50۔ 1 جو آگ سے فوراً بھڑک اٹھتی ہے۔ علاوہ ازیں آگ نے ان کے چہروں کو بھی ڈھانپا ہوگا۔
[٥٠] قطران سے مراد ہر وہ جلنے والا غلیظ مادہ ہے جو بدبودار، گاڑھا اور سیاہ دھواں چھوڑتا ہوا جلتا ہے اور تادیر جلتا رہتا ہے اور بجھنے میں نہیں آتا۔ اس کی آگ کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ آگ مجرموں کے تمام جسم سے لپٹ رہی ہوگی اور چہرہ کا نام بالخصوص اس لیے لیا گیا کہ بدن کی ظاہری ساخت میں سب سے اشرف حصہ چہرہ ہی ہوتا ہے اور چہرہ کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ دوسرے جسم کی نسبت سے زیادہ شدید ہوتی ہے۔
سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ : ” سَرَابِیْلُ “ ” سِرْبَالٌ“ کی جمع ہے، بمعنی قمیص۔ ” قَطِرَانٍ “ کا معنی قاموس اور لسان العرب میں ہے ابہل، صنوبر (چلغوزہ) اور اس قسم کے درختوں مثلاً چیڑ یا دیار وغیرہ سے نکلنے والی گوند، یعنی رال یا گندہ بیروزا جو تیزی سے جلتا ہے اور سخت بدبو دار ہوتا ہے، خارش زدہ اونٹوں کو ملا جاتا ہے۔ تمام مترجمین کی طرح میں نے بھی پہلے اس کا ترجمہ گندھک کیا تھا، مگر تفسیر کے وقت مختلف لغات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ” قَطِرَانٍ “ رال (بیروزا) ہے۔ بعض اہل علم نے اس کا ترجمہ تارکول کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس کا مادہ ” قَطْرٌ“ ٹپکنے کا مفہوم رکھتا ہے، اس لیے اس میں وہ تمام مائع چیزیں مراد ہوسکتی ہیں جو اشتعال پذیر یعنی شعلہ پکڑنے والی ہیں۔ (واللہ اعلم) ابومالک اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلنَّاءِحَۃُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِھَا تُقَامُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَعَلَیْھَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ ، وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ ) [ مسلم، الجنائز، باب التشدید في النیاحۃ : ٩٣٤ ] ” نوحہ یعنی ماتم و بین کرنے والی عورت اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گی کہ اس پر ” قَطِرَانٌ“ کی قمیص اور خارش کا کرتہ ہوگا۔ “ ابن عباس (رض) کی قراءت ہے ” مِنْ قَطِرٍ آنٍ “ یعنی ان کی قمیصیں کھولتے ہوئے تانبے سے ہوں گی، مگر پہلی قراءت ” قَطِرَانٍ “ متواتر اور راجح ہے۔ چہروں کو آگ سے ڈھانپنے کا خصوصاً ذکر اس لیے فرمایا کہ یہ جسم کا سب سے باعزت حصہ ہے، اس کا حال یہ ہوگا تو دوسرے حصوں کا کیا حال ہوگا۔ - یہ معاملہ کفار کے ساتھ ہوگا، کیونکہ مومنوں کے سجدے کے آثار (نشانات) کو جلانا اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کردیا ہے۔ ابوہریرہ (رض) کی ایک لمبی حدیث، جس میں قیامت کے کچھ احوال بیان ہوئے ہیں، اس میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( حَتّٰی إِذَا فَرَغَ اللّٰہُ مِنَ الْقَضَاءِ بَیْنَ الْعِبَادِ ، وَ أَرَادَ أَنْ یُخْرِجَ بِرَحْمَتِہِ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَھْلِ النَّارِ ، أَمَرَ الْمَلاَءِکَۃَ أَنْ یُخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ کَانَ لاَ یُشْرِکُ باللّٰہِ شَیْءًا، مِمَّنْ أَرَاد اللّٰہُ أَنْ یَرْحَمَہُ مِمَّنْ یَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ ، فَیَعْرِفُوْنَھُمْ فِي النَّارِ بِأَثَرِ السُّجُوْدِ ، تَأْکُلُ النَّارُ ابْنَ آدَمَ إِلاَّ أَثَرَ السُّجُوْدِ ، حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ أَنْ تَأْکُلَ أَثَرَ السُّجُوْدِ ) [ بخاری، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( وجوہ یومئذ ناضرۃ۔۔ ) : ٧٤٣٧ ] ” جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہوں گے اور اہل نار میں سے اپنی رحمت کے ساتھ جسے نکالنا چاہیں گے تو فرشتوں کو حکم دیں گے کہ وہ ان لوگوں کو آگ سے نکال لائیں جنھوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تھا، ان لوگوں میں سے جن پر اللہ رحم کرنا چاہتا ہوگا، جو ” لا الٰہ الا اللہ “ کی شہادت دیتے ہوں گے تو وہ انھیں آگ میں سجدے کے نشان کے ساتھ پہچانیں گے۔ آگ ابن آدم کو کھاجائے گی مگر سجدے کے نشان کو نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آگ پر حرام کردیا ہے کہ وہ سجدے کے نشان کو کھائے۔ “ - اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والے وہ ہوں گے جو شرک سے پاک ہوں گے اور جن کے جسم پر سجدے کے نشان ہوں گے۔ بےنماز اس نشان سے محروم ہوتے ہیں، انھیں اپنا انجام سوچ لینا چاہیے۔
سَرَابِيْلُهُمْ مِّنْ قَطِرَانٍ وَّتَغْشٰى وُجُوْهَهُمُ النَّارُ 50ۙ- سربل - السِّرْبَالُ : القمیص من أيّ جنس کان، قال : سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ، سَرابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ [ النحل 81] ، أي : تقي بعضکم من بأس بعض .- ( س ر ب ل ) السربال - ۔ کرتہ ۔ قمیص خواہ کسی چیز سے بنی ہوئی ہو جیسے فرمایا : سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ان کے کرتے گندھک کے ہوں گے ۔ سَرابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ [ النحل 81] اور تمہارے ( آرام کے ) واسطے کرتے بنائے جو تم گرمی سے بچائیں اور کرتے یعنی زر ہیں جو تم کو ( اسلحہ ) جنگ ( کے ضر) سے محفوظ رکھیں ۔ تو باسکم سے مراد یہ ہے کہ تمہیں ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ رکھتے ہیں ۔ - قَطِرَانُ : - ما يَتَقَطَّرُ من الهناء . قال تعالی: سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ، وقرئ : ( من قِطْرٍ آنٍ ) أي : من نحاس مذاب قد أني حرّها، وقال : آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف 96] أي : نحاسا مذاب - القطران - کے معنی پگھل ہوئی رال یا گیند ھک کے ہیں قرآن میں ہے سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم 50] ان کے کرتے گند ھک کے ہوں گے ۔ ایک قراءت میں قطرآ ن ہے جس کے معنی پگھلے ہوئے گرم تانبے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف 96]( اب ) میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں یہاں قطرا کے معنی پگھلا ہوا تا نبا کے ہیں ۔- غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔
سورة اِبْرٰهِیْم حاشیہ نمبر :58 بعض مترجمین و مفسرین نے قطیران کے معنی گندھک اور بعض نے پگھلے ہوئے تانبے کے بیان کیے ہیں ، مگر درحقیقت عربی میں قَطِیران کا لفظ زِفت ، قِیر ، رال ، اور تارکول کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