Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سورتوں کے اول جو حروف مقطعہ آئے ہیں ان کا بیان پہلے گزر چکا ہے ۔ آیت میں قرآن کی آیتوں کے واضح اور ہر شخص کی سمجھ میں آنے کے قابل ہونے کا بیان فرمایا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 کتاب اور قرآن مبین سے مراد قرآن کریم ہی ہے، جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا۔ جس طرح (ڛ قَدْ جَاۗءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتٰبٌ مُّبِيْنٌ) 5 ۔ المائدہ :15) میں نور اور کتاب دونوں سے مراد قرآن کریم کی تکریم اور شان کے لئے ہے۔ یعنی قرآن کامل اور نہایت عظمت وشان والا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١] قرآن کیا کچھ واضح کرنے والا ہے ؟ اس کا ایک مطلب اوپر ترجمہ میں مذکور ہوا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن انسان کو تمام تر کیفیات سے آگاہ کرنے والا ہے۔ اس کی پیدائش سے پہلے کے حالات سے بھی، پیدائش سے موت تک کی کیفیات سے بھی اور مرنے کے بعد بھی جو صورت احوال واقع ہونے والی ہے اسے کھول کھول کر بیان کرنے والا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ :” الْكِتٰبِ “ الف لام کی و جہ سے ” کامل کتاب “ ترجمہ کیا گیا ہے۔ ” الْكِتٰبِ “ اور ” قُرْاٰنٍ “ دونوں مبالغہ کے لیے مصدر ہیں (جن کا معنی ہے لکھنا اور پڑھنا) جو اسم مفعول کے معنی میں ہیں، یعنی یہ اس کلام کی آیات ہیں جو بیشمار بار لکھا ہوا اور بیحد و حساب پڑھا ہوا ہے، فرمایا : (ۙاِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِيْمٌ 77 ۝ ۙفِيْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍ ) [ الواقعۃ : ٧٧، ٧٨ ] ” بلاشبہ یہ یقیناً ایک باعزت پڑھی جانے والی چیز ہے، جو ایک ایسی کتاب میں ہے جو چھپا کر رکھی ہوئی ہے۔ “ لوح محفوظ میں لکھے جانے اور جبریل (علیہ السلام) اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے لے کر قیامت تک نہ اس کے لکھنے والوں کا شمار ہے نہ پڑھنے والوں کا۔ پھر خوبی یہ کہ یہ کتاب ہے تو کامل (الف لام کی و جہ سے) اور قرآن ہے تو ہر بات کو کھول کر بیان کرنے والا۔ قیامت تک کوئی اس جیسی ایک سورت بھی بنا کر نہیں لاسکتا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- الۗرٰ (اس کے معنی تو اللہ ہی کو معلوم ہیں) یہ آیتیں ہیں ایک کامل کتاب کی اور قرآن واضح کی (یعنی اس کی دونوں صفتیں ہیں کامل کتاب ہونا بھی اور قرآن واضح ہونا بھی ان کلمات سے قرآن کا کلام حق ہونا واضح کرنے کے بعد ان لوگوں کو حسرت اور عذاب کا بیان ہے جو قرآن پر ایمان نہیں لاتے یا اس کے احکام کی تعمیل نہیں کرتے فرمایا رُبَمَا يَوَدُّ یعنی جب قیامت نے حشر ونشر کے میدان میں کافروں پر طرح طرح کا عذاب ہوگا تو) کافر لوگ بار بار تمنا کریں گے کہ کیا خوب ہوتا اگر وہ (یعنی ہم دنیا میں) مسلمان ہوتے (بار بار اس لئے کہ جب کوئی نئی شدت و مصیبت دیکھیں گے تو ہر مرتبہ اپنے اسلام نہ لانے پر حسرت تازہ ہوتی رہے گی) آپ (دنیا میں ان کے کفر پر غم نہ کیجئے اور) ان کو ان کے حال پر رہنے دیجئے کہ وہ (خوب) کھا لیں اور چین اڑا لیں اور خیالی منصوبے ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں ان کو ابھی (مرنے کے ساتھ ہی) حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے (اور دنیا میں جو ان کو ان کے کفر اور بدعملی کی فورا سزا نہیں ملتی اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سزا کا وقت مقرر کر رکھا ہے ابھی وہ وقت نہیں آیا) اور ہم نے جتنی بستیاں (کفر کی وجہ سے) ہلاک کی ہیں ان سب کے لئے ایک معین وقت لکھا ہوا ہوتا رہا ہے اور (ہمارا اصول ہے کہ) کوئی امت اپنی میعاد مقرر سے نہ پہلے ہلاک ہوئی ہے اور نہ پیچھے رہی ہے (بلکہ وقت مقرر پر ہلاک ہوئی ہے اسی طرح جب ان کا وقت آجائے گا ان کو بھی سزا دی جائے گی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ۝- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١) میں ایسا اللہ ہوں کہ تمام چیزوں سے باخبر ہوں یا یہ کہ ایک قسم ہے، یہ سورت ایک مکمل کتاب کی آیتیں ہیں اور میں قرآن کریم کی قسم کھاتا ہوں جو حلال و حرام اور اوامرو نواہی کو بیان کرنے والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آ (الۗرٰ )- حروف مقطعات کا یہ سلسلہ سورة یونس سے شروع ہوا تھا۔ پانچ سورتوں کے آغاز میں الۗرٰ کے حروف ہیں اور ایک سورة (الرعد) میں ا آمآرٰ ۔ یہ اس سلسلہ کی چھٹی اور آخری سورت ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :1 یہ اس سورہ کی مختصر تعارفی تمہید ہے جس کے بعد فورا ہی اصل موضوع پر خطبہ شروع ہو جاتا ہے ۔ قرآن کے لیے ”مبین“ کا لفظ صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات اس قرآن کی ہیں جو اپنا مُدّعا صاف صاف ظاہر کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani