یعقوب علیہ السلام کی تعبیر اور ہدایات حضرت یوسف کا یہ خواب سن کر اس کی تعبیر کو سامنے رکھ کر حضرت یعقوب علیہ السلام نے تاکید کر دی کہ اسے بھائیوں کے سامنے نہ دہرانا کیونکہ اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اور بھائی آپ کے سامنے پس ہونگے یہاں تک کہ وہ آپ کی عزت و تعظیم کے لیے آپ کے سامنے اپنی بہت ہی لاچاری اور عاجزی ظاہر کریں اس لیے بہت ہی ممکن ہے کہ اس خواب کو سن کر اس کی تعبیر کو سامنے رکھ کر شیطان کے بہکاوے میں آکر ابھی سے وہ تمہاری دشمنی میں لگ جائیں ۔ اور حسد کی وجہ سے کوئی نامعقول طریق کار کرنے لگ جائیں اور کسی حیلے سے تجھے پست کرنے کی فکر میں لگ جائیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیم بھی یہی ہے ۔ فرماتے ہیں تم لوگ کوئی اچھا خواب دیکھو تو خیر اسے بیان کر دو اور جو شخص کوئی برا خواب دیکھے تو جس کروٹ پر ہو وہ کروٹ بدل دے اور بائیں طرف تین مرتبہ تھتکار دے اور اس کی برائی سے اللہ کی پناہ طلب کرے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کرے ۔ اس صورت میں اسے وہ خواب کوئی نقصان نہ دے گا ۔ مسند احمد وغیرہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خواب کی تعبیر جب تک نہ لی جائے وہ گویا پرند کے پاؤں پر ہے ۔ ہاں جب اس کی تعبیر بیان ہو گئی پھر وہ ہوجاتا ہے ۔ اسی سے یہ حکم بھی لیا جا سکتا ہے ۔ کہ نعمت کو چھپانا چاہئے ۔ جب تک کہ وہ ازخود اچھی طرح حاصل نہ ہوجائے اور ظاہر نہ ہوجائے ، جیسے کہ ایک حدیث میں ہے ۔ ضرورتوں کے پورا کرنے پر ان کی چھپانے سے بھی مدد لیا کرو کیونکہ ہر وہ شخص جسے کوئی نعمت ملے لوگ اس کے حسد کے درپے ہو جاتے ہیں ۔
5۔ 1 حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خواب سے اندازہ لگا لیا کہ ان کا یہ بیٹا عظمت شان کا حامل ہوگا، اس لئے انھیں اندیشہ ہوا کہ یہ خواب سن کر اس کے دوسرے بھائی بھی اس کی عظمت کا اندازہ کر کے کہیں اسے نقصان نہ پہنچائیں، بنا بریں انہوں نے یہ خواب بیان کرنے سے منع فرمایا۔ 5۔ 2 یہ بھائیوں کے مکروفریب کی وجہ بیان فرما دی کہ شیطان چونکہ انسان کا ازلی دشمن ہے اس لئے وہ انسانوں کو بہکانے، گمراہ کرنے اور انھیں حسد و بغض میں مبتلا کرنے میں ہر وقت کوشاں اور تاک میں رہتا ہے۔ چناچہ یہ شیطان کے لئے بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے خلاف بھائیوں کے دلوں میں حسد اور بغض کی آگ بھڑکا دے۔ جیسا کہ فی الواقع بعد میں اس نے ایسا ہی کیا اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا اندیشہ درست ثابت ہوا۔
[٤] سیدنا یعقوب اپنے بیٹوں کے ان منفی قسم کے جذبات سے تو واقف تھے ہی جو وہ سیدنا یوسف کے متعلق رکھتے تھے۔ لہذا آپ نے سیدنا یوسف کو یہ تاکید کردی کہ ایسا واضح خواب وہ اپنے بھائیوں کو نہ بتائیں۔ ورنہ وہ حسد کے مارے جل بھن جائیں گے اور ممکن ہے وہ شیطان کی انگیخت پر سیدنا یوسف کے حق میں بری تدبیر سوچنے لگیں جیسا کہ بعد میں سیدنا یعقوب کا اندیشہ برحق ثابت ہوا اور برادران یوسف نے اس سلسلہ میں جو کرتوتیں کیں ان کا ذکر آگے آرہا ہے۔
قَالَ يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ ۔۔ : یعنی اس کی تعبیر ظاہر ہے، سنتے ہی سمجھ لیں گے۔ گیارہ بھائی تھے اور ایک باپ اور ایک ماں، یہ سب ان کی طرف محتاج ہوں گے، پھر شیطان ان کے دل میں حسد ڈالے گا۔ (موضح) اس وقت ان کی عمر کیا تھی، اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں فرمائی۔ معالم میں ہے کہ بارہ سال تھی، کچھ لوگ بائبل کے حوالے سے سترہ سال بیان کرتے ہیں، مگر تعیین کی کوئی پختہ دلیل نہیں۔ اگر کوئی اسرائیلی روایت ہو بھی تو اسے نہ ہم سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔ ویسے سترہ سالہ جواں جو صحرا میں پلا ہو، اس کے متعلق بھیڑیے کے کھا جانے کا خدشہ کم ہی پیدا ہوتا ہے۔ ہاں یہ ظاہر ہے کہ اس وقت وہ بچے تھے، مگر سمجھ بوجھ رکھتے تھے : ” یَرْتَعْ وَ یَلْعَب “ (چرے، کھائے پیے اور کھیلے) اور ” ھٰذَا غُلَام “ (یہ لڑکا ہے) اور ” اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَداً “ (یا ہم اسے بیٹا بنالیں گے) سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اگر عمر بتانے کی ضرورت ہوتی تو اللہ تعالیٰ ضرور بیان فرما دیتا۔ ” یوسف “ عربی زبان کا نام نہیں کہ اس کا اشتقاق عربی میں سے تلاش کیا جائے، بلکہ عبرانی یا اس زبان کا نام ہے جو یعقوب (علیہ السلام) استعمال کرتے تھے۔ اس خواب کی تعبیر کافی عرصہ بعد جا کر پوری ہوئی، بعض چالیس برس بتاتے ہیں، بعض کم و بیش، مگر بچپن سے جوانی کا عرصہ جو عزیز مصر کے گھر گزرا، پھر قید خانے کے سات یا نو سال، پھر خوش حالی کے سات سال، جس کے بعد قحط شروع ہوا اور بھائی مجبور ہو کر آئے اکیس بائیس سال سے کم عرصہ کسی صورت نہیں بنتا، زیادہ ہو تو اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خواب کی تعبیر ظاہر ہونے میں لمبی مدت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ - يٰبُنَيَّ : ” بُنَیَّ “ ” اِبْنِيْ “ کی تصغیر ہے، محبت اور شفقت سے فرمایا، اے میرے چھوٹے سے بیٹے، یا اے میرے پیارے بیٹے۔ - یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنا خواب بھائیوں کے سامنے بیان کرنے سے منع فرمایا، کیونکہ تعبیر ظاہر تھی اور یعقوب (علیہ السلام) نے مختصراً بیان بھی فرما دی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں چنے گا اور تم پر اپنی نعمت تمام کرے گا۔ قدرتی طور پر جس شخص کو نعمت ملتی ہے اس پر حسد ہوتا ہے اور شیطان بھی انسان کی اس کمزوری، یعنی حسد کو استعمال کرکے بھائیوں کے درمیان اور دوستوں کے درمیان دشمنی پیدا کردیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ) [ بنی إسرائیل : ٥٣ ] ” بیشک شیطان ان (میرے بندوں) کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔ “ اور یہ اس کے نزدیک سب سے زیادہ قرب کا ذریعہ ہوتا ہے، جیسا کہ ایک لمبی حدیث میں ہے کہ شیطان اپنے لشکر لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے بھیجتا ہے : ( ثُمَّ یَجِيْءُ أَحَدُھُمْ فَیَقُوْلُ مَا تَرَکْتُہٗ حَتّٰی فَرَّقْتُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ امْرَأَتِہِ ) [ مسلم، صفات المنافقین، باب تحریش الشیطان۔۔ : ٦٧؍٢٨١٣ ] ” پھر ان میں سے ایک شیطان آ کر ( اپنی کار کردگی بیان کرتے ہوئے) کہتا ہے : ” میں نے اس آدمی کا پیچھا اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میں نے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈال دی۔ “ اس لیے بھائیوں کو خواب کا علم ہونے پر یوسف (علیہ السلام) کو ان کی کسی خفیہ تدبیر سے ڈرایا، ساتھ ہی ” اِنَّ “ کے ساتھ اس کی وجہ بیان فرمائی کہ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اور یہی بات یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین اور بھائیوں کے مصر آنے کے موقع پر کہی تھی : (مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّيْطٰنُ بَيْنِيْ وَبَيْنَ اِخْوَتِيْ ) [ یوسف : ١٠٠ ] ” اس کے بعد کہ شیطان نے میرے درمیان اور میرے بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈال دیا تھا۔ “ قرآن کے بیان کا تقاضا یہی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے والد ماجد کے کہنے کے مطابق وہ خواب بیان نہیں کیا، کیونکہ بھائیوں نے قتل کے مشورے کے وقت بھی خواب کا ذکر نہیں کیا اور یوسف (علیہ السلام) کے کمال اطاعت کا تقاضا بھی یہی ہے، مگر اسرائیلی روایات میں ہے کہ یوسف (علیہ السلام) نے بھائیوں کو وہ خواب سنا دیا تھا اور اس پر کئی کہانیوں کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس سے اسرائیلی روایات کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ - یہاں یعقوب (علیہ السلام) یوسف (علیہ السلام) کو بھائیوں کے سامنے خواب بیان کرنے سے منع فرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یعقوب نبی کا فرمان وحی پر مبنی تھا۔ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی فرمان ہے : ( اِسْتَعِیْنُوْا عَلٰی إِنْجَاحِ الْحَوَاءِجِ بالْکِتْمَانِ فَإِنَّ کُلَّ ذِيْ نِعْمَۃٍ مَحْسُوْدٌ ) [ السلسلۃ الصحیحۃ : ٣؍٤٣٦، ح : ١٤٥٣ ]” اپنی حاجتوں کو کامیاب کرنے میں چھپانے سے مدد لو، کیونکہ ہر نعمت والا محسود ہوتا ہے۔ “ یعنی اس پر حسد کیا جاتا ہے۔ اس خواب میں بھی اتمام نعمت کی خوش خبری تھی، اسے کامیاب بنانے کے لیے اسے چھپانے کا حکم دیا۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ ) [ الضحٰی : ١١ ] ” اور لیکن اپنے رب کی نعمت، پس (اسے) بیان کر۔ “ اس حکم کو اور یعقوب (علیہ السلام) کے منع کرنے کے حکم کو کیسے جمع کریں گے ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) پر ابھی نعمت مکمل ہونا باقی تھی، جب کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نعمت پوری ہوچکی تھی۔ ہمارے لیے بھی دونوں چیزوں میں فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے، تاکہ نعمت مکمل ہونے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ دوسرا جواب جو کتب تفسیر میں ہے، وہ یہ ہے کہ یہ آیت دلیل ہے کہ بعض اوقات نعمت کا اظہار نہ کرنا بلکہ اسے چھپانا جائز ہے، جیسا کہ اوپر سلسلہ صحیحہ کے حوالے سے حدیث گزر چکی ہے، چناچہ جب نعمت کے ظاہر کرنے سے اپنے خلاف حسد وغیرہ کی بنا پر سازش یا نقصان کا خطرہ ہو تو اسے چھپائے اور اگر یہ خطرہ نہ ہو تو رب تعالیٰ کی نعمت بیان کرے۔ - 3 اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّۃِ الاَّ الْمُبَشِّرَاتُ ، قَالُوْا وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ ؟ قَال الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ ) [ بخاری، التعبیر، باب المبشرات : ٦٩٩٠ ] ” نبوت میں سے مبشرات کے سوا کچھ باقی نہیں رہا۔ “ لوگوں نے پوچھا : ” مبشرات (خوش خبریاں) کیا ہیں ؟ “ فرمایا : ” اچھے خواب۔ “ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلرُّؤْیَا الْحَسَنَۃُ مِنَ الرَّجُلِ الصَّالِحِ جُزْءٌ مِنْ سِتَّۃٍ وَّ أَرْبَعِیْنَ جُزْءً ا مِنَ النُّبُوَّۃِ ) [ بخاری، التعبیر، باب رؤیا الصالحین : ٦٩٨٣، عن أنس ]” صالح آدمی کا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ “ ابو سلمہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں خواب دیکھا کرتا جو (پریشانی پیدا کرکے) مجھے بیمار کردیتے، یہاں تک کہ میں نے ابو قتادہ (رض) سے سنا کہ میں بھی خواب دیکھا کرتا تھا جو مجھے بیمار کردیتے، یہاں تک کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ( اَلرُّؤْیَا الْحَسَنَۃُ مِنَ اللّٰہِ ، فَإِذَا رَأَی أَحَدُکُمْ مَا یُحِبُّ فَلَا یُحَدِّثْ بِہِ إِلاَّ مَنْ یُّحِبُّ ، وَ إِذَا رَأَی مَا یَکْرَہٗ فَلْیَتَعَوَّذْ باللّٰہِ مِنْ شَرِّھَا، وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَلْیَتْفِلْ ثَلاَثاً وَلَا یُحَدِّثْ بِھَا أحَدًا فَإِنَّھَا لَنْ تَضُرَّہٗ ) ” اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، تو جب تم میں سے کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جو اسے پسند ہو تو وہ اس کے سوا اسے بیان نہ کرے جو محبت رکھتا ہو اور جب ایسا خواب دیکھے جو اسے ناپسند ہو تو اس کے شر سے اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے اور تین دفعہ (بائیں طرف) تھوک دے اور وہ کسی کو بیان نہ کرے، تو وہ خواب اسے ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ “ [ بخاری، التعبیر، باب اذا رأی ما یکرہ۔۔ : ٧٠٤٤ ] ایک روایت میں یہ بھی ہے : ( وَلْیَتَحَوَّلْ عَنْ جَنْبِہِ الَّذِيْ کَانَ عَلَیْہِ ) کہ وہ اپنی کروٹ بدل لے۔ [ مسلم، الرؤیا، باب في کون الرؤیا من اللّٰہ۔۔ : ٢٢٦٢ ] اور یہ کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس عمل کو ہر قسم کے ضرر سے سلامتی کا سبب بنا دے، جیسا کہ صدقہ و خیرات مصیبتیں دور کرنے کے سبب بن جاتے ہیں۔- 3 یعقوب (علیہ السلام) کے اپنے دوسرے بیٹوں کے متعلق خیال کے اظہار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نبی نہیں تھے۔ ابن تیمیہ (رض) کی خاص اس موضوع پر کتاب میں ہے کہ قرآن، لغت اور واقعات کی دلالت یہی ہے کہ وہ نبی نہیں تھے۔ نہ ہی قرآن یا حدیث میں ان کی نبوت کی طرف کوئی اشارہ موجود ہے۔ (سید طنطاوی) البتہ بعد میں ان کی اولاد (اسباط) سے کئی انبیاء و رسل گزرے۔
(آیت) قَالَ يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰٓي اِخْوَتِكَ فَيَكِيْدُوْا لَكَ كَيْدًا ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ یعنی بیٹا تم اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے نہ کہنا ایسا نہ ہو کہ وہ یہ خواب سن کر تمہاری عظمت شان معلوم کر کے تمہیں ہلاک کرنے کی کوئی تدبیر کریں کیونکہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے وہ دنیا کے جاہ ومال کی خاطر انسان کو ایسے کاموں میں مبتلاکر دیتا ہے - ان آیات میں چند مسائل قابل ذکر ہیں،- خواب کی حقیقت اور درجہ اور اس کی قسمیں :- سب سے اول خواب کی حقیقت اور اس سے معلوم ہونے والے واقعات واخبار کا درجہ اور مقام ہے تفسیر مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ (رح) نے فرمایا کہ حقیقت خواب کی یہ ہے کہ نفس انسان جس وقت نیند یا بیہوشی کے سبب ظاہر بدن کی تدبیر سے فارغ ہوجاتا ہے تو اس کو اس کی قوت خیالیہ کی راہ سے کچھ صورتیں دکھائی دیتی ہیں جن کی کوئی حقیقت اور اصلیت نہیں ہوتی اور ایک اپنی ذات کے اعتبار سے صحیح وصادق ہے مگر اس صحیح قسم میں بھی کبھی کچھ عوراض شامل ہو کر اس کو فاسدو ناقابل اعتبار کردیتے ہیں ،- تفصیل اس کی یہ ہے کہ خواب میں جو انسان مختلف صورتیں اور واقعات دیکھتا ہے کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ بیداری کی حالت میں جو صورتیں انسان دیکھتا رہتا ہے وہی خواب میں متشکل ہو کر نظر آجاتی ہیں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شیطان کچھ صورتیں اور واقعات اس کے ذہن میں ڈالتا ہے کبھی خوش کرنے والے اور کبھی ڈرانے والے یہ دونوں قسمیں باطل ہیں جن کی نہ کوئی حقیقت واصلیت ہے نہ اس کی کوئی واقعی تعبیر ہوسکتی ہے ان میں پہلی قسم کو حدیث النفس اور دوسری کو تسویل شیطانی کہا جاتا ہے،- تیسری قسم جو صحیح اور حق ہے وہ اللہ تعالیٰکی طرف سے ایک قسم کا الہام ہے جو اپنے بندہ کو متنبہ کرنے یا خوش خبری دینے کے لئے کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے خزانہ غیب سے بعض چیزیں اس کے قلب و دماغ میں ڈال دیتے ہیں - ایک حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ مومن کا خواب ایک کلام ہے جس میں وہ اپنے رب سے شرف گفتگو حاصل کرتا ہے یہ حدیث طبرانی نے بسند صحیح روایت کی ہے (مظہری )- اس کی تحقیق صوفیائے کرام کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ عالم میں جتنی چیزیں وجود میں آنے والی ہیں اس وجود سے پہلے ہر چیز کی ایک خاص شکل عالم مثال میں ہوتی ہے اور اس عالم مثال میں جس طرح جواہر اور حقائق ثابتہ کی صورتیں اور شکلیں ہوتی ہیں اسی طرح معانی اور اعراض کی بھی خاص شکلیں ہوتی ہیں خواب میں جب نفس انسانی ظاہر بدن کی تدبیر سے فارغ ہوتا ہے، تو بعض اوقات اس کا تعلق عالم مثال سے ہوجاتا ہے وہاں جو کائنات کی شکلیں ہیں وہ اس کو نظر آجاتی ہیں پھر یہ صورتیں عالم غیب سے دکھائی جاتی ہیں بعض اوقات ان میں بھی کچھ عوارض ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ اصل حقیقت کے ساتھ کچھ تخیلات باطلہ شامل ہوجاتے ہیں اس لئے اہل تعبیر کو بھی اس کی تعبیر سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے اور بعض اوقات وہ تمام عوارض سے پاک صاف رہتی ہیں تو وہ اصل حقیقت ہوتی ہیں مگر ان میں بھی بعض خواب محتاج تعبیر ہوتے ہیں کیونکہ ان میں حقیقت واقعہ واضح نہیں ہوتی ایسی صورت میں بھی اگر تعبیر غلط ہوجائے تو واقعہ مختلف ہوجاتا ہے اس لئے صرف وہ خواب صحیح طور پر الہام من اللہ اور حقیقت ثابتہ ہوں گے جو اللہ کی طرف سے ہو اور اس میں کچھ عوارض بھی شامل نہ ہوئے ہوں اور تعبیر بھی صحیح دی گئی ہو۔ - انبیاء (علیہم السلام) کے سب خواب ایسے ہی ہوتے ہیں اسی لئے ان کے خواب بھی وحی کا درجہ رکھتے ہیں عام مسلمانوں کے خواب میں ہر طرح کے احتمال رہتے ہیں اس لئے وہ کسی کے لئے حجت اور دلیل نہیں ہوتے ان کے خوابوں میں بعض اوقات طبعی اور نفسانی صورتوں کی آمیزش ہوجاتی ہے اور بعض اوقات گناہوں کی ظلمت و کدورت صحیح خواب پر چھا کر اس کو ناقابل اعتماد بنا دیتی ہے بعض اوقات تعبیر صحیح سمجھ میں نہیں آتی ،- خواب کی یہ تین قسمیں ہیں ایک شیطانی ہے جس میں شیطان کی طرف سے کچھ صورتیں ذہن میں آتی ہیں دوسری وہ جو آدمی اپنی بیداری میں دیکھتا رہتا ہے وہی صورتیں خواب میں سامنے آجاتی ہیں تیسری قسم جو صحیح اور حق ہے وہ نبوت کے اجزء میں سے چھیالیسواں جز ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہے،- خواب میں جزء نبوت ہونے کے معنی اور اس کی تشریح :- یہ قسم جو حق اور صحیح ہے اور صحیح احادیث نبویہ میں نبوت کا ایک جزء قرار دی گئی ہے اس میں روایات حدیث مختلف ہیں بعض میں چالیسواں جزء اور بعض چھیالیسواں جزء بتلایا اور بعض روایات میں اننچاس (49) اور پچاس (50) اور سترواں (70) جزء ہونا بھی منقول ہے یہ سب روایتیں تفسیر قرطبی میں جمع کرکے ابن عبد البر کی تحقیق یہ نقل کی ہے کہ ان میں کوئی تضاد وتخالف نہیں بلکہ ہر ایک روایت اپنی جگہ صحیح و درست ہے اور تعداد اجزاء کا یہ اختلاف خواب دیکھنے والوں کے مختلف حالات کی بناء پر ہے جو شخص سچائی، امانت، دیانت، اور کمال ایمان کے ساتھ متصف ہے اس کا خواب نبوت کا چالیسواں جزء ہوگا اور جو ان اوصاف میں کچھ کم ہے اس کا چھیالیسواں یا پچاسواں جزء ہوگا اور جو اور کم ہے اس کا خواب نبوت کا سترواں جزء ہوگا،- یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ سچے خواب کے جزء نبوت ہونے سے کیا مراد ہے تفسیر مظہری میں اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی نبوت کا سلسلہ تیئیس سال جاری رہا ان میں سے پہلی ششماہی میں یہ وحی الہی خوابوں کی صورت میں آتی رہی باقی پنیتالیس ششماہیوں میں جبرئیل امین (علیہ السلام) کی پیغام کی صورت میں آئی، اس حساب سے سچی خوابیں وحی نبوت کا چھالیسواں جز ہوا اور جن روایات میں کم وبیش عدد مذکور ہیں ان میں یا تقریبی کلام کیا گیا یا وہ سند کے اعتبار سے ساقط ہیں - امام قرطبی (رح) نے فرمایا کہ اس کے جزء نبوت ہونے سے مراد یہ ہے کہ خواب میں بعض اوقات انسان ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو اس کی قدرت میں نہیں مثلاً یہ دیکھے کہ وہ آسمان پر اڑ رہا ہے یا غیب کی ایسی دیکھے جن کا علم حاصل کرنا اس کی قدرت میں نہ تھا تو اس کا ذریعہ بجز امداد والہام خداوندی کے اور کچھ نہیں ہوسکتا جو اصل میں خاصہ نبوت ہے اس لئے اس کو ایک جزء نبوت قرار دیا گیا،- قادیانی دجال کے ایک مغالطہ کی تردید :- یہاں کچھ لوگوں کو ایک عجیب مغالطہ لگا ہے کہ اس جزء نبوت کے دنیا میں باقی اور جاری رہنے سے نبوت کا باقی اور جاری رہنا سمجھ بیٹھے جو قرآن مجید کی نصوص قطعیہ اور بیشمار احادیث صحیحہ کے خلاف اور پوری امت کے اجماعی عقیدہ ختم نبوت کے منافی ہے اور یہ نہ سمجھے کہ کسی چیز کا ایک جزء موجود ہونے سے اس چیز کا موجود ہونا لازم نہیں آتا اگر کسی شخص کا ایک ناخن یا ایک بال کہیں موجود ہو تو کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں وہ شخص موجود ہے مشین کے بہت سے کل پرزوں میں سے اگر کسی کے پاس ایک پرزہ یا ایک اسکرد موجود ہو اور وہ کہنے لگے کہ میرے پاس فلاں مشین موجود ہے تو دنیا بھر کے انسان اس کو یا جھوٹا سمجھیں گے یا بیوقوف،- سچے خواب حسب تصریح حدیث بلاشبہ جزء نبوت ہیں مگر نبوت نہیں نبوت تو خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ختم ہوچکی ہے،- صحیح بخاری میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لم یبق من النبوۃ الا المبشرات، یعنی آئندہ نبوت کا کوئی جزء بجز مبشرات کے باقی نہ رہے گا صحابہ کرام نے عرض کیا کہ مبشرات سے کیا مراد ہے ؟ تو فرمایا کہ سچے خواب جس میں ثابت ہوا کہ نبوت کسی قسم یا کسی صورت سے باقی نہیں صرف اس کا چھوٹا ساجز باقی ہے جس کو مبشرات یا سچے خواب کہا جاتا ہے - کبھی کافر فاسق آدمی کا خواب بھی سچا ہوسکتا ہے :- اور یہ بات بھی قرآن و حدیث سے ثابت اور تجربات سے معلوم ہے کہ سچے خواب بعض اوقات فاسق فاجر بلکہ کافر کو بھی آسکتے ہیں سورة یوسف ہی میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کے جیل کے دوساتھیوں کے خواب اور ان کا سچا ہونا اسی طرح بادشاہ مصر کا خواب اور اس کا سچاہونا قرآن میں مذکور ہے حالانکہ یہ تینوں مسلمان نہ تھے حدیث میں کسریٰ کا خواب مذکور ہے جو اس نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے متعلق دیکھا تھا وہ خواب صحیح ہوا حالانکہ کسریٰ مسلمان نہ تھا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پھوپی عاتکہ نے بحالت کفر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں سچاخواب دیکھا تھا نیز کافر بادشاہ بخت نصر کے جس خواب کی تعبیر حضرت دانیال (علیہ السلام) نے دی وہ خواب سچا تھا،- اس سے معلوم ہوا کہ محض اتنی بات کہ کسی کو کوئی سچاخواب نظر آجائے اور واقعہ اس کے مطابق ہوجائے اس کے نیک صالح بلکہ مسلمان ہونے کی بھی دلیل نہیں ہوسکتی ہاں یہ صحیح ہے کہ عام عادۃ اللہ یہی ہے کہ سچے اور نیک لوگوں کے خواب عموماً سچے ہوتے ہیں فساق و فجار کے عموماً حدیث النفس یا تسویل شیطانی کی قسم باطل سے ہوا کرتے ہیں مگر کبھی اس کے خلاف بھی ہوجاتا ہے،- بہرحال سچے خواب عام امت کے لئے حسب تصریح حدیث ایک بشارت یا تنبیہ سے زائد کوئی مقام نہیں رکھتے نہ خود اس کے لئے کسی معاملہ میں حجت ہیں نہ دوسروں کے لئے بعض ناواقف لوگ ایسے خواب دیکھ کر طرح طرح کے وساوس میں مبتلا ہوجاتے ہیں کوئی ان کو اپنی ولایت کی علامت سمجھنے لگتا ہے کوئی ان سے حاصل ہونے والی باتوں کو شرعی احکام کا درجہ دینے لگتا ہے یہ سب چیزیں بےبنیاد ہیں خصوصاً جب کہ یہ بھی معلوم ہوچکا ہے کہ سچی خوابوں میں بھی بکثرت نفسانی یا شیطانی یا دونوں قسم کے تصورات کی آمیزش کا احتمال ہے،- خواب ہر شخص سے بیان کرنا درست نہیں :- مسئلہ : آیت قالَ يٰبُنَيَّ الخ۔ میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنا خواب بھائیوں کے سامنے بیان کرنے سے منع فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ خواب ایسے شخص کے سامنے بیان نہ کرنا چاہئے جو اس کا خیر خواہ اور ہمدرد نہ ہو اور نہ ایسے شخص کے سامنے جو تعبیر خواب میں ماہر نہ ہو - جامع ترمذی میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سچاخواب نبوت کے چالیس اجزاء میں سے ایک جز ہے اور خواب معلق رہتا ہے جب تک کسی سے بیان نہ کیا جائے جب بیان کردیا گیا اور سننے والے نے کوئی تعبیر دے دیتو تعبیر کے مطابق واقع ہوجاتا ہے اس لئے چاہئے کہ خواب کسی سے بیان نہ کرے بجز اس شخص کے کہ جو عالم وعاقل ہو یا کم ازکم اس کا دوست اور خیرخواہ ہو،- نیز ترمذی اور ابن ماجہ میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ خواب تین قسم کا ہوتا ہے ایک اللہ کی طرف سے بشارت، دوسرے نفسانی خیالات، تیسرے شیطانی تصورات، اس لئے جو شخص کوئی خواب دیکھے اور اسے بھلا معلوم ہو تو اس کو اگر چاہے لوگوں سے بیان کر دے اور اگر اس میں کوئی بری بات نظر آئے تو کسی سے نہ کہے بلکہ اٹھ کر نماز پڑھ لے اور صحیح مسلم کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ برا خواب دیکھے تو بائیں طرف تین مرتبہ تھوک دے اور اللہ سے اس کی برائی سے پناہ مانگے اور کسی سے ذکر نہ کرے تو یہ خواب اس کو کوئی نقصان نہ دے گا وجہ یہ ہے کہ بعض خواب تو شیطانی تصورات ہوتے ہیں وہ اس عمل سے دفع ہوجائیں گے اور اگر سچا خواب ہے تو اس عمل کے ذریعہ اس کی برائی دور ہوجانے کی بھی امید ہے،- مسئلہ : خواب کی تعبیر خواب پر موقوف رہنے کا مطلب تفسیر مظہری میں یہ بیان فرمایا ہے کہ بعض تقدیری امور مبرم یعنی قطعی نہیں ہوتے بلکہ معلق ہوتے ہیں کہ فلاں کام ہوگیا تو یہ مصیبت ٹل جائے گی اور نہ ہوا تو پڑجائے گی جس کو قضائے معلق کہا جاتا ہے ایسی صورت میں بری تعبیر دینے سے معاملہ برا اور اچھی تعبیر سے اچھا ہوجاتا ہے اسی لئے ترمذی کی حدیث مذکور میں ایسے شخص سے خواب بیان کرنے کی ممانعت کی گئی ہے جو عقلمند نہ ہو یا اس کا خیر خواہ و ہمدرد نہ ہو اور یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ خواب کی کوئی بری تعبیر سن کر انسان کے دل میں یہی خیال جمتا ہے کہ اب مجھ پر مصیبت آنے والی ہے اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا انا عند ظن عبدی بی۔ یعنی بندہ میرے متعلق جیسا گمان کرتا ہے میں اس کے حق میں ویسا ہی ہوجاتا ہوں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصیبت آنے پر یقین کر بیٹھا تو اس تو اس عادۃ اللہ کے مطابق اس پر مصیبت آنا ضروری ہوگیا،- مسئلہ : اس آیت سے جو یہ معلوم ہوا کہ جس خواب میں کوئی بات تکلیف و مصیبت کی نظر آئے وہ کسی سے بیان نہ کرے روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممانعت محض شفقت اور ہمدردی کی بناء پر ہے شرعی حرام نہیں اس لئے اگر کسی سے بیان کر دے تو کوئی گناہ نہیں کیونکہ احادیث صحیحہ میں ہے کہ غزوہ احد کے وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میری تلوار ذوالفقار ٹوٹ گئی اور دیکھا کہ کچھ گائیں ذبح ہو رہی ہیں جس کی تعبیر حضرت حمزہ کی شہادت اور بہت سے مسلمانوں کی شہادت تھی جو بڑا حادثہ ہے مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس خواب کو صحابہ سے بیان فرما دیا تھا (قرطبی )- مسئلہ : اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان کو دوسرے کے شر سے بچانے کے لئے اس کی کسی بری خصلت یا نیت کا اظہار کردینا جائز ہے یہ غیبت میں داخل نہیں مثلاً کسی شخص کو معلوم ہوجائے کہ فلاں آدمی کسی دوسرے آدمی کے گھر میں چوری کرنے یا اس کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تو اس کو چاہئے کہ اس شخص کو باخبر کر دے یہ غیبت حرام میں داخل نہیں جیسا کہ یعقوب (علیہ السلام) نے یوسف (علیہ السلام) سے اس کا ا ظہار کردیا کہ بھائیوں سے ان کی جان کا خطرہ ہے،- مسئلہ : اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس شخص کے متعلق یہ احتمال ہو کہ ہماری خوش حالی اور نعمت کا ذکر سنے گا تو اس کو حسد ہوگا اور نقصان پہنچانے کی فکر کرے گا تو اس کے سامنے اپنی نعمت دولت وعزت وغیرہ کا ذکر نہ کرے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ :- اپنے مقاصد کو کامیاب بنانے کے لئے ان کو راز میں رکھنے سے مدد حاصل کرو کیونکہ دنیا میں ہر صاحب نعمت سے حسد کیا جاتا ہے،- مسئلہ : اس آیت اور بعد کی آیات سے جن میں حضرت یوسف (علیہ السلام) کو قتل کرنے یا کنویں میں ڈالنے کا مشورہ اور اس پر عمل مذکور ہے یہ بھی واضح ہوگیا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائی اللہ کے نبی اور پیغمبر نہ تھے ورنہ قتل یوسف کا مشورہ اور پھر ان کو ضائع کرنے کی تدبیر اور باپ کی نافرمانی کا عمل ان سے نہ ہوتا کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کا سب گناہوں سے پاک ہونا اور معصوم ہونا ضروری ہے کتاب طبری میں جو ان کو انبیاء کہا گیا ہے وہ صحیح نہیں (قرطبی)
