تمام انسان اور جن پابند اطاعت ہیں ارشاد ہے کہ یہ قرآن دنیا کی طرف اللہ کا کھلا پیغام ہے جسے اور آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی کہلوایا گیا ہے کہ لا نذرکم بہ ومن بلغ یعنی تاکہ میں اس قرآن سے تمہیں بھی ہوشیار کر دوں اور جسے جسے یہ پہنچے یعنی کل انسان اور تمام جنات جیسے اس سورت کے شروع میں فرمایا کہ اس کتاب کو ہم نے ہی تیری طرف نازل فرمایا ہے کہ تو لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائے الخ ۔ اس قرآن کریم کی غرض یہ ہے کہ لوگ ہوشیار کر دئے جائیں ڈرا دئے جائیں ۔ اور اس کی دلیلیں حجتیں دیکھ سن کر پڑھ پڑھا کر تحقیق سے معلوم کرلیں کہ اللہ تعالیٰ اکیلا ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور عقلمند لوگ نصیحت و عبرت وعظ و پند حاصل کرلیں ۔
52۔ 1 یہ اشارہ قرآن کی طرف ہے، یا پچھلی تفصیلات کی طرف جو ( وَلَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا) 14 ۔ ابراہیم :42) بیان کی گئی ہیں۔
[٥١] نزول قرآن کے تین مقاصد :۔ یعنی قرآن کا پیغام ایسی چیز ہے جسے تمام لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے اور اس کے تین فائدے ہیں ایک یہ کہ لوگوں کو ان کے برے اعمال کے انجام سے بر وقت خبردار کیا جائے اور ڈرایا جائے۔ دوسرے یہ کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کے اعمال پر گرفت کرنے والی صرف ایک ہی ہستی ہے۔ لہذا ہر حال میں صرف اسی کی طرف رجوع کیا جائے، اس کی بندگی کی جائے اور اپنے نفع و نقصان کے وقت اسی کو پکارا جائے اور تیسرے یہ کہ اس قرآن میں مذکور آیات اور واقعات سے اہل دانش عبرت اور سبق حاصل کریں۔
هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ ۔۔ : اس آیت میں قرآن مجید نازل کرنے کے چار مقصد بیان ہوئے ہیں : 1 اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچ جائے۔ 2 اس کے ذریعے سے وہ آگاہ ہوجائیں اور ڈر جائیں۔ 3 لوگوں کو علم ہوجائے کہ عبادت صرف ایک اللہ کی کرنی ہے۔ 4 عقلوں والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ رازی نے فرمایا، معلوم ہوا کہ انسان میں عقل ہی اصل ہے، یہ نہ ہو تو وہ کبھی نصیحت حاصل نہیں کرسکتا۔
ایک یاد داشت اور اطلاع :- احقر ناکارہ نہ اس کا اہل تھا کہ تفسیر قرآن لکھنے کی جرأت کرے نہ کبھی اس خیال کی ہمت کرتا تھا البتہ اپنے مرشد حضرت حکیم الامت تھانوی کی تفسیر بیان القرآن کو جو اس زمانہ کی بےنظیر متوسط تفسیر ہے نہ بہت مختصر کہ مضمون قرآن سمجھنا مشکل ہو نہ بہت طویل کہ پڑھنا مشکل ہو پھر خداداد علم وذکاوت اور تقوی و طہارت کی برکت سے اقوال مختلفہ میں ایک کو ترجیح دے کر لکھ دینے کا جو خاص ذوق حق تعالیٰ نے موصوف کو عطا فرمایا تھا وہ بڑی تفسیروں سے بھی حاصل ہونا مشکل تھا مگر یہ تفسیر حضرت نے اہل علم کے لئے انہی کی زبان اور علمی اصطلاحوں میں لکھی ہے عوام خصوصا اس زمانہ کے عوام جو عربی زبان اور اس کی اصطلاحات سے بہت دور ہوچکے ہیں ان کو اس تفسیر سے استفادہ مشکل تھا۔- اس لئے یہ خیال اکثر رہا کرتا تھا کہ اس کے مضامین عجیبہ کو آج کل کی آسان زبان میں لکھا جائے مگر یہ بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔- بحکم قضاء وقدر اس کی ابتداء اس طرح ہوگئی کہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر صاحب نے مجھ پر اصرار کیا کہ ریڈیو پر ایک سلسلہ قرآن کی خاص خاص آیات کا بعنوان معارف القرآن جاری کیا جائے ان کا اصرار اس کام کے آغاز کا سبب بن گیا اور ریڈیو پاکستان پر ہر جمعہ کے روز جمعہ ٣ شوال ١٣٧٣ ھ مطابق ٢ جولائی ١٩٥٤ سے شروع ہو کر ١٥ صفر ١٣٨٤ مطابق ٢٥ جون ١٩٦٤ ء تک جاری رہا جو سورة ابراہیم کے اختتام پر منجانب محکمہ ریڈیو پاکستان ختم کردیا گیا۔- حق تعالیٰ نے اس کو میرے وہم و گمان سے زیادہ مقبولیت عطا فرمائی اور اطراف عالم سے اس کو کتابی صورت میں طبع کرنے کا تقاضا ہوا اس کا ارادہ کیا تو جتنا کام اس وقت تک ہوچکا تھا وہ بھی اس لحاظ سے ناتمام تھا کہ یہ سلسلہ منتخب آیات کا تھا درمیانی آیات کو جو خالص علمی تھیں ریڈیو پر عوام کو ان کی تفسیر سمجھانا آسان نہ تھا وہ رہ گئی تھیں کتابی شکل میں طبع کرنے کے لئے ان کا سلسلہ بھی پورا کرنا تھا جو بوجہ وقتی مشاغل کے پورا کرنا مشکل تھا۔