Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تمہارے فائدوں کے سامان چوپائے اور دوسرے جانوروں کی پیدائش کا احسان بیان فرما کر مزید احسانوں کا ذکر فرماتا ہے کہ اوپر سے پانی وہی برساتا ہے جس سے تم فائدہ اٹھاتے ہو اور تمہارے فائدے کے جانور بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں میٹھا صاف شفاف خوش گوار اچھے ذائقے کا پانی تمہارے پینے کے کام آتا ہے اس کا احسان نہ ہو تو وہ کھاری اور کڑوا بنا دے اسی آب باراں سے درخت اگتے ہیں اور وہ درخت تمہارے جانوروں کا چارہ بنتے ہیں ۔ سوم کے معنی چرنے کے ہیں اسی وجہ سے اہل سائمہ چرنے والے اونٹوں کو کہتے ہیں ۔ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج نکلنے سے پہلے چرانے کو منع فرمایا ۔ پھر اس کی قدرت دیکھو کہ ایک ہی پانی سے مختلف مزے کے ، مختلف شکل و صورت کے ، مختلف خوشبو کے طرح طرح کے پھل پھول وہ تمہارے لئے پیدا کرتا ہے پس یہ سب نشانیاں ایک شخص کو اللہ کی وحدانیت جاننے کے لئے کافی ہیں اسی کا بیان اور آیتوں میں اس طرح ہوا ہے کہ آسمان و زمین کا خالق ، بادلوں سے پانی برسانے والا ، ان سے ہرے بھرے باغات پیدا کرنے والا ، جن کے پیدا کرنے سے تم عاجز تھے اللہ ہی ہے اس کے ساتھ اور کوئی معبود نہیں پھر بھی لوگ حق سے ادھر ادھر ہو رہے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً : ” السَّمَاۗءِ “ کا لفظی معنی بلند چیز ہے، کیونکہ یہ ” سَمُوٌّ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی بلندی ہے، اس لیے یہ لفظ بادل، بارش، چھت (دیکھیے انبیاء : ٣٢) اور آسمان سب کے لیے بولا جاتا ہے اور ہر جگہ قرینے سے اس کا معنی متعین ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدت و قدرت کے دلائل میں حیوانات کے بعد اب پانی اور نباتات کا ذکر فرمایا، کیونکہ انسان کی غذا لحمیات، نشاستے، شکر وغیرہ زمین سے پیدا ہونے والی بیشمار چیزوں اور پانی سے مکمل ہوتی ہے۔ زمین کا ستر (٧٠) فیصد حصہ نہایت تلخ سمندر ہے، جس کا پانی انسان کے پینے کے لائق نہیں، مگر زمین اور سمندر کو تعفن سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کا نمکین ہونا نہایت ضروری ہے، ورنہ بدبو اور تعفن سے نہ سمندر میں کوئی چیز زندہ رہتی، نہ زمین پر۔ انھیں بخارات کی صورت میں اڑا کر بادلوں سے میٹھا پانی برسانے والی ایک ہی ذات پاک ہے، اگر وہ پانی نہ برساتا تو انسان، حیوان، نباتات سب کا نام و نشان مٹ جاتا اور اگر وہ سمندر کی طرح شدید کڑوا ہی برسا دیتا تو پھر بھی خشکی کی ہر زندہ چیز انسان، حیوان اور نباتات معدوم ہوجاتے، فرمایا : (لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰهُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ ) [ الواقعۃ : ٧٠ ] ” اگر ہم چاہیں تو اسے سخت نمکین بنادیں، پھر تم شکر ادا کیوں نہیں کرتے ؟ “- لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ ۔۔ : اسی پانی میں سے کچھ حصہ تمہارے پینے کے کام آتا ہے اور کچھ پودے اگانے کے، جن میں تم اپنے جانور چراتے ہو۔ یہ نہ ہو تو نہ تم رہو، نہ تمہارے پودے اور نہ ان میں چرنے والے جانور۔ ” شَجَـرٌ“ اگرچہ تنے والے درخت کو کہتے ہیں مگر یہاں زمین سے اگنے والی ہر چیز مراد ہے، دلیل اس کی ” فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ “ (اس میں تم چراتے ہو) ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تمہارے (فائدہ کے) واسطے آسمان سے پانی برسایا جس سے تم کو پینے کو ملتا ہے اور جس (کے سبب) سے درخت (پیدا ہوتے) ہیں جن میں تم (اپنے مواشی کو) چرنے دیتے ہو (اور) اس (پانی) سے تمہارے (فائدے کے) لئے کھیتی اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل (زمین سے) اگاتا ہے بیشک اس (مذکور) میں سوچنے والوں کے لئے (توحید کی) دلیل (موجود) ہے اور اس (اللہ) نے تمہارے (فائدہ کے) لئے رات اور دن اور سورج اور چاند کو (اپنا) مسخر (قدرت) بنایا اور (اسی طرح اور) ستارے (بھی) اس کے حکم سے مسخر (قدرت) ہیں بیشک اس (مذکور) میں (بھی) عقلمند لوگوں کے لئے (توحید کی) چند دلیلیں (موجود) ہیں اور (اسی طرح) ان چیزوں کو بھی مسخر (قدرت) بنایا جن کو تمہارے (فائدہ کیلئے) اس طور پر پیدا کیا ہے کہ ان کے اقسام (یعنی اجناس و انواع واصناف) مختلف ہیں (اس میں تمام حیوانات و نباتات و جمادات مفردات ومرکبات داخل ہوگئے) بیشک اس (مذکور) میں (بھی) سمجھدار لوگوں کے لئے (توحید کی) دلیل (موجود) ہے اور وہ (اللہ) ایسا ہے کہ اس نے دریا کو (بھی) مسخر (قدرت) بنایا تاکہ اس میں سے تازہ تازہ گوشت (یعنی مچھلی نکال نکال کر) کھاؤ اور (تاکہ) اس میں سے (موتیوں کا) گہنا نکالو جس کو تم (مرد و عورت سب) پہنتے ہو اور (اے مخاطب اس دریا کا ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ) تو کشتیوں کو (خواہ چھوٹی ہوں یا بڑی جیسے بڑے جہاز تو ان کو) دیکھتا ہے کہ اس (دریا) میں (اس کا) پانی چیرتی ہوئی چلی جا رہی ہیں اور (نیز اس لئے دریا کو مسخر قدرت بنایا) تاکہ تم (اس میں مال تجارت لے کر سفر کرو اور اس کے ذریعہ سے) خدا کی روزی تلاش کرو اور تاکہ (ان سب فائدوں کو دیکھ کر اس کا) شکر (ادا) کرو اور اس نے زمین میں پہاڑ رکھ دئیے تاکہ وہ (زمین) تم کو لے کر ڈگمگانے (اور ہلنے) نہ لگے اور اس نے (چھوٹی چھوٹی) نہریں اور رستے بنائے تاکہ (ان رستوں کے ذریعہ سے اپنی) منزل مقصود تک پہنچ سکو اور (ان رستوں کی پہچان کے لئے) بہت سی نشانیاں بنائیں (جیسے پہاڑ درخت تعمیرات وغیرہ جن سے رستہ پہچانا جاتا ہے ورنہ اگر تمام زمین کی سطح یکساں حالت پر ہوتی تو رستہ ہرگز نہ پہچانا جاتا) اور ستاروں سے بھی لوگ رستہ معلوم کرتے ہیں (چنانچہ ظاہر و معلوم ہے)- معارف و مسائل :- مِنْهُ شَجَـرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ لفظ شجر اکثر درخت کے لئے بولا جاتا ہے جو ساق یعنی تنے پر کھڑا ہوتا ہے اور کبھی مطلق زمین سے اگنے والی ہر چیز کو بھی شجر کہتے ہیں گھاس اور بیل وغیرہ بھی اس میں داخل ہوتی ہیں اس آیت میں یہی معنی مراد ہیں کیونکہ آگے جانوروں کے چرانے کا ذکر ہے اس کا تعلق زیادہ تر گھاس ہی سے ہے۔- تُسِيْمُوْنَ اسامت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں جانور کو چراگاہ میں چرنے کیلئے چھوڑنا

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّمِنْهُ شَجَـرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ 10؀- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - سام - السَّوْمُ أصله : الذّهاب في ابتغاء الشیء، فهو لفظ لمعنی مركّب من الذّهاب والابتغاء، وأجري مجری الذّهاب في قولهم : سَامَتِ الإبل، فهي سَائِمَةٌ ، ومجری الابتغاء في قولهم : سُمْتُ كذا، قال : يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذابِ- [إبراهيم 6] ، ومنه قيل : سِيمَ فلان الخسف، فهو يُسَامُ الخسف، ومنه : السَّوْمُ في البیع، فقیل :- ( صاحب السّلعة أحقّ بالسّوم) «1» ويقال : سُمْتُ الإبل في المرعی، وأَسَمْتُهَا، وسَوَّمْتُهَا، قال :- وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ- [ النحل 10] ، والسِّيمَاءُ والسِّيمِيَاءُ : العلامة، قال الشاعر :- 254-- له سيمياء لا تشق علی البصر - «2» وقال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] ، وقد سَوَّمْتُهُ أي : أعلمته، وقوله عزّ وجلّ في الملائكة : مُسَوِّمِينَ- «3» أي :- معلّمين ومُسَوِّمِينَ «4» معلّمين لأنفسهم أو لخیولهم، أو مرسلین لها، وروي عنه عليه السلام أنه قال : «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» «5» .- ( س و م ) السوم - کے - معنی کسی چیز کی طلب میں جانیکے ہیں پس اسکا مفہوم دو اجزاء سے مرکب ہے یعنی طلب اور جانا پھر کبھی صرف ذہاب یعنی چلے جانا کے معنی ہوتے ہیں ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح 29] کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ اور سومتہ کے معنی نشان زدہ کرنے کے ہیں ۔ مُسَوِّمِينَ اور مسومین کے معنی معلمین کے ہیں یعنی نشان زدہ اور مسومین ( بصیغہ فاعل ) کے معنی والے یا ان کو چھوڑ نے والے ۔ آنحضرت سے ایک روایت میں ہے «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» کہ تم بھی نشان بنالو کیونکہ فرشتوں نے اپنے لئے نشان بنائے ہوئے ہیں ۔- وہ لوگ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے اور رسیم فلان الخسف ( فلاں کو خسف کا عذاب دیا گیا ) یا ھو یسام الخسف ۔ کا محاورہ بھی اسی سے ماخوذ ہے اور اسی سے بیع مین السوم ہے جس کے معنی نرخ کرنا کے ہیں چناچہ کہا گیا ہے صاحب السلعۃ احق بالسوم سامان کا مالک نرخ کرنے کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور سمت الابل فی المرعی کے معنی چراگاہ میں چرنے کے لئے اونٹ بھیجنے کے ہیں ۔ اور اسی معنی میں اسمت الابل ( افعال) وسوم تھا ( تفعیل آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل 10] اور اس سے درخت بھی ( شاداب ) ہوتے ہیں جن میں تم اپنے چار پویاں کو چراتے ہو ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠) وہ اللہ کی ذات ایسی ہے کہ جس نے تمہارے لیے بارش برسائی کہ جنگلات اور شہروں میں تمہیں کو اس کے ذریعے سے پانی ملتا ہے اور اس کے سبب سے درخت اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لَّكُمْ مِّنْهُ شَرَابٌ وَّمِنْهُ شَجَـرٌ فِيْهِ تُسِيْمُوْنَ )- اللہ تعالیٰ ہی بارش اور برف کی صورت میں بادلوں سے پانی برساتا ہے جس پر انسانی زندگی کا براہ راست انحصار ہے اور پھر یہی پانی بیشمار نباتاتی اور حیوانی مخلوقات کو زندگی بخشتا ہے جو انسان ہی کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani