Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر نام : آیت ۸۰ کے فقرے کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ سے ماخوذ ہے ۔ زمانہ نزول : “مضامین اور انداز بیان سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اس سورہ کا زمانہ نزول سورہ ابراہیم سے متصل ہے ۔ اس کے پس منظر میں دو چیزیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں ۔ ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیتے ایک مُدّت گزر چکی ہے اور مخاطب قوم کی مسلسل ہٹ دھرمی ، استہزا ، مزاحمت اور ظلم و ستم کی حد ہوگئی ہے ، جس کے بعد اب تفہیم کا موقع کم اور تنبیہ کا موقع زیادہ ہے ۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوم کے کفر و جحود اور مزاحمت کے پہاڑ توڑتے توڑتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھکے جا رہے ہیں اور دل شکستگی کی کیفیت بار بار آپ پر طاری ہو رہی ہے ، جسے دیکھ کر اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دے رہا ہے اور آپ کی ہمت بندھا رہا ہے ۔ موضوع اور مرکزی مضمون : یہی دو مضمون اس سورہ میں بیان ہو ئے ہیں ۔ یعنی تنبیہ ان لوگوں کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا انکار کر رہے تھے اور آپ کا مذاق اڑاتے اور آپ کے کام میں طرح طرح کی مزاحمتیں کرتے تھے ۔ اور تسلی وہمت افزائی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سورہ تفہیم اور نصیحت سے خالی ہے ۔ قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالی نے مجرد تنبیہ ، یا خالص زجر و توبیخ سے کام نہیں لیا ہے ۔ سخت سے سخت دھمکیوں اور ملامتوں کے درمیان بھی وہ سمجھانے اور نصیحت کرنے میں کمی نہیں کرتا ۔ چنانچہ اس سورہ میں بھی ایک طرف توحید کے دلائل کی طرف مختصر اشارے کیے گئے ہیں ، اور دوسری طرف قصہ آدم و ابلیس سنا کر نصیحت فرمائی گئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

سورۃ الحجر تعارف اس سورت کی آیت نمبر ٩٤ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ مکرمہ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی، کیونکہ اس آیت میں پہلی بار آپ کو کھل کر اسلام کی عام تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ سورت کے شروع میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے، اور جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا جب وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ اسلام لے آتے۔ یہ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی ( معاذ اللہ) مجنون کہتے، اور کبھی کاہن قرار دیتے تھے۔ ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہانت کی حقیقت آیت نمبر ١٧ اور ١٨ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ان لوگوں کے کفر کی اصل وجہ ان کا تکبر تھا، اس لیے ابلیس کا واقعہ آیات نمبر ٢٦ تا ٤٤ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے تکبر نے کس طرح اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کیا۔ کفار کی عبرت کے لیے حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت صالح علیہم السلام کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کافروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی محنت بیکار جارہی ہے۔ ان کا فریضہ اتنا ہے کہ وہ موثر انداز میں تبلیغ کریں، جو وہ بہترین طریقے پر انجام دے رہے ہیں۔ نتائج کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے۔ سورت کا نام قوم ثمود کی بستیوں کے نام پر رکھا گیا ہے جو حجر کہلاتی تھیں، اور ان کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر ٨٠ میں آیا ہے۔