نمرود کا تذکرہ بعض تو کہتے ہیں اس مکار سے مراد نمرود ہے جس نے بالاخانہ تیار کیا تھا ۔ سب سے پہلے سب سے بڑی سرکشی اسی نے زمین میں کی ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ہلاک کرنے کو ایک مچھر بھیجا جو اس کے نتھنے میں گھس گیا اور چار سو سال تک اس کا بھیجا چاٹتا رہا ، اس مدت میں اسے اس وقت قدرے سکون معلوم ہوتا تھا جب اس کے سر پر ہتھوڑے مارے جائیں ، خوب فساد پھیلایا تھا ۔ بعض کہتے ہیں اس کے سر پر ہتھوڑے پڑتے رہتے تھے ۔ اس نے چار سو سال تک سلطنت بھی کی تھی اور خوب فساد پھیلایا تھا ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد بخت نصر ہے یہ بھی بڑا مکار تھا لیکن اللہ کو کوئی کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟ گو اس کا مکر پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے سرکا دینے والا ہو ۔ بعض کہتے ہیں یہ تو کافروں اور مشرکوں نے اللہ کے ساتھ جو غیروں کی عبادت کی ان کے عمل کی بربادی کی مثال ہے جیسے حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت ( وَمَكَرُوْا مَكْرًا وَّمَكَرْنَا مَكْرًا وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ) 27 ۔ النمل:50 ) ان کافروں نے بڑا ہی مکر کیا ، ہر حیلے سے لوگوں کو گمراہ کیا ، ہر وسیلے سے انہیں شرک پر آمادہ کیا ۔ چنانچہ ان کے چیلے قیامت کے دن ان سے کہیں گے کہ تمہارا رات دن کا مکر کہ ہم سے کفر و شرک کے لیے کہنا ، الخ ۔ ان کی عما رت کی جڑ اور بنیاد سے عذاب الٰہی آیا یعنی بالکل ہی کھو دیا اصل سے کاٹ دیا جیسے فرمان ہے جب لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے ۔ اور فرمان ہے ان کے پاس اللہ ایسی جگہ سے آیا جہاں کا انہیں خیال بھی نہ تھا ، ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ یہ اپنے ہاتھوں اپنے مکانات تباہ کرنے لگے اور دوسری جانب سے مومنوں کے ہاتھوں مٹے ، عقل مندو عبرت حاصل کرو ۔ یہاں فرمایا کہ اللہ کا عذاب ان کی عمارت کی بنیاد سے آ گیا اور ان پر اوپر سے چھت آ پڑی اور نا دانستہ جگہ سے ان پر عذاب اتر آیا ۔ قیامت کے دن کی رسوائی اور فضیحت ابھی باقی ہے ، اس وقت چھپا ہوا سب کھل جائے گا ، اندر کا سب باہر آ جائے گا ۔ سارا معاملہ طشت ازبام ہو جائے گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر غدار کے لئے اس کے پاس ہی جھنڈا گاڑ دیا جائے گا جو اس کے غدر کے مطابق ہو گا اور مشہور کر دیا جائے گا کہ فلاں کا یہ غدر ہے جو فلاں کا لڑکا تھا ۔ اسی طرح ان لوگوں کو بھی میدان محشر میں سب کے سامنے رسوا کیا جائے گا ۔ ان سے ان کا پروردگار ڈانٹ ڈپٹ کر دریافت فرمائے گا کہ جن کی حمایت میں تم میرے بندوں سے الجھتے رہتے تھے وہ آج کہاں ہیں ؟ تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے ؟ آج بےیار و مددگار کیوں ہو ؟ یہ چپ ہو جائیں گے ، کیا جواب دیں ؟ لا چار ہو جائیں گے ، کون سی جھوٹی دلیل پیش کریں ؟ اس وقت علماء کرام جو دنیا اور آخرت میں اللہ کے اور مخلوق کے پاس عزت رکھتے ہیں جواب دیں گے کہ رسوائی اور عذاب آج کافروں کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان کے معبودان باطل ان سے منہ پھیرے ہوئے ہیں ۔
26۔ 1 بعض مفسرین اسرائیلی روایات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس سے مراد نمرود یا بخت نصر ہے، جنہوں نے آسمان پر کسی طرح چڑھ کر اللہ کے خلاف مکر کیا، لیکن وہ ناکام واپس آئے اور بعض مفسرین کا خیال میں یہ ایک کہانی ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرنے والوں کے عمل اسی طرح برباد ہونگے جس طرح کسی کے مکان کی بنیادیں متزلزل ہوجائیں اور وہ چھت سمیت گرپڑے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس سے مقصود ان قوموں کے انجام کی طرف اشارہ کرنا ہے، جن قوموں نے پیغمبروں کی تکذیب پر اصرار کیا اور بالآخر عذاب الٰہی میں گرفتار ہو کر گھروں سمیت تباہ ہوگئے، مثلاً قوم عاد وقوم لوط وغیرہ۔ جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا من حیث لم یحتسبوا۔ 26۔ 2 پس اللہ (کا عذاب) ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم و گمان بھی نہ تھا 26۔ 3 بس اللہ کا عذاب ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا جہاں سے ان کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔
[٢٦] قریش کی اسلام دشمن سرگرمیاں :۔ قریش مکہ صرف یہی نہیں کہ لوگوں میں غلط پروپیگنڈا کرکے انھیں اسلام سے دور رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ بلکہ اسلام کو روکنے کے لیے کئی طرح کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ وہ اسلام لانے والوں پر ناروا سختیاں کرتے، انھیں تنگ کرتے۔ بیت اللہ میں داخلہ اور بالخصوص طواف پر پابندیاں قرآن بلند آواز سے پڑھنے پر پابندیاں اور دھمکیاں اور پھر معاشرتی بائیکاٹ، یہ سب کچھ وہ اس لیے کر رہے تھے کہ اسلام اور اس کی دعوت کا کلی طور پر استیصال کردیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان سے پہلے لوگ بھی دعوت حق کے مقابلے میں ایسی ہی چالیں چلتے رہے اور ان چالوں کے اونچے اور مضبوط محل کھڑے کردیئے۔ لیکن جب اللہ کا عذاب آیا تو ان کی چالوں کے محل بنیادوں ہی سے اکھڑ کر زمین پر آرہے۔ وہ خود اپنی ہی چالوں میں ایسے پھنس گئے جس کا انھیں وہم و گمان بھی نہ ہوسکتا تھا۔
قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : مکر کا معنی خفیہ اور مضبوط تدبیر یا کسی دوسرے کو حیلے کے ساتھ اس کے مقصد سے روکنا ہے، یہ خیر کے لیے ہو تو قابل تعریف ہے، شر کے لیے ہو تو قابل مذمت۔ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ اس سے پہلے لوگوں نے بھی رسولوں کے خلاف خفیہ تدبیریں اور سازشیں جتنی کرسکتے تھے کیں مگر بری طرح ناکام ہوئے۔ - فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ ۔۔ : ” بُنْیَانٌ بَنَی یَبْنِيْ “ (ض) کا مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، بنائی ہوئی عمارت۔ ” الْقَوَاعِدِ “ ” قَاعِدَۃٌ“ کی جمع ہے، بنیادیں۔ اس کی تفسیر دو طرح سے کرتے ہیں، ایک تو یہ کہ یہ ایک تمثیل ہے، یعنی ایک معنوی چیز کو نظر آنے والی چیز کے ساتھ تشبیہ دے کر بات سمجھائی گئی ہے، یعنی جس طرح کوئی شخص ایک عمارت بنائے تو دوسرا کوئی شخص خفیہ طریقے سے اس کی بنیادوں کو اس طرح کھوکھلا کر دے کہ عمارت کی چھت گرپڑے اور بنانے والے اپنے ہی مکان کی چھت کے نیچے آ کر ہلاک ہوجائیں۔ اسی طرح کفار نے رسولوں اور اہل ایمان کے خلاف مکر (سازش) کے محل تعمیر کیے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ان محلوں کی بنیادیں اس طرح ہلا دیں کہ ان کی چھتیں بھی انھی پر گرپڑیں۔ جس طرح کہتے ہیں کہ جو دوسرے کے لیے کنواں کھودتا ہے وہ خود ہی اس میں گرپڑتا ہے۔ یہاں واقعی کنواں ہونا ضروری نہیں۔ کئی مفسرین نے یہ معنی کیا ہے اور رازی نے اسے ترجیح دی ہے۔ - دوسری تفسیر یہ ہے کہ رسولوں کے خلاف سازشیں کرنے والے جن عمارتوں میں رہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کی بنیادوں کو زلزلے کا ایسا جھٹکا دیا، یا سیلاب میں ایسا گھیرا کہ ان کی چھتیں ان کے اوپر گرپڑیں اور وہ ان کے نیچے آ کر ہلاک ہوگئے، اس طرح اللہ کے عذاب نے انھیں ایسی جگہ سے آگھیرا جہاں سے وہ گمان بھی نہ رکھتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا ۚوَمِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ ۚ وَمِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا) [ العنکبوت : ٤٠ ] ” تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کردیا۔ “ امام المفسرین طبری (رض) نے اس معنی کو ترجیح دی ہے اور فرمایا کہ جب الفاظ کے ظاہر معنی مراد لیے جاسکتے ہیں اور اس میں کوئی خرابی نہیں، تو تمثیل کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے، چناچہ اس میں کیا چیز ناممکن ہے کہ کئی کفار اپنے مکانوں کی چھتوں کے نیچے آ کر مرگئے ہوں، جنھیں وہ نہایت مضبوط سمجھتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے رمضان ١٤٢٦ ھ میں کشمیر کے ہولناک زلزلے میں بیشمار کئی منزلہ مکان زمین میں دھنس گئے، بہت سے اپنے مکینوں پر گرپڑے اور اس کے بعد رمضان ١٤٣١ ھ میں پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے شہروں کے شہر بری طرح متاثر ہوئے، حتیٰ کہ تقریباً نصف پاکستان سیلاب کی زد میں آگیا، یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ [ اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَ عَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ ]
قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَاَتٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ 26- مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه - ( ا ت ی ) الاتیان - ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے - قعد - القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] ، والمَقْعَدُ :- مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له .- نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ- [ المائدة 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] أي :- ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه .- قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج :- خشباته الجارية مجری قواعد البناء .- ( ق ع د ) القعود - یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیً کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔- خر - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ.- وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] - ( خ ر ر ) خر - ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ - فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ - خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔- سقف - سَقْفُ البیت، جمعه : سُقُفٌ ، وجعل السماء سقفا في قوله تعالی: وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ [ الطور 5] ، وقال تعالی: وَجَعَلْنَا السَّماءَ سَقْفاً مَحْفُوظاً [ الأنبیاء 32] ، وقال :- لِبُيُوتِهِمْ سُقُفاً مِنْ فِضَّةٍ [ الزخرف 33] ، والسَّقِيفَةُ : كلّ مکان له سقف، کالصّفّة، والبیت، والسَّقَفُ : طول في انحناء تشبيها بالسّقف - ( س ق ف )- سقف البیت مکان کی چھت کر کہتے ہیں اس کی جمع سقف ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لِبُيُوتِهِمْ سُقُفاً مِنْ فِضَّةٍ [ الزخرف 33]( ہم ) ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنادیتے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّقْفِ الْمَرْفُوعِ [ الطور 5] اور اونچی چھت کی ۃ قسم میں مراد آسمان ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَجَعَلْنَا السَّماءَ سَقْفاً مَحْفُوظاً [ الأنبیاء 32] میں آسمان کو محفوظ چھت فرمایا ہے ۔ اور ہر وہ جگہ جو مسقف ہو اسے سقیفہ کہا جاتا ہے جیسے صفۃ ( چبوترہ ) مکان وغیرہ ۔ اور چھت کے ساتھ تشبیہ دے کر ہر اس لمبی چیز - فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - حيث - حيث عبارة عن مکان مبهم يشرح بالجملة التي بعده، نحو قوله تعالی: وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] ، وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ [ البقرة 149] .- ( ح ی ث ) حیث - ( یہ ظرف مکان مبنی برضم ہے ) اور ) مکان مبہم کے لئے آتا ہے جس کی مابعد کے جملہ سے تشریح ہوتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَحَيْثُ ما كُنْتُمْ [ البقرة 144] اور تم جہاں ہوا کرو - شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔
(٢٦) جیسا کہ یہ لوگ آپ کی مخالفت کیلیے بڑی بڑی تدبیری کرتے ہیں جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں انہوں نے اپنے انبیاء کرام کے مقابلہ کے لیے بڑی بڑی تدبیریں کرتے ہیں جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں، انہوں نے اپنے انبیاء کرام کے مقابلہ کے لیے بڑی بڑی تدبیریں کیں جیسا کہ نمرود جبار کہ اس نے آسمان پر جانے کے لیے سیڑھی بنائی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا بنابنایا گھر (سیڑھی) جڑ سے ڈھا دیا تو گویا ان پر اوپر سے وہ سیڑھی آپڑی اور یہ انہدام کا عذاب ان پر ایسی حالت میں آیا کہ ان کو خیال بھی نہ تھا۔
آیت ٢٦ (قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ )- ان سے پہلے بھی مختلف اقوام کے لوگوں نے ہمارے انبیاء و رسل کی مخالفت کی تھی اور ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کے حربے آزمائے تھے اور سازشیں کی تھیں۔- (فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَــرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ )- جب اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آیا تو مخالفین کی تمام سازشوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا گیا اور ان کی بستیوں کو تلپٹ کردیا گیا۔ سدوم اور عامورہ کی بستیوں کے بارے میں ہم پڑھ آئے ہیں : (فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا) (ہود : ٨٢) ” پھر جب آگیا ہمارا حکم تو ہم نے کردیا اس کے اوپر والے حصے کو اس کا نیچے والا “۔ یعنی اس کو تہ وبالا کردیا۔ اس سلسلے میں قرآن حکیم کے اندر تو صرف انہی چند اقوام کا ذکر آیا ہے جن سے اہل عرب واقف تھے ‘ ورنہ رسول تو ہر علاقے اور ہر قوم میں آتے رہے ہیں ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : (وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ ) (الرعد) ” اور ہر قوم کے لیے ایک راہنما ہے۔ “ - خود ہندوستان کے علاقے میں بھی بہت سے انبیاء ورسل کے مبعوث ہونے کے آثار ملتے ہیں۔ ہریانہ ‘ ضلع حصار ‘ جس علاقے میں میرا بچپن گزرا وہاں مختلف مقامات پر سیاہ رنگ کی راکھ کے بڑے بڑے ٹیلے موجود تھے جن کی کھدائی کے دوران بستیوں کے آثار ملتے تھے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ اپنے زمانے کی پر رونق بستیاں تھیں ان کے باشندوں نے اپنے رسولوں کی نافرمانیاں کیں اور انہیں عذاب خداوندی نے جلا کر بھسم کر ڈالا۔ جس طرح پومپیائی پر لاوے کی بارش ہوئی اور پوری بستی جلتے ہوئے لاوے کے اندر دب گئی۔ اس علاقے میں دریائے سرسوتی بہتا تھا جو ہندوستان کا ایک بہت بڑا دریا تھا اور اسے مقدس مانا جاتا تھا (دریائے گنگا بہت بعد کے زمانے میں وجود میں آیا) آج دریائے سرسوتی کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ یہ کہاں کہاں سے گزرتا تھا اور ماہرین آثار قدیمہ اس کی گزر گاہ تلاش کر رہے ہیں۔ یہ سب آثار بتاتے ہیں کہ ہندوستان کے اندر مختلف زمانوں میں انبیاء و رسل آئے اور ان کی نافرمانیوں کے سبب ان کی قومیں اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ ان آثار کی شہادتوں کے علاوہ کچھ ایسے مکاشفات بھی ہیں کہ مشرقی پنجاب کے جس علاقے میں شیخ احمد سرہندی کا مدفن ہے اس علاقے میں تیس انبیاء مدفون ہیں۔ واللہ اعلم