بہترین قصہ حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کے والد حضرت یعقوب بن اسحق بن ابراہیم علیہ ہم السلام ہیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ کریم بن کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام ہیں ۔ ( بخاری ) آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب لوگوں میں زیادہ بزرگ کون ہے؟ آپ نے فرمایا جس کے دل میں اللہ کا ڈر سب سے زیادہ ہو ۔ انہوں نے کہا ہمارا مقصود ایسا عام جواب نہیں ہے ۔ آپ نے فرمایا پھر سب لوگوں میں زیادہ بزرگ حضرت یوسف ہیں جو خود نبی تھے ، جن کے والد نبی تھے جن کے دادا نبی تھے ، جن کے پردادا نبی اور خلیل تھے ۔ انہوں نے کہا ہم یہ بھی نہیں پوچھتے ۔ آپ نے فرمایا پھر کیا تم عرب کے قبیلوں کی نسبت یہ سوال کرتے ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں ۔ آپ نے فرمایا سنو جاہلیت کے زمانے میں جو ممتاز اور شریف تھے ۔ وہ اسلام لانے کے بعد بھی ویسے ہی شریف ہیں ، جب کہ انہوں نے دینی سمجھ حاصل کر لی ہو٠بخاری ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبیوں کے خواب اللہ کی وحی ہوتے ہیں ۔ مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں گیارہ ستاروں سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج چاند سے مراد آپ کے والد اور والدہ ہیں ۔ اس خواب کی تعبیر خواب دیکھنے کے چالیس سال بعد ظاہر ہوئی ۔ بعض کہتے ہیں اسی برس کے بعد ظاہر ہوئی ۔ جب کہ آپ نے اپنے ماں باپ کو تخت شاہی پر بٹھایا ۔ اور گیارہ بھائی آپ کے سامنے سجدے میں گر پڑے ۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ میرے مہربان باپ یہ دیکھئے آج اللہ تعالیٰ نے میرے خواب کو سچا کر دکھایا ۔ ایک روایت میں ہے کہ بستانہ نامی یہودیوں کا ایک زبردست عالم تھا ۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان گیارہ ستاروں کے نام دریافت کئے ۔ آپ خاموش رہے ۔ جبرائیل علیہ السلام نے آسمان سے نازل ہو کر آپ کو نام بتائے آپ نے اسے بلوایا اور فرمایا اگر میں تجھے ان کے نام بتادوں تو تو مسلمان ہو جائے گا اس نے اقرار کیا تو آپ نے فرمایا سن ان کے نام یہ ہیں ۔ جریان ، طارق ۔ ذیال ، ذوالکتفین ۔ قابل ۔ وثاب ۔ عمودان ۔ فلیق ۔ مصبح ۔ فروح ۔ فرغ ۔ یہودی نے کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم ان ستاروں کے یہی نام ہیں ( ابن جریر ) یہ روایت دلائل بیہقی میں اور ابو یعلی بزار اور ابن ابی حاتم میں بھی ہے ۔ ابو یعلی میں یہ بھی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب یہ خواب اپنے والد صاحب سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا یہ سچا خواب ہے یہ پورا ہو کر رہے گا ۔ آپ فرماتے ہیں سورج سے مراد باپ ہیں اور چاند سے مراد ماں ہیں ۔ لیکن اس روایت کی سند میں حکم بن ظہیر فزاری منفرد ہیں جنہیں بعض اماموں نے ضعیف کہا ہے اور اکثر نے انہیں متروک کر رکھا ہے یہی حسن یوسف کی روایت کے راوی ہیں ۔ انہیں چاروں ہی ضعیف کہتے ہیں ۔
4۔ 1 یعنی اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کے سامنے یوسف (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرو، جب اس نے اپنے باپ کو کہا باپ حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے، جیسا کہ دوسرے مقام پر صراحت ہے اور حدیث میں بھی یہ نسب بیان کیا گیا ہے۔ (یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم) ۔ اور حدیث میں نسب بیان کیا گیا ہے۔ الکریم ابن الکریم ابن الکریم ابن الکریم یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم (مسند احمد جلد 2، ص 96) 4۔ 2 بعض مفسرین نے کہا ہے کہ گیارہ ستاروں سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی ہیں جو گیارہ تھے چاند سورج سے مراد ماں اور باپ ہیں اور خواب کی تعبیر چالیس یا اسی سال کے بعد اس وقت سامنے آئی جب یہ سارے بھائی اپنے والدین سمیت مصر گئے اور وہاں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے، جیسا کہ یہ تفصیل سورت کے آخر میں آئے گی۔
