قرآن حکیم کے ارشادات کو دیرینہ کہنا کفر کی علامت ہے ان منکرین قرآن سے جب سوال کیا جائے کہ کلام اللہ میں کیا نازل ہوا تو اصل جواب سے ہٹ کر بک دیتے ہیں کہ سوائے گزرے ہوئے افسانوں کے کیا رکھا ہے؟ وہی لکھ لئے ہیں اور صبح شام دوہرا رہے ہیں پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر افترا باندھتے ہیں کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی اس کے خلاف اور کچھ کہنے لگتے ہیں ۔ دراصل کسی بات پر جم ہی نہیں سکتے اور یہ بہت بری دلیل ہے ان کے تمام اقوال کے باطل ہونے کی ۔ ہر ایک جو حق سے ہٹ جائے وہ یونہی مارا مارا بہکا بہکا پھرتا ہے کبھی حضور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر کہتے ، کبھی شاعر ، کبھی کاھن ، کبھی مجنون ۔ پھر ان کے بڈھے گرو ولید بن مغیرہ مخزومی نے انہیں بڑے غور و خوض کے بعد کہا کہ سب مل کر اس کلام کو موثر جادو کہا کرو ۔ ان کے اس قول کا نتیجہ بد ہو گا اور ہم نے انہیں اس راہ پر اس لئے لگا دیا ہے کہ یہ اپنے پورے گناہوں کے ساتھ ان کے بھی کچھ گناہ اپنے اوپر لادیں جو ان کے مقلد ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے ہدایت کی دعوت دینے والے کو اپنے اجر کے ساتھ اپنے متبع لوگوں کا اجر بھی ملتا ہے لیکن ان کے اجر کم نہیں ہوتے اور برائی کی طرف بلانے والوں کو ان کی ماننے والوں کے گناہ بھی ملتے ہیں لیکن ماننے والوں کے گناہ کم ہو کر نہیں ۔ قرآن کریم کی اور آیت میں ہے ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ ) 29 ۔ العنکبوت:13 ) یہ اپنے گناہوں کے بوجھ کے ساتھ ہی ساتھ اور بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان کے افترا کا سوال ان سے قیامت کے دن ہونا ضروری ہے ۔ پس ماننے والوں کے بوجھ گو ان کی گردنوں پر ہیں لیکن وہ بھی ہلکے نہیں ہوں گے ۔
24۔ 1 یعنی اعراض اور استہزا کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مکذبین جواب دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو کچھ بھی نہیں اتارا، اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیں جو پڑھ کر سناتا ہے، وہ تو پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جو کہیں سے سن کر بیان کرتا ہے۔
[٢٤] قرآن میں بس پہلے لوگوں کی کہانیاں ہی ہیں :۔ جب رسول اللہ اور آپ کی دعوت کا چرچا حدود مکہ سے نکل کر آس پاس کے علاقوں میں بھی پھیل گیا تو کفار مکہ جہاں کہیں جاتے اور لوگ ان سے پوچھتے کہ تم میں جو نبی پیدا ہوا ہے اس کی تعلیم کیا ہے اور وہ کس چیز کی دعوت دیتا ہے تو یہ لوگ بڑی بےنیازی اور لاپروائی سے کہہ دیتے کہ بس کچھ پہلے لوگوں کی داستانیں اور قصے کہانیاں ہی سنا دیتا ہے۔ کوئی نئی یا کام کی بات ان میں نہیں ہوتی اور ایسی باتیں ہم پہلے ہی بہت سن چکے ہیں۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوْٓا ۔۔ : ” اَسَاطِيْرُ “ ” أُسْطُوْرَۃٌ“ کی جمع ہے، جیسے ” اَعَاجِیْبُ “ ” أُعْجُوْبَۃٌ“ کی۔ مراد بےاصل جھوٹی کہانیاں اور افسانے ہیں، یہ ان متکبر کفار کا قرآن مجید کے متعلق تبصرہ ہے جو وہ آپس میں کرتے اور اس کو پھیلاتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے، بلکہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پچھلے لوگوں کے کچھ قصے کہیں سے سن لیے ہیں، انھی کو جوڑ جاڑ کر اللہ کے کلام کے نام سے لوگوں پر پیش کر رہے ہیں۔
