Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بجلی کر گرج بجلی بھی اس کے حکم میں ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سائل کے جواب میں کہا تھا کہ برق پانی ہے ۔ مسافر اسے دیکھ کر اپنی ایذاء اور مشقت کے خوف سے گھبراتا ہے اور مقیم برکت ونفع کی امید پر رزق کی زیادتی کا لالچ کرتا ہے ، وہی بوجھل بادوں کو پیدا کرتا ہے جو بوجہ پانی کے بوجھ کے زمین کے قریب آ جاتے ہیں ۔ پس ان میں بوجھ پانی کا ہوتا ہے ۔ پھر فرمایا کہ کڑک بھی اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ ہر چیز اللہ کی تسبیح وحمد کرتی ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بادل پیدا کرتا ہے جو اچھی طرح بولتے ہیں اور ہنستے ہیں ۔ ممکن ہے بولنے سے مراد گرجنا اور ہنسنے سے مراد بجلی کا ظاہر ہونا ہے ۔ سعد بن ابراہیم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ بارش بھیجتا ہے اس سے اچھی بولی اور اس سے اچھی ہنسی والا کوئی اور نہیں ۔ اس کی ہنسی بجلی ہے اور اس کی گفتگو گرج ہے ۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ برق ایک فرشتہ ہے جس کے چار منہ ہیں ایک انسان جیسا ایک بیل جیسا ایک گدھے جیسا ، ایک شیر جیسا ، وہ جب دم ہلاتا ہے تو بجلی ظاہر ہوتی ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گرج کڑک کو سن کر یہ دعا پڑھتے دعا ( اللہم لا تقتلنا بغضبک ولا تہلکنا بعذابک وعافنا قیل ذالک ) ( ترمذی ) اور روایت میں یہ دعا ہے ( سبحان من سبح الرعد بحمدہ ) حضرت علی گرج سن کر پڑھتے سبحان من سبحت لہ ابن ابی زکریا فرماتے ہیں جو شخص گرج کڑک سن کر کہے دعا ( سبحان اللہ وبحمدہ ) اس پر بجلی نہیں گرے گی ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ گرج کڑک کی آواز سن کر باتیں چھوڑ دیتے اور فرماتے دعا ( سبحان اللہ الذی یسبح الرعد بحمدہ والملائکتہ من خیفتہ ) اور فرماتے کہ اس آیت میں اور اس آواز میں زمین والوں کے لئے بہت تنزیر وعبرت ہے ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمہارا رب العزت فرماتا ہے اگر میرے بندے میری پوری اطاعت کرتے تو راتوں کو بارشیں برساتا اور دن کو سورج چڑھاتا اور انہیں گرج کی آواز تک نہ سناتا ۔ طبرانی میں ہے آپ فرماتے ہیں گرج سن کر اللہ کا ذکر کرو ۔ کیونکہ ذکر کرنے والوں پر کڑا کا نہیں گرتا ۔ وہ بجلی بھیجتا ہے جس پر چاہے اس پر گراتا ہے ۔ اسی لئے آخر زمانے میں بکثرت بجلیاں گریں گی ۔ مسند کی حدیث میں ہے کہ قیامت کے قریب بجلی بکثرت گرے گی یہاں تک کہ ایک شخص اپنی قوم سے آ کر پوچھے گا کہ صبح کس پر بجلی گری ؟ وہ کہیں گے فلاں فلاں پر ۔ ابو یعلی راوی ہیں آنحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک مغرور سردار کے بلانے کو بھیجا اس نے کہا کون رسول اللہ ؟ اللہ سونے کا ہے یا چاندی کا ؟ یا پیتل کا ؟ قاصد واپس آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا کہ دیکھئے میں نے تو آپ سے پہلے ہی کہا تھا کہ وہ متکبر ، مغرور شخص ہے ۔ آپ اسے نہ بلوائیں آپ نے فرمایا دوبارہ جاؤ اور اس سے یہی کہو اس نے جا کر پھر بلایا لیکن اس ملعون نے یہی جواب اس مرتبہ بھی دیا ۔ قاصد نے واپس آ کر پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آپ نے تیسری مرتبہ بھیجا اب کی مرتبہ بھی اس نے پیغام سن کر وہی جواب دینا شروع کیا کہ ایک بادل اس کے سر پر آ گیا کڑکا اور اس میں سے بجلی گری اور اس کے سر سے کھوپڑی اڑا لی گئی ۔ اس کے بعد یہ آیت اتری ۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک یہودی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تانبے کا ہے یا موتی کا یا یاقوت کا ابھی اس کا سوال پورا نہ ہوا تھا جو بجلی گری اور وہ تباہ ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔ قتادہ کہتے ہیں مذکور ہے کہ ایک شخص نے قرآن کو جھٹلایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار کیا اسی وقت آسمان سے بجلی گری اور وہ ہلاک ہو گیا اور یہ آیت اتری ۔ اس آیت کے شان نزول میں عامر بن طفیل اور ازبد بن ربیعہ کا قصہ بھی بیان ہوتا ہے ۔ یہ دونوں سرداران عرب مدینے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کو مان لیں گے لیکن اس شرط پر کہ ہمیں آدھوں آدھ کا شریک کرلیں ۔ آپ نے انہیں اس سے مایوس کر دیا تو عامر ملعون نے کہا واللہ میں سارے عرب کے میدان کو لشکروں سے بھر دوں گا آپ نے فرمایا تو جھوٹا ہے ، اللہ تجھے یہ وقت ہی نہیں دے گا پھر یہ دونوں مدینے میں ٹھرے رہے کہ موقعہ پا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غفلت میں قتل کر دیں چنانچہ ایک دن انہیں موقع مل گیا ایک نے تو آپ کو سامنے سے باتوں میں لگا لیا دوسرا تلوار تو لے پیچھے سے آ گیا لیکن اس حافظ حقیقی نے آپ کو ان کی شرارت سے بچا لیا ۔ اب یہاں سے نامراد ہو کر چلے اور اپنے جلے دل کے پھپھولے پھوڑنے کے لئے عرب کو آپ کے خلاف ابھارنے لگے اسی حال میں اربد پر آسمان سے بجلی گری اور اس کا کام تو تمام ہو گیا عامر طاعون کی گلٹی سے پکڑا گیا اور اسی میں بلک بلک کر جان دی اور اسی جیسوں کے بارے میں یہ آیت اتری کہ اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بجلی گراتا ہے ۔ اربد کے بھائی لیبد نے اپنے بھائی کے اس واقعہ کو اشعار میں خوب بیان کیا ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ عامر نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا ؟آپ نے فرمایا جو سب مسلمانوں کا حال وہی تیرا حال ۔ اس نے کہا پھر تو میں مسلمان نہیں ہوتا ۔ اگر آپ کے بعد اس امر کا والی میں بنوں تو میں دین قبول کرتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا یہ امر خلافت نہ تیرے لئے ہے نہ تیری قوم کے لئے ہاں ہمارا لشکر تیری مدد پر ہو گا ۔ اس نے کہا اس کی مجھے ضرورت نہیں اب بھی نجدی لشکر میری پشت پناہی پر ہے مجھے تو کچے پکے کا مالک کر دیں تو میں دین اسلام قبول کر لوں ۔ آپ نے فرمایا نہیں ۔ یہ دونوں آپ کے پاس سے چلے گئے ۔ عامر کہنے لگا واللہ میں مدینے کو چاروں طرف لشکروں سے محصور کر لوں گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تیرا یہ ارادہ پورا نہیں ہونے دے گا ۔ اب ان دونوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ایک تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو باتوں میں لگائے دوسرا تلوار سے آپ کا کام تمام کر دے ۔ پھر ان میں سے لڑے گا کون ؟ زیادہ سے زیادہ دیت دے کر پیچھا چھٹ جائے گا ۔ اب یہ دونوں پھر آپ کے پاس آئے ۔ عامر نے کہا ذرا آپ اٹھ کر یہاں آئیے ۔ میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ آپ اٹھے ، اس کے ساتھ چلے ، ایک دیوار تلے وہ باتیں کرنے لگا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر پشت کی جانب پڑی تو آپ نے یہ حالت دیکھی اور وہاں سے لوٹ کر چلے آئے ۔ اب یہ دونوں مدینے سے چلے حرہ راقم میں آ کر ٹھرے لیکن حضرت سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں پہنچے اور انہیں وہاں سے نکالا ، راقم میں پہنچے ہی تھے جو اربد پر بجلی گری اس کا تو وہیں ڈھیر ہو گیا ۔ عامر یہاں سے بھاگ چلا لیکن دریح میں پہنچا تھا جو اسے طاعون کی گلٹی نکلی ۔ بنو سلول قبیلے کی ایک عورت کے ہاں یہ ٹھرا ۔ وہ کبھی کبھی اپنی گردن کی گلٹی کو دباتا اور تعجب سے کہتا یہ تو ایسی ہے جیسے اونٹ کی گلٹی ہوتی ہے ، افسوس میں سلولیہ عورت کے گھر پر مروں گا ۔ کیا اچھا ہوتا کہ میں اپنے گھر ہوتا ۔ آخر اس سے نہ رہا گیا ، گھوڑا منگوایا ، سوار ہوا اور چل دیا لیکن راستے ہی میں ہلاک ہو گیا پس ان کے بارے میں یہ آیتیں ( اللہ یعلم سے من وال ) تک نازل ہوئیں ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا ذکر بھی ہے پھر اربد پر بجلی گرنے کا ذکر ہے اور فرمایا ہے کہ یہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں ۔ اس کی عظمت وتوحید کو نہیں مانتے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے مخالفوں اور منکروں کو سخت سزا اور ناقابل برداشت عذاب کرنے والا ہے ۔ پس یہ آیت مثل آیت ( وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 50؀ ) 27- النمل:50 ) کے ہے یعنی انہوں نے مکر کیا اور ہم نے بھی اس طرح کہ انہیں معلوم نہ ہو سکا ۔ اب تو خود دیکھ لے کہ ان کے مکر کا انجام کیا ہوا ؟ ہم نے انہیں اور ان کی قوم کو غارت کر دیا ۔ اللہ سخت پکڑ کرنے والا ہے ۔ بہت قوی ہے ، پوری قوت وطاقت والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 جس سے راہ گیر مسافر ڈرتے ہیں اور گھروں میں مقیم کسان اور کاشت کار اس کی برکت و منفعت کی امید رکھتے ہیں۔ 12۔ 2 بھاری بادلوں سے مراد، وہ بادل ہیں جس میں بارش کا پانی ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] پانی سے لدے ہوئے بادلوں کے وزن کا اندازہ کچھ اس بارش سے اور کچھ اس رقبہ سے لگایا جاسکتا ہے۔ جہاں یہ بادل برستا ہے۔ ہوا جو ایک ہلکے سے کاغذ کا بھی بوجھ برداشت نہیں کرتی اور وہ زمین پر گرپڑتا ہے۔ کروڑوں ٹن پانی والے بادلوں کے بوجھ کو اس طرح اپنے دوش پر اٹھائے پھرتی ہے۔ جس کا تصور کرنے سے ہی اللہ کی بےپناہ قدرت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ پانی سے بھرے ہوئے بادل کبھی تہ بہ تہ بنتے جاتے ہیں۔ اس پانی میں کہربائی قوت موجود ہوتی ہے۔ کسی تہ میں مثبت بجلی ہوتی ہے، کسی میں منفی۔ جب یہ بادل ملتے ہیں تو بجلی کے جذب و انجذاب سے زبردست دھماکہ اور آتشیں شعلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی آتشیں شعلہ کو برق یا چمکنے والی بجلی کہتے ہیں اور اس دھماکہ کو رعد یا کڑک کہتے ہیں۔ برق تو فوراً اہل زمین کو نظر آجاتی ہے۔ لیکن رعد یا کڑک چند لمحے بعد سنائی دیتی ہے۔ کیونکہ آواز کی رفتار روشنی کی رفتار کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔ اکثر تو یہ بجلی انھیں بادلوں کے پانی میں جذب ہوجاتی ہے اور جب یہ زیادہ مقدار میں پیدا ہو یا کسی دوسری وجہ سے زمین پر گرتی ہے۔ ایسی گرنے والی بجلی کو صاعقہ (ج۔ صواعق) کہتے ہیں۔ لہذا انسان جب بجلی چمکتے دیکھتا ہے تو اسے امید تو یہ ہوتی ہے کہ باران رحمت برسے گی اور خوف یہ کہ مہیب کڑک کہیں اسے بہرانہ کردے۔ اسی لیے سخت کڑک میں انسان اپنی انگلیاں کانوں میں ٹھوس لیتا ہے اور یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں بجلی گر کر تباہی کا باعث نہ بن جائے۔ یہ تو وہ توجیہہ ہے جو ہمارے ماہرین طبیعیات اور سائنس دان پیش کرتے ہیں۔ لیکن اسلامی عقیدہ کی رو سے یہ رعد اور برق وغیرہ طبعی قوانین کا نتیجہ نہیں ہوتے۔ بلکہ کائنات کے انتظام پر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے۔ وہی مدبرات امر ہیں۔ بادل اور بارش پر میکائیل فرشتہ مقرر ہے۔ وہی بادلوں کو ہانکتا اور چلاتا ہے اور اس طرف ہانکتا ہے۔ جدھر اللہ کا حکم ہو۔ پھر بارش اسی مقام پر برستی ہے۔ جہاں اللہ کی مرضی ہو۔ اسی فرشتہ کے کوڑا مارنے سے رعد اور برق پیدا ہوتی ہے اور گرنے والی بجلی بھی صرف وہاں گرتی ہے جہاں اس فرشتہ کو اللہ کا حکم ہوتا ہے اور اللہ کو اس کا تباہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ چناچہ :- سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب آپ گرج کی آواز سنتے تو فرماتے : اللّٰھُمَّ لاَ تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلاَ تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَا فِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ (ترمذی، ابو اب الدعوات باب مایقول اذا سمع الرعد)- بادلوں کے برسنے، ان کی روانی اور ان کے سمت اختیار کرنے پر اللہ تعالیٰ کا جس قدر کنٹرول ہے۔ اس کا اندازہ درج ذیل حدیث سے ہوتا ہے۔- سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ایک آدمی جنگل میں جارہا تھا۔ اس نے بادل سے ایک آواز سنی جیسے کوئی کہہ رہا ہے کہ جا کر فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو۔ وہ بادل ایک طرف چلا۔ پھر وہاں ایک پتھریلی زمین پر برسا۔ ایک نالی نے وہ سب پانی جمع کیا۔ وہ آدمی اس پانی کے پیچھے پیچھے چلا۔ آگے چل کر اس نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے باغ کو سیراب کرنے کے لیے بیلچہ سے اس کی نالی درست کر رہا ہے۔ نالی درست ہوئی تھی کہ بارش کا یہ پانی وہاں پہنچ گیا۔ پیچھے پیچھے چلنے والایہ شخص اللہ کی قدرت پر بہت متعجب ہوا اور باغ والے سے پوچھا اللہ کے بندے تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے وہی نام بتلایا جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ اب باغ والے نے اس شخص سے پوچھا : اللہ کے بندے تم میرا نام کیوں پوچھتے ہو۔ وہ کہنے لگا : میں نے اس بادل سے جس کے پانی سے تو اپنا کھیت سیراب کر رہا ہے۔ یہ آواز سنی تھی کہ جاکر فلاں شخص کے باغ کو سیراب کرو۔ اس میں تمہارا ہی نام لیا گیا تھا۔ اب تم یہ بتلاؤ کہ تمہارا وہ کون سا عمل ہے جس کی وجہ سے اللہ تم پر اتنا مہربان ہے ؟- باغ والا کہنے لگا : اب جبکہ تم نے یہ بات سن ہی لی ہے تو میں تمہیں بتادیتا ہوں۔ اس باغ سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی حصہ صدقہ کردیتا ہوں اور ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی اسی باغ میں لوٹا دیتا ہوں (یعنی اگلی فصل کے خرچ اخراجات پر صرف کرتا ہوں) (مسلم، کتاب الزہد، باب فضل الانفاق علی المساکین وابن السبیل)- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرکین بھی تو یہی کہتے ہیں کہ بادلوں یا بارش کا مالک فلاں فرشتہ یا دیوتا ہے اور موت کا فلاں اور فلاں کام کا فلاں تو پھر ان میں اور مسلمانوں کے عقائد میں فرق کیا ہوا ؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مشرکوں کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ فلاں فرشتہ یا فلاں دیوتا بادل یا بارش کا دیوتا ہے۔ جہاں چاہے بارش برسائے۔ اسی لحاظ سے اس کی عبادت کرکے اسے خوش رکھنے یا اس کے غضب سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان فرشتوں یا دیوتاؤں کو تدبیر امور میں اللہ کا شریک بنایا جاتا ہے لیکن اسلامی عقیدہ کی رو سے فرشتے مالک و مختار نہیں بلکہ اللہ کے فرمانبردار غلام اور مامور ہیں۔ اسی لیے ان آیات میں اللہ نے واضح طور پر فرما دیا کہ کڑک بھی اور فرشتے بھی دونوں اللہ کی تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اور یہ عین بندگی اور غلامی ہے۔ جیسے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و تقدیس میں مشغول ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے ایسے نشان بیان فرمائے ہیں جو بیک وقت امید اور ڈر کے حامل ہیں، جو رحمت کا پیش خیمہ بھی بن سکتے ہیں اور موجب زحمت بھی۔ مثلاً جب بجلی چمکتی ہے تو امید بندھتی ہے کہ بارش ہوگی مگر ڈر بھی لگتا ہے کہ کہیں تباہی کا موجب نہ بن جائے، بادل دیکھ کر رحمت کی بارش کی امید بندھ جاتی ہے مگر ساتھ ہی یہ فکر بھی دامن گیر رہتی ہے کہ کہیں سیلاب نہ آجائے۔ پس انسان کو چاہیے کہ اللہ کی رحمت کا امید وار رہے اور اس کے عذاب سے بھی ڈرتا رہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّيُنْشِئُ السَّحَاب الثِّقَالَ- یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات پاک ہے جو تمہیں برق و بجلی دکھلاتا ہے جو انسان کے لئے خوف بھی بن سکتی ہے کہ جس جگہ پڑجائے سب کچھ خاک کر ڈالے اور طمع بھی ہوتی ہے کہ بجلی کی چمک کے بعد بارش آئے گی جو انسان اور حیوانات کی زندگی کا سہارا اور وہی ذات پاک ہے جو بڑے بڑے بھاری بادل سمندر سے مان سون بنا کر اٹھاتا ہے اور پھر ان پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو فضا میں بڑی سرعت کے ساتھ کہیں سے کہیں لے جاتا ہے اور اپنے حکم قضا وقدر کے مطابق جس زمین پر چاہتا ہے برساتا ہے

