ان کی سرکشی ، ضد ، ہٹ ، خود بینی اور باطل پرستی کی تو یہ کیفیت ہے کہ بالفرض اگر ان کے لئے آسمان کا دروازہ کھول دیا جائے اور انہیں وہاں چڑھا دیا جائے تو بھی یہ حق کو حق کہہ کر نہ دیں گے بلکہ اس وقت بھی ہانک لگائیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے ، آنکھیں بہکا دی گئی ہیں ، جادو کر دیا گیا ہے ، نگاہ چھین لی گئی ہے ، دھوکہ ہو رہا ہے ، بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔
وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ ۔۔ : ” ظَلَّ “ اور ” بَاتَ “ میں وقت بھی ملحوظ ہوتا ہے۔ ” ظَلَّ “ دن کو ہونا، ” بَاتَ “ رات کو ہونا۔ اب ایک عجیب انداز میں ان کی ہٹ دھرمی اور ہر دلیل دیکھ کر بھی ایمان نہ لانے کا بیان ہوتا ہے، یعنی ان کا مطالبہ تو صرف فرشتے لانے کا ہے، اگر اس سے بڑھ کر عین دن کے بارہ بجے روشنی میں سب کے سامنے ہم آسمان کے دروازے کھول دیں اور یہ لوگ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھنے لگیں تو پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔
وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَاۗءِ فَظَلُّوْا فِيْهِ يَعْرُجُوْنَ 14ۙ- فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65]- ( ف ت ح )- الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔- ظلل - الظِّلُّ : ضدُّ الضَّحِّ ، وهو أعمُّ من الفیء، فإنه يقال : ظِلُّ اللّيلِ ، وظِلُّ الجنّةِ ، ويقال لكلّ موضع لم تصل إليه الشّمس : ظِلٌّ ، ولا يقال الفیءُ إلّا لما زال عنه الشمس، ويعبّر بِالظِّلِّ عن العزّة والمنعة، وعن الرّفاهة، قال تعالی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] ، أي :- في عزّة ومناع،- ( ظ ل ل ) الظل - ۔ سایہ یہ الضح ( دهوپ ) کی ضد ہے اور فیی سے زیادہ عام ہے کیونکہ ( مجازا الظل کا لفظ تورات کی تاریکی اور باغات کے سایہ پر بھی بولا جاتا ہے نیز ہر وہ جگہ جہاں دہوپ نہ پہنچنے اسے ظل کہہ دیا جاتا ہے مگر فییء صرف اس سے سایہ کو کہتے ہیں جوز وال آفتاب سے ظاہر ہو ہے اور عزت و حفاظت اور ہر قسم کی خش حالی کو ظل سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي ظِلالٍ [ المرسلات 41] کے معنی یہ ہیں کہ پرہیز گار ہر طرح سے عزت و حفاظت میں ہوں گے ۔ - عرج - العُرُوجُ : ذهابٌ في صعود . قال تعالی: تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] ، فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر 14] ، والمَعَارِجُ : المصاعد . قال : ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 3] ، ولیلة المِعْرَاجُ سمّيت لصعود الدّعاء فيها إشارة إلى قوله : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] ، وعَرَجَ عُرُوجاً وعَرَجَاناً : مشی مشي العَارِجِ. أي : الذاهب في صعود، كما يقال : درج : إذا مشی مشي الصاعد في درجه، وعَرِجَ : صار ذلک خلقة له «4» ،- ( ع ر ج ) العروج - کے معنی اوپر چڑھنا کے ہیں قرآن میں ہے : تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج 4] جس کی طرف روح ( الامین ) اور فرشتے چڑھتے ہیں ۔ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ [ الحجر 14] اور وہ اس میں چڑھنے بھی لگیں ۔ اور معارج کے معنی سیڑھیوں کے ہیں اس کا مفرد معرج ( اور معراج ) ہے ۔ قرآن میں ہے :- ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج 3] سیڑھیوں والے خدا کی طرف سے ( نازل ہوگا ) ۔ اور شب معراج کو بھی لیلۃ المعراج اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں دعائیں اوپر چڑھتی ہیں جیسا کہ آیت کریمہ ؛- إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔
(١٤۔ ١٥) اور اگر اہل مکہ کے لیے ہم آسمان میں ان کے داخل ہونے کے لیے کوئی دروازہ کھول دیں اور فرشتوں کی طرح یہ کفار دن کے وقت اوپر جانے اور اترنے لگیں، تب بھی یوں کہہ دیں گے کہ ہماری نظربندی کردی گئی تھی، بلکہ ہم لوگوں پر تو بالکل جادو کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ہماری عقل جاتی رہی۔