اللہ ہی معبود برحق ہے ، اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، وہ واحد ہے ، احد ہے ، فرد ہے ، صمد ہے ۔ کافروں کے دل بھلی بات سے انکار کر تے ہیں وہ اس حق کلمے کو سن کر سخت حیرت زدہ ہو جاتے ہیں ۔ اللہ واحد کا ذکر سن کر ان کے دل مرجھا جاتے ہیں ۔ ہاں اوروں کا ذکر ہو تو کھل جاتے ہیں یہ اللہ کی عبادت سے مغرور ہیں ۔ نہ ان کے دل میں ایمان نہ عبادت کے عادی ۔ ایسے لوگ ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔ یقینا اللہ تعالیٰ ہر چھپے کھلے کا عالم ہے ہر عمل پر جزا اور سزا دے گا وہ مغرور لوگوں سے بیزار ہے ۔
22۔ 1 یعنی ایک اللہ کا ماننا منکرین اور مشرکین کے لئے بہت مشکل ہے وہ کہتے ہیں اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود کردیا یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے دوسرے مقام پر فرمایا جب ایک اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو منکرین آخرت کے دل تنگ ہوجاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا دوسرے معبودوں کا ذکر آجاتا ہے تو خوش ہوتے ہیں۔
[٢٣] آخرت کا انکار تکبر ہے :۔ تکبر اس لحاظ سے ہے کہ یوم جزاء و سزا کے قائم ہونے سے انکار دراصل اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا انکار ہے۔ ایک اللہ کا عادل ہونا دوسرے قادر مطلق ہونا اور جو شخص اتنے واضح اور فطری دلائل کو دیکھتے ہوئے بھی اللہ کی قدرت مطلقہ سے انکار کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر اور اکڑ باز کون ہوسکتا ہے ؟ جبکہ رسول اللہ نے تکبر کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ تکبر یہ ہے کہ حق بات کو ٹھکرا دیا جائے اور دوسروں کو حقیر سمجھا جائے۔ (مسلم، کتاب الایمان۔ باب تحریم الکبر و بیانہ)
اِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۔۔ : گزشتہ تمام دلائل اور احسانات بیان کرنے کے بعد ان کا نتیجہ اور خلاصہ بیان فرمایا کہ تمہارا معبود جس کی عبادت حق ہے، وہ ایک ہی ہے۔ ” وَّاحِدٌ“ کا مطلب ہے کہ وہ ایک ہے، کوئی اس کا ثانی یا شریک نہیں، نہ ذات میں نہ صفات میں۔ آگے وہ اسباب بیان کیے جو انسان کو توحید سے پھسلا کر شرک کی طرف لے جاتے ہیں، یہ اسباب درج ذیل ہیں : 1 ان میں سے پہلا سبب آخرت پر ایمان نہ ہونا ہے۔ آیت میں مشرکین ہی کو ” فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ “ فرمایا ہے، اگر یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے زندہ کرکے باز پرس کرنی ہے اور وہاں جزا و سزا صرف اس کے ہاتھ میں ہوگی، کسی دوسرے کا دخل نہ ہوگا تو آدمی کسی اور کو کس طرح اس کے ساتھ شریک کرسکتا ہے۔ اس لیے آخرت کے منکر اللہ اکیلے کا ذکر سن ہی نہیں سکتے، جیسا کہ فرمایا : (وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ ) [ الزمر : ٤٥ ] ” اور جب اس اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان لوگوں کے دل تنگ پڑجاتے ہیں جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے جو اس کے سوا ہیں تو وہ بہت خوش ہوجاتے ہیں۔ “ 2 دوسرا سبب یہ کہ ان کے دل انکار کرنے والے ہیں، وہ نہ کسی دلیل کو مانتے ہیں نہ اللہ کی تمام نعمتیں جاننے کے باوجود کوئی نعمت تسلیم کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (يَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ يُنْكِرُوْنَهَا ) [ النحل : ٨٣ ] ” وہ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں، پھر اس کا انکار کرتے ہیں۔ “ وہ مسخ ہوچکے ہیں اور ان پر مہر لگ چکی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ ۭ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ) [ البقرۃ : ٧ ] ” اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی اور ان کی نگاہوں پر بھاری پردہ ہے۔ “ حذیفہ (رض) کی حدیث میں ان کی مثال الٹے کوزے کی دی گئی ہے، جس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوتی، چناچہ وہ دل نہ نیکی کو نیکی سمجھتے ہیں نہ برائی کو برائی، سوائے ان کی اپنی خواہش کے جس کی محبت انھیں پلا دی گئی ہے۔ [ مسلم، الإیمان، باب رفع الأمانۃ و الإیمان۔۔ : ١٤٤ ]- 3 تیسرا سبب ان کا استکبار یعنی اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنا ہے۔ ان کا تکبر انھیں کوئی خیر خواہی کی بات نہ سننے دیتا ہے نہ ماننے دیتا ہے اور یہی ان کی تمام بیماریوں کی جڑ ہے اور یہ ایسی خطرناک چیز ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : ( لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ کِبْرٍ ، قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا، وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً. قَالَ إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ ، الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ ) [ مسلم، الإیمان، باب تحریم الکبر و بیانہ : ٩١ ]” وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر کبر ہوگا۔ “ ایک آدمی نے کہا : ” آدمی پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو۔ “ آپ نے فرمایا : ” بیشک اللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے، کبر حق کو تسلیم نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ “
اِلٰـهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۚ فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ 22- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔ - الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا
(٢٢) اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ تمہارا سچا معبود ایک ہی ہے یہ بت وغیرہ نعوذ باللہ تمہارے معبود نہیں جو لوگ مرنے کے بعد زندگی پر ایمان نہیں لاتے، ان کے دل ہی توحید سے منکر ہورہے ہیں اور وہ ایمان لانے سے تکبر کرتے ہیں۔
(فَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بالْاٰخِرَةِ قُلُوْبُهُمْ مُّنْكِرَةٌ وَّهُمْ مُّسْـتَكْبِرُوْنَ )- اس نکتے کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں آخرت کا یقین نہیں ہے وہ حق بات کو قبول کرنے سے کیوں جھجکتے ہیں اور ان کے اندر استکبار کیوں پیدا ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کا فلسفہ یہ ہے کہ جو شخص فطرت سلیمہ کا مالک ہے اس کے اندر اچھائی اور برائی کی تمیز موجود ہوتی ہے۔ اس کا دل اس حقیقت کا قائل ہوتا ہے کہ اچھائی کا اچھا بدلہ ملنا چاہیے اور برائی کا برا ع ” گندم از گندم بروید ‘ جو زجو “- یہی فلسفہ یا تصور منطقی طور پر ایمان بالآخرت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ مگر دنیا میں جب پوری طرح نیکی کی جزا اور برائی کی سزا ملتی ہوئی نظر نہیں آتی تو ایک صاحب شعور انسان لازماً سوچتا ہے کہ اعمال اور اس کے نتائج کے اعتبار سے دنیوی زندگی ادھوری ہے اور اس دنیا میں انصاف کی فراہمی کماحقہ ممکن ہی نہیں۔ مثلاً اگر ایکّ ستر سالہ بوڑھا ایک نوجوان کو قتل کر دے تو اس دنیا کا قانون اسے کیا سزا دے گا ؟ ویسے تو یہاں انصاف تک پہنچنے کے لیے بہت سے کٹھن مراحل طے کرنے پڑتے ہیں ‘ لیکن اگر یہ تمام مراحل طے کر کے انصاف مل بھی جائے تو قانون زیادہ سے زیادہ اس بوڑھے کو پھانسی پر لٹکا دے گا۔ لیکن کیا اس بوڑھے کی جان واقعی اس نوجوان مقتول کی جان کے برابر ہے ؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وہ نوجوان تو اپنے خاندان کا واحد سہارا تھا ‘ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوئے ‘ ایک نوجوان عورت بیوہ ہوئی ‘ خاندان کا معاشی سہارا چھن گیا۔ اس طرح اس کے لواحقین اور خاندان کے لیے اس قتل کے اثرات کتنے گھمبیر ہوں گے اور کہاں کہاں تک پہنچیں گے ‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دوسری طرف وہ بوڑھا شخص جو اپنی طبعی عمر گزار چکا تھا ‘ جس کے بچے خود مختار زندگیاں گزار رہے ہیں ‘ جس کی کوئی معاشی ذمہ داری بھی نہیں ہے ‘ اس کے پھانسی پر چڑھ جانے سے اس کے پس ماندگان پر ویسے اثرات مرتب نہیں ہوں گے جیسے اس نوجوان کی جان جانے سے اس کے پس ماندگان پر ہوئے تھے۔ ایسی صورت میں دنیا کا کوئی قانون مظلوم کو پورا پورا بدلہ دے ہی نہیں سکتا۔ ایسی مثالیں عقلی اور منطقی طور پر ثابت کرتی ہیں کہ یہ دنیا نا مکمل ہے۔ اس دنیا کے معاملات اور افعال کا ادھورا پن ایک دوسری دنیا کا تقاضا کرتا ہے جس میں اس دنیا کے تشنہ تکمیل رہ جانے والے معاملات پورے انصاف کے ساتھ اپنے اپنے منطقی انجام کو پہنچیں۔ اب ایک ایسا شخص جو فطرت سلیمہ کا مالک ہے ‘ اس کے شعور میں نیکی اور بدی کا ایک واضح اور غیر مبہم تصور موجود ہے ‘ وہ لازمی طور پر آخرت کے بارے میں مذکورہ منطقی نتیجے پر پہنچے گا اور پھر وہ قرآن کے تصور آخرت کو قبول کرنے میں بھی پس و پیش نہیں کرے گا ‘ مگر اس کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جس کے شعور میں نیکی اور بدی کا واضح تصور موجود نہیں ‘ وہ قرآن کے تصور آخرت پر بھی دل سے یقین نہیں رکھتا اور فکر آخرت سے بےنیاز ہو کر غرور اور تکبر میں بھی مبتلا ہوچکا ہے ‘ اس کا دل پیغامِ حق کو قبول کرنے سے بھی منکر ہوگا۔ ایسے شخص کے سامنے حکیمانہ درس اور عالمانہ وعظ سب بےاثر ثابت ہوں گے۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :20 یعنی آخرت کے انکار نے ان کو اس قدر غیر ذمہ دار ، بے فکر ، اور دنیا کی زندگی میں مست بنا دیا ہے کہ اب انہیں کسی حقیقت کا انکار کر دینے میں باک نہیں رہا ، کسی صداقت کی ان کے دل میں قدر باقی نہیں رہی ، کسی اخلاقی بندش کو اپنے نفس پر برداشت کرنے کے لیے وہ تیار نہیں رہے ، اور انہیں یہ تحقیق کرنے کے پروا ہی نہیں رہی کہ جس طریقے پر وہ چل رہے ہیں وہ حق ہے بھی یا نہیں ۔