اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسکین دیتا ہے کہ جس طرح لوگ آپ کو جھٹلا رہے ہیں اسی طرح آپ سے پہلے کے نبیوں کو بھی وہ جھٹلا چکے ہیں ۔ ہر امت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہوئی ہے اور اسے مذاق میں اڑایا گیا ہے ۔ ضدی اور متکبر گروہ کے دلوں میں بہ سبب ان کے حد سے بڑھے ہوئے گناہوں کے تکذیب رسول سمو دی جاتی ہے یہاں مجرموں سے مراد مشرکین ہیں ۔ وہ حق کو قبول کرتے ہی نہیں ، نہ کریں ۔ اگلوں کی عادت ان کے سامنے ہے جس طرح وہ ہلاک اور برباد ہوئے اور ان کے انبیاء نجات پا گئے اور ایمان دار عافیت حاصل کر گئے ۔ وہی نتیجہ یہ بھی یاد رکھیں ۔ دنیا آخرت کی بھلائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں اور دونوں جہان کی رسوائی نبی کی مخالفت میں ہے ۔
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ ۔۔ :” شِيَعِ “ ” شِیْعَۃٌ“ کی جمع ہے، معنی ہے لوگوں کا ایسا گروہ جو ایک طریقے اور مذہب پر متفق ہو، خواہ نیک ہوں یا بد۔ یہاں یہ لفظ برے شیعہ یعنی بری جماعت کے معنی میں ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے : (اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ) [ الأنعام : ١٥٩] ” بیشک وہ لوگ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کرلیا اور کئی گروہ بن گئے، تو کسی چیز میں بھی ان سے نہیں۔ “ البتہ صافات میں نیک معنی میں ہے : (وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيم) [ الصآفات : ٨٣ ] ” اور بیشک اس کے گروہ میں سے ابراہیم بھی ہے۔ “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ آپ ان کے جھٹلانے اور استہزا سے رنجیدہ نہ ہوں، ہر زمانے میں کفار نے انبیاء کی اسی طرح ہنسی اڑائی ہے۔
اللغات :- الشیع جمع شیعہ کی ہے جس کی معنی کسی شخص کے پیروکار و مددگار کے بھی آتے ہیں اور ایسے فرقہ کو بھی شیعہ کہا جاتا ہے جو خاص عقائد ونظریات پر اتفاق رکھتے ہوں مراد یہ ہے کہ ہم نے ہر فرقہ اور ہر گروہ کے اندر رسول بھیجے ہیں اس میں لفظ الیٰ کے بجائے فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ فرما کر اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ ہر گروہ کا رسول اسی گروہ کے لوگوں میں سے بھیجا گیا تاکہ لوگوں کو اس پر اعتماد کرنا آسان ہو اور یہ بھی ان کی طبائع اور مزاج سے واقف ہو کر ان کی اصلاح کے لئے مناسب پروگرام بنا سکے۔- خلاصہ تفسیر :- اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کی تکذیب سے غم نہ کیجئے کیونکہ یہ معاملہ انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے چنانچہ) ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو اگلے لوگوں کے بہت سے گروہوں میں بھیجا تھا (اور ان کی یہ حالت تھی کہ) کوئی رسول ان کے پاس ایسا نہیں آیا جس کے ساتھ انہوں نے استہزاء نہ کیا (جو کہ تکذیب کی بدترین قسم ہے پس جس طرح ان لوگوں کے دلوں میں یہ استہزاء پیدا ہوا تھا) اسی طرح ہم یہ استہزا ان مجرمین (یعنی کفار مکہ) کے قلوب میں ڈال دیتے ہیں (جس کی وجہ سے) یہ لوگ قرآن پر ایمان نہیں لاتے اور یہ دستور پہلوں سے ہی ہوتا آیا ہے (کہ انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب کرتے رہے ہیں پس آپ مغموم نہ ہوں) اور (ان کے عناد کی یہ کیفیت ہے کہ فرشتوں کا آسمان سے آنا تو درکنار اس سے بڑھ کر) اگر (خود ان کو آسمان پر بھیج دیا جائے اس طرح سے کہ) ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں پھر یہ دن کے وقت (جس میں نیند اور اونگھ وغیرہ کا بھی شبہ نہ ہو) اس (دروازہ) میں (سے آسمان کو) چڑھ جاویں تب بھی یوں کہہ دیں کہ ہماری نظر بند کردی گئی تھی (جس سے ہم اپنے کو آسمان پر چڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں اور واقع میں نہیں چڑھ رہے اور نظر بندی میں کچھ اسی واقعہ کی تخصیص نہیں) بلکہ ہم لوگوں پر تو بالکل جادو کر رکھا ہے (اگر ہم کو اس سے بڑھ کر بھی کوئی معجزہ دکھلایا جائے گا وہ بھی واقع میں معجزہ نہ ہوگا)
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ 10- شيع - الشِّيَاعُ : الانتشار والتّقوية . يقال : شاع الخبر، أي : كثر وقوي، وشَاعَ القوم : انتشروا وکثروا، وشَيَّعْتُ النّار بالحطب : قوّيتها، والشِّيعَةُ : من يتقوّى بهم الإنسان وينتشرون عنه، ومنه قيل للشّجاع : مَشِيعٌ ، يقال : شِيعَةٌ وشِيَعٌ وأَشْيَاعٌ ، قال تعالی: وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ- [ الصافات 83] ، هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] ، فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] ، وقال تعالی: وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] .- ( ش ی ع )- الشیاع کے معنی منتشر ہونے اور تقویت دینا کے ہیں کہا جاتا ہے شاع الخبر خبر پھیل گئی اور قوت پکڑ گئی ۔ شاع القوم قوم منتشر اور زیادہ ہوگئی شیعت النار بالحطب ایندھب ڈال کر آگ تیز کرنا الشیعۃ وہ لوگ جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے اور وہ اس کے ارد گرد پھیلے رہتے ہیں اسی سے بہادر کو مشیع کہا جاتا ہے ۔ شیعۃ کی جمع شیع واشیاع آتی ہے قرآن میں ہے وَإِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ [ الصافات 83] اور ان ہی یعنی (علیہ السلام) کے پیروں میں ابراہیم تھے هذا مِنْ شِيعَتِهِ وَهذا مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ایک تو موسیٰ کی قوم کا ہے اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا وَجَعَلَ أَهْلَها شِيَعاً [ القصص 4] وہاں کے باشندوں کو گروہ در گروہ کر رکھا تھا ۔ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ [ الحجر 10] پہلے لوگوں میں ( بھی ) وَلَقَدْ أَهْلَكْنا أَشْياعَكُمْ [ القمر 51] اور ہم تمہارے ہم مذہبوں کو ہلاک کرچکے ہیں ۔
(١٠) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ سے پہلے بھی رسولوں کو پچھلے لوگوں کے بہت سے گروہوں میں بھیجا تھا۔
آیت ١٠ (وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ شِيَعِ الْاَوَّلِيْنَ )- شِیَع ‘ شِیْعَۃ کی جمع ہے اور اس کے معنی الگ ہو کر پھیلنے والے گروہ کے ہیں۔ جیسے حضرت نوح کے بیٹوں کی نسلیں بڑھتی گئیں تو ان کے قبیلے اور گروہ علیحدہ ہوتے گئے اور یوں تقسیم ہو ہو کر روئے زمین پر پھیلتے گئے۔ اردو الفاظ ” اشاعت “ اور ” شائع “ بھی اسی مادہ سے مشتق ہیں ‘ چناچہ ان الفاظ میں بھی پھیلنے اور پھیلانے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