اس آیت سے آیت (٣٩) تک کی مفصل تفسیر کے لیے سورة اعراف ( ١١ تا ١٨) اور سورة بقرہ ( ٣٠ تا ٣٤) تک کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔ - وَّاِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ : اس کا ترجمہ ” خاص لعنت “ الف لام کی و جہ سے کیا گیا ہے اور اس کی وضاحت سورة ص (٧٨) میں آئی ہے، فرمایا : (وَّاِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِی) یعنی تجھ پر میری لعنت ہے۔
وَّاِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ اِلٰى يَوْمِ الدِّيْنِ 35- لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔
(٣٥۔ ٣٦۔ ٣٧۔ ٣٨) اور قیامت تک تجھ پر میری اور تمام فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت رہے گی، ابلیس نے کہا تو پھر قیامت تک مجھ کو مہلت دیجیے، اس مردود نے چاہا کہ موت کا مزہ بھی نہ چکھے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، جا تجھ کو ایک وقت تک مہلت دی گئی۔
سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :21 یعنی قیامت تک تو ملعون رہے گا ، ا سکے بعد جب روز جزا قائم ہوگا تو پھر تجھے تیری نافرمانیوں کی سزا دی جائے گی ۔