قَالَ يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰٓي اِخْوَتِكَ فَيَكِيْدُوْا لَكَ كَيْدًا ٠ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ٥- أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- كيد - الْكَيْدُ : ضرب من الاحتیال، وقد يكون مذموما وممدوحا، وإن کان يستعمل في المذموم أكثر، وکذلک الاستدراج والمکر، ويكون بعض ذلک محمودا، قال : كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76]- ( ک ی د ) الکید - ( خفیہ تدبیر ) کے معنی ایک قسم کی حیلہ جوئی کے ہیں یہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور برے معنوں میں بھی مگر عام طور پر برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح لفظ استد راج اور مکر بھی کبھی اچھے معنوں میں فرمایا : ۔ كَذلِكَ كِدْنا لِيُوسُفَ [يوسف 76] اسی طرح ہم نے یوسف کے لئے تدبیر کردی ۔ - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔
قول باری ہے الا تقصص رو یاک علی اخوتک فیکید والک کیدا ً ۔ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزاد ہوجائیں گے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو یہ معلوم تھا کہ اگر یوسف اپنے بھائیوں سے اس خواب کا تذکرہ کریں گے تو وہ ان سے حسدکریں گے اور ان کے درپے آزاد ہوجائیں گے۔ یہی بات ان لوگوں سے نعمت کو چھپانے اور ان پر ظاہر نہ کرنے کے جواز کی بنیاد ہے جن کے متعلق یہ خطرہ ہو کہ وہ حسد کریں گے اور درپے آزاد ہوجائیں گے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے نعمت کے اظہار کا حکم دیا ہے چناچہ ارشاد ہوا واما بنعمۃ ربک فحدث اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کیا۔
(٥) حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) سے فرمایا بیٹا اس خواب کے بعد اگر اور بھی خواب دیکھو تو اپنے بھائیوں کے سامنے مت بیان کرنا کہ کہیں وہ تمہاری موت کی کوئی تدبیر کریں، بلاشبہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے کہ لوگوں کو حسد پر اکساتا ہے۔
آیت ٥ (قَالَ يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰٓي اِخْوَتِكَ )- حضرت یعقوب نے سمجھ لیا کہ اس خواب میں یوسف کے گیارہ بھائیوں اور ماں باپ کے بارے میں کوئی اشارہ ہے اور شاید اللہ تعالیٰ میرے اس بیٹے کے لیے کوئی خاص فضیلت ظاہر کرنے والا ہے۔- (فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًا)- ممکن ہے وہ لوگ خواب سن کر اس میں واضح اشارے کو بھانپ لیں تو ان کے اندر حسد کی آگ بھڑک اٹھے اور پھر وہ تمہارے خلاف کوئی سازش کریں ‘ تمہیں گزند پہنچانے کی کوشش کریں ۔- (اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ)- وہ دشمنی میں کسی کو بھی کسی بھی وقت کوئی بھی پٹی پڑھا سکتا ہے۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :4 اس سے مراد حضرت یوسف علیہ السلام کے وہ دس بھائی ہیں جو دوسری ماؤں سے تھے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یہ سوتیلے بھائی یوسف علیہ السلام سے حسد رکھتے ہیں اور اخلاق کے لحاظ سے بھی ایسے صالح نہیں ہیں کہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے کوئی ناروا کارروائی کرنے میں انہیں کوئی تأمل ہو ، اس لیے انہوں نے اپنے صالح بیٹے کو متنبہ فرما دیا کہ ان سے ہوشیار رہنا ۔ خواب کا صاف مطلب یہ تھا کہ سورج سے مراد حضرت یعقوب علیہ السلام ، چاند سے مراد ان کی بیوی ( حضرت یوسف علیہ السلام کی سوتیلی والدہ ) اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی ہیں ۔
1: حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ یوسف (علیہ السلام) نے جو خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر یہ ہے کہ یوسف (علیہ السلام) کو اتنا اونچا مقام ملنے والا ہے کہ ان کے گیارہ بھائی اور ماں باپ کسی وقت ان کے مطیع اور فرماں بردار ہوجائیں گے، دوسری طرف صورت حال یہ تھی کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے کل بارہ بیٹے تھے، ان میں سے دوبیٹے یعنی حضرت یوسف (علیہ السلام) اور بنیامین ایک والدہ سے تھے اور باقی صاحب زادے ان کی دوسری اہلیہ سے تھے، حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو اندیشہ ہوا کہ دوسرے سوتیلے بھائیوں کو اس خواب کی وجہ سے حسد نہ ہو، اور شیطان کے بہکائے میں آکر یوسف (علیہ السلام) کے خلاف کوئی کاروائی نہ کر بیٹھیں۔