- عجائب قدرت سے ہے کہ رمضان ١٣٨٨ ھ میں احقر سخت بیمار ہو کر نقل و حرکت سے معذور صاحب فراش ہوگیا اور موت سامنے محسوس ہونے لگی تو اس کا افسوس ستانے لگا کہ یہ مسودات یوں ہی ضائع ہوجائیں گے حق تعالیٰ نے دل میں یہ داعیہ پیدا فرما دیا کہ لیٹے بیٹھے معارف القرآن کے مسودات پر نظر ثانی اور درمیانی آیات جو رہ گئی ہیں ان کی تکمیل کسی طرح اسی حالت میں کردی جائے ادھر بیماری کا سلسلہ طویل ہوتا چلا گیا بیماری نے تمام دوسرے مشاغل پہلے ہی چھڑا دیئے تھے اب صرف یہی مشغلہ رہ گیا اس لئے قدرت کے عجیب و غریب انتظام نے اسی بیماری میں بحمد اللہ یہ کام ٢٩ رجب ١٣٩٠ ھ تک پورا کرا دیا۔- یہاں تک کہ سورة ابراہم کا ختم اور قرآن پاک کے تیرا پارے اسی ریڈیو کی نشری دروس کے ذریعہ پورے ہوگئے۔- اب اللہ تعالیٰ نے اگے حصہ لکھنے کی توفیق وہمت بھی عطا فرما دی نقل و حرکت سے معذوری کی تکلیف بھی رفع فرمادی اگرچہ سلسلہ مختلف امراض کا تقریبا مسلسل رہا اور ضعف بھی بڑہتا رہا مگر اللہ کے فضل وکرم اور اسی کی امداد سے ٣٠ شعبان ١٣٩٠ ھ سے قرآن کے اگلے پاروں کی تفسیر کا لکھنا شروع ہو کر اس وقت جبکہ معارف القرآن کی تین جلدیں چھپ کر شائع ہوچکی ہیں یعنی ٢٥ صفر ١٣٩١ ھ میں اس تفسیر کا مسودہ قرآن کریم کی چوتھی منزل سورة فرقان انیسویں پارے تک بعون اللہ سبحانہ مکمل ہوچکا ہے۔- اس وقت بھی مختلف امراض اور ضعف کا سلسلہ بھی ہے اور بحمداللہ یہ کام بھی جاری ہے کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی تکمیل کی توفیق عطا فرما دیں - وما ذالک علی اللہ بعزیز۔- بندہ محمد شفیع - ٢٥ صفر ١٣٩١ ھ
هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوْا بِهٖ وَلِيَعْلَمُوْٓا اَنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّلِيَذَّكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ 52ۧ- بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : - بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- تَّذْكِرَةُ- والتَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن .- ( ذک ر ) تَّذْكِرَةُ- التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ - لب - اللُّبُّ : العقل الخالص من الشّوائب، وسمّي بذلک لکونه خالص ما في الإنسان من معانيه، كَاللُّبَابِ واللُّبِّ من الشیء، وقیل : هو ما زكى من العقل، فكلّ لبّ عقل ولیس کلّ عقل لبّا .- ولهذا علّق اللہ تعالیٰ الأحكام التي لا يدركها إلّا العقول الزّكيّة بأولي الْأَلْبَابِ نحو قوله : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269]- ( ل ب ب ) اللب - کے معنی عقل خالص کے ہیں جو آمیزش ( یعنی ظن دوہم اور جذبات ) سے پاک ہو اور عقل کو لب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ انسان کے معنوی قوی کا خلاصہ ہوتی ہے جیسا کہ کسی چیز کے خالص حصے کو اس کا لب اور لباب کہہ دیتے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ لب کے معنی پاکیزہ اور ستھری عقل کے ہیں چناچہ ہر لب کو عقل کہہ سکتے ہیں لیکن ۔ ہر عقل لب ، ، نہیں ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام احکام کو جن کا ادراک عقول زکیہ ہی کرسکتی ہیں اولو الباب کے ساتھ مختض کیا ہے جیسے فرمایا : وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً إلى قوله : أُولُوا الْأَلْبابِ [ البقرة 269] اور جس کو دانائی ملی بیشک اس کو بڑی نعمت ملی اور نصیحت تو وہی لو گ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت سی آیات ہیں ؛
آیت ٥٢ (هٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ )- اس قرآن اور اس کے احکام کو لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری ہم نے محمد رسول اللہ پر ڈالی تھی۔ آپ نے یہ ذمہ داری احسن طریقے سے پوری کردی ہے۔ اب یہ ذمہ داری آپ کی امت کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ پیغام تمام انسانوں تک پہنچائے۔- (وَلِيُنْذَرُوْا بِهٖ )- یعنی اس قرآن کے ذریعے سے تمام انسانوں کی تذکیر و تنذیر کا حق ادا ہوجائے۔ اس حوالے سے سورة الانعام کی آیت ١٩ کے یہ الفاظ بھی یاد کر لیجیے : (وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ط) ” یہ قرآن میری طرف سے وحی کیا گیا ہے تاکہ میں خبردار کردوں اس کے ذریعے سے تمہیں بھی اور (ہر اس شخص کو) جس تک بھی یہ پہنچ جائے۔ “- بارک اللّٰہ لی ولکم فی ال قرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالایات والذکر الحکیم