48۔ 1 امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت میں دونوں احتمال ہیں کہ یہ تبدیلی صفات کے لحاظ سے ہو یا ذات کے لحاظ سے۔ یعنی یہ آسمان و زمین اپنے صفات کے اعتبار سے بدل جائیں گے یا ویسے ہی ذاتی طور پر یہ تبدیلی آئے گی، نہ زمین رہے گی اور نہ یہ آسمان۔ زمین بھی کوئی اور ہوگی اور آسمان بھی کوئی اور حدیث میں آتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ۔ یحشر الناس یوم القیامۃ علی الارض بیضاء عفراء کقرصہ النقی لیس فیھا علم لا حد۔ صحیح مسلم قیامت والے دن لوگ سفید بھوری زمین پر اکھٹے ہونگے جو میدہ کی روٹی کی طرح ہوگی۔ اس میں کسی کا کوئی جھنڈا (یا علامتی نشان) نہیں ہوگا۔ حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا کہ جب یہ آسمان و زمین بدل دئیے جائیں گے تو پھر لوگ اس دن کہاں ہونگے ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صراط پر یعنی پل صراط پر (حوالہ مزکور) ایک یہودی کے پوچھنے پر آپ نے فرمایا کہ لوگ اس دن پل کے قریب اندھیرے میں ہونگے (صحیح مسلم)
[٤٨] اللہ کی عدالت میں لوگوں کی پیشی اور حساب :۔ نفخہ صور اول کے وقت موجودہ نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا جیسا کہ سورة تکویر اور بعض دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد نفخہ صور ثانی تک کیا کیا تغیرات واقع ہوں گے اور یہ درمیانی عرصہ کتنا ہوگا۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ نفخہ صور ثانی پر ایک نیا نظام کائنات وجود میں لایا جائے گا جس میں یا تو موجودہ زمین و آسمان کی ذوات ہی تبدیل کردی جائیں گی یا ان کی ہیئت میں خاصا تغیر و تبدل واقع ہوگا۔ آیت کے الفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے۔ اسی نفخہ ثانی کے وقت آدم سے لے کر قیامت تک پیدا شدہ سب انسانوں کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا۔ انہی واقعات کا نام قرآن کی اصطلاح میں حشر ونشر ہے۔ اس نئی زمین اور نئے آسمان کے لیے طبعی قوانین بھی موجودہ قوانین سے الگ ہوں گے اور اسی زمین پر اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہوگی۔ میزان الاعمال رکھی جائے گی اور لوگوں کے اعمال کے مطابق ان کی جزاو سزا کے فیصلے ہوں گے۔- قرآن کی بعض آیات سے زمین میں تبدیلی کی جو صورت سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین میں اس دن کوئی بلندی یا پستی نہیں رہے گی۔ سب پہاڑ زمین بوس کردیئے جائیں گے اور سب کھڈے بھر دیئے جائیں گے اس طرح سطح زمین ہموار اور پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جائے گی اور سب سے اہم تبدیلی یہ ہوگی کہ سمندروں، دریاؤں اور ندی نالوں کو خشک کردیا جائے۔ اور سمندر کی سطح کا رقبہ خشکی کے رقبہ سے تین گناہ زیادہ ہے اس طرح موجودہ زمین سے اس وقت کی تبدیل شدہ زمین کم از کم چار گنا بڑھ جائے گی اور دوسرے وہ زمین بالکل ہموار ہوگی۔
يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ : اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز زمین و آسمان کی موجودہ شکل و صورت بدل جائے گی۔ ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَکُوْنُ الْأَرْضُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خُبْزَۃً وَاحِدَۃً یَتَکَفَّؤُھَا الْجَبَّارُ بِیَدِہِ کَمَ ٥ ا یَکْفَؤُ أَحَدُکُمْ خُبْزَتَہُ فِي السَّفَرِ نُزُلًا لِأَھْلِ الْجَنَّۃِ ) [ بخاري، الرقاق، باب یقبض اللہ الأرض یوم القیامۃ : ٦٥٢٠۔ مسلم : ٢٧٩٢ ] ” قیامت کے دن زمین ایک روٹی بن جائے گی، جبار (اللہ تعالیٰ ) اسے اپنے ہاتھ میں الٹ پلٹ کرے گا جس طرح تم میں سے کوئی شخص سفر میں اپنی روٹی الٹ پلٹ کرتا ہے، اہل جنت کی مہمان نوازی کے لیے۔ “ - سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، فرماتے تھے : ( یُحْشَرُ النَّاسُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ عَلٰی أَرْضٍ بَیْضَاءَ عَفْرَاءَ کَقُرْصَۃِ نَقِيٍّ ، لَیْسَ فِیْہَا مَعْلَمٌ لِأَحَدٍ ) [ بخاري، الرقاق، باب یقبض اللّٰہ الأرض یوم القیامۃ : ٦٥٢١۔ مسلم : ٢٧٩٠ ] ” لوگ قیامت کے دن سفید مٹیالی زمین پر اکٹھے کیے جائیں گے، جیسے میدے کی روٹی ہوتی ہے، اس میں کسی کا کوئی نشان نہیں ہوگا۔ “ قرآن مجید میں بھی ہے کہ قیامت کے دن زمین صاف چٹیل میدان بن جائے گی جس میں کوئی بلندی یا پستی نظر نہیں آئے گی۔ (دیکھے طٰہٰ : ١٠٥ تا ١٠٧) رہا یہ سوال کہ یہ تبدیلی زمین و آسمان کی ذات میں ہوگی یا ان کی صفات میں، تو اس کے بارے میں قرآن مجید یا حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی چیز ثابت نہیں، اس لیے ہمیں اسی پر یقین رکھنا ہوگا جو قرآن کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے۔- وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ : یہ ان مشرکین کے ردّ کے لیے فرمایا جو اپنے شرکاء کا بھی کچھ اختیار سمجھتے ہیں کہ اس دن سب لوگ اس اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے جو اکیلا ہے، بڑا زبردست ہے، کوئی دوسرا کسی اختیار کا مالک نہ ہوگا۔
اس کے بعد کی آیات میں پھر قیامت کے ہولناک حالات و واقعات کا ذکر ہے ارشاد فرمایا (آیت) يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّار یعنی قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ اس میں موجودہ زمین بھی بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد وقہار کے سامنے حاضر ہوں گے۔- زمین و آسمان کے بدل دینے کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کی صفات اور شکل و صورت بدل دی جائے جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات اور روایات حدیث میں ہے کہ پوری زمین ایک سطح مستوی بنادی جائے گی جس میں نہ کسی مکان کی آڑ ہوگی نہ درخت وغیرہ کی نہ کوئی پہاڑ اور ٹیلہ رہے گا نہ غار اور گہرائی قرآن کریم میں اسی حال کا ذکر اس طرح فرمایا ہے۔- (آیت) لَا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا یعنی تعمیرات اور پہاڑوں کی وجہ سے جو آج کل راستے اور سڑکیں مڑ کر گذرتی ہیں اور کہیں اونچائی ہے کہیں گہرائی یہ صورت نہ رہے گی بلکہ سب صاف میدان ہوجائے گا - اور تبدیل زمین و آسمان کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ بالکل ہی اس زمین کے بدلے میں دوسری زمین اور اس آسمان کی جگہ دوسرے آسمان بنا دئیے جائیں روایات حدیث جو اس کے متعلق منقول ہیں ان میں بھی بعض دوسرے آسمان بنا دیئے جائیں روایات حدیث جو اس کے متعلق منقول ہیں ان میں بھی بعض سے صرف صفات کی تبدیلی معلوم ہوتی ہے بعض سے ذات کی تبدیلی امام حدیث بیہقی نے بسند صحیح حضرت عبداللہ ابن مسعود (رض) سے اس آیت کے بارے میں یہ نقل کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ محشر کی زمین بالکل نئی زمین چاندی کی طرح سفید ہوگی اور یہ زمین ایسی ہوگی جس پر کسی نے کوئی گناہ نہیں کیا ہوگا جس پر کسی کا ناحق خون نہیں گرایا گیا اسی طرح مسند احمد اور تفسیر ابن جریر کی حدیث میں یہی مضمون بروایت حضرت انس مذکور ہے (تفسیر مظہری)- صحیحین بخاری ومسلم میں حضرت سہل بن سعد (رض) کی روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز لوگ ایک ایسی زمین پر اٹھائے جائیں گے جو ایسی صاف وسفید ہوگی جیسے میدے کی روٹی اس میں کسی کی کوئی علامت (مکان، باغ، درخت، پہاڑ، ٹیلہ وغیرہ کی) کچھ نہ ہوگی یہی مضمون بیہقی نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔- اور حاکم نے سند قوی کے ساتھ حضرت جابر (رض) سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز یہ زمین اس طرح کھینچی جائے جیسے چمڑے کو کھینچا جائے جس سے اس کی سلوٹیں اور شکن نکل جائیں (اس کی وجہ سے زمین کے غار اور پہاڑ سب برابر ہو کر ایک سطح مستوی بن جائے گی اور اس وقت تمام اولاد آدم اس زمین پر جمع ہوگی اس ہجوم کی وجہ سے ایک انسان کے حصہ میں صرف اتنی ہی زمین ہوگی جس پر وہ کھڑا ہو سکے پھر محشر میں سب سے پہلے مجھے بلایا جائے گا میں رب العزت کے سامنے سجدہ میں گر پڑوں گا پھر مجھے شفاعت کی اجازت دی جائے گی تو میں تمام مخلوق کے لئے شفاعت کروں گا کہ ان کا حساب کتاب جلد ہوجائے۔- اس آخری روایت سے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین میں تبدیلی صرف صفت کی ہوگی کہ غار اور پہاڑ اور عمارت اور درخت نہ رہیں گے مگر ذات زمین یہی باقی رہے گی اور پہلی سب روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ محشر کی زمین اس موجودہ زمین کے علاوہ کوئی اور ہوگی اور جس تبدیلی کا ذکر اس آیت میں ہے اس سے ذات کی تبدیلی مراد ہے۔- بیان القرآن میں حضرت حکیم الامت نے فرمایا کہ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں ہوسکتا ہے کہ پہلے نفخہ صور کے وقت اسی موجودہ زمین کی صفات تبدیل کی جائیں اور پھر حساب کتاب کے لئے ان کو کسی دوسری زمین کی طرف منتقل کیا جائے۔- تفسیر مظہری میں مسند عبدابن حمید سے حضرت عکرمہ کا ایک قول نقل کیا ہے جس سے اس کی تائید ہوتی ہے اس کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ زمین سمٹ جائے گی اور اس کے پہلو میں ایک دوسری زمین ہوگی جس پر لوگوں کو حساب کتاب کے لئے کھڑا کیا جائے گا۔- صحیح مسلم میں بروایت حضرت ثوبان (رض) منقول ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک یہودی عالم آیا اور یہ سوال کیا کہ جس دن یہ زمین بدلی جاوے گی تو آدمی کہاں ہوں گے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ پل صراط کے پاس ایک اندہیری میں ہوں گے۔- اس بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زمین سے بذریعہ پل صراط دوسری طرف منتقل کئے جائیں گے اور ابن جریر نے اپنی تفسیر میں متعدد صحابہ وتابعین کے یہ اقوال نقل کئے ہیں کہ اس وقت موجودہ زمین اور اس کے سب دریا آگ ہوجائیں گے گویا یہ سارا علاقہ جس میں اب دنیا آباد ہے اس وقت جہنم کا علاقہ ہوجائے گا اور حقیقت حال اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے بندہ کے لئے اس کے سوا چارہ نہیں۔- زبان تازہ کردن باقرار تو۔ نینگیختن علت از کار تو - آخری آیات میں اہل جہنم کا یہ حال بتلایا گیا ہے کہ مجرم لوگوں کو ایک زنجیر میں باندھ دیا جائے گا یعنی ہر جرم کے مجرم الگ الگ جمع کر کے یک جاباندھ دیئے جائیں گے اور ان کو جو لباس پہنایا جائے گا وہ قطران کا ہوگا جس کو تارکول کہا جاتا ہے اور وہ ایک آتش گیر مادہ ہے کہ آگ فورا پکڑ لیتا ہے۔- آخری آیت میں ارشاد فرمایا کہ یہ سب حوال قیامت کا بیان کرنا لوگوں کو تنبیہ کرنے کے لئے ہے تاکہ وہ اب بھی سمجھ لیں کہ قابل عبادت و اطاعت صرف ایک ذات اللہ تعالیٰ کی ہے اور تاکہ جن میں کچھ بھی عقل وہوش ہے وہ شرک سے باز آجائیں۔- سورة ابراہیم ختم شد :
يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ 48- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - برز - البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً- [ الكهف 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك .- ( ب رز ) البراز - کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے - ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا - جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے - ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں - جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے - ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا - جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔- قهر - القَهْرُ : الغلبة والتّذلیل معا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقال : وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] - ( ق ھ ر ) القھر ۔- کے معنی کسی پر غلبہ پاکر اسے ذلیل کرنے کے ہیں اور ان دنوں ( یعنی غلبہ اور تذلیل ) میں ستے ہر ایک معنی میں علیدہ علیدہ بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَهُوَ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [ الرعد 16] اور وہ یکتا اور زبردست ہے ۔
(٤٨) جس دن دوسری زمین بدل دی جائے گی یعنی اس موجودہ حالت کے علاوہ اس کی دوسری حالت ہوجائے گی اور اس میں کمی و زیادتی کردی جائے گی اور اس کے پہاڑوں اور گھاٹیوں کو برابر کردیا جائے گا اور آسمان اللہ تعالیٰ کے دائیں ہاتھ سے لپٹے ہوئے ہوں گے اور سب کے سب ایک اللہ کے روبرو پیش ہوں گے جو تمام مخلوق کو موت دینے میں زبردست ہے۔
آیت ٤٨ (يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ )- یہ روز محشر کے منظر کی طرف اشارہ ہے۔ اس سلسلے میں قبل ازیں بھی کئی دفعہ ذکر کیا گیا ہے کہ قرآن کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق یوں لگتا ہے جیسے محشر کا میدان اسی زمین کو بنایا جائے گا۔ اس کے لیے زمین کی شکل میں مناسب تبدیلی کی جائے گی ‘ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا گیا ہے۔ سورة الفجر میں اس تبدیلی کی ایک صورت اس طرح بتائی گئی ہے : (اِذَا دُکَّتِ الْاَرْضُ دَکًّا دَکًّا) ” جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ہموار کردیا جائے گا “۔ پھر سورة الانشقاق میں فرمایا گیا ہے : (وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ ) ” اور جب زمین کو کھینچا جائے گا “۔ اس طرح تمام تفصیلات کو جمع کر کے جو صورت حال ممکن ہوتی محسوس ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ زمین کے تمام نشیب و فراز کو ختم کر کے اسے بالکل ہموار بھی کیا جائے گا اور وسیع بھی۔ اس طرح اسے ایک بہت بڑے میدان کی شکل دے دی جائے گی۔ جب زمین کو ہموار کیا جائے گا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے ‘ زمین کے پچکنے سے اس کے اندر کا سارا لاوا باہر نکل آئے گا اور سمندر بھاپ بن کر اڑ جائیں گے۔ اسی طرح نظام سماوی میں بھی ضروری ردّ وبدل کیا جائے گا ‘ جس کے بارے میں سورة القیامہ میں اس طرح بتایا گیا ہے : (وَجُمِعَ الشَمْسُ وَالْقَمَرُ ) یعنی سورج اور چاند کو یکجا کردیا جائے گا۔ واللہ اعلم - حال ہی میں ایک صاحب نے ” “ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ یہ صاحب ماہر طبیعیات ہیں۔ میں نے اس کتاب کا پیش لفظ بھی لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے بہت سی ایسی باتیں لکھی ہیں جن کی طرف اس سے پہلے توجہ نہیں کی گئی۔ اس لحاظ سے ان کی یہ باتیں یقیناً قابل غور ہیں۔ انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ قیامت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس وقت پوری کائنات ختم ہوجائے گی ‘ بلکہ یہ واقعہ صرف ہمارے نظام شمسی میں رونما ہوگا۔ جس طرح اس کائنات کے اندر کسی گلی کسی یا کسی گلی کسی کے کسی حصے کی موت واقع ہوتی رہتی ہے اسی طرح ایک وقت آئے گا جب ہمارا نظام شمسی تباہ ہوجائے گا اور تباہ ہونے کے بعد کچھ اور شکل اختیار کرلے گا۔ ہماری زمین بھی چونکہ اس نظام کا حصہ ہے لہٰذا اس پر بھی ہرچیز تباہ ہوجائے گی ‘ اور یہی قیامت ہوگی۔ واللہ اعلم - (وَبَرَزُوْا لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ )- سورۃ الفجر میں اس وقت کا منظر بایں الفاظ بیان ہوا ہے : (وَّجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا وَجِایْٓءَ یَوْمَءِذٍم بِجَہَنَّمَ ) ” اور اللہ تعالیٰ اس وقت نزول فرمائے گا ‘ فرشتے بھی قطار در قطار آئیں گے اور جہنم بھی سامنے پیش کردی جائے گی “ اللہ تعالیٰ کے نزول فرمانے کی کیفیت کا ہم تصور نہیں کرسکتے۔ جس طرح ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے ‘ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ اس نزول کی کیفیت کیا ہوتی ہے ‘ اسی طرح آج ہم نہیں جان سکتے کہ روز قیامت جب اللہ تعالیٰ زمین پر نزول فرمائے گا تو اس کی کیفیت کیا ہوگی۔ ممکن ہے تب اس کی حقیقت ہم پر منکشف کردی جائے۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :57 اس آیت سے اور قرآن کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست و نابود نہیں ہو جائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظام طبیعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا ۔ اس کے بعد نفخ صور اول اور نفخ صور آخر کے درمیان ایک خاص مدت میں ، جسے اللہ تعالی ہی جانتا ہے ، زمین اور آسمانوں کی موجودہ ہیئت بدل دی جائے گی اور ایک دوسرا نظام طبیعت ، دوسرے قوانین فطرت کے ساتھ بنا دیا جائے گا ۔ وہی عالم آخرت ہوگا ۔ پھر نفخ صور آخر کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیق آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے ، از سر نو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالی کے حضور پیش ہوں گے ۔ اسی کا نام قرآن کی زبان میں حشر ہے جس کے لغوی معنی سمیٹنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں ۔ قرآن کے اشارات اور حدیث کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ حشر اسی زمین پر برپا ہوگا ، یہیں عدالت قائم ہوگی ، یہیں میزان لگائی جائے گی اور قضیہ زمین برسر زمین ہی چکایا جائے گا ۔ نیز یہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہوگی بلکہ ٹھیک اسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کیے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں ، اور ہر شخص ٹھیک اسی شخصیت کے ساتھ وہاں موجود ہوگا جسے لیے ہو ئے وہ دنیا سے رخصت ہوا تھا ۔