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّيُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَ 12۝ۚ- برق - البَرْقُ : لمعان السحاب، قال تعالی: فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة 19] - ( ب رق ) البرق - کے معنی بادل کی چمک کے ہیں قرآن میں ہے : فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة 19] اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھارہا ) ہو اور بادل ) گرج ( رہا ) ہو اور بجلی کوند رہی ہو ۔- خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية .- قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] ، وحقیقته : وإن وقع لکم خوف من ذلک لمعرفتکم . والخوف من اللہ لا يراد به ما يخطر بالبال من الرّعب، کاستشعار الخوف من الأسد، بل إنما يراد به الكفّ عن المعاصي واختیار الطّاعات، ولذلک قيل : لا يعدّ خائفا من لم يكن للذنوب تارکا . والتَّخویفُ من اللہ تعالی: هو الحثّ علی التّحرّز، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] ،- ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اگر حالات سے واقفیت کی بنا پر تمہیں اندیشہ ہو کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے ) کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ جس طرح انسان شیر کے دیکھنے سے ڈر محسوس کرتا ہے ۔ اسی قسم کا رعب اللہ تعالیٰ کے تصور سے انسان کے قلب پر طاری ہوجائے بلکہ خوف الہیٰ کے معنی یہ ہیں کہ انسان گناہوں سے بچتا رہے ۔ اور طاعات کو اختیار کرے ۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ جو شخص گناہ ترک نہیں کرتا وہ خائف یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں ہوسکتا ۔ الخویف ( تفعیل ) ڈرانا ) اللہ تعالیٰ کے لوگوں کو ڈرانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگوں کو برے کاموں سے بچتے رہنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ ذلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبادَهُ [ الزمر 16] بھی اسی معنی پر محمول ہے اور باری تعالےٰ نے شیطان سے ڈرنے اور اس کی تخویف کی پرواہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ - طمع - الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ.- قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] ،- ( ط م ع ) الطمع - کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ - إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔- أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے - نشأالسحاب - نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] - ( ن ش ء) النشا - نشاء السحاب کا جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٢) اور وہ تمہیں کو بارش کے وقت بجلی چمکتی ہوئی دکھاتا ہے کہ بارش سے مسافر کو اپنے سازوسامان کے بھیگ جانے کا خوف بھی ہوتا ہے اور مقیم کو خواہش وامید ہوتی ہے کہ اس کی کھیتی سیراب ہوجائے اور وہ بادلوں کو بھی جو بارش سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں پیدا کرتا اور ان کو بلند کرتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ (هُوَ الَّذِيْ يُرِيْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّيُنْشِئُ السَّحَاب الثِّقَالَ )- گہرے بادلوں کی گرج چمک میں خوف کے سائے بھی ہوتے ہیں اور امید کی روشنی بھی کہ شاید اس بارش سے فصلیں لہلہا اٹھیں اور ہماری قحط سالی خوشحالی میں بدل جائے۔ یعنی ایسی صورت حال میں خوف ورجاء کی کیفیت ایک ساتھ دلوں پر طاری ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani