بشارت اور نصیحت حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے لخت جگر حضرت یوسف علیہ السلام کو انہیں ملنے والے مرتبوں کی خبر دیتے ہیں کہ جس طرح خواب میں اس نے تمہیں یہ فضیلت دکھائی اسی طرح وہ تمہیں نبوت کا بلند مرتبہ عطا فرمائے گا ۔ اور تمہیں خواب کی تعبیر سکھا دے گا ۔ اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دے گا یعنی نبوت ۔ جیسے کہ اس سے پہلے وہ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو اور حضرت اسحاق علیہ السلام کو بھی عطا فرما چکا ہے جو تمہارے دادا اور پردادا تھے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے خوب واقف ہے کہ نبوت کے لائق کون ہے؟
6۔ 1 یعنی جس طرح تجھے تیرے رب نے نہایت عظمت والا خواب دکھانے کے لئے چن لیا، اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدگی بھی عطا کرے گا اور خوابوں کی تعبیر سکھائے گا۔ تاویل الاحادیث کے اصل معنی باتوں کی تہہ تک پہنچنا ہے۔ یہاں خواب کی تعبیر مراد ہے۔ 6۔ 2 اس سے مراد نبوت ہے جو یوسف (علیہ السلام) کو عطا کی گئی۔ یا وہ انعامات ہیں جن سے مصر میں یوسف (علیہ السلام) نوازے گئے۔ 6۔ 3 اس سے مراد حضرت یوسف (علیہ السلام) کے بھائی، ان کی اولاد وغیرہ ہیں، جو بعد میں انعامات الٰہی کے مستحق بنے۔
[٥] سیدنا یوسف کے خواب کے واضح نتائج :۔ اس خواب سے سیدنا یعقوب نے خود جو نتائج نکالے اور سیدنا یوسف کو بتائے وہ یہ تھے کہ اللہ تعالیٰ سیدنا یوسف (علیہ السلام) سے اپنے دین کی خدمت کا کام لے گا اور انھیں تاویل الاحادیث سکھائے گا۔ تاویل الاحادیث سے مراد صرف خوابوں کی تعبیر ہی نہیں بلکہ ہر بات کے موقع و محل کو سمجھنا معاملات کے نتائج کو فوراً پرکھ لینا۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کے مضامین کی تہ تک پہنچ جانا وغیرہ سب کچھ شامل ہے اور تیسرے یہ کہ اللہ انھیں اس نعمت نبوت سے فیض یاب فرمائے گا جو ان کے دو باپوں سیدنا اسحاق اور سیدنا ابراہیم کو عطا کرچکا ہے۔- اس مقام پر سیدنا یعقوب نے از راہ تواضع اور انکساری اپنا نام لینا مناسب نہ سمجھا ورنہ آپ خود بھی جلیل القدر نبی تھے اور آپ کی اولاد میں ہی آئندہ سلسلہ نبوت جاری رہا۔ ماسوائے نبی آخرالزمان کے جو سیدنا اسماعیل کی اولاد سے تھے۔ اسی حقیقت پر درج ذیل حدیث سے روشنی پڑتی ہے :- سیدنا یوسف سب سے مکرم :۔ سیدنا ابو ہریرۃ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا : یارسول اللہ سب سے زیادہ مکرم کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : جو سب سے زیادہ متقی ہے انہوں نے کہا کہ ہم یہ نہیں پوچھتے پھر آپ نے فرمایا : یوسف اللہ کے نبی، اللہ کے نبی کے بیٹے، اللہ کے نبی کے پوتے، اللہ کے نبی کے پڑپوتے، سب سے زیادہ مکرم ہیں۔ (بخاری، کتاب الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ ۔۔ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا)
وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ : ” یَجْتَبِیْ “ ” جَبَی یَجْبِیْ “ (ض) کے باب افتعال ” اِجْتِبَاءٌ“ کا فعل مضارع ہے، جس کا معنی جمع کرنا، کسی خوبی کی بنا پر چن لینا ہے۔ راغب نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کے ” اِجْتِبَاءٌ“ (چن لینے) سے مراد اسے اپنے ایسے فیض کے ساتھ خاص کرلینا ہے جس سے اس کو اپنی کسی کوشش کے بغیر مختلف قسم کی نعمتیں حاصل ہوجائیں، یہ چیز انبیاء کو حاصل ہوتی ہے یا انھیں جو ان کے قریب ہوں، مثلاً صدیقین، شہداء۔ (مفردات) بیشک اعلیٰ درجے کا اجتباء انبیاء، صدیقین اور شہداء کو حاصل ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کے چننے کے بھی کئی درجے ہیں، جیسا کہ آپ اپنے متعلق سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کس طرح چنا کہ پتھر یا نباتات یا جانوروں کے بجائے انسان بنایا، پھر کافر نہیں بلکہ مسلمان بنایا، پھر کبیرہ گناہوں سے بچایا، پھر مشرک کلمہ گو کے بجائے موحد اور بدعتی کے بجائے متبع سنت بنایا، اگر علم کتاب کی نعمت بھی حاصل ہے تو آپ ان لوگوں میں جا ملے جن کے متعلق فرمایا : (ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا) [ فاطر : ٣٢ ] ” پھر اس کتاب کے وارث ہم نے وہ لوگ بنائے جنھیں ہم نے چن لیا۔ “ اگر دعوت الی اللہ کی توفیق مل گئی تو مزید فیض مل گیا۔ غرض اصطفاء اور اجتباء کے کئی درجے ہیں اور جتنا حصہ مل جائے اس پر اللہ کا بیحد شکر ادا کرنا چاہیے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَآ اَنْ هَدٰىنَا اللّٰهُ ) [ الأعراف : ٤٣ ] ”(جنتی کہیں گے) اور ہم کبھی نہ تھے کہ ہدایت پاتے اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی۔ “ یا اللہ تو اپنے فضل سے ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو جنت میں داخل ہو کر ان الفاظ میں تیرا شکر ادا کریں گے۔ (آمین)- اس آیت میں ” وَکَذٰلِکَ “ (اور اسی طرح) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھے یہ خواب دکھلایا، اور کسی کو اس طرح کا خواب نہیں دکھایا، اسی طرح تیرا رب تجھے چنے گا اور تجھے۔۔ چننے سے مراد اعلیٰ درجے کا چننا ہے، جیسا کہ اوپر امام راغب سے نقل ہوا، یعنی نبوت و صدیقیت سے نوازے گا اور گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کے سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اعلیٰ مقام پر پہنچا کر تمہیں اپنے عہد کے سب بندوں پر فوقیت بخشے گا۔ - وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ : ” الْاَحَادِيْثِ “ ” حَدِیْثٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی بات ہے۔ ” تَاْوِيْلِ “ کا معنی بات کا صحیح مطلب سمجھنا اور اس کی تہ تک پہنچنا ہے، کیونکہ ” تَاْوِيْلِ “ ” أَوْلٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی لوٹنا ہے اور تاویل کا معنی کسی چیز کو اس کے اصل مقصد کی طرف لوٹانا ہے، یعنی جو اس سے مراد ہے۔ یہاں ” تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ “ سے مراد بات سمجھنے کی تیز بصیرت اور کمال فہم کے ساتھ خوابوں کی تعبیر بھی ہے ۔- وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ ۔۔ : تم پر اپنی نعمت تمام کرے گا جیسے اس سے پہلے تمہارے (دو باپوں) دادا اور پردادا پر پوری کی، یعنی تمہیں نبوت و رسالت اور حکومت عطا فرمائے گا۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ”(اَبَوَیْکَ یعنی تیرے دونوں باپوں پر) ابراہیم اور اسحاق (علیہ السلام) کا نام لیا، اپنا نہ لیا عاجزی سے۔ “ (موضح) آل یعقوب پر نعمت تمام کرنے کا مطلب وہ تمام نعمتیں ہیں جو بنی اسرائیل پر ہوئیں اور جن کا ذکر تفصیل سے قرآن مجید میں موجود ہے۔ - اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : کہ اس کے بندوں میں سے کون سرفرازی کے لائق ہے۔
چھٹی آیت میں اللہ تعالیٰ یوسف (علیہ السلام) سے چند انعامات عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اول كَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے انعامات و احسانات کے لئے آپ کا انتخاب فرما لیں گے جس کا ظہور ملک مصر میں حکومت اور عزت و دولت ملنے سے ہوا دوسرے وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ اس میں احادیث سے مراد لوگوں کے خواب ہیں معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تعبیر خواب کا علم سکھا دیں گے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعبیر خواب ایک مستقل فن ہے جو اللہ تعالیٰ کسی کسی کو عطا فرما دیتے ہیں ہر شخص اس کا اہل نہیں۔