وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے کفار کے استہزا اور کفر و شرک پر اصرار سے متعلق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہایت تاکید والے الفاظ میں تسلی دی۔ چناچہ لام تاکید اور ” قَدْ “ برائے تحقیق کے ساتھ اس بات کا اظہار فرمایا کہ ہم آپ کے حالات سے بیخبر نہیں، بلکہ ہر وقت ہماری توجہ آپ کی طرف ہے، اب بھی اور آئندہ بھی اور ہم جانتے ہیں کہ یقیناً آپ کا سینہ ان کی باتوں سے تنگ پڑجاتا ہے۔
دشمنوں کی ایذاء سے تنگدلی کا علاج :- وَلَقَدْ نَعْلَمُ الی فَسَبِّحْ ۔ سے معلوم ہوا کہ جب انسان کو دشمنوں کی باتوں سے رنج پہنچے اور دل تنگی پیش آئے تو اس کا روحانی علاج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبح و عبادت میں مشغول ہوجائے اللہ تعالیٰ خود اس کی تکلیف کو دور فرما دیں گیے۔- سورة حجر تمام شد :
وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ 97ۙ- ضيق - الضِّيقُ : ضدّ السّعة، ويقال : الضَّيْقُ أيضا، والضَّيْقَةُ يستعمل في الفقر والبخل والغمّ ونحو ذلك . قال تعالی: وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] ، أي : عجز عنهم، وقال : وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] - ( ض ی ق ) الضیق والضیق - کتے معنی تنگی کے ہیں اور یہ سعتہ کی ضد ہے اور ضیقتہ کا لفظ فقر بخل غم اور اس قسم کے دوسرے معانی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً [هود 77] کے معنی یہ ہیں کہ وہ انکے مقابلہ سے عاجز ہوگئے ۔ اور آیت ؛۔ وَضائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ [هود 12] اور اس ( خیال سے سے تمہارا دل تنگ ہو ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔
(٩٧۔ ٩٨۔ ٩٩) اور یہ کفار جو آپ کو جھٹلاتے ہیں اور معاذ باللہ آپ کو شاعر کاہن، ساحر وغیرہ کہتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ اس سے آپ دکھی ہوتے ہیں، سو آپ اپنے پروردگار کے حکم سے نماز پڑھتے رہیے اور سجدہ کرنے والوں میں یا یہ کہ اطاعت کرنے والوں میں رہیے اور اپنے پروردگار کی اطاعت پر مستقیم رہیے یہاں تک کہ اسی حالت میں آپ کو موت آجائے۔
آیت ٩٧ (وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ )- علی الاعلان دعوت کی وجہ سے مخالفت کا ایک طوفان آپ پر امڈ آیا تھا۔ پہلے مرحلے میں یہ مخالفت اگرچہ زبانی طعن وتشنیع اور بد گوئی تک محدودتھی مگر بہت تکلیف دہ تھی۔ کسی نے مجنون اور کاہن کہہ دیا ‘ کسی نے شاعر کا خطاب دے دیا۔ کوئی دور کی کوڑی لایا کہ آپ نے گھر میں ایک عجمی غلام چھپا رکھا ہے ‘ اس سے معلومات لے کر ہم پر دھونس جماتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو واقعی سمجھتے تھے کہ آپ پر آسیب وغیرہ کے اثرات ہوگئے ہیں۔ ایسے لوگ ازراہ ہمدردی ایسی باتوں کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ عتبہ بن ربیعہ نے اسی طرح آپ سے اظہار ہمدردی کیا۔ وہ قبیلے کا معمر بزرگ تھا۔ اس نے کہا : اے میرے بھتیجے ‘ بڑے بڑے عاملوں اور کاہنوں سے میرے تعلقات ہیں ‘ آپ کہیں تو میں ان میں سے کسی کو بلا لاؤں اور آپ کا علاج کراؤں ؟ ان سب باتوں سے آپ کو بہت تکلیف ہوتی تھی اور آپ کی اسی تکلیف اور دل کی گھٹن کا یہاں تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ اے نبی ان لوگوں کی بیہودہ باتوں سے آپ کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ ہمارے علم میں ہے۔ یہ مضمون سورة الانعام کی آیت ٣٣ میں بھی گزر چکا ہے ۔