خلاصہ تفسیر :- اور جب ان سے کیا جاتا ہے (یعنی کوئی ناواقف شخص تحقیق کے لئے یا کوئی واقف شخص امتحان کے لئے ان سے پوچھتا ہے) کہ تمہارے رب نے کیا چیز نازل فرمائی ہے (یعنی قرآن جس کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کا نازل کیا ہوا فرماتے ہیں آیا یہ صحیح ہے) تو کہتے ہیں کہ (صاحب وہ رب کا نازل کیا ہوا کہاں ہے) وہ تو محض بےسند باتیں ہیں جو پہلوں سے (منقول) چلی آ رہی ہیں (یعنی اہل ملل پہلے سے توحید ونبوت ومعاد کے مدعی ہوتے آئے ہیں ان ہی سے یہ بھی نقل کرنے لگے باقی یہ دعوے اللہ تعالیٰ کے تعلیم دیئے ہوئے نہیں) نتیجہ اس (کہنے) کا یہ ہوگا کہ ان لوگوں کو قیامت کے دن اپنے گناہوں کا پورا بوجھ اور جن کو یہ لوگ بےعلمی سے گمراہ کر رہے تھے ان کے گناہوں کا بھی کچھ بوجھ اپنے اوپر اٹھانا پڑے گا (گمراہ کرنے سے مراد یہی کہنا ہے اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ کا کیونکہ اس سے دوسرے آدمی کا اعتقاد خراب ہوتا ہے اور جو شخص کسی کو گمراہ کیا کرتا ہے اس گمراہ کو تو گمراہی کا گناہ ہوتا ہے اور اس گمراہ کرنے والے کو اس کی گمراہی کے سبب بن جانے کا اس حصہ تسبب کو کچھ بوجھ فرمایا گیا اور اپنے گناہ کا کامل طور پر اٹھانا ظاہر ہے) خوب یاد رکھو کہ جس گناہ کو یہ اپنے اوپر لاد رہے ہیں وہ برا بوجھ ہے (اور انہوں نے جو گمراہ کرنے کی یہ تدبیر نکالی ہے کہ دوسروں کو ایسی باتیں کر کے بہکاتے ہیں سو یہ تدبیریں حق کے مقابلہ میں نہ چلیں گی بلکہ خود انہی پر ان کا وبال ونکال عود کرے گا چنانچہ) جو لوگ ان سے پہلے ہو گذرے ہیں انہوں نے (انبیاء (علیہم السلام) کے مقابلہ اور مخالفت میں) بڑی بڑی تدبیریں کیں سو اللہ تعالیٰ نے ان (کی تدبیروں) کا بنا بنایا گھر جڑ بنیاد سے ڈھا دیا پھر (وہ ایسے ناکام ہوئے جیسے گویا) اوپر سے ان پر (اس گھر کی) چھت آ پڑی (ہو یعنی جس طرح چھت آ پڑنے سے سب دب کر رہ جاتے ہیں اسی طرح وہ لوگ بالکل خائب و خاسر ہوئے) اور (علاوہ ناکامی کے) ان پر (خدا کا) عذاب ایسی طرح آیا کہ ان کو خیال بھی نہ تھا (کیونکہ توقع تو اس تدبیر میں کامیابی کی تھی خلاف توقع ان پر ناکامی سے بڑھ کر عذاب آ گیا جو کوسوں بھی ان کے ذہن میں نہ تھا کفار سابقین پر عذابوں کا آنا معلوم و معروف ہے یہ حالت تو ان کی دنیا میں ہوئی) پھر قیامت کے دن (ان کے واسطے یہ ہوگا کہ) اللہ تعالیٰ ان کو رسوا کرے گا اور (اس میں سے ایک رسوائی یہ ہوگی کہ ان سے) یہ کہے گا کہ (تم نے جو) میرے شریک (بنا رکھے تھے) جن کے بارے میں تم ( انبیاء (علیہم السلام) اور اہل ایمان سے) لڑائی جھگڑا کرتے تھے (وہ اب) کہاں ہیں (اس حالت کو دیکھ کر حق کے) جاننے والے کہیں گے کہ آج پوری رسوائی اور عذاب کافروں پر ہے جن کی جان فرشتوں نے حالت کفر پر قبض کی تھی (یعنی آخر وقت تک کافر رہے شاید ان اہل علم کا قول بیچ میں اس لیے بیان فرمایا ہو کہ کفار کی رسوائی کا عام اور علانیہ ہونا معلوم ہوجائے) پھر کافر لوگ (اپنے شرکاء کے جواب میں) صلح کا پیغام ڈالیں گے (اور کہیں گے) کہ (شرک جو اعلیٰ درجہ کی برائی اور مخالفت حق تعالیٰ کی ہے ہماری کیا مجال تھی کہ ہم اس کے مرتکب ہوتے) ہم تو کوئی برا کام (جس میں ادنیٰ مخالفت بھی حق تعالیٰ کی ہو) نہ کرتے تھے (اس کو صلح کا مضمون اس لئے کہا گیا کہ دنیا میں شرک کا جو کہ مخالفت یقینیہ ہے بڑے جوش و خروش سے اقرار تھا کقولہ تعالیٰ وَلَوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَآ اَشْرَكنَا اور شرک کا اقرار مخالفت کا اقرار تھا خصوصا انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ تو خود صریح مخالفت کے مدعی تھے وہاں اس شرک کے انکار سے مخالفت کا انکار کریں گے اس لئے اس کو صلح فرمایا اور یہ انکار ایسا ہے جسا دوسری آیت میں ہے (آیت) وَاللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ حق تعالیٰ ان کے اس قول کو رد فرمائیں گے کہ) کیوں نہیں (بلکہ واقعی تم نے بڑے کام مخالفت کے کئے) بیشک اللہ کو تمہارے سب اعمال کی پوری خبر ہے سو (اچھا) جہنم کے دروازوں میں (سے جہنم میں) داخل ہوجاؤ (اور) اس میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہو غرض (حق سے) تکبر (اور مخالفت اور مقابلہ) کرنے والوں کا وہ برا ٹھکانا ہے (یہ عذاب آخرت کا ذکر ہوگیا پس حاصل آیات کا یہ ہوا کہ تم نے اپنے سے پہلے کافروں کا حال خسارہ و عذاب دنیا وآخرت کا سن لیا اسی طرح جو تدبیر ومکر دین حق کے مقابلہ میں تم کر رہے ہو اور خلق کو گمراہ کرنا چاہتے ہو یہی انجام تمہارا ہوگا۔- معارف و مسائل :- پچھلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور تخلیق عالم میں یکتا ہونے کا ذکر کرکے مشرکین کی اپنی گمراہی کا بیان تھا ان آیات میں دوسروں کو گمراہ کرنے اور اس کے عذاب کا بیان ہے اور اس سے پہلے ایک سوال قرآن کے متعلق اور اس سوال کے مخاطب یہاں تو مشرکین ہیں اور انہی کا جاہلانہ جواب یہاں ذکر کرکے ان پر وعید بیان کی گی ہے اور پانچ آیتوں کے بعد یہی سوال مؤمنین متقین کو خطاب کرکے کیا گیا اور ان کا جواب اور اس پر وعدہ انعامات کا ذکر ہے۔- قرآن کریم نے یہ نہیں کھولا کہ سوال کرنے والا کون تھا اس لئے مفسرین کے اس میں اقوال مختلف ہیں کسی نے کافروں کو سوال کرنے والا قرار دیا کسی نے مسلمانوں کو کسی ایک سوال مشرکین کا اور دوسرا مؤمنین کا قرار دیا لیکن قرآن کریم نے اس کو مبہم رکھ کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ اس بحث میں جانے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ سوال کس کی طرف سے تھا دیکھنا تو جواب اور اس کے نتیجہ کا ہے جن کا قرآن نے خود بیان کردیا ہے۔- مشرکین کی طرف سے خلاصہ جواب یہ ہے کہ انہوں نے ا سی کو تسلیم نہیں کیا کہ کوئی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا بھی ہے بلکہ قرآن کو پھچلے لوگوں کی کہانیاں قرار دیا قرآن کریم نے اس پر یہ وعید سنائی کہ یہ ظالم قرآن کو کہانیاں بتلا کر دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں اس کا یہ نتیجہ ان کو بھگتنا پڑے گا کہ قیامت کے روز اپنے گناہوں کا پورا وبال تو ان پر پڑنا ہی ہے جن کو یہ گمراہ کر رہے ہیں ان کا بھی کچھ وبال ان پر پڑے گا اور پھر فرمایا کہ گناہوں کے جس بوجھ کو یہ لوگ اپنے اوپر لاد رہے ہیں وہ بہت برا بوجھ ہے۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ 24ۙ- سطر - السَّطْرُ والسَّطَرُ : الصّفّ من الکتابة، ومن الشّجر المغروس، ومن القوم الوقوف، وسَطَّرَ فلان کذا : كتب سطرا سطرا، قال تعالی: ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ، وقال تعالی: وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] ، وقال : كانَ ذلِكَ فِي الْكِتابِ مَسْطُوراً [ الإسراء 58] ، أي : مثبتا محفوظا، وجمع السّطر أَسْطُرٌ ، وسُطُورٌ ، وأَسْطَارٌ ، قال الشاعر :- 233-- إنّي وأسطار سُطِرْنَ سطرا«6» وأما قوله : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] ، فقد قال المبرّد : هي جمع أُسْطُورَةٍ ، نحو : أرجوحة وأراجیح، وأثفيّة وأثافي، وأحدوثة وأحادیث . وقوله تعالی: وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، أي : شيء کتبوه کذبا ومینا، فيما زعموا، نحو قوله تعالی: أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5]- ( س ط ر ) السطر - والسطر قطار کو کہتے ہیں خواہ کسی کتاب کی ہو یا درختوں اور آدمیوں کی ۔ اور سطر فلان کذا کے معنی ایک ایک سطر کر کے لکھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ ن وَالْقَلَمِ وَما يَسْطُرُونَ [ القلم 1] ن قلم کی اور جو ( اہل قلم ) لکھتے ہیں اس کی قسم ۔ وَالطُّورِ وَكِتابٍ مَسْطُورٍ [ الطور 1- 2] اور کتابت جو لکھی ہوئی ہے ۔ یہ حکم کتاب ( یعنی قرآن میں لکھ دیا گیا ہے ۔ یعنی غفو ذا اور ثابت ہے ۔ اور سطر کی جمع اسطر وسط ور واسطار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ( 227 ) انی واسطار سطرن سطرا یعنی قسم ہے قرآن کی سطروں کی کہ میں اور آیت کریمہ : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ الأنعام 24] پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں ۔ میں مبرد نے کہا ہے کہ یہ اسطرۃ کی جمع ہے جیسے ارجوحۃ کی جمع اراجیع اور اثقیۃ کی جمع اثانی اور احد وثہ کی احادیث آتی ہے ۔ اور آیت : ۔ وَإِذا قِيلَ لَهُمْ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قالُوا أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] اور جب ان ( کافروں سے کہا جاتا ہے کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہے ۔ تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں یعنی انہوں نے بزعم خود یہ کہا کہ یہ جھوٹ موٹ کی لکھی ہوئی کہانیاں ہیں جیسا کہ دوسری جگہ ان کے قول کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَها فَهِيَ تُمْلى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا [ الفرقان 5] اور کہتے ہیں کہ یہ ( پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں جن کو اس نے جمع کر رکھا ہے وہ صبح وشام ان کو پڑھو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ۔
(٢٤) جب ان حصے کرنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے سامنے تمہارے پروردگار کے کیا احکامات بیان کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ وہ تو پہلے لوگوں کی محض بےبنیاد باتیں ہیں۔
آیت ٢٤ (وَاِذَا قِيْلَ لَهُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّكُمْ )- نبی اکرم کی دعوت کا چرچا جب مکہ کے اطراف و اکناف میں ہونے لگا تو لوگ اہل مکہ سے پوچھتے کہ محمد جو کہہ رہے ہیں کہ مجھ پر اللہ کا کلام نازل ہوتا ہے تم لوگوں نے تو یہ کلام سنا ہے چناچہ تمہاری اس کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ اس کے مضامین کیا ہیں ؟- (قَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ )- کہ یہ کلام تو بس پرانے قصے کہانیوں پر مشتمل ہے۔ یہ سب گزشتہ قوموں کے واقعات ہیں جو ادھر ادھر سے سن کر ہمیں سنا دیتے ہیں اور پھر ہم پر دھونس جماتے ہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :22 نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا چرچا جب اطراف و اکناف میں پھیلا تو مکے کے لوگ جہاں کہیں جاتے تھے ان سے پوچھا جاتا تھا کہ تمہارے ہاں جو صاحب نبی بن کر اٹھے ہیں وہ کیا تعلیم دیتے ہیں؟ قرآن کس قسم کی کتاب ہے؟ اس کے مضامین کیا ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے سوالات کا جواب کفار مکہ ہمیشہ ایسے الفاظ میں دیتے تھے جن سے سائل کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی کتاب کے متعلق کوئی نہ کوئی شک بیٹھ جائے ، یا کم از کم اس کو آپ سے آپ کی نبوت کے معاملے سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہے ۔