- مسئلہ : تفسیر قرطبی میں ہے کہ عبداللہ بن شداد بن الہاد نے فرمایا کہ یوسف (علیہ السلام) کے اس خواب کی تعبیر چالیس سال بعد ظاہر ہوئی اس سے معلوم ہوا کہ تعبیر کا فوراً ظاہر ہونا کوئی ضروری نہیں - تیسرا وعدہ وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ یعنی اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی نعمت پوری فرمادیں گے اس میں عطاء نبوت کی طرف اشارہ ہے اور اسی کی طرف اشارہ بعد کے جملوں میں ہے كَمَآ اَتَمَّــهَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ یعنی جس طرح ہم اپنی نعمت نبوت تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق (علیہم السلام) پر آپ سے پہلے پوری کرچکے ہیں اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ تعبیر خواب کا فن جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کو دیا گیا اسی طرح ابراہیم واسحاق (علیہم السلام) کو بھی سکھایا گیا تھا ،- آخر میں فرمای آ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ یعنی تمہارا پروردگار بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے نہ اس کے لئے کسی کو کوئی فن سکھانا مشکل ہے اور نہ ازرؤے حکمت وہ یہ فن ہر شخص کو سکھاتا ہے بلکہ اپنی حکمت کے ماتحت انتخاب کر کے کسی کو یہ ہنر دیدیتا ہے
وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ كَـمَآ اَتَمَّــہَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰہِيْمَ وَاِسْحٰقَ ٠ۭ اِنَّ رَبَّكَ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ ٦ۧ- اجتباء - : الجمع علی طریق الاصطفاء . قال عزّ وجل : فَاجْتَباهُ رَبُّهُ [ القلم 50] ، وقال تعالی: وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] ، أي : يقولون : هلّا جمعتها، تعریضا منهم بأنک تخترع هذه الآیات ولیست من اللہ . واجتباء اللہ العبد : تخصیصه إياه بفیض إلهيّ يتحصل له منه أنواع من النعم بلا سعي من العبد، وذلک للأنبیاء وبعض من يقاربهم من الصدیقین والشهداء، كما قال تعالی: وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] ، فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] ، وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ، وقوله تعالی: ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] ، وقال عزّ وجل : يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] ، وذلک نحو قوله تعالی: إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] .- الاجتباء ( افتعال )- کے معنی انتخاب کے طور پر کسی چیز کو جمع کرنے کے ہیں لہذا آیت کریمہ : ۔ وَإِذا لَمْ تَأْتِهِمْ بِآيَةٍ قالُوا : لَوْلا اجْتَبَيْتَها [ الأعراف 203] اور جب تم ان کے پاس ( کچھ دنوں تک ) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے ( اپنی طرف سے ) کیوں نہیں بنائی ہیں کے معنی یہ ہوں گے کہ تم خد ہی ان کو تالیف کیوں نہیں کرلیتے دراصل کفار یہ جملہ طنزا کہتے تھے کہ یہ آیات اللہ کی طرف سے نہیں ہیں بلکہ تم کود ہی اپنے طور بنالیتے ہو ۔ اور اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو جن لینا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اسے اپنے فیض کے لئے برگزیدہ کرلیتا ہے جسے گونا گون نعمتیں جدو جہد کے بغیر حاصل ہوجاتی ہیں یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور صدیقوں اور شہدوں کے لئے جوان کئ قریب درجہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ جیسا کہ یوسف کے متعلق فرمایا : ۔ وَكَذلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ [يوسف 6] اور اسی طرح خدا تمہیں برگزیدہ ( ممتاز ) کرے گا ۔ فَاجْتَباهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ [ القلم 50] پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کر کے نیکو کاروں میں کرلیا ۔ وَاجْتَبَيْناهُمْ وَهَدَيْناهُمْ إِلى صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ [ الأنعام 87] ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھا یا تھا ۔ ثُمَّ اجْتَباهُ رَبُّهُ فَتابَ عَلَيْهِ وَهَدى [ طه 122] پھر ان کے پروردگار نے ان کو نواز اتو ان پر مہر بانی سے توجہ فرمائی اور سیدھی راہ بتائی ۔ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ [ الشوری 13] جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کرلیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے اسے اپنی طرف رستہ دکھا دیتا ہے اس احتیاء کو دوسرے مقام پر اخلاص سے تعبیر فرمایا ہے ۔ إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ [ ص 46] ہم نے ان کو ایک ( صفت ) خاص ( اخرت ) کے گھر کی یا سے ممتاز کیا تھا ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] - تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو - حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه - حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔- أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - تمَ- تَمَام الشیء : انتهاؤه إلى حدّ لا يحتاج إلى شيء خارج عنه، والناقص : ما يحتاج إلى شيء خارج عنه . ويقال ذلک للمعدود والممسوح، تقول : عدد تَامٌّ ولیل تام، قال : وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] ، وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ- [ الصف 8] ، وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] .- ( ت م م ) تمام الشیء کے معنی کسی چیز کے اس حد تک پہنچ جانے کے ہیں جس کے بعد اسے کسی خارجی شے کی احتیاج باقی نہ رہے اس کی ضد ناقص یعنی وہ جو اپنی ذات کی تکمیل کے لئے ہنور خارج شے کی محتاج ہو اور تمام کا لفظ معدودات کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور مقدار وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے مثلا قرآن میں ہے : ۔ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [ الأنعام 115] اور تمہارے پروردگار وعدہ پورا ہوا ۔ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ [ الصف 8] حالانکہ خدا اپنی روشنی کو پورا کرکے رہے گا ۔ وَأَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقاتُ رَبِّهِ [ الأعراف 142] . اور دس ( راتیں ) اور ملا کر اسے پورا ( حیلہ ) کردیا تو اس کے پروردگار کی ۔۔۔۔۔ میعاد پوری ہوگئی ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- آل - الآل : مقلوب من الأهل ، ويصغّر علی أهيل إلا أنّه خصّ بالإضافة إلى الأعلام الناطقین دون النکرات، ودون الأزمنة والأمكنة، يقال : آل فلان، ولا يقال : آل رجل ولا آل زمان کذا، أو موضع کذا، ولا يقال : آل الخیاط بل يضاف إلى الأشرف الأفضل، يقال : آل اللہ وآل السلطان .- والأهل يضاف إلى الكل، يقال : أهل اللہ وأهل الخیاط، كما يقال : أهل زمن کذا وبلد کذا .- وقیل : هو في الأصل اسم الشخص، ويصغّر أُوَيْلًا، ويستعمل فيمن يختص بالإنسان اختصاصا ذاتیا إمّا بقرابة قریبة، أو بموالاة، قال اللہ عزّ وجل : وَآلَ إِبْراهِيمَ وَآلَ عِمْرانَ [ آل عمران 33] ، وقال : أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذابِ [ غافر 46] . قيل : وآل النبي عليه الصلاة والسلام أقاربه، وقیل : المختصون به من حيث العلم، وذلک أنّ أهل الدین ضربان :- ضرب متخصص بالعلم المتقن والعمل المحکم فيقال لهم : آل النبي وأمته .