Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

چوپائے اور انسان جو چوپائے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور انسان ان سے مختلف فائدے اٹھا رہا ہے اس نعمت کو رب العالمین فرما رہا ہے جیسے اونٹ گائے بکری ۔ جس کا مفصل بیان سورہ انعام کی آیت میں آٹھ قسموں سے کیا ہے ۔ ان کے بال اون صوف وغیرہ کا گرم لباس اور جڑاول بنتی ہے دودھ پیتے ہیں گوشت کھاتے ہیں ۔ شام کو جب وہ چر چگ کر واپس آتے ہیں ، بھری ہوئی کو کھوں والے ، بھرے ہوئے تھنوں والے ، اونچی کوہانوں والے ، کتنے بھلے معلوم ہو تے ہیں اور جب چراگاہ کی طرف جاتے ہیں کیسے پیارے معلوم ہو تے ہیں پھر تمہارے بھاری بھاری بوجھ ایک شہر سے دوسرے شہر تک اپنی کمر پر لاد کر لے جاتے ہیں کہ تمہارا وہاں پہنچنا بغیر آدھی جان کئے مشکل تھا ۔ حج و عمرہ کے ، جہاد کے ، تجارت کے اور ایسے ہی اور سفر انہیں پر ہوتے ہیں تمہیں لے جاتے ہیں تمہارے بوجھ ڈھوتے ہیں ۔ جیسے آیت ( وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ 66؀ ) 16- النحل:66 ) میں ہے کہ یہ چوپائے جانور بھی تمہاری عبرت کا باعث ہیں ان کے پیٹ ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور ان سے بہت سے فائدے پہنچاتے ہیں ان کا گوشت بھی تم کھاتے ہو ان پر سواریاں بھی کرتے ہو ۔ سمندر کی سواری کے لئے کشتیاں ہم نے بنا دی ہیں ۔ اور آیت میں ہے آیت ( اَللّٰهُ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَنْعَامَ لِتَرْكَبُوْا مِنْهَا وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ 79؀ۡ ) 40-غافر:79 ) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں کہ تم ان پر سواری کرو انہیں کھاؤ نفع اٹھاؤ دلی حاجتیں پوری کرو اور تمہیں کشتیوں پر بھی سوار کرایا اور بہت سی نشانیاں دکھائیں پس تم ہمارے کس کس نشان کا انکار کرو گے؟ یہاں بھی اپنی یہ نعمتیں جتا کر فرمایا کہ تمہارا وہ رب جس کا مطیع بنا دیا ہے وہ تم پر بہت ہی شفقت و رحمت والا ہے جیسے سورہ یاسین میں فرمایا کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے ان کیلئے اپنے ہاتھوں چوپائے بنائے اور انہیں انکا مالک بنا دیا اور انیں انکا مطیع بنا دیا کہ بعض کو کھائیں بعض پر سوار ہوں اور آیت میں ( وَالَّذِيْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالْاَنْعَامِ مَا تَرْكَبُوْنَ 12۝ۙ ) 43- الزخرف:12 ) اس اللہ نے تمہارے لئے کشتیاں بنا دیں اور چوپائے پیدا کر دیئے کہ تم ان پر سوار ہو کر اپنے رب کا فضل و شکر کرو اور کہو وہ پاک ہے جس نے انہیں ہمارا ماتحت کر دیا حلانکہ ہم میں یہ طاقت نہ تھی ہم مانتے ہیں کہ ہم اسی کی جانب لوٹیں گے ۔ دف کے معنی کپڑا اور منافع سے مراد کھانا پینا ، نسل حاصل کرنا ، سواری کرنا ، گوشت کھانا ، دودھ پینا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اسی احسان کے ساتھ دوسرے احسان کا ذکر فرمایا کہ چوپائے (اونٹ، گائے اور بکریاں) بھی اسی نے پیدا کئے، جن کے بالوں اور اون سے تم گرم کپڑے تیار کر کے گرمی حاصل کرتے ہو۔ اسی طرح ان سے دیگر منافع حاصل کرتے ہو، مثلاً ان سے دودھ حاصل کرتے ہو، ان پر سواری کرتے ہو اور سامان لادتے ہو، ان کے ذریعے ہل چلاتے اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہو، وغیرہ وغیرہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالْاَنْعَامَ خَلَقَهَا ۚ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ ۔۔ : ” الْاَنْعَامَ “ ” نَعَمٌ“ (ن اور ع کے فتحہ کے ساتھ) کی جمع ہے، اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکریاں۔ ” دِفْءٌ“ گرمی، یہ سردی سے ٹھٹھرنے کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے، ” مَا یُدْفَأُ بِہٖ “ جس کے ساتھ گرمی حاصل کی جائے، جیسا کہ ” مِلْأٌ“ جس کے ساتھ کسی چیز کو بھرا جائے۔ چوپاؤں کا ایک خاص فائدہ ان کی اون اور بالوں سے گرمی مہیا کرنے والا لباس اس کی اہمیت کے پیش نظر پہلے ذکر فرما کر عام فوائد کا ذکر بعد میں فرمایا۔ ” مَنَافِع “ اور بہت سے فائدے ہیں، مثلاً سواری کرتے ہو، ہل چلاتے ہو، پانی کھینچتے ہو، ان کا گوبر جلاتے ہو، کھیتوں میں بطور کھاد ڈالتے ہو، انھیں بیچ کر ضرورت کا ہر سامان خریدتے ہو۔ ان منافع میں ” دِفْئٌ“ بھی شامل ہے اور یہ بھی کہ ان کی نسل بڑھنے سے تمہاری دولت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور آخر میں ان منافع میں سے پھر خاص طور پر ایک نفع ذکر فرمایا کہ انھی سے تم کھاتے ہو، یعنی دودھ، دہی، ان سے بننے والی بیشمار چیزیں اور گوشت، الغرض، ان میں تمہارے کھانے کا سامان بھی ہے۔ یہ آیت اسی سورت کی آیت (٦٦) اور (٨٠) کے مشابہ ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

انسان کی بعد ان اشیاء کی تخیلق کا ذکر فرمایا جو انسان کے فائدے کے لئے خصوصی طور پر بنائی گئی ہیں اور قرآن کے سب سے پہلے مخاطب چونکہ عرب تھے اور عرب کی معیشت کا بڑا مدار پالتو چوپاؤں اونٹ گائے بکری پر تھا اس لئے پہلے ان کو ذکر فرمایا والْاَنْعَامَ خَلَقَهَا پھر انعام سے جو فوائد انسان کو حاصل ہوتے ہیں ان میں سے دو فائدے خاص طور سے بیان کردیئے ایک۔ ۚ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ یعنی ان جانوروں کے اون سے انسان اپنے کپڑے اور کھال سے پوستین اور ٹوپیاں وغیرہ تیار کرکے جاڑے کے موسم میں گرمائی حاصل کرتا ہے۔- دوسرا فائدہ وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ یعنی انسان ان جانوروں کو ذبح کر کے اپنی خوراک بھی بنا سکتا ہے اور جب تک زندہ ہے ان کے دودھ سے اپنی بہترین غذا پیدا کرتا ہے دودھ دہی مکھن گھی اور ان سے بننے والی تمام اشیاء اس میں داخل ہیں۔- اور باقی عام فوائد کے لئے فرما دیا وَمَنَافِعُ یعنی بیشمار منافع اور فوائد انسان کے جانوروں کے گوشت چمڑے، ہڈی اور بالوں سے وابستہ ہیں اس ابہام و اجمال میں ان سب نئی سے نئی ایجادات کی طرف بھی اشارہ ہے جو حیوانی اجزاء سے انسان کی غذاء لباس دواء استعمالی اشیاء کے لئے اب تک ایجاد ہوچکی ہیں یا آئندہ قیامت تک ہوں گی - اس کے بعد ان چوپایہ جانوروں کا ایک اور فائدہ عرب کے مذاق کے مطابق یہ بیان کیا گیا کہ وہ تمہارے لئے جمال اور رونق کا ذریعہ ہیں خصوصا جب وہ شام کو چراگاہوں سے تمہارے مویشی خانوں کی طرف آتے ہیں یا صبح کو گھروں سے چراگاہوں کی طرف جاتے ہیں کیونکہ اس وقت مویشی سے ان کے مالکان کی خاص شان و شوکت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔- آخر میں ان جانوروں کا ایک اور اہم فائدہ یہ بیان کیا کہ یہ جانور تمہارے بوجھل سامان دور دراز شہروں تک پہنچا دیتے ہیں جہاں تمہاری اور تمہارے سامان کی رسائی جان جوکھوں میں ڈالے بغیر ممکن نہ تھی اونٹ اور بیل خاص طور سے انسان کی یہ خدمت بڑے پیمانے پر انجام دیتے ہیں آج ریل گاڑیوں ٹرکوں ہوائی جہازوں کے زمانے میں بھی انسان ان جانوروں سے مستغنی نہیں کتنے مقامات دنیا میں ایسے ہیں جہاں یہ تمام نو ایجاد سواریاں بار برداری کا کام نہیں دے سکتیں وہاں پھر انہی کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔- وَالْاَنْعَام یعنی اونٹ اور بیل وغیرہ کی بار برداری کا ذکر آیا تو اس کے بعد ان چوپایہ جانوروں کا ذکر بھی مناسب معلوم ہوا جن کی تخلیق ہی سواری اور بار برداری کے لئے ہے ان کے دودھ یا گوشت سے انسان کا فائدہ متعلق نہیں کیونکہ از روئے شرع وہ اخلاقی بیماریوں کا سبب ہونے کی وجہ سے ممنوع ہیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالْاَنْعَامَ خَلَقَهَا ۚ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ ۝۠- دفیء - الدِّفْء : خلاف البرد، قال تعالی: لَكُمْ فِيها دِفْءٌ وَمَنافِعُ [ النحل 5] ، وهو لما يدفئ، ورجل دفآن، وامرأة دفأى، وبیت دفیء .- ( د ف ء ) الدف - ۔ گرمی حرارت یہ برد سردی کی ضد ہے اور آیت کریمہ : لَكُمْ فِيها دِفْءٌ وَمَنافِعُ [ النحل 5] ان میں تمہارے لئے جزا دل اور بہت سے فائدے ہیں ۔ میں دف سے جاڑے سے بچنے کا سامان مراد ہے ۔ رجل دفان ( مونث دفاءی ) گری حاصل کر نیوالا ۔ بیت دفیئ گرم مکان ۔- نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مویشیوں کے فوائد - قول باری ہے (والانعام خلقھا لکم فیھا دف و منافع و منھا تاکلون۔ اس نے جانور پیدا کئے جن میں تمہارے لئے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی اور طرح طرح کے دوسرے فائدے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ ” دف “ سے لباس اور پوشاک مراد ہے۔ حسن کا قول ہے کہ اس لفظ سے جانوروں کے بال اور اون مراد ہیں جن کے ذریعے حرارت حاصل کی جاتی ہے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ اس بات کا مقتضی ہے کہ جانوروں کے بالوں اور اون سے تمام احوال یعنی زندہ اور مردہ حالتوں میں فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ قول باری ہے : والخیل والبغال و الحمیر لتر کبوھا و زینۃ اس نے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق نہیں) ہشام الدستوانی نے یحییٰ بن کثیر سے، انہوں نے نافع سے اور انہوں نے علقمہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا گوشت مکروہ سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ قول باری (والانعام خلقھا لکم) میں جن جانوروں کا ذکر ہے وہ کھانے کے لئے ہیں اور زیر بحث آیت میں جن تین جانوروں کا ذکر ہے وہ سواری کے لئے ہیں۔ امام ابوحنیفہ نے ہیثم سے، انہوں نے عکرمہ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ گھوڑوں کا گوشت مکروہ سمجھتے تھے اور قول باری (والخیل والبغال والحمیر الترکوھا وزینۃ) کے یہی معنی لیتے تھے۔- ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ گھوڑوں کے گوشت کی ممانعت کی یہ ایک واضح دلیل ہے وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے مویشیوں کا ذکر کیا اور ان سے حاصل ہونے والے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بیان کیا کہ ان کا گوشت تم کھاتے ہو۔ چناچہ ارشاد ہوا (والانعام خلقھا لکم فیھا رف و منافع و منھا تاکلون) اس کے بعد گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا ذکر کیا اور ان کے فوائد یہ بیان کئے کہ یہ سواری کے کام آتے ہیں اور یہ تمہاری زندگی کی رونق ہیں۔ اگر ان کا گوشت بھی ان سے حاصل ہونے والے فوائد میں داخل ہوتا تو اللہ تعالیٰ مویشیوں کے فوائد میں گوشت کے ذکر کی طرح یہاں بھی اس کا ضرور ذکر کرتا خاص طور پر گوشت کا استعمال جانور سے حاصل ہونے والے فوائد میں سب سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ ان تینوں جانوروں کے گوشت کی اباحت اور ممانعت کے بارے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے متضاد روایتیں منقول ہیں۔ عکرمہ بن عمار نے یحییٰ بن کثیر سے، انہوں نے ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ غزوۂ خیبر کے موقعہ پر لوگوں کو فاقہ اور بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے گھوڑے، خچر اور گدھے ذبح کر لئے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پالتو گدھے، خچر، گھوڑے، کچلیوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے حرام قرار دیئے۔ اسی طرح آپ نے سکی کی کوئی چیز اچک لینے نیز لوٹ مار کو بھی حرام قرار دیا۔ سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) بن عبد اللہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں۔ ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گھوڑوں کا گوشت کھلایا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں گدھوں کے گوشت کی ممانعت کردی تھی۔- عمر بن دینار نے حضرت جابر (رض) سے اس حدیث کا سماع نہیں کیا تھا اس لئے کہ ابن جریح نے اس حدیث کی عمرو بن دینار سے، انہوں نے ایک شخص سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے۔ حضرت جابر (رض) غزوۂ خیبر کے موقع پر موجود نہیں تھے اس لئے محمد بن اسحاق نے سلام بن کر کرہ سے، انہوں نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے جبکہ حضرت جابر (رض) خیبر کے موقعہ پر موجود نہیں تھے۔ نیز یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گدھوں کے گوشت کی ممانعت کردی تھی اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دے دی تھی۔ اس طرح حضرت جابر (رض) سے اس سلسلے میں مروی روایات کا آپس میں تعارض ہے۔ اس صورت میں ان روایات کے متعلق دو باتیں کہی جاسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب ایک چیز کے متعلق دو روایتیں منقول ہوں، ایک میں اس کی ممانعت کا حکم ہو اور دوسری میں اباحت کا تو اس صورت میں ممانعت کی روایت اولیٰ ہوگی اس لئے کہ ممکن ہے شارع (علیہ السلام) نے کسی وقت اس چیز کی اباحت کردی ہو اور پھر اس کی ممانعت کا حکم صادر کردیا ہو۔ یہ اس لئے ہے کہ ہر چیز کے اندر اصل کے اعتبار سے اباحت ہوتی ہے اور ممانعت اس پر بعد میں لامحالہ طاری ہوتی ہے جبکہ ہمیں کسی ایسی اباحت کا علم نہیں ہے جو ممانعت کے بعد آئی ہو۔ اس لئے لامحالہ ممانعت کا حکم ثابت ہوگا کیونکہ ممانعت کے بعد اباحت کا کوئی ثبوت نہیں ہے سلف کی ایک جماعت سے یہی مفہوم مروی ہے۔ ابن وہب نے لیث بن سعد سے روایت کی ہے ایک دفعہ عصر کے بعد سورج گرہن شروع ہوگیا۔ ہم اس وقت مکہ مکرمہ میں تھے۔ یہ ١٣ ھ کا واقعہ ہے۔ اس وقت مکہ مکرمہ میں بہت سے اہل علم موجود تھے جن میں ابن شہاب زہری، ابوبکر بن حزم، قتادہ اور عمرو بن شعیب شامل تھے۔ لیث کہتے ہیں کہ ہم عصر کے بعد کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے۔ میں نے ایوب بن موسیٰ القرشی سے پوچھا کہ لوگ اس موقعہ پر صلوٰۃ الخوف کیوں نہیں پڑھتے جبکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے موقعہ پر یہ نماز ادا کی ہے۔ یہ سن کر ایوب نے فرمایا : عصر کی نماز کے بعد نماز کی ممانعت آئی ہے اسی لئے لوگ نماز نہیں پڑھ رہے ہیں۔ ممانعت ایک چیز کے لئے قاطع ہوتی ہے۔ حضرت جابر (رض) سے مروی روایت کی یک توجیہ تو یہ ہوئی۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ حضرت جابر (رض) سے مروی دونوں روایتیں متعارض ہیں اس لئے دونوں ساقط ہوگئیں گویا کہ ان کی روایت ہی نہیں ہوئی۔ اسرائیل بن یونس نے عبد الکریم الجزری سے، انہوں نے عطاء بن ابی رباح سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم گھوڑوں کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ “ عطاء کہتے ہیں کہ میں نے جابر (رض) سے خچروں کے گوشت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔- گھوڑے کا گوشت حلال ہے یا حرام ؟- ہشام بن عروہ نے فاطمہ بنت المنذر سے، انہوں نے حضرت اسماء بنت ابی بکر سے روایت کی ہے وہ فرماتی ہیں کہ ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ایک گھوڑا ذبح کر کے اس کا گوشت کھالیا تھا “۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس روایت میں فریق مخالف کیلئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے اس لئے کہ روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس کا علم ہوگیا تھا اور آپ نے اس کی توثیق فرما دی تھی۔ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے متعلق علم اور توثیق مل بھی جائے تو اسے اس زمانے پر محمول کیا جائے گا جب ابھی اس کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔- بقیۃ بن الولید نے ثور بن یزید سے، انہوں نے صالح بن یحییٰ بن المقدام سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے صالح کے دادا سے اور انہوں نے حضرت خالد (رض) بن الولید سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھوڑوں کے گوشت کی ممانعت فرما دی تھی۔ زہری کا قول ہے کہ ہمیں اس بات کا کوئی علم نہیں کہ محاصرے کی صورت کے علاوہ گھوڑوں کا گوشت کبھی کھایا گیا تھا۔ امام ابو یوسف، امام محمد اور امام شافعی کا قول ہے کہ گھوڑوں کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی قسم کی اسود بن یزید، حسن بصری اور شریح سے بھی روایت ہے۔ امام ابوحنیفہ گھوڑوں کے گوشت میں علی الاطلاق تحریم کے قائل نہیں ہیں۔ اور ان کے نزدیک اس گوشت کا حکم پالتو گدھوں کے گوشت کے حکم جیسا نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اس گوشت کو اباحت اور ممانعت کی متعارض روایات کی بنا پر مکروہ قرار دیا ہے نظر اور قیاس کی جہت سے امام ابوحنیفہ کے مسلک کے حق میں یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ گھوڑا کھروں والا ایک پالتو جانور ہے اس لئے وہ گدھوں اور خچروں کے مشابہ ہوگیا، ایک اور جہت سے دیکھئے۔ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ خچر کا گوشت نہیں کھایا جائے گا جبکہ خچر کی پیدائش گھوڑے کے نطفے سے ہوتی ہے۔ اگر خچر کی ماں یعنی گدھی حلال ہوتی تو خچر کا حکم بھی اس کی ماں کے حکم جیسا ہوتا اس لئے کہ بچے کا حکم ماں کے حکم کی طرح ہوتا ہے کیونکہ بچہ ماں کا ایک حصہ ہوتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی پالتو گدھی کسی جنگلی گدھے سے جفتی کی بنا پر بچہ پیدا کر دے تو اس بچے کا گوشت نہیں کھایا جائے گا لیکن اگر کوئی جنگلی گدھی کسی پالتو گدھے سے جفتی کے نتیجے میں بچہ پیدا کر دے تو اس بچے کا گوشت کھایا جائے گا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ بچہ ماں کے تابع ہوتا ہے باپ کے تابع نہیں ہوتا۔ جب خچر کا گوشت کھایا نہیں جاتا خواہ اس کی ماں گھوڑی کیوں نہ ہو تو یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ گھوڑوں کا گوشت نہیں کھایا جائے گا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥۔ ٦۔ ٧) اور اسی نے چوپایوں یعنی اونٹوں کو بنایا کہ اس کی کھال کا پوستین اور بالوں کا کمبل بنتا ہے سواری اور دودھ وغیرہ کے علاوہ اور بھی منافع ہیں اور ان کا گوشت بھی کھاتے ہو اور ان کی وجہ سے تمہاری رونق بھی ہے، جب کہ ان کو چرا کر شام کے وقت لاتے ہو اور جب کہ صبح کو ان کو چرنے کے لیے چھوڑتے ہو۔- اور وہ تمہارے سامان اور توشوں کو لاد کر مکہ تک لے جاتے ہیں جہاں تم جان کو محنت میں ڈالے بغیر خود بھی نہیں پہنچ سکتے تھے، واقعی تمہارا پروردگار ایمان والوں پر بڑا شفیق اور تم سے عذاب کے موخر کرنے میں رحیم ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (وَالْاَنْعَامَ خَلَقَهَا ۚ لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ )- بعض جانوروں کی اون سے تم لوگ لباس بنتے ہو جو سردی کے موسم میں تمہیں گرمی پہنچاتا ہے بعض جانوروں کے بالوں سے بہت سی دوسری چیزیں بناتے ہو۔ اسی طرح یہ جانور اور بھی بہت سی صورتوں میں تمہارے لیے مفید اور مددگار ہوتے ہیں حتیٰ کہ تمہاری خوراک کی بیشتر ضروریات بھی انہی سے پوری ہوتی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

3: یعنی ان کی کھالوں سے ایسے لباس بنائے جاتے ہیں جو انسان کو سردی سے محفوظ رکھ سکیں۔