Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یہ پہاڑوں کا فائدہ بیان کیا جا رہا ہے اور اللہ کا ایک احسان عظیم بھی ہے، کیونکہ اگر زمین ہلتی رہتی تو اس میں سکونت ممکن ہی نہ رہتی۔ اس کا اندازہ ان زلزلوں سے کیا جاسکتا ہے جو چند سکینڈوں اور لمحوں کے لئے آتے ہیں، لیکن کس طرح بڑی بڑی مضبوط عمارتوں کو پیوند زمین اور شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کردیتے ہیں۔ 15۔ 2 نہروں کا سلسلہ بھی عجیب ہے، کہاں سے وہ شروع ہوتی ہیں اور کہاں کہاں، دائیں بائیں، شمال، جنوب، مشرق و مغرب ہر جہت کو سہراب کرتی ہیں۔ اس طرح راستے بنائے، جن کے ذریعے تم منزل مقصود پر پہنچتے ہو۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٥] پہاڑوں کے فوائد :۔ رواسی ایسے سلسلہ ہائے کوہ کو کہتا جاتا ہے جو سینکڑوں میلوں تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ زمین ہچکولے نہ کھائے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو پیدا کیا گیا تو وہ ڈگمگاتی اور ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑ رکھ دیئے۔ ترمذی، ابو اب التفسیر، سورة الناس) جس کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر پہاڑوں کو کسی خاص ترتیب اور حکمت سے پیدا کیا اور رکھا گیا ہے۔ کہیں اونچے اونچے پہاڑ ہیں۔ کہیں پھیلاؤ زیادہ ہے لیکن بلندی کم ہے۔ کہیں دور دور تک پہاڑوں کا نام و نشان ہی نہیں ملتا اور یہ سب کچھ زمین کے توازن ( ) کو قائم رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اور جدید تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ پہاڑوں کا وجود زلزلوں کو روکنے میں بڑا ممد ثابت ہوا ہے۔ گویا پہاڑوں کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان زمین پر سکون سے رہ سکتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے ایک خالی کشتی پانی میں ادھر ادھر ہلتی اور ڈگمگاتی رہتی ہے۔ پھر جب اس میں بوجھ ڈال دیا جائے تو اس کا ہلنا جلنا بند ہوجاتا ہے۔ ہماری زمین بھی جدید نظریہ ہیئت کے مطابق فضا میں تیزی سے تیر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسپر متناسب اور متوازن پہاڑ ٹھونک کر اس کی ڈگمگاہٹ کو بند کردیا۔- واضح رہے کہ زمین کی سورج کے گرد گردش کا مسئلہ ایک اختلافی مسئلہ ہے جو آج تک چار دفعہ بدل چکا ہے۔ بہرحال موجودہ تحقیق یہی ہے کہ زمین سورج کے گرد گردش کر رہی ہے۔ کل کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف الشمس والقمر بحسبان نیز اس گردش کے مسئلہ کا زمین کے ہچکولے کھانے کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔- پھر انھیں پہاڑوں سے اللہ نے دریاؤں کو رواں کیا۔ چناچہ دنیا کے بیشتر دریاؤں کے منابع پہاڑوں ہی میں واقع ہوئے ہیں۔ پھر انہی پہاڑوں سے ندی نالے نکلتے ہیں اور پھر دریاؤں کے ساتھ ساتھ راستے بھی بنتے چلے جاتے ہیں۔ ان قدرتی راستوں کی اہمیت پہاڑی علاقوں میں تو بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی کچھ کم اہم نہیں ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ ۔۔ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة حجر ( ١٩) اور سورة رعد (٣) یہاں پہاڑوں اور نہروں کے ساتھ راستوں کا بھی ذکر فرمایا، کیونکہ پہاڑوں میں دریا ہی راستہ بناتے ہیں اور انھی کے کناروں پر وسیع سڑکیں بنتی ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُم۔ رواسی راسیہ کی جمع ہے بھاری پہاڑ کو کہا جاتا ہے تمید مید مصدر سے مشتق ہے جس کے معنی ڈگمگانا یا مضطربانہ قسم کی حرکت کرنا ہے معنی آیت کے یہ ہیں کہ زمین کے کرہ کو حق تعالیٰ نے بہت سی حکمتوں کے ماتحت ٹھوس اور متوازن اجزاء سے نہیں بنایا اس لئے وہ کسی جانب سے بھاری کسی جانب سے ہلکی واقع ہوئی ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ زمین کو عام فلاسفروں کی طرح ساکن مانا جائے یا کچھ قدیم و جدید فلاسفروں کی طرح حرکت ہوتی جس کو اردو میں کانپنے یا ڈگمگانے سے تعبیر کیا جاتا ہے اس اضطرابی حرکت کو روکنے اور اجزاء زمین کو متوازن کرنے کے لئے حق تعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کا وزن رکھ دیا تاکہ وہ اضطرابی حرکت نہ کرسکے باقی رہا مسئلہ حرکت مستدیرہ کا جیسے تمام سیارات کرتے ہیں اور قدیم فلاسفہ میں سے فیثا غورث کی یہی تحقیق تھی اور جدید فلاسفر سب اس پر متفق ہیں اور نئے تجربات نے اس کو اور بھی زیادہ واضح کردیا ہے تو قرآن کریم میں نہ کہیں اس کا اثبات ہے نہ اس کی نفی بلکہ یہ اضطرابی حرکت جس کو پہاڑوں کے ذریعہ بند کیا گیا ہے اس حرکت مستدیرہ کے لئے اور زیادہ معین ہوگی جو سیارات کی طرح زمین کے لئے ثابت کی جاتی ہے واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَاَنْهٰرًا وَّسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ 15۝ۙ- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ- [ سبأ 13] ، وقال : رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] ، أي : جبالا ثابتات، وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] ،- ( ر س و )- رسا الشئی ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ رَواسِيَ شامِخاتٍ [ المرسلات 27] اور انچے انچے پہاڑ یہاں پہاڑوں کو بوجہ ان کے ثبات اور استواری کے رواسی کہا گیا ہے ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَالْجِبالَ أَرْساها[ النازعات 32] اور پہاڑوں کو ( اس میں گاڑ کر ) پلادیا ۔ - ميد - المَيْدُ : اضطرابُ الشیء العظیم کا ضطراب الأرض . قال تعالی: أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ- [ النحل 15] ، أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء 31] . ومَادَتِ الأغصان تمید، وقیل المَيَدانُ في قول الشاعر :- 432-- نعیما ومَيَدَاناً من العیش أخضرا وقیل : هو الممتدُّ من العیش، وميَدان الدَّابة منه، والمائدَةُ : الطَّبَق الذي عليه الطّعام، ويقال لكلّ واحدة منها [ مائدة ] «2» ، ويقال : مَادَنِي يَمِيدُنِي، أي : أَطْعَمِني، وقیل : يُعَشِّينى، وقوله تعالی: أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] قيل : استدعوا طعاما، وقیل : استدعوا علما، وسمّاه مائدة من حيث إنّ العلم غذاء القلوب کما أنّ الطّعام غذاء الأبدان .- ( م ی د ) المید - ۔ زمین کی طرح کی کسی بڑی چیز کا مضطرب ہونا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ [ النحل 15] کہ تم کو نے کر کہیں جھک نہ جائے ۔ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ [ الأنبیاء 31] تاکہ لوگوں ( کے بوجھ سے ہلنے اور جھکنے نہ لگے ۔ مادت اکا غصان تمید شاخوں کا مضطرب ہونا بعض نے کہا ہے کہ شاعر کے کلام ( 417 ) فعیما ومیدا انا من العیش اخضرا نعمتیں اور سر سبز لہلہاتی ہوئی زندگی میں بھی میدا نا مادت الا غصبان سے ہے اور اس کے معین کشادہ زندگی کے ہیں اور اسی سے میدان الدابۃ ہے جس کے منعی جانور کے کھلے میدان میں پھرنے کے ہیں ۔ المائدۃ اصل میں اس خوان کو کہتے ہیں جس پر کھانا چنا ہوا ہو ۔ اور ہر ایک پر یعنی کھانے اور خالی خوان پر انفراد بھی مائدۃ کا لفظ بولا جاتا ہے یہ مادنی یمیدنی سے ہے جس کے معنی رات کا کھانا کھلانا بھی کئے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة 114] ہم پر آسمان سے خواں نازل فرما ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ انہوں نے کھانا طلب کیا تھا ۔ اور بعض نے کہا ہے علم کے لئے دعا کی تھی اور علم کو مائدۃ سے اس ؛لئے تعبیر فرمایا ہے کہ علم روح کی غذا بنتا ہے جیسا کہ طعام بدن کے لئے غذا ہوتا ہے ۔- نهر - النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، - ( ن ھ ر ) النھر - ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٥) اور تاکہ تم اللہ تعالیٰ کے انعامات کا شکر ادا کرو اور اس زمین میں بڑے بڑے مضبوط پہاڑ رکھ دیے تاکہ وہ زمین کو ہلنے نہ دیں اور اس نے تمہارے فوائد کے لیے نہریں بنائیں اور راستے بنائے تاکہ تم راستوں کو پہچان کر منزل مقصود تک پہنچ جاؤ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (وَاَلْقٰى فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِكُمْ وَاَنْهٰرًا وَّسُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ )- یہاں اَنْہٰرًا وَّسُبُلاً کے اکٹھے ذکر کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو عملی طور پر بھی ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ پہاڑی سلسلوں میں عام طور پر ندیوں کی گزر گاہوں کے ساتھ ساتھ ہی راستے بنتے ہیں۔ اسی طرح پہاڑوں کے درمیان قدرتی وادیاں انسانوں کی گزر گاہیں بھی بنتی ہیں اور پانی کے ریلوں کو راستے بھی فراہم کرتی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :12 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سطح زمین پر پہاڑوں کے ابھار کا اصل فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زمین کی گردش اور اس کی رفتار میں انضباط پیدا ہوتا ہے ۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر پہاڑوں کے اس فائدے کو نمایاں کر کے بتایا گیا ہے جس سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے تمام فائدے ضمنی ہیں اور اصل فائدہ یہی حرکت زمین کو اضطراب سے بچا کر منضبط ( ) کرنا ہے ۔ سُوْرَة النَّحْل حاشیہ نمبر :13 یعنی وہ راستے جو ندی نالوں اور دریاؤں کے ساتھ بنتے چلے جاتے ہیں ۔ ان قدرتی راستوں کی اہمیت خصوصیت کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں محسوس ہوتی ہے ، اگرچہ میدانی علاقوں میں بھی وہ کچھ کم اہم نہیں ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: جب زمین کو شروع میں سمندر پر بچھایا گیا تو وہ ڈگمگاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے ذریعے اس کو جما دیا ہے۔ جدید سائنس کے مطابق اب بھی بڑے بڑے برا اعظم سمندر کے پانی پر تھوڑے تھوڑے سرکتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ سرکنا اتنا معمولی ہوتا ہے کہ انسان کو احساس نہیں ہوتا۔