- وضرب يختصون بالعلم علی سبیل التقلید، يقال لهم : أمة محمد عليه الصلاة والسلام، ولا يقال لهم آله، فكلّ آل للنبيّ أمته ولیس کل أمة له آله . وقیل لجعفر الصادق رضي اللہ عنه : الناس يقولون : المسلمون کلهم آل النبي صلّى اللہ عليه وسلم، فقال : کذبوا وصدقوا، فقیل له : ما معنی ذلك ؟ فقال :- کذبوا في أنّ الأمّة کا فتهم آله، وصدقوا في أنهم إذا قاموا بشرائط شریعته آله .- وقوله تعالی: رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ [ غافر 28] أي : من المختصین به وبشریعته، وجعله منهم من حيث النسب أو المسکن، لا من حيث تقدیر القوم أنه علی شریعتهم .- ( ا و ل ) الآل ۔ بعض نے کہا ہے کہ آل اصل میں اہل ہے کیونکہ اسکی تصغیر اھیل آتی ہے مگر اس کی اضافت ناطقین انسان میں سے ہمیشہ علم کی طرف ہوتی ہے کسی اسم نکرہ یا زمانہ یا مکان کی طرف اس کی اضافت جائز نہیں ہے اس لئے آل فلاں ( علم ) تو کہہ سکتے ہیں مگر آل رجل ، آل زمان کذا وآل مکان کذا بولنا جائز نہیں ہے ۔ اسی طرح ہمیشہ صاحب شرف اور افضل ہستی کیطرف مضاف ہوگا اس لئے آل الخیاط بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ آل اللہ یا آل السلطان کہا جائیگا ۔ مگر اھل کا لفظ مذکورہ بالا میں سے ہر ایک کی طرف مضاف ہوکر آجاتا ہے ۔ چناچہ جس طرح اہل زمن کذا وبلد کذا بولا جاتا ہے اسی طرح اہل اللہ واہل الخیاط بھی کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لفظ ، ، آل ، ، دراصل بمعنی شخص ہے اس کی تصغیر اویل آتی ہے اور یہ اس شخص کے متعلق استعمال ہوگا جس کو دوسرے کے ساتھ ذاتی تعلق ہو مگر قریبی رشتہ داری یا تعلق والا ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ ( سورة آل عمران 33) خاندان ابراہیم اور خاندان عمران ۔ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ ( سورة غافر 46) فرعون والوں کو نہایت سخت عذاب میں داخل کردو ۔ آل النبی ۔ بعض نے کہا ہے کہ آل النبی سے آنحضرت کے رشتہ دار مراد ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں علم ومعرفت کے اعتبار سے آنحضرت کے ساتھ خصوصی تعلق حاصل ہو ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اہل دین دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جو علم وعمل کے اعتبار سے راسخ اور محکم ہوتے ہیں ان کو آل النبی اور امتہ بھی کہہ سکتے ہیں دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا سراسر تقلیدی ہوتا ہے ان کو امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو کہہ سکتے ہیں مگر آل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیں کہہ سکتے اس سے معلوم ہوا کہ امت اور آل میں عموم وخصوص کی نسبت ہے یعنی ہر آل نبی اسکی امت میں داخل ہے مگر ہر امتی آل نبی نہیں ہوسکتا۔ امام جعفر صادق سے کسی نے دریافت کیا کہ لوگ تمام مسلمانوں کو آل نبی میں داخل سمجھتے ہیں ۔ تو انہوں نے فرمایا یہ صحیح بھی ہے اور غلط تو اس لئے کہ تمام امت آل نبی میں داخل نہیں ہے اور صحیح اسلئے کہ وہ شریعت کے کماحقہ پابند ہوجائیں تو انہیں آل النبی کہا جاسکتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ ( سورة غافر 28) اور فرعون کے لوگوں میں سے ایک مومن شخص ۔ ۔۔۔ کہئے ۔ میں اس مرد مومن کے آل فرعون سے ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ( بظاہر ) تو اس کے خصوص اہل کاروں اور فرعون شریعت کے ماننے والوں سے تھا اور مسکن - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛- حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
تاویل الاحادیث کیا ہے - قول باری ہے ویعلمک من تاویل الاحادیث اور تجھے باتوں کو تہہ کو پہنچنا سکھائے گا۔ تاویل سے مراد وہ مفہوم ہے جس کی طرف ایک معنی پلٹتا اور اس کی طرف راجع ہوتا ہو ۔ ایک چیز کی تاویل اس کے مرجع کو کہتے ہیں ۔ مجاہد اور قتادہ کا قول ہے کہ تاویل احادیث سے مراد خوابوں کی تعبیر ہے۔ ایک قول کے مطابق تاویل احادیث اللہ کی آیات ، اس کی توحید کے دلائل اور ان کے سوا دین کے دوسرے امور میں ہوتی ہے۔
