82۔ 1 یعنی بغیر کسی خوف کے پہاڑ تراش لیا کرتے تھے۔ 9 ہجری میں تبوک جاتے ہوئے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بستی سے گزرے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سر پر کپڑا لپیٹ لیا اور اپنی سواری کو تیز کرلیا اور صحابہ سے فرمایا کہ روتے ہوئے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس بستی سے گزرو (ابن کثیر) صحیح بخاری و مسلم میں بھی یہ روایت ہے۔
[٤٤] اصحاب الحجر یا قوم ثمود :۔ یہ لوگ بڑے طویل القامت، مضبوط جسم اور لمبی عمروں والے تھے۔ سنگ تراش اور انجینئر قسم کے لوگ تھے۔ اور اس فن میں اتنے ماہر تھے کہ پہاڑوں کو تراش کر ان میں اپنے گھر بنالیتے تھے۔ اور یہ گھر اتنے مضبوط ہوتے تھے جو ہر طرح کی ارضی و سماوی آفات مثلاً زلزلہ، سیلاب، طوفان بادوباراں وغیرہ کا مقابلہ کرسکتے تھے لہذا ہر طرح کے خوف و خطر سے نڈر ہو کر ان میں رہتے تھے۔
وَكَانُوْا يَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا اٰمِنِيْنَ ۔۔ : یعنی اس سے پہلی قوم عاد آندھی سے برباد ہوئی تھی تو انھوں نے اپنے خیال میں پہاڑوں کو تراش کر محفوظ مکان بنا لیے، جن میں کوئی خوف و خطرہ نہ تھا، مگر صبح کے وقت ایسی چیخ آئی کہ سب کے کلیجے پھٹ گئے اور ایک حد سے بڑھی ہوئی خوفناک آواز (اَلطَّاغِیَۃُ ) کے ساتھ پیدا ہونے والے زلزلے نے باقی کسر نکال دی، پھر ان کی تعمیراتی اور زرعی ترقی اور مہارت ان کے کسی کام نہ آئی۔
وَكَانُوْا يَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا اٰمِنِيْنَ 82- نحت - نَحَتَ الخَشَبَ والحَجَرَ ونحوهما من الأجسام الصَّلْبَة . قال تعالی: وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء 149] والنُّحَاتَةُ : ما يسقط من المَنْحُوتِ ، والنَّحِيتَة : الطّبيعة التي نُحِتَ عليها الإنسان کما أنّ الغریزة ما غُرِزَ عليها الإنسانُ- ( ن ح ت )- نحت ( ض ) کے معنی لکڑی پتھر یا اس قسم کی سخت چیزوں کو تراشنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء 149] اور تکلیف سے پہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے ہو ۔ نحاتۃ تراشہ ۔ وہ ریزے جو کاٹنے سے گریں اور انسانی فطرت کو اس لحاظ سے کہ انسان کی ساخت اس کے مطابق بنائی گئی ہے نحیتہ کہا جاتا ہے اور اس لحاظ سئ کہ وہ انسان کے اندر پیوست کی گئی ہے غریزہ کہلاتی ہے ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔
(٨٢) اور وہ لوگ پہاڑوں میں مکان بناتے تھے کہ مصیبت کے وقت سے امن میں رہیں یا یہ کہ عذاب سے امن میں رہیں۔
آیت ٨٢ (وَكَانُوْا يَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا اٰمِنِيْنَ )- قوم ثمود کے یہ گھر آج بھی موجود ہیں اور دیکھنے والوں کو دعوت عبرت دے رہے ہیں۔ میں نے خود بھی ان کا مشاہدہ کیا ہے۔