Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یہ تہدید و تو یخ ہے کہ کافر و مشرک اپنے کفر و شرک سے باز نہیں آ رہے ہیں تو انھیں چھوڑ دیجئے یہ دنیاوی لذتوں سے محفوظ ہولیں اور اپنی امیدیں برلائیں۔ عنقریب انھیں اپنے کفر و شرک کا انجام معلوم ہوجائے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ذَرْهُمْ يَاْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا وَيُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ۝: ” ذَرْ “ مثال واوی سے فعل امر ہے، اس کا صرف امر اور مضارع استعمال ہوتا ہے، اس کے باقی صیغوں کی جگہ ” تَرَکَ “ کے مشتقات استعمال ہوتے ہیں۔ ” وَيُلْهِهِمُ “ ” لَھْوٌ“ سے باب افعال کا مضارع ” یُلْھِیْ “ ہے جو ” ذَرْ “ کا جواب ہونے کی و جہ سے یا لام امر مقدر ہونے کی و جہ سے مجزوم ہے، اس کی ” یاء “ اور ” يَاْكُلُوْا “ اور ” وَيَتَمَتَّعُوْا “ کا نون بھی اسی و جہ سے گرگئے ہیں۔ یہ سارے امر انھیں ڈانٹنے کے لیے ہیں، یہ نہیں کہ انھیں اجازت دی جا رہی ہے۔ اس معنی کی آیات کے لیے دیکھیے سورة مرسلات ( ٤٦) ، سورة زخرف ( ٨٣) اور سورة طور (٤٥) وغیرہ۔” يَاْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا “ سے معلوم ہوا کہ کفار کی زندگی کا مقصد ہی بس یہ ہے۔ ” الْاَمَلُ “ امید، کسی چیز کے حصول کی آرزو، عموماً جس کا حصول بعید ہو۔- وَيُلْهِهِمُ الْاَمَلُ : ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَرَزَ بَیْنَ یَدَیْہِ غَرَزًا ثُمَّ غَرَزَ إِلٰی جَنْبِہٖ آخَرَ ثُمَّ غَرَزَ الثَّالِثَ فَأَبْعَدَہٗ ، ثُمَّ قَالَ ھَلْ تَدْرُوْنَ مَا ھٰذَا ؟ قَالُوْا اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ ، قَالَ ھٰذَا الإِْنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہُ وَھٰذَا أَمَلُہُ یَتَعَاطَی الْأَمَلَ یَخْتَلِجُہُ دُوْنَ ذٰلِکَ )[ مسند أحمد : ٣؍١٨، ح : ١١١٣٨، إسنادہ جید ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے آگے ایک لکڑی گاڑی، پھر ایک اس کے پہلو میں گاڑی، پھر تیسری اس سے دور گاڑی، پھر فرمایا : ” کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے ؟ “ لوگوں نے کہا : ” اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ “ فرمایا : ” یہ انسان ہے اور یہ اس کی اجل (موت) ہے اور وہ اس کی آرزو ہے۔ وہ آرزو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اس کے حصول سے پہلے اس کے راستے میں اجل رکاوٹ بن جاتی ہے۔ “ عبداللہ بن عمرو (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں : ( صَلاَحُ أَوَّلِ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ بالزُّھْدِ وَالْیَقِیْنِ وَیُھْلَکُ آخِرُھَا بالْبُخْلِ وَالْأَمَلِ ) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ١٥؍٣، ح : ٣٤٢٧ ]” اس امت کے اول کی درستگی زہد اور یقین کے ساتھ ہے اور اس کا آخری حصہ بخل اور امل (امید) کے ساتھ ہلاک ہوگا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- ذَرْهُمْ يَاْكُلُوْا الخ سے معلوم ہوا کہ کھانے پینے کو مقصد اور اصلی مشغلہ بنا لینا اور دنیاوی عیش و عشرت کے سامان میں موت سے بےفکر ہو کر طویل منصوبوں میں لگے رہنا کفار ہی سے ہوسکتا ہے جن کا آخرت اور اس کے حساب و کتاب اور جزا وسزا پر ایمان نہیں مومن بھی کھاتا پیتا ہے اور معاش کا بقدر ضرورت سامان کرتا ہے اور آئندہ کاروبار کے منصوبے بھی بناتا ہے مگر موت اور فکر آخرت سے غافل ہو کر یہ کام نہیں کرتا اسی لئے ہر کام میں حلال و حرام کی فکر رہتی ہے اور فضول منصوبہ بندی کو مشغلہ نہیں بناتا رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چار چیزیں بدبختی اور بدنصیبی کی علامت ہیں آنکھوں سے آنسو جاری نہ ہونا (یعنی اپنے گناہوں، غفلتوں پر نادم ہو کر نہ رونا) اور سخت دلی، طول امل اور دنیا کی حرص (قرطبی عن مسند البزار عن انس )- اور طول امل کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی محبت اور حرص میں انہماک اور موت و آخرت سے بےفکری کے ساتھ دور دراز کے منصوبے بنائے جائیں (قرطبی) جو منصوبے دینی مقاصد کے لئے یا کسی قوم و ملک کے آئندہ مفاد کے لئے بنائے جاتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں کیونکہ وہ فکر آخرت ہی کی ایک صورت ہے۔- اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس امت کے پہلے طبقہ کی نجات ایمان کامل اور دنیا سے اعراض کی وجہ سے ہوگی اور آخری امت کے لوگ بخل اور طول امل کی وجہ سے ہلاک ہوں گے - اور حضرت ابو الدرداء (رض) سے منقول ہے کہ وہ جامع مسجد دمشق کے منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اے اہل دمشق کیا تم اپنے ایک ہمدرد خیر خواہ بھائی کی بات سنو گے سن لو کہ تم سے پہلے بہت بڑے بڑے لوگ گذرے ہیں جنہوں نے مال و متاع بہت جمع کیا اور بڑے بڑے شان دار محلات تعمیر کئے اور دور دراز کے طویل منصوبے بنائے آج وہ سب ہلاک ہوچکے ہیں ان کے مکانات ان کی قبریں ہیں اور ان کی طویل امیدیں سب دھوکہ اور فریب ثابت ہوئیں قوم عاد تمہارے قریب تھی جس نے اپنے آدمیوں سے اور ہر طرح کے مال و متاع سے اور اسحلہ اور گھوڑوں سے ملک کو بھر دیا تھا آج کوئی ہے جو ان کی وراثت مجھ سے دو درہم میں خریدنے کو تیار ہوجائے۔- حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ جو شخص اپنی زندگی میں طویل امیدیں باندہتا ہے اس کا عمل ضرور خراب ہوجاتا ہے (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذَرْهُمْ يَاْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا وَيُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ ۝- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- لهي - أَلْهاهُ كذا . أي : شغله عمّا هو أهمّ إليه . قال تعالی: أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] ، رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] ولیس ذلک نهيا عن التّجارة وکراهية لها، بل هو نهي عن التّهافت فيها والاشتغال عن الصّلوات والعبادات بها .- الھاۃ کذا ۔ یعنی اسے فلاں چیز نے اہم کام سے مشغول کردیا ۔ قرآن میں ہے : أَلْهاكُمُ التَّكاثُرُ [ التکاثر 1] لوگوتم کو کثرت مال وجاہ واولاد کی خواہش نے غافل کردیا ۔ رِجالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجارَةٌ وَلا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ [ النور 37] یعنی ایسے لوگ جن کو خدا کے ذکر سے نہ سود اگر ی غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت ۔ اس آیت سے تجارت کی ممانعت یا کرامت بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں پروانہ دار مشغول ہو کر نماز اور دیگر عبادات سے غافل ہونے کی مذمت کی طرف اشارہ ہے نفس تجارت کو قرآن نے فائدہ مند اور فضل الہی سے تعبیر کیا ہے ۔- الامل - ۔ امید۔ توقع۔ امال جمع۔ فاعل۔ یلہہم الامل۔ ان کی ( جھوٹی) امیدان کو غافل بنائے رکھے۔- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو ان کے حال پر رہنے دیجیے تاکہ وہ خوب کھالیں اور کفر و مال حرام میں خوب مزے اڑا لیں اور لمبی لمبی آرزوئیں ان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غفلت میں ڈالے رکھیں، ان کو مرنے کے وقت اور قبر میں اور پھر قیامت کے دن حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ ان کو کیا سزا ملے گی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(ذَرْهُمْ يَاْكُلُوْا وَيَتَمَتَّعُوْا)- زمین میں جو مہلت انہیں ملی ہوئی ہے اس میں خوب مزے کرلیں۔- (وَيُلْهِهِمُ الْاَمَلُ )- اَلْھٰی ‘ یُلْھِی ‘ اِلْھَاءً کے معنی ہیں غافل کردینا۔ سورة التکاثر میں فرمایا گیا : (اَلْهٰىكُمُ التَّكَاثُرُ ۔ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ) ” غافل کیے رکھا تمہیں کثرت کی خواہش کے مقابلے نے ‘ یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں “۔ انسان کے لمبے لمبے منصوبے بنانے کو ” طولِ اَمل “ کہتے ہیں۔ جب انسان اس گورکھ دھندے میں پڑجائے ‘ تو خواہشوں اور آرزوؤں کا یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا ‘ مگر زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ حدیث نبوی ہے : (مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی ) یعنی اگر کوئی شے کم ہے لیکن آپ کو کفایت کر جائے ‘ آپ کی ضرورت اس سے پوری ہوجائے تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے جو آپ کی ضرورت سے زیادہ ہو اور آپ کو اپنے خالق اور مالک کی یاد سے غافل کر دے۔ - اگر مال و دولت کی ریل پیل ہے ‘ رزق اور سامان آسائش کی فراوانی ہے ‘ کبھی کوئی حاجت پریشان نہیں کرتی ‘ کوئی محرومی ‘ کوئی نارسائی اللہ کی یاد تازہ کرنے کا سبب نہیں بنتی ‘ تو ایسی حالت میں رفتہ رفتہ انسان کے بالکل غافل ہوجانے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ اتنا ملے جس سے ضرورت پوری ہوجائے اور کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرنا پڑے۔ لیکن اس قدر فراوانی نہ ہو کہ غفلت غلبہ پالے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

1: اِس آیت میں قرآنِ کریم نے توجہ دلائی ہے کہ صرف کھانے پینے اور دُنیا میں مزے اُڑانے کو اپنی زندگی کا اصل مقصد بنا لینا اور اسی کے لئے اِس طرح لمبی لمبی خیالی اُمیدیں باندھتے رہنا جیسے زندگی بس یہی ہے۔ یہ کافروں کا کام ہے، مسلمان دُنیا میں رہتا ضرور ہے، اور اُس میں اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے فائدہ بھی اُٹھاتا ہے، مگر اس دُنیا کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بناتا، بلکہ اُسے آخرت کی بھلائی کے لئے استعمال کرتا ہے، جس کا بہترین راستہ شریعت کے احکام کی پابندی ہے۔