Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

بعد از مرگ پشیمانی کافر اپنے کفر پر عنقریب نادم و پشیمان ہوں گے اور مسلمان بن کر زندگی گزارنے کی تمنا کریں گے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ کفار بدر جب جہنم کے سامنے پیش کئے جائیں گے آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ دنیا میں مومن ہوتے ۔ یہ بھی ہے کہ ہر کافر اپنی موت کو دیکھ کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کرتا ہے ۔ اسی طرح قیامت کے دن بھی ہر کافر کی یہی تمنا ہو گی ۔ جہنم کے پاس کھڑے ہو کر کہیں گے کہ کاش کہ اب ہم واپس دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو نہ تو اللہ کی آیتوں کو جھٹلائیں گے نہ ترک ایمان کریں ۔ جہنمی لوگ اوروں کو جہنم سے نکلتے دیکھ کر بھی اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے ۔ ابن عباس اور انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ گنہگار مسلمانوں کو جہنم میں مشرکوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ روک لے گا تو مشرک ان مسلمانوں سے کہیں گے کہ جس اللہ کی تم دنیا میں عبادت کرتے رہے اس نے تمہیں آج کیا فائدہ دیا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اور ان مسلمانوں کو جہنم سے نکال لے کا اس وقت کافر تمنا کریں گے کا کاش وہ بھی دنیا میں مسلمان ہوتے ۔ ایک روایت میں ہے کہ مشرکوں کے اس طعنے پر اللہ تعالیٰ حکم دے گا کہ جس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھی ایمان ہو اسے جہنم سے آزاد کر دو ، الخ ۔ طبرانی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لا الہ الا اللہ کے کہنے والوں میں بعض لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے جہنم میں جائیں گے پس لات و عزیٰ کے پجاری ان سے کہیں گے کہ تمہارے لا الہ الا اللہ کہنے نے تمہیں کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ ہی جہنم میں جل رہے ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جوش آئے گا اللہ ان سب کو وہاں سے نکال لے گا ۔ اور نہر حیات میں غوطہ دے کر انہیں ایسا کر دے گا جیسے چاند گہن سے نکلا ہو ۔ پھر یہ سب جنت میں جائیں گے وہاں انہیں جہنمی کہا جائے گا ۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ حدیث سن کر کسی نے کہا کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم سے سنا ہے کہ مجھ پر قصدا جھوٹ بولنے والا اپنی جگہ جہنم میں بنا لے ۔ باوجود اس کے میں کہتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ مشرک لوگ اہل قبلہ سے کہیں گے کہ تم تو مسلمان تھے پھر تمہیں اسلام نے کیا نفع دیا ؟ تم تو ہمارے ساتھ جہنم میں جل رہے ہو ۔ وہ جواب دیں گے کہ ہمارے گناہ تھے جن کی پاداش میں ہم پکڑے گئے الخ اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چھٹکارے کے وقت کفار کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہوتے اور ان کی طرح جہنم سے چھٹکارا پاتے ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت ( اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ) پڑھ کر شروع سورت سے مسلمین تک تلاوت فرمائی ۔ یہی روایت اور سند سے ہے اس میں اعوذ کے بدلے آیت ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) کا پڑھنا ہے اور روایت میں ہے کہ ان مسلمان گنہگاروں سے مشرکین کہیں گے کہ تم تو دینا میں یہ خیال کرتے تھے کہ تم اولیاء اللہ ہو پھر ہمارے ساتھ یہاں کیسے ؟ یہ سن کر اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کی اجازت دے گا ۔ پس فرشتے اور نبی اور مومن شفاعت کریں گے اور اللہ انہیں جہنم سے چھوڑا جائے گا اس وقت مشکر لوگ کہیں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے تو شفاعت سے محروم نہ رہتے اور ان کے ساتھ جہنم سے چھوٹ جاتے ۔ یہی معنی اس آیت کے ہیں یہ لوگ جب جنت میں جائیں گے تو ان کے چہروں پر قدرے سیاہی ہو گی اس وجہ سے انہیں جہنمی کہا جاتا ہو گا ۔ پھر یہ دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ لقب بھی ہم سے ہٹا دے پس انہیں جنت کی ایک نہر میں غسل کرنے کا حکم ہو گا اور وہ نام بھی ان سے دور کر دیا جائے گا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بعض لوگوں کو آگ ان کے گھٹنوں تک پکڑ لے گی اور بعض کو زانوں تک اور بعض کو گردن تک جیسے جن کے گناہ اور جیسے جن کے اعمال ہوں گے ۔ بعض ایک مہینے کی سزا بھگت کر نکل آئیں گے سب سے لمبی سزا والا وہ ہو گا جو جہنم میں اتنی مدت رہے گا جتنی مدت دنیا کی ہے یعنی دنیا کے پہلے دن سے دنیا کے آخری دن تک ۔ جب ان کے نکالنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کر لے گا اس وقت یہود و نضاری اور دوسرے دین والے جہنمی ان اہل توحید سے کہیں گے کہ تم اللہ پر اس کی کتابوں پر اس کے رسولوں پر ایمان لائے تھے پھر بھی آج ہم اور تم جہنم میں یکساں ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کو سخت غصہ آئے گا کہ ان کی اور کسی بات پر اتنا غصہ نہ آیا تھا پھر ان موحدوں کو جہنم سے نکال کر جنت کی نہر کے پاس لایا جائے گا ۔ یہ ہے فرمان آیت ( رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ Ą۝ ) 15- الحجر:2 ) میں ہے ۔ پھر بطور ڈانٹ کے فرماتا ہے کہ انہیں کھاتے پیتے اور مزے کرتے چھوڑ دے آخر تو ان کا ٹھکانا جہنم ہے ۔ تم کھا پی لو ، تمہارا مجرم ہونا ثابت ہو چکا ہے ۔ انہیں ان کی دور دراز کی خواہشیں توبہ کرنے سے ، اللہ کی طرف جھکنے سے غافل رکھیں گی ۔ عنقریب حقیقت کھل جائے گی ۔ اتمام حجت کے بعد ہم کسی بستی کو دلیلیں پہنچانے اور ان کا مقرر وقت ختم ہونے سے پہلے ہلاک نہیں کرتے ۔ ہاں جب وقت مقررہ آ جاتا ہے پھر تقدیم تاخیر ناممکن ہے اس میں اہل مکہ کی تنبیہ ہے کہ وہ شرک سے الحاد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے باز آ جائیں ورنہ مستحق ہلاکت ہو جائیں گے اور اپنے وقت پر تباہ ہو جائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 یہ آرزو کب کریں گے ؟ موت کے وقت، جب فرشتے انھیں جہنم کی آگ دکھاتے ہیں یا جب جہنم میں چلے جائیں گے یا اس وقت جب گنہگار ایمانداروں کو کچھ عرصہ بطور سزا، جہنم میں رکھنے کے بعد جہنم سے نکالا جائے گا یا میدان محشر میں، جہاں حساب کتاب ہو رہا ہوگا اور کافر دیکھیں گے کہ مسلمان جنت میں جا رہے ہیں تو آرزو کریں گے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے۔ رُبَمَا اصل میں تو تکثیر کے لئے ہے لیکن کبھی کمی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے یہ آرزو ہر موقعے پر ہوتی رہے گی لیکن اس کا انھیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢] کافر کون کون سے وقت مسلمان ہونے کی خواہش کریں گے ؟ ربما تکثیر اور تقلیل دونوں مواقع پر استعمال ہوتا ہے یعنی اس کا معنی بسا اوقات اور اکثر اوقات بھی ہوسکتا ہے اور کبھی کبھی بھی۔ اور اس لفظ کا استعمال بالخصوص اس صورت میں ہوتا ہے جب کسی سے ہمہ وقت یا اکثر اوقات یاد کرنا متوقع ہو لیکن وہ یاد نہ کرے تو اسے کہتے ہیں کہ کبھی تو ہمیں یاد کرو گے۔ اور اس سے مراد ہر وہ وقت ہوسکتا ہے جب کسی کافر کو اپنی سابقہ زندگی اور اعمال پر حسرت اور ندامت ہو اور اپنے مقابلہ میں مسلمانوں کو عزت اور فلاح و بہبود سے سرفراز ہوتا دیکھے۔ جیسے غزوہ بدر کے موقع پر کافروں کی خوب پٹائی ہوئی اور مسلمانوں کو عزت اور فتح نصیب ہوئی اور ایسے مواقع بیشمار ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں بھی، آخرت میں بھی حتیٰ کہ موت کے وقت بھی۔ جب فرشتے مہیب شکل و صورت میں کافر کی جان نکالنے کے لیے آئیں گے اور ایسی آرزو کا آخری موقع وہ ہوگا جب قیامت کے دن کافر کچھ گنہگار مسلمانوں کو بھی اپنے ساتھ دوزخ میں دیکھ کر کہیں گے۔ تم بھی ہمارے ساتھ دوزخ میں ہو تو تمہارے ایمان اور توحید نے تمہیں کیا فائدہ دیا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ کسی موحد کو جہنم میں نہ رہنے دے گا۔ یہ فرماکر رسول اللہ نے یہی آیت پڑھی گویا یہ آخری موقع ہوگا جب کافر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ :” رُبَّ “ حرف جر ہے، ” مَا “ بمعنی وقت۔ ” رُبَّ “ کا لفظ تقلیل کے لیے آتا ہے، یعنی کسی وقت، جیسے : ” رُبَّ أَخٍ لَمْ تَلِدْہُ اُمُّکَ “ ” کئی بھائی ہیں جنھیں تیری ماں نے نہیں جنا “ اور تکثیر کے لیے بھی، مثلاً ” رُبَّمَا یَنْجُو الذَّکِیُّ “ ” بہت دفعہ ذہین آدمی کامیاب ہوجاتا ہے۔ “ فرق موقع کو ملحوظ رکھ کر ہوتا ہے، مثلاً یہی مثال اگر اس طرح ہو کہ ” رُبَّمَا یَنْجُ الْکَسُوْلُ “ تو معنی ہوگا ” کسی وقت سست آدمی بھی کامیاب ہوجاتا ہے۔ “ اس آیت میں بعض علماء نے یہ لفظ تقلیل کے لیے قرار دیا ہے، یعنی ” کسی وقت “ اور بعض نے تکثیر کے لیے، یعنی بہت بار، صاحب مغنی اللبیب کے بقول یہاں یہی معنی راجح ہے، کیونکہ مرنے کے بعد کفار کا ہر لمحہ اسی حسرت میں گزرے گا۔ ” لَوْ “ تمنی کے لیے ہے۔ ایسی چیز کی خواہش جو ناممکن ہو تمنی کہلاتی ہے، ممکن کی خواہش ” ترجّی “ کہلاتی ہے۔ - يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : یہ سورت مکی ہے، جب مسلمان ہر طرح کمزور اور مغلوب تھے تو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو تسلی دی کہ وہ وقت آ رہا ہے جب یہ کافر چاہیں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے، مگر وقت نکل جانے کے بعد کسی کام کی خواہش کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت سے مراد دنیا میں ایسے مواقع بھی ہیں جب مسلمانوں کو فتح و کامرانی اور کفار کو شکست و رسوائی حاصل ہوگی، جیسے بدر، خیبر اور فتح مکہ وغیرہ اور کفار چاہیں گے کہ اس وقت مسلمان ہوتے تو ہمیں بھی یہ عزت و غنیمت ملتی اور موت کے وقت بھی اس تمنا کا اظہار کریں گے، جیسا کہ فرمایا : (حَتّيٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ 99 ۝ ۙلَعَلِّيْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ۭ اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَاۗىِٕلُهَا) [ المؤمنون : ٩٩، ١٠٠ ] ” یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس بھیجو، تاکہ میں جو کچھ چھوڑ آیا ہوں اس میں کوئی نیک عمل کرلوں۔ ہرگز نہیں، یہ تو ایک بات ہے جسے وہ کہنے والا ہے۔ “ پھر موت کے بعد کی سختیوں میں، خصوصاً جب آگ میں داخل ہونے کو ہوں گے، فرمایا : (وَلَوْ تَرٰٓي اِذْ وُقِفُوْا عَلَي النَّارِ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا وَنَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ ) [ الأنعام : ٢٧ ] ” اور کاش تو دیکھے جب وہ آگ پر کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے اے کاش ہم واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی آیات کو نہ جھٹلائیں اور ایمان والوں میں سے ہوجائیں۔ “ اور سب سے زیادہ حسرت کے ساتھ یہ خواہش اس وقت کریں گے جب مسلمانوں میں سے جہنم میں جانے والے سب کے سب جہنم سے نکال لیے جائیں گے۔ ابوموسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب اہل نار آگ میں جمع ہوجائیں گے اور ان کے ساتھ اہل قبلہ میں سے بھی وہ لوگ ہوں گے جنھیں اللہ چاہے گا تو کفار مسلمانوں سے کہیں گے : ” کیا تم مسلم نہیں تھے ؟ “ وہ کہیں گے : ” کیوں نہیں ؟ “ کفار کہیں گے : ” پھر تمہارے اسلام نے تمہیں کیا فائدہ دیا کہ تم بھی ہمارے ساتھ آگ میں پہنچ گئے ؟ “ وہ کہیں گے : ” ہمارے کچھ گناہ تھے جن کی و جہ سے ہم پکڑے گئے۔ “ انھوں نے جو کچھ کہا اللہ تعالیٰ اسے سنے گا اور جو اہل قبلہ میں سے ہوں گے ان کے متعلق حکم دے گا اور وہ نکال لیے جائیں گے، تو جب جہنمی یہ دیکھیں گے تو کہیں گے : ” کاش ہم بھی مسلم ہوتے اور ہم بھی اسی طرح نکل جاتے جیسے یہ نکلے ہیں۔ “ (ابو موسیٰ (رض) نے) کہا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی : (رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ الۗرٰ ۣ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ ) [ السنۃ لابن أبي عاصم، باب ذکر من یخرج اللہ بتفضلہ من النار : ٨٤٣۔ مستدرک حاکم : ٢؍ ٢٤٢، ح : ٢٩٥٤ ] شیخ البانی (رض) نے ” ظلال السنۃ “ میں اسے صحیح کہا ہے اور اس مفہوم کی کئی احادیث بیان کی ہیں۔ - ” مُسْلِمِيْنَ “ نکرہ ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ” کاش وہ کسی طرح کے مسلمان ہوتے “ یعنی گناہ گار بھی ہوتے تو آخر جہنم سے نکل ہی جاتے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ ۝- رُب - وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] .- ( ر ب ب ) الرب ( ن )- رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔- ودد - الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21]- ( و د د ) الود ۔- کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- سلم - والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . - والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین :- أحدهما : دون الإيمان،- وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] .- والثاني : فوق الإيمان،- وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] ،- ( س ل م ) السلم والسلامۃ - الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ - شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں - کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢) کافر لوگ بار بار تمنا کریں گے کہ کاش ہم دنیا میں مسلمان ہوتے اور جب کہ اللہ تعالیٰ دوزخ سے ہر مومن کو نکال کر جنت میں داخل فرمائے گا اس وقت بھی کافر خواہش کرے گا کہ کاش میں دنیا میں مسلمان ہوتا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ )- ایک وقت آئے گا کہ ان لوگوں کے لیے ان کا کفر موجب حسرت بن جائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani