Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

99۔ 1 مشرکین آپ کو ساحر، مجنون، کاہن وغیرہ کہتے جس سے بشری جبلت کی وجہ سے آپ کبیدہ خاطر ہوتے، اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ حمد وثنا کریں، نماز پڑھیں اور اپنے رب کی عبادت کریں، اس سے آپ کو قلبی سکون بھی ملے گا اور اللہ کی مدد بھی حاصل ہوگی، سجدے سے یہاں نماز اور یقین سے مراد موت ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ : یعنی موت آنے تک اپنے رب کی عبادت پر قائم رہیں۔ موت کو ” یقین “ اس لیے فرمایا کہ ہر جان دار کے لیے اس کا آنا یقینی ہے۔ قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی ” یقین “ کا لفظ موت کے معنی میں آیا ہے، جیسے فرمایا : (حَتّىٰٓ اَتٰىنَا الْيَقِيْنُ ) [ المدثر : ٤٧ ] ” یہاں تک کہ ہمیں یقین آپہنچا (یعنی موت آگئی) ۔ “ اس لیے سب قابل ذکر مفسرین نے اس آیت میں یقین کو بمعنی موت مراد لیا ہے۔ تو جب تک ہوش رہے نماز اور دوسری عبادات زندگی کے آخری دم تک حسب طاقت کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر یا پہلو کے بل لیٹ کر ادا کرنا فرض ہے۔ بعض جاہل اور بےعمل پیر اس آیت کی رو سے کہتے ہیں کہ عبادت کرتے کرتے جب یقین حاصل ہوجائے تو پھر عبادت کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے وہ اپنے آپ کو نماز، روزہ اور عبادات سے مستثنیٰ قرار دے لیتے ہیں۔ یہ تفسیر کتاب اللہ کے ساتھ کھیل ہے۔ کیا یہ جس یقین کا نام لیتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کو حاصل نہ ہوسکا کہ وہ آخر وقت تک نماز، روزہ اور دوسری عبادات کی پابندی کرتے رہے۔ بہرحال آیت میں یقین سے مراد یقین قلبی لینا اور نماز روزہ چھوڑ دینا صریح بےدینی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ 99۝ۧ- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا بخشنے والا پروردگار ،۔- يقن - اليَقِينُ من صفة العلم فوق المعرفة والدّراية وأخواتها، يقال : علم يَقِينٍ ، ولا يقال : معرفة يَقِينٍ ، وهو سکون الفهم مع ثبات الحکم، وقال : عِلْمَ الْيَقِينِ [ التکاثر 5] «2» ، وعَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 7] «3» وحَقُّ الْيَقِينِ [ الواقعة 95] وبینها فروق مذکورة في غير هذا الکتاب، يقال : اسْتَيْقَنَ وأَيْقَنَ ، قال تعالی: إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ، وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] ، لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] وقوله عزّ وجلّ : وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] أي : ما قتلوه قتلا تَيَقَّنُوهُ ، بل إنما حکموا تخمینا ووهما .- ( ی ق ن ) الیقین - کے معنی کسی امر کو پوری طرح سمجھ لینے کے ساتھ اس کے پایہ ثبوت تک پہنچ جانے کے ہیں اسی لئے یہ صفات علم سے ہے اور معرفت اور وغیرہ سے اس کا در جہ اوپر ہے یہی وجہ ہے کہ کا محاورہ تو استعمال ہوات ہے لیکن معرفۃ الیقین نہیں بولتے اور قدر معنوی فرق پایا جاتا ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد بیان کریں گے استیتن والقن یقین کرنا قرآن میں ہے : ۔ - إِنْ نَظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَما نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ [ الجاثية 32] ہم اس کو محض ظن ہی خیال کرتے ہیں اور ہمیں یقین نہیں آتا ۔ وَفِي الْأَرْضِ آياتٌ لِلْمُوقِنِينَ [ الذاریات 20] اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں ۔ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ [ البقرة 118] یقین کرنے والوں کیلئے اور آیت کریمہ : ۔ وَما قَتَلُوهُ يَقِيناً [ النساء 157] اور انہوں نے عیسیٰ کو یقینا نہیں کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ انہیں ان کے قتل ہوجانے کا یقین نہیں ہے بلکہ ظن وتخمین سے ان کے قتل ہوجانے کا حکم لگاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٩ (وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ )- عام طور پر یہاں ” یقین “ سے موت مراد لی گئی ہے۔ یعنی اپنی زندگی کی آخری گھڑی تک اس کی بندگی میں لگے رہیے اور اس سلسلے میں لمحہ بھر کے لیے بھی غفلت نہ کیجیے :- تا دم آخر دمے فارغ مباش - اندریں رہ مے تراش و مے خراش - بعض لوگ یہاں ” یقین “ سے اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی مراد لیتے ہیں کہ کفار کے خلاف اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آجائے ‘ اس کی مدد اہل حق کے شامل حال ہوجائے اور انہیں کفار پر غلبہ حاصل ہوجائے۔- بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْحِجْر حاشیہ نمبر :53 یعنی تبلیغ حق اور دعوت اصلاح کی کوششوں میں جن تکلیفوں اور مصیبتوں سے تم کو سابقہ پیش آتا ہے ، ان کے مقابلے کی طاقت اگر تمہیں مل سکتی ہے تو صرف نماز اور بندگی رب پر استقامت سے مل سکتی ہے ۔ یہی چیز تمہیں تسلی بھی دے گی ، تم میں صبر بھی پیدا کرے گی ، تمہارا حوصلہ بھی بڑہائے گی ، اور تم کو اس قابل بھی بنادے گی کہ دنیا بھر کی گالیوں اور مذمتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں اس خدمت پر ڈٹے رہو جس کی انجام دہی میں تمہارے رب کی رضا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

34: اس سے مراد موت ہے، یعنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزا ردو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وفات دے کر اپنے پاس بلالیں