتح مکہ کے بعد اپنے ان جانی دشمن بھائیوں کو بالکل یہی الفاظ کہہ کر معاف کردیا۔ مزید یہ کہ انھیں جنگی قیدی بنانے کے بجائے (اَنْتُمُ الطُّلَقَائُ ) کہہ انھیں یہ محسوس تک نہ ہونے دیا کہ وہ مغلوب و مفتوح قوم ہیں۔- اور اس تفصیل سے جو نہایت اہم سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ سربلند کرنا چاہے اس کے حاسد اور مخالف اسے مٹانے کی لاکھ کوششیں کریں، کارگر نہیں ہوسکتیں۔ بلکہ بمصداق عدوشرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد اللہ انھیں تدبیروں کا رخ یوں پھیر دیتا ہے کہ وہی تدبیریں اس شخص کی سربلندی کا ذریعہ بن جایا کرتی ہیں۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ : ” الْقَصَصِ “ ” قَصَّ یَقُصُّ “ کا مصدر ہے، قصہ کی جمع نہیں۔ (دیکھیے جواب اہل العلم، ص : ١ تا ٢٠) قصہ کی جمع قصص قاف کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ فرمایا : (نَحْنُ نَقُصُّ ) ” ہم بیان کرتے ہیں “ اللہ تعالیٰ جہاں اپنے لیے جمع کا صیغہ لاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام ایک الگ صفت کا تقاضا کرتا ہے، مثلاً بیان کرنا صفت کلام کا تقاضا کرتا ہے، زمین و آسمان بنانا صفت خلق کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی ہے ہی نہیں جس میں تمام صفات کمال موجود ہوں اور وہ اپنے آپ کو ” ہم “ کہنے کا صحیح حق رکھتا ہو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اپنی اس حیثیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے لیے ” ہم “ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور جہاں وہ واحد کا لفظ استعمال کریں، مثلاً : (اِنَّنِيْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا) [ طٰہٰ : ١٤ ] وہ اپنی توحید کے اظہار کے لیے ہوتا ہے، کیونکہ اسی کی ذات واحد، احد، لا شریک لہ ہے۔ اس سورت میں چونکہ اللہ کے اپنی مرضی کے ہر کام پر غالب ہونے کا اظہار کرنے والی بہت سی صفات مذکور ہیں، اس لیے ” نَحْنُ “ (ہم) سے بات شروع کی ہے۔- بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ : یعنی یہ قرآن وحی کرنے کے ذریعے سے ہم تجھے سب سے اچھا بیان سناتے ہیں۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ سورة یوسف قرآن کی تمام سورتوں سے احسن ہے، بلکہ قرآن سارا ہی احسن القصص، یعنی تمام بیانوں سے بہتر بیان ہے، جس میں یہ سورت بھی شامل ہے۔ - وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ : یہ ” اِنْ “ دراصل ” اِنَّکَ “ تھا، تخفیف کے لیے کاف کو حذف کردیا اور ” اِنَّ “ کو ” اِنْ “ کردیا۔ اس کی دلیل ” لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ “ پر آنے والا لام ہے اور یہ عربی کا مسلمہ قاعدہ ہے، اسی کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے۔ ” اِنْ “ اور لام کے ساتھ تاکید اس لیے کی ہے کہ کوئی یہ گمان نہ کرے کہ آپ یہ سب کچھ پہلے ہی جانتے تھے، جیسا کہ ہمارے کئی نادان بھائی کہتے ہیں، بلکہ دوسری جگہ فرمایا : (تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَاۗءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَآ اِلَيْكَ ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَآ اَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ ھٰذَا) [ ھود : ٤٩ ] ” یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔ “ - لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ : یعنی آپ کو اس سے پہلے اس کی کچھ خبر نہ تھی، آپ اُمّی تھے، نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا۔ ایسے شخص پر ایسی بےمثال کتاب کا نزول کہ بڑے بڑے باخبر لوگ اس اُمّی کے شاگرد بن جائیں اس کتاب کے منزل من اللہ ہونے اور آپ کے رسول برحق ہونے کی دلیل ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہ تھے، جتنی وحی ہوتی وہ معلوم ہوجاتا، باقی خبر عالم الغیب کے پاس رہتی جو کسی کے بتائے بغیر سب کچھ جاننے والا ہے، عالم الغیب کہتے ہی ایسی ہستی کو ہیں اور وہ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔
(آیت) نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ ڰ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ یعنی ہم بیان کرتے ہیں آپ کے لئے بہترین قصہ اس قرآن کو بذریعہ وحی آپ پر نازل کر کے بیشک آپ اس سے پہلے ان تمام واقعات سے ناواقف تھے، اس میں یہود کو تنبیہ ہے کہ تم نے جس طرح ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آزمائش کرنا چاہی اس میں بھی رسول کا کمال واضح ہوگیا کیونکہ وہ پہلے سے امی اور تاریخ عالم سے ناواقف تھے اب اس واقفیت کا کوئی ذریعہ بجز تعلیم الہی اور وحی نبوت کے نہیں ہو سکتا
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ ٠ ۤۖ وَاِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ ٣- قصص - الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] - ( ق ص ص ) القص - کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا
(٣) ہم نے قرآن کریم کو بذریعہ جبریل امین رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر عربی میں نازل کیا ہے تاکہ جن چیزوں کا بذریعہ قرآن کریم ہم نے تمہیں حکم دیا ہے اور جن چیزوں سے تمہیں کو روکا ہے تم انکو سمجھو ہم آپ سے یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں سے اس قرآن کریم کے ذریعے جو بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) ہم نے آپ کے پاس بھیجا ہے ایک بڑا عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں۔- اور آپ اس قرآن کریم کے نزول سے پہلے جو بذریعہ جبریل امین آپ پر نازل کیا گیا ہے۔ یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں کے واقعہ سے بالکل لاعلم تھے۔- شان نزول : (آیت) ” نحن نقص علیک “۔ (الخ)- امام حاکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سعد بن ابی وقاص (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن کریم نازل کیا گیا آپ قرآن کریم لوگوں کو ایک زمانہ تک پڑھ کر سناتے رہے صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ اور واقعات بیان کیجئے اس پر اللہ تعالیٰ نے اس بڑے عمدہ واقعہ کی اطلاع دی۔- اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یا رسول اللہ کوئی واقعہ ہم سے بیان کیجئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ نازل فرمایا ہم نے جو یہ قرآن آپ کے پاس بھیجا ہے، اس کے ذریعے، ہم آپ سے ایک عمدہ واقعہ بیان کرتے ہیں، نیز ابن مردویہ نے ابن مسعود (رض) سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
آیت ٣ (نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ ) - قَصَص (ق کی زبر کے ساتھ) یہاں بطور مصدر آیا ہے اور اس کے معنی ہیں ” بیان “۔ اگر لفظ قِصَص (ق کی زیر کے ساتھ) ہوتا تو قصہ کی جمع کے معنی دیتا ‘ اور اس صورت میں اس کا ترجمہ یوں ہوتا کہ ہم آپ کو بہترین قصہ سنا رہے ہیں۔ - (بِمَآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ ہٰذَا الْقُرْاٰنَق وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ )- یعنی قرآن میں اس وحی (سورت) کے نزول سے پہلے آپ اس واقعہ سے واقف نہیں تھے۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :3 سورہ کے دیباچے میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ کفار مکہ میں سے بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے ، بلکہ اپنے نزدیک آپ کا بھرم کھولنے کے لیے ، غالبا یہودیوں کے اشارے پر ، آپ کے سامنے اچانک یہ سوال پیش کیا تھا کہ بنی اسرائیل کے مصر پہنچنے کا کیا سبب ہوا ۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں تاریخ بنی اسرائیل کا یہ باب پیش کرنے سے پہلے تمہیدا یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم ان واقعات سے بے خبر تھے ، دراصل یہ ہم ہیں جو وحی کے ذریعہ سے تمہیں ان کی خبر دے رہے ہیں ۔ بظاہر اس فقرے میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، لیکن اصل میں روئے سخن ان مخالفین کی طرف ہے جن کو یقین نہ تھا کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے ۔