فرشتوں کا انتظار اللہ تبارک و تعالیٰ مشرکوں کو ڈانٹتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں تو ان فرشتوں کا انتظار ہے جو ان کی روح قبض کرنے کے لئے آئیں گے تاقیامت کا انتظار ہے اور اس کے افعال و احوال کا ۔ ان جیسے ان سے پہلے کے مشرکین کا بھی یہی وطیرہ رہا یہاں تک کہ ان پر عذاب الہٰی آ پڑے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حجت پوری کر کے ، ان کے عذر ختم کر کے ، کتابیں اتار کر ، و بال میں گھر گئے ۔ اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ خود انہوں نے اپنا بگاڑ لیا ۔ اسی لئے ان سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ آگ جسے تم جھٹلاتے رہے ۔
33۔ 1 یعنی کیا یہ بھی اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے یا رب کا حکم (یعنی عذاب یا قیامت) آجائے۔ 33۔ 2 یعنی اس طرح سرکشی اور معصیت، ان سے پہلے لوگوں نے اختیار کئے رکھی، جس پر وہ غضب الٰہی کے مستحق بنے۔ 33۔ 3 اس لئے اللہ نے تو ان کے لئے کوئی عذر ہی باقی نہیں چھوڑا۔ رسولوں کو بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر ان پر حجت تمام کردی۔ 33۔ 4 یعنی رسولوں کی مخالفت اور ان کی تکذیب کر کے خود ہی انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔
[٣٢] فرشتوں کی آمد کا مطالبہ :۔ یہ بھی منکرین حق کے ایک اعتراض کا جواب ہے جو وہ کہتے تھے کہ ہمارے پاس فرشتے کیوں نہیں آتے جو اس بات کی تصدیق کریں کہ واقعی آپ اللہ کے نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس اعتراض کے جواب میں فرمایا کہ فرشتے ان کے پاس بھی آتے ہیں۔ لیکن اس کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک ان کی روح قبض کرنے کے لیے اور دوسرے ان پر قہر الٰہی نازل کرنے کے لیے اور یہ اعتراض صرف یہی کفار مکہ ہی نہیں کر رہے تھے۔ اس سے پہلے بھی منکرین حق اپنے اپنے دور میں انبیاء کو ایسی ہی باتیں کہتے چلے آئے ہیں۔ اور ان کا بھی اسی طرح مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ بالآخر انھیں اپنی کرتوتوں کی پاداش میں فرشتوں سے دو چار ہونا ہی پڑا جو ان پر اللہ کا عذاب لے کر آئے تھے۔ اور اب ان لوگوں کو بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا اور اللہ سے وہ جس بات کا مطالبہ کرتے ہیں اللہ اسے ضرور پورا کر دے گا۔
هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ ۔۔ : یہاں استفہام انکار کے لیے ہے اور ” يَنْظُرُوْنَ “ بمعنی ” یَنْتَظِرُوْنَ “ ہے۔ اس میں پھر کفار کا حال بیان کیا ہے کہ ہر قسم کی دلیل واضح ہونے کے بعد ان کے ایمان نہ لانے کا مقصد اس کے سوا کیا ہے کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ فرشتے ان کی روح قبض کرنے کے لیے آجائیں، یا تیرے رب کا حکم، یعنی عذاب، یا قیامت آجائے، تب وہ ایمان لا کر اپنی حالت درست کریں گے، حالانکہ اس وقت توبہ کرنا یا ایمان لانا انھیں کچھ فائدہ نہیں دے گا۔ اس سے مراد ان کی ہٹ دھرمی بیان کرنا ہے، یہ نہیں کہ واقعی وہ انتظار کر رہے ہیں۔ ” تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ اَمْرُ رَبِّكَ “ میں ” اَوْ “ مانعۃ الخلو ہے، یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ دونوں چیزیں نہ آئیں، البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ایک آجائے اور یہ بھی کہ دونوں اکٹھی آجائیں۔ - كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ : یعنی پہلے لوگوں نے بھی کفر کی روش اختیار کی اور نبیوں کو جھٹلایا۔ (شوکانی)- وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ ۔۔ : یعنی وہ خود ایسے برے عمل کرتے تھے جن کی سزا جہنم تھی اور یہ احمقانہ ظلم ہے، کیونکہ وہ اپنے فائدے کے لیے کسی دوسرے پر ظلم کرتے تو شاید انھیں کچھ فائدہ ہوتا، خواہ عارضی ہی سہی، مگر اپنے آپ پر ظلم تو حماقت کی انتہا ہے۔
هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ اَمْرُ رَبِّكَ ۭ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ 33- الانْتِظَارُ- النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ،- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : فَهَلْ يَنْتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ [يونس 102] - ( ن ظ ر ) الانتظار - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور زمتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں ۔ فَهَلْ يَنْتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ [يونس 102] سو جیسے برے دن ان سے پہلے لوگوں پ رگذرچکے ہیں اسیی طرح کے دنوں کے یہ منتظر ہیں ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں
(٣٣) اور مکہ والے جو ایمان نہیں لا رہے ہیں یہ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کی ارواح کے قبض کے لیے فرشتے آجائیں یا ان کی ہلاکت کے لیے آپ کے پروردگار کا عذاب آجائے - جیسا کہ آپ کی قوم آپ کے معاملہ کرتی ہے کہ آپ کی تکذیب کرتی اور آپ کو برا کہتی ہے اسی طرح آپ کی قوم سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے بھی اپنے انبیاء کرام کے ساتھ یہی معاملہ کیا کہ ان کو جھٹلایا اور ان کو برا بھلا کہا اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کرکے ان پر ذرا ظلم نہیں کیا لیکن وہ خود ہی شرک اور انبیاء کرام کی تکذیب کرکے اپنے اوپر ظلم کررہے ہیں۔
آیت ٣٣ (هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ يَاْتِيَ اَمْرُ رَبِّكَ )- گزشتہ بارہ برس سے رسول اللہ قریش مکہ کو دعوت دے رہے ہیں ‘ دو تہائی کے قریب قرآن بھی اب تک نازل ہوچکا ہے۔ چناچہ ان لوگوں کو اب مزید کس چیز کا انتظار ہے ؟ اب تو بس یہی مرحلہ باقی رہ گیا ہے کہ فرشتے اللہ کا فیصلہ لے کر پہنچ جائیں اور وہ نقشہ سامنے آجائے جس کی جھلک سورة الفجر میں اس طرح دکھائی گئی ہے : (وَجَآءَ رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفًّا صَفًّا وَجِایْٓءَ یَوْمَءِذٍم بِجَہَنَّمَلا یَوْمَءِذٍ یَّتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی) ” اور آئے گا آپ کا رب اور فرشتے صف بہ صف۔ اور لائی جائے گی اس دن جہنم اس دن ہوش آئے گا انسان کو مگر کیا فائدہ ہوگا تب اسے اس ہوش کا “ - (كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ )- جن گزشتہ اقوام کے عبرت ناک انجام کے بارے میں تفصیلات قرآن میں بتائی جا رہی ہیں انہیں ان کے اپنے کرتوتوں کی سزا ملی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر قطعاً ظلم نہیں ہوا تھا۔
سورة النَّحْل حاشیہ نمبر :29 یہ چند کلمے بطور نصیحت اور تنبیہ کے فرمائے جا رہے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں تک سمجھانے کا تعلق تھا ، تم نے ایک ایک حقیقت پوری طرح کھول کر سمجھا دی ۔ دلائل سے اس کا ثبوت دے دیا ۔ کائنات کے پورے نظام سے اس کی شہادتیں پیش کر دیں ۔ کسی ذی فہم آدمی کے لیے شرک پر جمے رہنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں چھوڑی ۔ اب یہ لوگ ایک صاف سیدھی بات کو مان لینے میں کیوں تامل کر رہے ہیں؟ کیا اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ موت کا فرشتہ سامنے آکھڑا ہو تو زندگی کے آخری لمحے میں مانیں گے؟ یا خدا کا عذاب سر پر آجائے تو اس کی پہلی چوٹ کھا لینے کے بعد مانیں گے؟