[٣] سیدنا یوسف سے ان کے باپ کی محبت کی وجوہ :۔ سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے حقیقی بھائی صرف بن یمین تھے جو آپ سے چھوٹے تھے۔ باقی دس بھائی سوتیلے تھے۔ اور ان سے بڑے تھے۔ سیدنا یوسف سے ان کے والد سیدنا یعقوب کو والہانہ محبت تھی۔ جس کی وجوہ کئی ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ والدین کو عموماً چھوٹی اولاد سے نسبتاً زیادہ پیار ہوتا ہے۔ دوسرے ان دو بھائیوں کی والدہ فوت ہوچکی تھیں۔ تیسرے سیدنا یوسف بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے اور چوتھے یہ کہ آپ سب بھائیوں کی نسبت نیک سیرت تھے۔ انہی وجوہ کی بنا پر آپ اپنے والد کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔ جس سے بڑے بھائی ان سے حسد کرنے لگے تھے۔ کم سنی کی عمر میں ہی آپ کو ایک خواب آیا اور آپ نے اپنے والد کو بتایا تو انھیں اس خواب میں بیٹے کا روشن مستقبل نظر آگیا کیونکہ خواب بڑا واضح تھا جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ تھی۔ گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی تھے۔ سورج سے مراد سیدنا یوسف کے والد سیدنا یعقوب اور چاند سے مراد ان کی سوتیلی والدہ تھی۔- سجدہ تعظیمی ؟ رہی یہ بات کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا تو شرک ہے پھر باپ نے جو نبی تھے اور بیٹے نے جو نبی ہونے والے تھے۔ اس بات کو درست کیسے تسلیم کرلیا تو اس کا جواب بعض علماء نے یہ دیا ہے یہ سجدہ تعظیمی ہے جو پہلی شریعتوں میں تو جائز تھا۔ مگر ہماری شریعت محمدیہ میں ایسا تعظیمی سجدہ بھی حرام قرار دیا گیا ہے اور بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ سے مراد اصطلاحی سجدہ نہیں جو نماز میں ادا کیا جاتا ہے بلکہ سجدہ سے مراد محض جھک جانا ہے اور یہی اس کا لغوی معنی ہے۔ مگر اسی سورة کے آخر میں (خَرُّوْا لِلّٰہِ سُجَّدًا) کے الفاظ آئے ہیں اور لفظ (خَرُّوْا) سے پہلے قول کی ہی تصدیق ہوتی ہے۔
اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ : یوسف (علیہ السلام) کے باپ یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم تھے اور یہ چاروں نبی تھے، اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوسف (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ( اَلْکَرِیْمُ ابْنُ الْکَرِیْمِ ابْنِ الْکَرِیْمِ بْنِ الْکَرِیْمِ یُوْسُفُ بْنُ یَعْقُوْبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاھِیْمَ ) [ بخاری، التفسیر، باب قولہ : ( ویتم نعمتہ علیک۔۔ ) : ٤٦٨٨، عن ابن عمر ] ” کریم بن کریم بن کریم بن کریم، یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ۔ “- يٰٓاَبَتِ : یہ اصل میں ” یَا أَبِیْ “ تھا ” اے میرے باپ “ یاء حذف کرکے اس کی جگہ تاء تانیث لائی گئی اور باء کا کسرہ اس کی طرف منتقل کردیا۔ یہ اظہار محبت کا ایک طریقہ ہے، جیسے اردو میں ” ابا “ کو ” ابو “ کہہ دیتے ہیں۔
(آیت) اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ یعنی یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والد سے کہا کہ اباجان میں نے خواب میں گیارہ ستارے اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے اور یہ دیکھا ہے کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں،- یہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا خواب تھا جس کی تعبیر کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے فرمایا کہ گیارہ ستاروں سے مراد یوسف (علیہ السلام) کے گیارہ بھائی اور سورج اور چاند سے مراد ماں باپ تھے - قرطبی میں ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی والدہ اگرچہ اس واقعہ سے پہلے وفات پاچکی تھیں مگر ان کی خالہ والد ماجد کے نکاح میں آگئی تھیں خالہ خود بھی ماں کے قائم مقام سمجھی جاتی ہے خصوصا جبکہ وہ والد کی زوجیت میں آجائے تو عرفاً اس کو ماں ہی کہا جائے گا،
اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْہِ يٰٓاَبَتِ اِنِّىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُہُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ ٤- أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - كب - الْكَبُّ : إسقاط الشیء علی وجهه . قال عزّ وجل : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ- [ النمل 90] . والإِكْبَابُ : جعل وجهه مَكْبُوباً علی العمل . قال تعالی: أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک 22] - والکَبْكَبَةُ :- تدهور الشیء في هوّة . قال : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء 94] . يقال كَبَّ وكَبْكَبَ ، نحو : كفّ وكفكف، وصرّ الرّيح وصرصر .- والکَوَاكِبُ :- النّجوم البادية، ولا يقال لها كواکب إلّا إذا بدت . قال تعالی: فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76] ، وقال : كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور 35] ، إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات 6] ، وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] ويقال : ذهبوا تحت کلّ كوكب : إذا تفرّقوا، وكَوْكَبُ العسکرِ : ما يلمع فيها من الحدید .- ( ک ب ب ) الکب ( ن ) کے معنی کسی کو منہ کے بل گرانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ [ النمل 90] تو ایسے لوگ اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ الاکباب ۔ کسی چیز پر منہ کے بل گرجانا ۔ ( اور کنایہ ازہمہ تن مشغول شدن درکا ر ے ) اسی سے قرآن میں ہے : أَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًّا عَلى وَجْهِهِ أَهْدى[ الملک 22] بھلا جو شخص چلتا ہوا منہ کے بل گرگر پڑتا ہو ۔ وہ سیدھے رستے پر ہے ۔ یعنی جو غلط روش پر چلتا ہے ۔ الکبکبۃ کسی چیز کو اوپر سے لڑھا کر گڑھے میں پھینک دینا۔ قرآن میں ہے : فَكُبْكِبُوا فِيها هُمْ وَالْغاوُونَ [ الشعراء 94] تو وہ اور گمراہ ( یعنی بت اور بت پرست ) اوندھے منہ دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے ۔ کب وکبکب ( ثلاثی درباعی ، دونوں طرح آتا ہے مثل ۔ کف وکفکف وصرالریح وصر صر الکواکب ظاہر ہونے والے ستارے ، ستاروں کو کواکب اسی وقت کہاجاتا ۔۔۔ جب نمودار اور ظاہر ہوں ۔ قرآن میں ہے : فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأى كَوْكَباً [ الأنعام 76]( یعنی ) جب رات نے ان کو ( پردہ تاریکی سے ) ڈھانپ لیا ( تو آسمان میں ) ایک ستارہ نظر پڑا ۔ كَأَنَّها كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ [ النور 35] گویا وہ موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے ۔ إِنَّا زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِزِينَةٍ الْكَواكِبِ [ الصافات 6] بیشک ہم نے آسمان دنیا کو ستاروں کی زینت س مزین کیا ۔ وَإِذَا الْكَواكِبُ انْتَثَرَتْ [ الانفطار 2] اور جب ( آسمان کے ) ستارے جھڑ پڑیں گے ۔ محاورہ ہے : ذھبوا تحت کل کوکب وہ منتشر ہوگئے ۔ کوکب العسکر لشکر میں اسلہ کی چمک - شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )
سورة یوسف - غیر انبیاء کے خواب سچے ہوسکتے ہیں - قول باری ہے اذا قال یوسف لابیہ یا ابت انی رایت احد عشر کو کبا وشمس والقمر رایتھم لی ساجدین ۔ یہ اس وقت کا ذکر ہے جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا ابا جان میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں ۔ اس میں یہ بیان ہے کہ غیر انبیاء کے خواب بھی سچے ہوتے ہیں اس لیے کہ اس وقت حضرت یوسف (علیہ السلام) پیغمبر نہیں بنے تھے ۔ بلکہ کم سن تھے ، کواکب کی تعبیر ان کے بھائیوں اور سورج اور چاند کی تعبیر ان کے والدین سے کی گئی تھی حسن سے یہی مروی ہے۔
(٤) چناچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) جب دوپہر کو سوئے تو خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستاروں نے اپنے مقامات سے اتر کر ان کو سجدہ تحیت کیا ہے اور ان ستاروں سے مراد ان کے گیارہ بھائی ہیں اور ایسے چاند وسورج کو دیکھا کہ وہ اپنی جگہ سے آئے اور مجھ کو سجدہ تحیت کیا، چاند وسورج سے ان کے والدین حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت راحیل مراد ہیں۔
آیت ٤ (اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ )- حضرت یعقوب کی بڑی بیوی سے آپ کے دس بیٹے تھے اور وہ سب کے سب اس وقت تک جوانی کی عمر کو پہنچ چکے تھے ‘ جبکہ آپ کے دو بیٹے (یوسف اور بن یا مین) آپ کی چھوٹی بیوی سے تھے۔ ان میں حضرت یوسف بڑے تھے مگر ابھی یہ دونوں ہی کم سن تھے۔