(٦) اسی طرح تمہارا پروردگار تمہیں نبوت کے لیے منتخب کرے گا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بھی دے گا اور نبوت واسلام دے کر تم پر اور تمہارے ذریعے یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان پر انعام کامل کرے گا اور اسی نعمت پر تمہارا انتقال ہوگا۔- جیسا کہ اس سے پہلے تمہارے دادا، پردادا یعنی ابراہیم (علیہ السلام) واسحاق (علیہ السلام) کو نبوت واسلام کی نعمت سے نوازا، واقعی تمہارا پروردگار ان نعمتوں کو جاننے والا اور اس کی تکمیل میں حکمت والا ہے یا یہ کہ وہ تمہارے خواب کو جاننے والا اور جو پریشانی تمہیں لاحق ہوگی اس میں حکمتوں والا ہے۔
آیت ٦ (وَكَذٰلِكَ يَجْتَبِيْكَ رَبُّكَ )- حضرت یعقوب نے سمجھ لیا کہ میرے بیٹوں میں سے یوسف کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے چن لیا ہے۔- (وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِيْلِ الْاَحَادِيْثِ )- یہاں پر تاویل حدیث کے دو معنی ہوسکتے ہیں ایک خوابوں کی تعبیر اور دوسرے معاملہ فہمی اور دور بینی باتوں کی کنہ (تہ) تک پہنچ جانا ‘ حقیقت تک رسائی ہوجانا۔ - (وَيُـــتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْكَ وَعَلٰٓي اٰلِ يَعْقُوْبَ كَمَآ اَتَمَّــهَا عَلٰٓي اَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ )- یہاں حضرت یعقوب نے کسر نفسی کے سبب حضرت ابراہیم اور حضرت اسحاق کے ساتھ اپنا نام نہیں لیا۔
سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :5 یعنی نبوت عطا کرے گا ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :6 ”تَاوِیلُ الاَحَا دِیثِ“ کا مطلب محض تعبیر خواب کا علم نہیں ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت تجھ کو عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملہ کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہہ کو پالینے کے قابل ہوجائے گا ۔ سورة یُوْسُف حاشیہ نمبر :7 بائیبل اور تَلمود کا بیان قرآن کے اس بیان سے مختلف ہے ۔ ان کا بیان یہ ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے خواب سن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا ، اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے سب بھائی تجھے سجدہ کریں گے ۔ لیکن ذرا غور کرنے سے بآسانی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیغمبرانہ سیرت سے قرآن کا بیان زیادہ مناسبت رکھتا ہے نہ کہ بائیبل اور تلمود کا ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب بیان کیا تھا ، کوئی اپنی تمنا اور خواہش نہیں بیان کی تھی خواب اگر سچا تھا ، اور ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے جو اس کی تعبیر نکالی وہ سچا خواب ہی سمجھ کر نکالی تھی ، تو اس کے صاف معنی یہ تھے کہ یہ یوسف علیہ السلام کی خواہش نہیں تھی بلکہ تقدیر الٰہی کا فیصلہ تھا کہ ایک وقت ان کو یہ عروج حاصل ہوا ۔ پھر کیا ایک پیغمبر تو درکنار ایک معقول آدمی کا بھی یہ کام ہوسکتا ہے کہ ایسی بات پر برا مانے اور خواب دیکھنے والے کو الٹی ڈانٹ پلائے؟ اور کیا کوئی شریف باپ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اپنے ہی بیٹے کے آئندہ عروج کی بشارت سن کر خوش ہونے کے بجائے الٹا جل بھن جائے؟
2: یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس خواب کے ذریعے یہ بشارت دی ہے کہ سب تمہارے فرماں بردار بنیں گے، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہیں نبوت سے سرفراز کرکے تمہیں بہت سے مزید نعمتوں سے نوازے گا۔