Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فضیلت سورہ بنی اسرائیل صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سورہ بنی اسرائیل ، سورہ کہف اور سورہ مریم سب سے پہلے ، سب سے بہتر اور بڑی فضیلت والی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عائشۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفلی روزے کبھی تو اس طرح پے درپے لگا تار رکھتے چلے جاتے کہ ہم اپنے دل میں کہتے شاید حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ پورا مہینہ روزں ہی میں گزار دیں گے اور کبھی کبھی بالکل ہی نہ رکھتے یہاں تک کہ ہم سمجھ لیتے کہ شاید آپ اس مہینے میں روزے رکھیں گے ہی نہیں ۔ اور آپ کی عادت مبارک تھی کہ ہر رات سورہ بنی اسرائیل اور سورہ زمر پڑھا کرتے تھے ۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۱ کی تفسیر سرگزشت معراج اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی عزت وعظمت اور اپنی پاکیزگی وقدرت بیان فرماتا ہے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اس جیسی قدرت کسی میں نہیں ۔ وہی عبادت کے لائق اور صرف وہی ساری مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے ۔ وہ اپنے بندے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی رات کے ایک حصے میں مکہ مکرمہ کی مسجد سے بیت المقدس کی مسجدتک لے گیا ۔ جو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کم زمانے سے انبیاء کرام علیہم السلام کا مرکز رہا ۔ اسی لئے تمام انبیاء علیہم السلام وہیں آپ کے پاس جمع کئے گئے اور آپ نے وہیں ان سب کی امامت کی ۔ جو اس امر کی دلیل ہے کہ امام اعظم اور رئیس مقدم آپ ہی ہیں ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین اس مسجد کے ارد گرد ہم نے برکت دے رکھی ہے ۔ پھل ، پھول ، کھیت ٰ باغات وغیرہ سے ۔ یہ اس لئے کہ ہمارا ارادہ اپنے اس محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی زبردست نشانیاں دکھانے کا تھا ۔ جو آپ نے اس رات ملاحظہ فرمائیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں ، مومنوں ، کافروں ، یقین رکھنے والوں اور انکار کرنے والوں سب کی باتیں سننے والا ہے اور سب کو دیکھ رہا ہے ۔ ہر ایک کو وہی دے گا ، جس کا وہ مستحق ہے ۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔ معراد کی بابت بہت سی حدیثیں ہیں جواب بیان ہو رہی ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ معراج والی رات جب کہ کعبۃ اللہ شریف سے آپ کو بلوایا گیا ، آپ کے پاس تین فرشتے آئے ، اس سے پہلے کہ آپ کی طرف وحی کی جائے ۔ اس وقت آپ بیت اللہ شریف میں سوئے ہوئے تھے ۔ ان میں سے ایک جو سب سے آگے تھا اس نے پوچھا کہ یہ ان سب میں سے کون ہیں ؟ درمیان والے نے جواب دیا کہ یہ ان سب میں بہترین ہیں ۔ تو سب سے اخیر والے نے کہا ۔ پھر ان کو لے چلو ۔ بس اس رات تو اتنا ہی ہوا ۔ پھر آب نے انہیں نہ دیکھا ۔ دوسری رات پھر یہ تینوں آئے ۔ اس وقت بھی آپ سو ہے تھے ۔ لیکن آپ کا سونا اس طرح کا تھا کہ آنکھیں سوتی تھیں اور دل جاگ رہا تھا ۔ تمام انبیاء کی نیند اسی طرح کی ہوتی ہے ۔ اس رات انہوں نے آپ سے کوئب بات نہ کی ۔ آپ کو اٹھا کر پاہ زمزم کے پاس لٹا دیا اور آپ کا سینہ گردن تک خود جبرائیل علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے جاگ کیا ۔ اور سینے اور پیٹ کی تمام چیزیں نکال کر اپنے ہاتھ سے دھوئیں ۔ جب خوب پاک صاف کر چکے تو آپ کے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جس میں سونے کا ایک بڑا پیالہ تھا جو حکمت وایمان سے پر تھا ۔ اس سے آپ کے سینے کو اور گلے کی رگوں کو پر کر دیا گیا ۔ پھر سینے کو سی دیا گیا ۔ پھر آب کو آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے ۔ وہاں کے دروازوں میں سے ایک دروازے کو کھٹکھٹایا ۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جبرائیل ۔ پوچھا آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ فرمایا میرے ساتھ محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا ۔ کیا آپ کو بلوایا گیا ہے جواب دیا کہ ہاں ۔ سب بہت خوش ہوئے اور مرحبا کہتے ہوئے آپ کو لے گئے ۔ آسمانی فرشتے بھی کچھ نہیں جانتے کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کیا کچھ کرنا چاہتا ہے ۔ جب تک کہ انہیں معلوم نہ کرایا جائے ۔ آپ نے آسمان دنیا پر حضرت آدم علیہ السلام کو پایا ۔ جبرائیل علیہ السلام نے تعارف کرایا کہ یہ آپ کے والد حضرت آدم علیہ السلام ہیں انہیں سلام کیجئے ۔ آپ نے سلام کیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے جواب دیا ، مرحبا کہا اور فرمایا آپ میرے بہت ہی اچھے بیٹے ہیں ۔ وہاں دو نہریں جاری دیکھ کر آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ نہریں کیا ہیں ؟ آپ نے جواب دیا کہ نیل اور فرات کا عنصر ۔ پھر آپکو آسمان میں لے چلے ۔ آپ نے ایک اور نہر دیکھی ، جس پر لولو اور موتوں کے بالا خانے تھے ، جس کی مٹی خالص مشک تھے ۔ پوچھا یہ کونسی نہر ہے ؟ جواب ملا کہ یہ نہر کوثر ہے ۔ جسے آپ کے پروردگار نے آپ کے لئے خاص طور پر مقرر کر رکھی ہے ۔ پھر آپ کو تیسرے آسمان پر لے گئے ۔ وہاں کے فرشتوں سے بھی وہی سوال جواب وغیرہ ہوئے ، جو آسمان اول پر اور دوسرے آسمان پر ہوئے تھے ۔ پھر آپ کو چوتھے آسمان پر چھڑھایا گیا ۔ ان فرشتوں نے بھی اسی طرح پوچھا اور جواب پایا وغیرہ ۔ پھر پانچویں آسمان پر چڑھائے گئے ۔ وہاں بھی وہی کہا سنا گیا ، پھر چھٹے پر پھر ساتویں آسمان پر گئے ، وہاں بھی بات چیت ہوئے ۔ ہر آسمان پر وہاں کے نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں جن کے نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے جن میں سے مجھے یہ یاد ہیں کہ دوسرے آسمان میں حضرت ادریس علیہ السلام ، چوتھے آسمان میں حضرت ہارون ، پانچویں والے کا نام مجھے یاد نہیں ، چھٹے میں حضرت ابراہیم ، ساتویں میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ ، علیہ وعلی سائر الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ جب آپ یہاں سے بھی اونچے چلے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے اللہ میرا خیال تھا کہ مجھ سے بلند تو کسی کو نہ کرے گا اب آپ اس بلندی پر پہنچے جس کا علم اللہ ہی کو ہے یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی تک پہنچے اور اللہ تعالیٰ آپ سے بہت نزدیک ہوا ۔ بقدر دو کمان کے بلکہ اس سے کم فاصلے پر ۔ پھر اللہ کی طرف سے آپ کی جانب وحی کی گئی ۔ جس میں آپ کی امت پر ہر دن رات میں پچاس نمازیں فرض ہوئیں ۔ جب آپ وہاں سے اترے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو روکا اور پوچھا کیا حکم ملا ؟ فرمایا دن رات میں پچاس نمازوں کا ۔ کلیم اللہ علیہ السلام نے فرمایا ، ، یہ آپ کی امت کی طاقت سے باہر ہے ۔ آپ واپس جائیں اور کمی کی طلب کیجئے ، ، ۔ آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا کہ گویا آپ ان سے مشورہ لے رہے ہیں ۔ ان کا بھی اشارہ پایا کہ اگر آپ کی مرضی ہو تو کیا حرج ہے ؟ آپ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف گئے اور اپنی جگہ ٹھیر کر دعا کی کہ اے اللہ ہمیں تخفیف عطا ہو ۔ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ۔ پس اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں ۔ پھر آپ واپس لوٹے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو پھر روکا اور یہ سن کر فرمایا ۔ جاؤ اور کم کراؤ ۔ آپ پھر کئے ، پھر کم ہوئیں ، یہاں تک کہ آخر میں پانچ رہ گئیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر بھی فرمایا کہ دیکھو میں بنی اسرائیل میں اپنی عمر گزار کر آیا ہوں ۔ انہیں اس سے بھی کم حکم تھا لیکن پھر بھی وہ بےطاقت ثابت ہوئے اور اسے چھوڑ بیٹھے ۔ آپ کی امت تو ان سے بھی ضعیف ہے ، جسم کے اعتبار سے بھی اور دل ، بدن ، آنکھ کان کے اعتبار سے بھی ۔ آپ پھر جائیے اور اللہ تعالیٰ سے تخفیف کی طلب کیجئے ۔ آپ نے پھر حسب عادت حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کو پھر اوپرلے گئے ، آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ اے اللہ میری امت کے جسم ، دل ، کان آنکھیں اور بدن کمزور ہیں ۔ ہم سے اور بھی تخفیف کر ۔ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے جواب دیا لیک وسعدیک ۔ ، فرمایا ۔ سن میری باتیں بدلتی نہیں جو میں نے اب مقرر کیا ہے یہی میں ام الکتاب میں لکھ چکا ہوں ۔ یہ پانچ ہیں پڑھنے کے اعتبار سے اور بچاس ہیں ثواب کے اعتبار سے ۔ جب آپ والپس آئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ، کہو سوال منظور ہوا ؟ آپ نے فرمایا ۔ ہاں کمی ہوگئی یعنی پانچ کا ثواب پچاس کا مل گیا ہر نیکی کا ثواب دی گنا عطا فرمایا جانے کا وعدہ ہو گیا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کا تجربہ کر چکا ہوں ، انہوں نے اس سے بھی ہلکے احکام کو ترک کر دیا تھا ، آپ پھر جائیے اور کمی طلب کیجئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اے کلیم اللہ میں گیا ، آیا ، اب تو مجھے کچھ شرم سی محسوس ہوتی ہے ۔ آپ نے فرمایا اچھا پھر تشریف لے جائیے ۔ بسم اللہ کیجئے ۔ اب جب آپ جاگے تو آپ مسجد الحرام میں ہی تھے ۔ صحیح بخاری شریف میں یہ حخدمیث کتاب التوحید میں بھی ہے اور صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ہے ۔ یہی روایت شریک بن عبداللہ بن ابو نمر سے مروی ہے لیکن انہوں نے اضطراب کر دیا ہے بوجہ اپنی کمزوری حافظہ کم بالکل ٹھیک ضبط نہیں رکھا ۔ ان احادیث کے آخر میں اس کا بیان آئے گأ ۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ بعض اسے واقعہ خواب بیان کرتے ہیں شاید اس جملے کی بنا پر جو اس کے آخر میں وارد ہے واللہ اعلم ۔ حفظ ابو بکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے اس جملے کو جس میں ہے کہ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ قریب ہوا اور اتر آیا بس بقدر دو کمان کے ہو گیا ۔ بلکہ اور نزدیک ۔ شریک نامی راوی کی وہ زیادتی بتاتے ہیں جس میں وہ منفرد ہیں ۔ اسی لئے بعض حضرات نے کہا کہ آپ نے اس رات اللہ عزوجل کو دیکھأ ۔ لیکن حضرت عائشہ ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم ان آیتوں کو اس پر محمول کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت جرئیل علیہ السلام کو دیکھا ۔ یہی زیادہ صحیح ہے اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان بالکل حق ہے اور روایت میں ہے کہ جب آپ سے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ۔ وہ نور ہے ، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں ؟ اور روایت میں ہے کہ میں نے نور کو دیکھا ہے ۔ یہ جو سورۃ والنجم میں ہے ثم دنا فتدلی یعنی پھر وہ نزدیک ہوا اور اتر آیا ۔ اس سے مراد حضرت جبرائیل ہیں جیسے کہ ان تینوں بزرگ صحابیوں رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بیان ہے ۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے تو کوئی اس آیت کی اس تفسیر میں ان کا مخالف نظر نہیں آتا ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے باس براق لایا گیا ۔ جو گدھے سے اونچا اور خچر سے نیچا تھا ، جو ایک ایک قدم اتنی اتنی دور رکھتا تھا ، جتنی دور اس کی نگاہ پہنچے ۔ میں اس پر سوار ہوا وہ مجھے لے چلا ، میں بیت المقدص پہنچا اور اسی کنڈے میں اسے باندھ دیا ، جہاں انبیاء علیہ السلام باندھاہ کرتے تھے ، پھر میں نے مسجد میں جا کر دو رکعت نماز ادا کی ۔ جب وہاں سے نکلا تو جبرائیل علیہ السلام میرے پاس ایک برتن میں شراب لائے اور ایک میں دودھ ۔ میں نے دودھ کو پسند کر لیا ، جبرائیل نے فرمایا تم فطرت تک پہنچ گئے ۔ پھر اوپر اولی حدیث کی طرح آسمان اول پر پہنچنا ، اس کا کھلوانا ، فرشتوں کا دریافت کرنا ، جواب پانا ، ہر آسمان پر اسی طرح ہونا ، بیان ہے ۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جہنوں نے مرحبا کہا اور دعائے خیر کی ۔ دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام سے ملاقات ہونے کا ذکر ہے ، جو دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی بھائی تھے ۔ ان دونوں نے بھی آپ کو مرحبا کہا اور دعائے خیر دی ، پھر تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جنہیں آدھا حسن دیا گیا ہے ، آب نے بھی مرحبا کہا ، نیک دعا کی ، پھر چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، جن کی بابت فرمان الہٰی ہے ورفعناہ مکانا علیا ہم نے اسے اونچی جگہ اٹھا لیا ہے ۔ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ، ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیت المعمور سے تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا ۔ بیت المعمور میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں ، مگر جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی ۔ پھر سدرۃ المنتہی تک پہنچے ، جس کے پتے ہاتھی کے کانوں کے برابر تھے اور جس کے پھل مٹکے جیسے ۔ اسے امر رب نے ڈھک رکھا تھا ، اس خوبی کا کوئی بیان نہیں کر سکتا ۔ پہر وحی ہونے کا اور پچاس نمازوں کے فرض ہونونے کا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے واپس جا جا کر کمی کرا کرا کر پانچ تک پہنچنے کا بیان ہے ۔ اس میں ہر بار کے سوال پر پانچ کی کمی کا ذکر ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ آخر میں آپ سے فرمایا کیا جو نکی کا ارادہ کرے گو وہ عمل میں نہ آئے تاہم اسے ایک نکی کا ثواب مل جاتا ہے اور اگر کر لے تو دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور گناہ کے صرف ارادے سے گناہ نہیں لکھا جاتا اور کر لینے سے ایک ہی گناہ لکھا جاتا ہے ( مسلم ) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس رات آپ کو اسرابیت اللہ سے بیت المقدس تک ہوا اسی رات معراج بھی ہوئی اور یہی حق ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں٫ ۔ مسند احمد میں ہے کہ براق کی لگام بھی تھی اور زین بھی تھی ۔ جب وہ سواری کے وقت کسمسایا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کیا کر رہا ہے ؟ واللہ تجھ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ، آپ سے زیادہ بزرگ شخص کوئی سوار نہیں ہوا ۔ پس براقق پسینہ پسینہ ہو گیا ۔ آپ فرماتے ہیں جب مجھے میرے رب عزوجل کی طرف چڑھایا گیا تو میرا گزر ایسے لوگوں پرہوا جن کے تانبے کے ناخن تھے ، جن سے وہ اپنے جہروں اور سینوں کو نوچ اور چھیل رہے تھے ۔ میں نے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ تو جواب دیا گیا کہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے اور ان کی عزت وآبرو کے درپے رہتے تھے ۔ ابو داؤد میں ہے کہ معراج والی رات جب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر سے گزرا تو میں نے انہیں وہاں نماز میں کھڑا پایا ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ سے مسجد اقصٰی کے نشانات پوچھے آپ نے بتانے شروع کئے ہی تھے کہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے ، آپ بجا ارشاد فرما رہے ہیں اور سچے ہیں ۔ میری گواہی ہے کہ آپ رسول اللہ ہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے دیکھ رکھا تھا ۔ مسند بزار میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں سویا ہوا تھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور میرے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ دیا ۔ پس میں کھڑا ہو کر ایک درخت میں بیٹھ گیا جس میں پرندوں کے مکان جیسے تھے ایک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام بیٹھ گئے وہ درخت پھول گیا اور اونچا ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ اگر میں چاہتا تو آسمان کو چھو لیتا ۔ میں تو اپنی چادر ٹھیک کر رہا تھأ ، لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سخت تواضع اور فروتنی کے عالم میں ہیں ، عتو میں جان گیا کہ اللہ کی معرفت کے علم میں یہ مجھ سے افضل ہیں ، آسمان کا ایک دروازہ میرے لئے کھولا گیا ۔ میں نے ایک زبردست عظیم الشان نور دیکھا ، جو حجاب میں تھا اور اس کے اس طرف یاقوت اور موتی تھے ، پھر میری جانب بہت کچھ وحی کی گئی ۔ دلائل بیہقی میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام آئے اور آپ کی پیٹھ کو انگلی سے اشارہ کیا ، آپ ان کے ساتھ ایک درخت کی جانب چلے جس میں پرندوں کے گھونسلے جیسے تھے الخ اس میں یہ بھی ہے کہ جب ہماری طرف نور اترا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام تو بیہوش ہو کر گر پڑے الخ پھر میری جانب وحی کی گئی کہ نبی اور بادشاہ بننا چاہتے ہو ؟ یا نبی اور بندہ بننا چاہتے ہو اور جنتی ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اسی طرح تواضع سے گرے ہوئے مجھے اشارے سے فرمایا کہ تواضع اختیار کر و ، تو میں نے جواب دیا کہ اے اللہ میں نبی اور بندہ بننا منظور کرتا ہوں ۔ اگر یہ روایت صحیح ہو جائے تو ممکن ہے کہ یہ واقعہ معراج کے سوا اور ہو کیونکہ اس میں نہ بیت المقدس کا ذکر ہے نہ آسمان پر چڑھنے کا ، واللہ اعلم ۔ بزار کی ایک روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھأ لیکن یہ روایت غریب ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ براق نے جب حضرت جبرائیل کی بات سنی اور پھر وہ آپ کو سوار کرا کر کے لے چلا تو آپ نے راستے کے ایک کنارے پر ایک بڑھیا کو دیکھا پوچھا یہ کون ہے ؟ جواب ملا کہ چلے چلئے ۔ پھر آپ نے چلتے چلتے دیکھا کہ کوئی راستے سے یکسو ہے اور آپ کو بلا رہی ہے پھر آپ آگے بڑھے تو دیکھ کہ اللہ کی ایک مخلوق ہے اور باآواز بلند کہہ رہی ہے السلام علیک یا اول السلام علیک یا اخر السلام علیک یا حاشر جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا جواب دیجئے ، آپ نے ان کے سلام کا جواب دیا ۔ پھر دوبارہ ایسا ہی ہوا ، پھر تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا ، یہاں تک کہ آپ بیت المقدس پہنچے ۔ وہاں آپ کے سامنے پانی ، شراب اور دودھ پیش کیا گیا ، آپ نے دودھ لے لیا جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آپ نے راز فطرت پالیا ۔ اگر آپ پانی کے برتن لے کر پی لیتے تو آب کی امت غرق ہو جاتی اور اگر آپ شراب پی لیتے تو آپ کی امت بہک جاتی ۔ پھر آپ کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آپ کے زمانے تک کے تمام انبیاء بھیجے گئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امامت کرائی اور اس رات نماز سب نے آپ کی اقتداء میں پڑھی ۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا راستے گے کنارے جس بڑھیا کو آپ نے دیکھا تو وہ گویا یہ دکھایا گیا کہ دنیا کی عمر اب صرف اتنی ہی باقی ہے جیسے اس بڑھیا کی عمر اور جس کی آواز پر آپ تو جہ کرنے والے تھے وہ دشمن اللہ ابلیس تھا اور جن کی سلام کی آوازیں آب نے سنیں وہ ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ تھے علیہم الصلوۃ والسلام ۔ اس میں بھی بعض الفاظ میں غرابت ونکارت ہے واللہ اعلم ۔ اور روایت میں ہے کہ جب میں براق پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں چلا تو ایک جگہ انہوں نے مجھ سے فرمایا یہیں اتر کی نماز ادا کیجئے جب میں نماز پڑھ چکا تو فرمایا ۔ جانتے ہو کہ یہ کونسی جگہ ہے ؟ یہ طیبہ ( یعنی مدینہ ) ہے یہی ہجرت گاہ ہے ۔ پھر ایک اور جگہ مجھ سے نماز پڑھوائی اور فرمایا یہ طور سینا ہے ، جہاں اللہ تعالیٰ نے جضرت موسیٰ سے کلام کیا ۔ پھر ایک اور جگہ نماز پڑھوا کر فرمایا ۔ یہ بیت لحم ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے پھر میں بیت المقدس پہنچا ۔ وہاں تمام انبیاء جمع ہوئے ، جبرائیل علیہ السلام نے مجھے امام بنایا ۔ میں نے امامت کی ، پھر مجھے آسمان کی طرف چڑھالے گئے پھر آپ کا ایک ایک آسمان پر پہنچنا ، وہاں پیغمبروں سے ملنا مذکور ہے ۔ فرماتے ہیں جب میں سدر ۃ المنتہی تک پہنچا تو مجھے ایک نوارنی ابر نے ڈھک لیا میں اسی وقت سجدے میں کر پڑا ، پھر آپ پر پچاس نمازوں کا فرض ہونا اور کم ہونا وغیرہ کا بیان ہے ۔ آخر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بیان میں ہے کہ میری امت پر تو صرف دو نمازیں مقرر ہوئی تھیں لیکن وہ انہیں بھی نہ بجا لائے ۔ آپ پھر پانچ سے بھی کمی چاہنے کے لئے گئے تو فرمایا گیا کہ میں نیتو آسمان وزمین کی پیدائش والے دن ہی تجھ پر اور تیری امت پر یہ پانچ نمازیں مقرر کر دی تھیں ۔ یہ پڑھنے میں پانچ ہیں اور ثواب میں پچاس ہیں ۔ پس تو اور تیری امت اس کی حفاظت کرنا آپ فرماتے ہیں اب مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ کا یہی حکم ہے ۔ پھر جب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے پھر واپس لو ٹنے کا مشورہ دیا لیکن چونکہ میں معلوم کر چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حتمی حکم ہے ، اس لئے میں پھر اللہ کے پاس نہ گیا ۔ ابن ابی حاتم میں بھی معراج کے واقعہ کی مطول حدیث ہے ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ جب آپ بیت المقدس کی مسجد کے پاس اس دروازے پر پہنچے جسے باب محمد کہا جاتا ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) وہیں ایک پتھر تھا جسے حضرت جبرائیل نے اپنی انگلی لگائی تو اس میں سوراخ ہو گیا ، وہیں آپ نے براق کو باندھا اور مسجد پر چڑھ کئے ۔ بیچوں بیچ جانے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا آپ نے اللہ تعالیٰ یے یہ آرزو کی ہے کہ وہ آپ کو حوریں دکھائے ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، کہا آئیے ، وہ یہ ہیں ، سلام کیجئے ، ، وہ صخرہ کے بائیں جانب بیٹھی ہوئی تھیں ، میں نے وہاں پہنچ کر انہیں سلام کیا ، سب نے میرے سلام کا جواب دیا ، میں نے پوچھا ، تم سب کون ہو ؟ انہوں نے کہ ہم نیک سیرت ، خوبصورت ، حوریں ہیں ہم بیویاں ہیں اللہ کے پرہیز گأر بندوں کی جو نیک کار ہیں ، جو گناہوں کے میل کچیل سے دور ہیں ، جو پاک کر کے ہمارے پاس لائے جائیں گے پھر نہ نکالے جائیں گے ہمارے پاس ہی رہیں گے ، کبھی جدا نہ ہوں گے ہمیشہ زندہ رہیں گے کبھی نہ مریں کے ۔ میں ان کے پاس سے چلا آیا ۔ وہیں لوگ جمع ہو نے شروع ہوگئے اور ذرا سی دیر میں بہت سے آدمی جمع ہوگئے ۔ موذن نے اذان کہی تکبیر ہوئی اور ہم سب کھڑے ہوگئے ۔ منتظر تھے کہ امامت کون کرائے گا ؟ جو جبرائیل علیہ السلام نے کہا جانتے بھی ہو کن کو آپ نے نماز پڑھائی ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا آپ کے پیچھے آپ کسے یہ سب مقتدی اللہ کے پیغمبر تھے ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ مبعوث فرما چکا ہے پھر میرا ہاتھ تھام کر آسمان کی طرف لے چلے ۔ پھر بیاں ہے کہ آسمانوں کے دروازے کھلوائے ۔ فرشتوں نے سوال کیا ۔ جواب پا کر دروازے کھولے وغیرہ ۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انہوں نے فرمایا میرے بیٹے اور نیک نبی کو مرحبا ہو ۔ اس میں چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات کرنے کا ذکر بھی ہے ۔ ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملنے اور ان کے بھی وہی فرمانے کا ذکر ہے جو حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا تھا ۔ پھر مجھے وہاں سے بھی اونچا لے گئے ۔ میں نے ایک نہر دیکھی ، جس میں لولو یاقوت اور ابر جد کے جام تھے اور بہترین ، خوش رنگ ، سبز پرند تھے ۔ میں نے کہا یہ تو نہایت ہی نفیس پرند ہیں ۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا وہ نہر کوثر ہے جو اللہ نے آپ عطا فرما رکھی ہے اس میں سونے چاندی کے آبخورے تھے جو یاقوت وزمرد سے جڑاؤ تھے ۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا ۔ میں نے ایک سونے کا پیالہ لے کر پانی بھر کر پیا تو وہ شہد سے بھی زیادہ میٹھا تھا اور مشک سے بھی زیادہ خوشبودار تھا ۔ جب میں اس سے بھی اوپر پہنچا تو ایک نہایت خوش رنگ بادل نے مجھے آگھیرا جس میں مختلف رنگ تھے ، جبرائیل علیہ السلام نے تو مجھے چھوڑ دیا اور میں اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑا ۔ پھر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا بیان ہے ۔ پھر آپ واپس ہوئے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو کچھ نہ فرمایا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ کو سمجھا بجھا کر واپس طلب تخفیف کے لئے بھیجا ، الغرض اسی طرح آپ کا باربار آنا ، بادل میں ڈھک جانا دعا کرنا ، تخفیفی ہونا ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ملتے ہوئے آنا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بیان کرنا ہاں تک کہ پانچ نمازوں کا رہ جانا بیان ہے وغیرہ ۔ يپ فرماتے ہیں پھر مجھے جبرائیل لے کر نیچے اترے میں نے ان سے پوچھا کہ جس آسمان پر میں پہنچا وہاں کے فرشتوں نے خوشی طاہر کی ہنس ہنس کر مسکراتے ہوئے مجھ سے ملے بجز ایک فرشتے کہ کہ اس نے میرے سلام کا جواب تو دیا مجھے مرحبا بھی کہا لیکن مسکرائے نہیں یہ کون ہیں اس کی وجہ کیا ہے ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا ۔ وہ ملاک ہیں ۔ جہنم کے داروغہ ہیں ، اپنے پیدا ہونے سے لیکر کر آج وہ ہنسے ہی نہیں اور قیامت تک ہنسیں گے بھی نہیں کیونکہ ان کی خوشی کا یہی ایک بڑا موقعہ تھأ ۔ واپسی میں قریشیوں کے ایک قافلے کو دیکھا جو غلہ لا دے جا رہا تھا ، اس میں ایک اونٹ تھا جس پر ایک ایک سفید اور ایک سیاہ بورا تھا ، جب آپ اس کے قریب سے گزرے تو وہ چمک گیا اور مڑ گیا اور گر پڑا اور لنگڑا ہو گیا آپ اس طرح اپنی جگہ پہنچا دئے گئے ۔ صبح ہو تے ہی آپ نے اپنی اس معراد کا ذرک لوگوں سے کیا ۔ مشرکوں نے جب یہ سنا تو وہ سیدھے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے لو تمہارے پیغمبر صاحب تو کہتے ہیں کہ وہ آج کی ایک ہی رات میں مہینہ بھر کے فاصلے کے مقام تک ہو آئے ۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر فی الواقع آپ نے یہ فرمایا ہو تو آپ سچے ہیں ، ہم تو اس سے بھی بڑی بات میں آپ کو سچا جانتے ہیں ۔ ہم مانتے ہیں کہ آپ کو آن کی آن میں آسمان سے خبریں پہنچتی ہیں ۔ مشرکوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کی سچائی کی کوئی علامت بھی آپ پیش کر سکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں میں نے راستے میں فلاں فلاں جگہ قریش کا قافلہ دیکھا ۔ ان کا ایک اونٹ جس پر سفید وسیاہ رنگ کے دو بورے ہیں ، وہ ہمیں دیکھ کر بھڑ کا ، گھوما اور چکر کھا کر گر پڑا اور ٹانگ ٹوٹ گئی جب وہ قافلہ آیا لوگوں نے ان سے جا کر پوچھا کہ راستے میں کوئی نئی بات تو نہیں ہوئی ؟ انہوں نے کہا ہاں ہوئی ۔ فلاں اونٹ فلاں جگہ اس طرح گرا وغیرہ ۔ کہتے ہیں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ کی اسی صدیق کی وجہ سے انہیں صدیق کہا گیا ہے رضی اللہ عنہ ۔ پھر آپ سے لوگوں نے سوال کیا کہ آپ نے فرمایا ہاں موسیٰ تو گندم گوں رنگ کے ہیں ، جیسے ازدعمان کے آدمی ہوتے ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام درمیانہ قد کے کچھ سرخی مائل رنگ کے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ان کے لبوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہم ہیں ۔ اس سیاق میں بھی عجائب وغرائب ہیں ۔ مسند احمد میں ہے ، حطیم میں سویا ہوا تھا ، اور روایت میں صخر میں سویا ہوا تھا کہ آنے والا آیا ۔ ایک نے درمیان والے سے کہا اور وہ میرے پاس آیا اور یہاں سے یہاں تک چاک کر ڈالا یعنی گلے کے پاس سے ناف تک ۔ پھر مندرجہ بالا احادیث کے مطابق بیان ہے اس میں ہے کہ چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے میں نے سلام کیا ۔ آپنے جواب دیا اور فرمایا نیک بھائی اور نیک نبی کو مرحبا ہو ۔ جب میں وہاں سے آگے پڑھ گیا تو آپ رو دئے ۔ پوچھا گیا کیسے روئے ؟ جواب دیا کہ اس لئے کو جو بچہ میرے بعد نبی بنا بھیجا گیا ، اس کے امت بہ نسبت میری امت کے جنت میں زیادہ تعداد میں جائے گی ۔ اس میں ہے کہ سدرۃ المنتہی آیا کے پاس چار نہریں دیکھیں دو ظاہر اور دو باطن میں ۔ جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا ، آپ نے مجھے بتلایا کہ باطنی تو جنت کی نہریں ہیں اور ظاہری نیل وفرات ہیں ، پھر میری جانب بیت المعمور بلند کیا گیا ۔ پھر میرے پاس شراب کا ، دودھ کا اور شہدم کا برتن آیا ۔ میں نے دودھ کا اور شہد کا برتن آیا ۔ میں نے دودھ کا برتن لے لیا ۔ فرمایا یہ فطرت ہم جس پر تو ہے اور تیری امت ۔ اس میں ہے کہ جب پانچ نمازیں ہی رہ گئیں اور پھر بھی کلیم اللہ نے واپسی کا مشورہ دیا تو آپ نے فرمایا میں تو اپنے رس سے سوال کرتے کرتے شرما گیا ۔ اب میں راضی ہوں اور تسلیم کر لیتا ہوں ۔ اور روایت میں ہے کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی میں اس وقت مکہ میں تھا الخ ۔ اس میں ہے کہ جب میں جبرائیل علیہ السلام کے ساٹھ آسمان دنیا پر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ، جن کے دائیں بائیں بری بڑی جماعت ہے وہ داہنی جانب دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں اور جب بائیں جانب نگاہ اٹھتی ہے تو رو دیتے ہیں ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟ اور ان کے دائیں بائیں کون ہیں ؟ فرمایا یہ آدم علیہ السلام ہیں اور یہ ان کی اولاد ہے ، دائیں جانب والے جنتی ہیں اور بائیں جانب والے جہنمی ہیں ، انہیں دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور انہیں دیکھ کر رنجیدہ ۔ اس روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم بعلیہ السلام سے چھٹے آسمان پر ملاقات ہوئی ۔ اس میں ہے کہ ساتویں آسمان سے میں اور اونچا پہنچایا گیا مستوی میں پہنچ کر میں نے قلموں کے لکھنے کی آوازیں سنیں ۔ اس میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے سے میں طلب تخفیف کے لئے گیا تو اللہ نے آدھی معاف فرما دیں ۔ پھر گیا ، پھر آدھی معاف ہوئی ، پھر گیا تو پانچ مقرر ہوئیں ۔ اس میں ہے کہ سدرۃ المنتہی سے ہو کر میں جنت میں پہنچایا گیا ۔ جہاں سچے موتیوں کے خیمے تھے اور جہاں کی مٹی مشک خالص تھی ۔ یہ پوری حدیث صحیح بخاری شریف کی کتاب الصلوۃ میں ہے اور ذکر بنی اسرائیل میں بھی ہے اور بیان حج میں اور احادیث انبیاء میں بھی ہے ۔ امام مسلم نے صحیح مسلم کتاب الایمان میں بھی وارد فرمائی ہے ۔ مسند احمد میں عبداللہ بن ثیقق رحمۃ اللہ نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو کم از کم ایک بات تو ضرور پوچھ لیتا آپ نے دریافت فرمایا کیا بات ؟ کہا یہی کہ کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ؟ تو حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ تو میں نے آپ سے پوچھا تھا آپ نے جواب دیا کہ میں نے اسے نور دیکھا ۔ بخاری ومسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب میں نے معراج کے واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا اور قریش نے جھٹلایا ، میں اس وقت حطیم میں کھڑا ہوا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس میری نگاہوں کے سامنے لا دیا اور اسے بالکل ظاہر کر دیا ۔ اب جو نشانیاں وہ مجھ سے پوچھتے تھے میں دیکھتا جاتا تھا اور بتاتا جاتا ہے ۔ بیہقی میں ہے کہ بیت المقدس میں آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی ۔ اس میں ہے کہ جب واپس کی جماعت اسی وقت دوڑی بھاگی ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچی اور کہنے لگے لو اور سنو آج تو تمہارے ساتھی ایک عجیب خبر سنا رہیں ، کہتے ہیں ایک ہی رات میں وہ بیت المقدس سے ہو کر بھی آگئے ۔ آپ نے فرمایا اگر وہ فرماتے ہیں تو سچ ہے ۔ واقعی ہو آئے ہیں انہوں نے نے کہا یعنی تم اسے بھی مانتے ہو کہ رات کو جائے اور صبح سے پہلے ملک شام سے واپس مکہ پہنچ جائے ؟ آپ نے فرمایا اس بھی زیادہ بڑی بات کو میں اس سے بہت پہلے سے مانتا چلاآیا ہوں ۔ یعنی میں مانتا ہو کہ ان کے پاس آسمان سے خبریں آتی ہیں اور وہ ان تمام میں سچے ہیں ۔ اسی وقت سے آپ کا لقب ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت زربی جیش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت حدیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا ، اس وقت آپ معراج کا واقعہ بیان فرا رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم چلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے ، دونوں صاحب اندر نہیں گئے ، میں نے یہ سنتے ہی کہا ، غلط ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے بلکہ اس رات آپ نے وہاں نماز بھی پڑھی ، آپ نے فرمایا تیرا کا نام ہے ، میں تجھے جانتا ہوں لیکن نام یاد نہیں پڑتا ۔ میں نے کہا میرا نام زر بن جیش ہے فرمایا تم نے یہ بات کیسے معلوم کر لی ؟ میں نے کہا یہ تو قرآن کی خبر ہے ، آپ نے فرمایا جس نے قرآن سے بات کہی اس نے نجات پائی ۔ پڑھئے وہ کونسی آیت ہے تو میں نے سبحان الذی کی یہ آیت پڑھی آپ نے فرمایا اس میں کس لفظ کے معنی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز ادا کی ؟ ورنہ آپ نے اس رات وہاں نماز نہیں پڑھی اور اگر پڑھ لتیے تو تم پر اسی طرح وہاں کی نماز لکھ دی جاتی ۔ جس طرح بیت اللہ کی ہے واللہ وہ دونوں براق پر ہی رہے یہاں تک کہ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھل گئے ، پس جنت دوزخ دیکھ لی اور آخرت کے وعدے کی اور تمام چیزین بھی ۔ پھر ویسے کے ویسے ہی لوٹ آئے پھر آپ خوب ہنسے اور فرمانے لگے مزہ تو یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ وہاں آپ نے براق باندھا کہ کہیں بھاگ نہ جائے ۔ حالانکہ عالم الغیب والشہادۃ اللہ عالم نے اسے آپ کے لئے مسخر کیا تھا ۔ میں نے پوچھا کیوں جناب یہ بارق کیا ہے ؟ کہا ایک جانور ہے سفید رنگ لانبے قد کا جو ایک ایک قدم اتنی اتنی دور رکھتا ہے ، جتنی دور نگاہ کام کرے ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے محض انکار سے وہ روایتیں جن میں بیت المقدس کی نماز کا ثبوت ہے وہ مقدم ہیں ۔ ( واللہ اعلم ) حافظ ابو بکر بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب دلائل النبوۃ میں ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے آپ سے معراج کے واقعہ کے ذکر کی درخواست کی تو آپ نے پہلے تو یہی آیت سبحان الذی کی تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ میں عشاء کے بعد مسجد میں سویا ہوا تھا ، جو ایک آنے والے نے آکر مجھے جگایا میں اٹھ بیٹھا لیکن کوئی نظر نہ پڑا ، ہاں کچھ جانور سا نظر آیا ، میں نے غور سے دیکھا اور برابر دیکھتا ہوا مسجد کے باہر چلا گیا تو مجھے ایک عجیب جانور نظر پڑا ہمارے جانوروں میں سے تو اس کے کچھ مشابہ خچر ہے ۔ ہلتے ہوئے اور اوپر کو اٹھے ہوئے کانوں والا تھا ۔ اس کا نام براق ہے مجھ سے پہلے کے انبیاء بھی اسی پر سوار ہوتے رہے ، میں اس پر سوار ہو کر چلا ہی تھا کہ میری دائیں جانب سے کسی نے آواز دی کہ محمد میری طرف دیکھ میں تجھ سے کچھ پوچھوں گا ۔ لیکن نہ میں نے جواب دیا نہ ٹھیرا ۔ پھر کچھ آگے گیا کہ ایک عورت دنیا بھر کی زینت کئے ہوئے باہیں کھولے کھڑی ہوئی ہے ، اس نے مجھے اسی طرح آواز دی کہ میں کچھ دریافت کرنا چاہتی ہوں لیکن میں نے نہ اس کی طرف التفات کیا ، نہ ٹھیرا ۔ پھر آپ کا بیت المقدس پہنچنا ، دودھ کا برتن لینا اور جبرائیل علیہ السلام کے فرمان سے خوش ہو کر دد دفعہ تکبیر کہنا ہے ۔ پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پوچھا ۔ آپ کے چہرے پر فکر کیسے ہے ؟ میں نے وہ دونوں راستے کے بیان کئے تو آپ نے فرمایا کہ پہلا شخص تو یہود تھا اگر آپ اسے جواب دیتے یا وہاں ٹھیرتے تو آپ کی امت یہود ہو جاتی ۔ دوسرا نصرانیوں کا دعوت دینے والا تھاوہاں ٹھیرتے تو آپ کی امت دنیا کو آخرت پر ترجیح دے کر گمراہ ہو جاتی ۔ پھر میں اور جبرائیل بیت المقدس میں گئے ہم دونوں نے دو دو رکعتیں ادا کیں پھر ہمارے سامنے معراج لائی گئی جس سے بنی آدم کی روحیں چڑھتی ہیں دنیا نے ایسی اچھی چیز کبھی نہیں دیکھی تم نہیں دیکھتے کہ مرنے والے کی آنکھیں آسمان کی طرف چڑھ جاتی ہیں یہ اسی سیڑھی کو دیکھتے ہوئے تعجب کے ساتھ ۔ ہم دونوں اوپر چڑھ گئے میں نے اسماعیل نامی فرشتے سے ملاقات کی جو آسمان دنیا کا سردار ہے جس کے ہاتھ تلے ستر ہزار فرشتے ہیں ، جن میں سے ہر ایک فرشتے کے ساتھ اس کے لشکری فرشتوں کی تعداد ایک لاکھ ہے ۔ فرمان الہٰی ہے تیرے رب کے لشکروں کو صرف وہی جانتا ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس آسمان کا دروازہ کھلوانا چاہا ، پوچھا گیا کون ہے ؟ کہا جبرائیل ، پوچھا گیا آپ کے ساتھ اور کون ہیں ؟ بتلایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہا گیا کہ کیا ان کی طرف بھیجا گیا تھا ؟ جواب دیا کہ ہاں ، وہاں میں نے حضرت آدم علیہ السلام کو دیکھا ، اسی ہیت میں ، جس میں وہ اس دن تھے جس دن اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا تھا ۔ ان کی اصلی صورت پر ۔ ان کے سامنے ان کی اولاد کی روحیں پیش کی جاتی ہیں ۔ نیک لوگوں کی روحوں کو دیکھ کر فرماتے ہیں پاک روح ہے اور جسم بھی پاک ہے ۔ اسے علیین میں لے جاؤ اور بدکاروں کی روحوں کو دیکھ کر فرماتے ہیں ۔ خبیث روح جسم بھی خبیث ہے ۔ اسے سجین میں لے جاؤ ۔ کچھ ہی چلا ہوں گا جو میں نے دیکھا کہ خوان لگے ہوئے ہیں جن پر نہایت نفیس گوشت بھنا ہوا ہے اور دوسری جانب اور خوان لگے ہوئے ہیں جن پر بدبودار سڑا بسا گوشت رکھا ہوا کچھ لوگ ہیں جو عمدہ گوشت کے تو پاس بھی نہیں آتے اور اس سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا جرئیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب دیا کہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو حلال کو چھوڑ کر حرام کی رغبت کرتے تھے ۔ پھر میں کچھ اور چلا تو کچھ اور لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ اونٹ کی طرح کے ہیں ، ان کے منہ پھاڑ پھاڑ کر فرشتے انہیں اس گوشت کم لقمے دے رہے ہیں جو انکے دوسرے راستے سے واپس نکل جاتا ہے وہ چیخ چلا رہے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی کر رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ آپ کی امت کے لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھا جایا کرتے تھے جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور وہ ضرور بھڑ کتی ہوئی جہنم کی آگ میں جائیں گے ۔ میں کچھ دور اور چلا جو دیکھا کہ کچھ عورتیں اپنے سینوں کے بل ادھر لٹکی ہوئی ہیں اور ہائے وائے کر رہی ہیں ۔ میرے پوچھنے پر جواب ملا کہ یہ آپ کی امت کی زنا کار عورتیں ہیں ۔ میں کچھ دور اور گیا تو دیکھا کہ کچھ لوگوں کے پیٹ بڑے بڑے گھروں جیسے ہیں جب وہ اٹھنا چاہتے ہیں گر پڑتے ہیں اور باربار کہہ رہے ہیں کہ اے اللہ قیامت قائم نہ ہو فرعونی جانوروں سے وہ روندے جاتے ہیں اور اللہ کے سامنے آہ وزاری کر رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کی امت کے وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے ، سود خور ان لوگوں کی طرح ہی کھڑے ہوں گے ، جنہیں شیطان نے باؤلا بنا رکھا ہو ۔ میں کچھ دور اور چلا تو دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں ، جن کے پہلو سے گوشت کاٹ کاٹ کر فرشتے انہی کو کھلا رہے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ جس طرح اپنے بھائی کا گوشت اپنی زندگی میں کھاتا رہا اب بھی کھا ۔ میں نے پوچھا جبرائیل یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ آپ کی امت کے عیب جو اور آوازہ کش لوگ ہیں ۔ پھر ہم دوسرے آسمان پر چڑھے تو میں نے وہاں ایک نہایت ہی حسین شخص کو دیکھا جو اور حسین لوگوں پر وہی فضیلت رکھتا ہے جو فضیلت کو چاند کو ستاروں پر ہے ، میں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ کون ہیں ؟ انہوں نے فرمایا یہ آپ کے بھائی حضور یوسف علیہ السلام ہیں اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے کچھ لوگ ہیں ۔ میں نے انہیں سلام کیا جس کا جواب انہوں نے دیا ۔ پھر ہم تیسرے آسمان کی طرف چڑھے ۔ اسے کھلوایا وہاں حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھا ۔ ان کے ساتھ ان کی قوم کے کچھ آدمی تھے ، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے مجھے جواب دیا ، پھر میں چوتھے آسمان کی طرف چڑھا ۔ وہاں حضرت ادریس علیہ السلام کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر اٹھالیا ہے ، میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا ، پھر پانچویں آسمان کی طرف چڑھا ، وہاں حضرت ہارون علیہ السلام تھے ، جنکی آدھی داڑھی سفید تھی اور آدھی سیاہ اور بہت لمبی داڑھی تھی ، قریب قریب ناف تک ۔ میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے سوال کیا انہوں نے بتایا کہ یہ اپنی قوم کے ہر دلعزیز حضرت ہارون بن عمران علیہ السلام ہیں ان کے ساتھ ان کی قوم کی جماعت ہے ، انہوں نے بھی میرے سلام کا جواب دیا ، پھر میں چھٹے آسمان کی طرف چڑھا ، وہاں حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام سے ملاقا ہوئی ، آپ کا گندم گوں رنگ تھا بال بہت تھے ، اگر دو کرتے بھی پہن لیں تو بال ان سے گزر جائیں آپ فرمانے لگے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے پا ان سے بڑے مرتبے کا ہوں ، حالانکہ یہ مجھ سے بڑے مرتبے کے ہیں جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کرنے سے مجھے معلوم ہوا کہ آپ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام ہیں ، آپ کے پھی آپ کی قوم کے لوگ تھے ۔ آپ نے بھی میرے سلام کا جواب دیا ۔ پھر میں ساتویں آسمان کی طرف چڑھا ۔ وہاں میں نے اپنے والد حضرت ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کو اپنی پیٹھ بیت المعمور سے ٹکائے ہوئے بیٹھا دیکھا ۔ آپ بہت ہی بہتر آدمی تھے ۔ دریافت پر مجھے آپ کا نام بھی معلوم ہوا ۔ میں نے سلام کیا آپ نے جواب دیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل نام : آیت ٤ کے فقرے وَقَضَیْنَآ اِلیٰ بَنِیْٓ اِسْرَآ ئِیْلَ فِی اْلکِتٰبِ سے ماخوذ ہے ۔ مگر اس میں موضوع بحث بنی اسرائیل میں ہیں ، بلکہ یہ نام بھی اکثر قرآنی سورتوں کی طرح صرف علامت کے طور پر رکھا گیا ہے ۔ زمانہ نزول : پہلی ہی آیت اس بات کی نشان دہی کر دیتی ہے کہ یہ سورت معراج کے موقع پر نازل ہوئی ہے ۔ معراج کا واقعہ حدیث اور سیرت کی اکثر روایات کے مطابق ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا تھا اس لیے یہ سورت بھی انہی سورتوں میں سے ہے جو مکی دور کے آخری زمانے میں نازل ہوئیں ۔ پس منظر : اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو توحید کی آواز بلند کرتے ہوئے ١۲ سال گزر چکے تھے ۔ آپ کے مخالفین آپ کا راستہ روکنے کے لیے سارے جتن کر چکے تھے ۔ مگر ان کی تمام مزاحمتوں کے با وجود آپ کی آواز عرب کے گوشے گوشے میں پہنچ گئی تھی ۔ عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ رہا تھا جس میں دو چار آدمی آپ کی دعوت سے متاثر نہ ہو چکے ہوں ۔ خود مکے میں ایسے مخلص لوگوں کا ایک مختصر جتھا بن چکا تھا جو ہر خطرے کو اس دعوت حق کی کامیابی کے لیے انگیز کرنے کو تیار تھے ۔ مدینے میں اوس اور خَزرج کے طاقتور قبیلوں کی بڑی تعداد آپ کی حامی بن چکی تھی ۔ اب وہ وقت قریب آلگا تھا جب آپ کو مکے سے مدینے کی طرف منتقل ہو جانے اور منتشر مسلمانوں کو سمیٹ کر اسلام کے اصولوں پر ایک ریاست قائم کر دینے کا موقع ملنے والا تھا ۔ ان حالات میں معراج پیش آئی ، اور واپسی پر یہ پیغام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو سنایا ۔ موضوع اور مضمون : اس سورت میں تنبیہ ، تفہیم اور تعلیم ، تینوں ایک متناسب انداز میں جمع کر دی گئی ہیں ۔ تنبیہ ، کفار مکہ کو کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل اور دوسری قوموں کے انجام سے سبق لو اور خدا کی دی ہوئی مہلت کے اندر ، جس کے ختم ہونے کا زمانہ قریب آلگا ہے ، سنبھل جاؤ ، اور اس دعوت کو قبول کر لو سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے ذیعہ سے پیش کیا جا رہا ہے ، ورنہ مٹا دیے جاؤ گے اور تمہاری جگہ دوسرے لوگ زمین پر بسائے جائیں گے ۔ نیز ضمنا بنی اسرائیل کو بھی ، جو ہجرت کے بعد عنقریب زبان وحی کے مخاطب ہونے والے تھے ، یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ پہلے جو سزائین تمہیں مل چکی ہیں ان سے عبرت حاصل کرو اور اب جو موقع تمہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے مل رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھاؤ ، یہ آخری موقع بھی اگر تم نے کھو دیا اور پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو دردناک انجام سے دوچار ہوگے ۔ تفہیم کے پہلو میں بڑے دلنشین طریقے سے سمجھا یا گیا ہے کہ انسانی سعادت و شقاوت اور فلاح و ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو ان بنیادی حقیقتوں کے بارے میں کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے ۔ اور استدلال کے ساتھ بیچ بیچ میں منکو ین کی جہالتوں پر زجرو وبیخ بھی کی گئی ہے ۔ تعلیم کے پہلو میں اخلاق اور تمدن کے وہ بڑے بڑے اصول بیان کیے گئے ہیں جن پر زندگی کے نظام کو قائم کرنا دعوت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر تھا ۔ یہ گویا اسلام کا منشور تھا جو اسلامی ریاست کے قیام سے ایک سال پہلے اہل عرب کے سامنے پیش کیا گیا تھا ۔ اس میں واضح طور پر بتا دیا گیا کہ یہ خاکہ ہے جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کی اور پھر پوری انسانیت کی زندگی کو تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ ان سب باتوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ مشکلات کے اس طوفان میں مضبوطی کے ساتھ ساتھ اپنے موقف پر جمے رہیں اور کفر کے ساتھ مصالحت کا خیال تک نہ کریں ۔ نیز مسلمانوں کو ، جو کبھی کبھی کفار کے ظلم و ستم اور ان کی کج بحثیوں ، اور ان کے طوفان کذب و افتراء پر بے ساختہ جھنجھلا اٹھے تھے ، تلقین کی گئی ہے کہ پورے صبر وسکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہیں اور تبلیغ و اصلاح کے کام میں اپنے جذبات پر قابو رکھیں ۔ اس سلسلہ میں اصلاح نفس اور تزکیہ نفس کے لیے ان کو نماز کا نسخہ بتایا گیا ہے ، کہ یہ وہ چیز ہے جو تم کو ان صفات عالیہ سے متصف کرے گے جس سے راہ حق کے مجاہدوں کو آراستہ ہونا چاہیے ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب پنج وقتہ نماز پابندی اوقات کے ساتھ مسلمانوں پر فرض کی گئی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

سورۃ بنی اسرائیل تعارف اس سورت کی سب سے پہلی آیت ہی یہ بتا رہی ہے کہ اس کا نزول معراج مبارک کے واقعے کے بعد ہوا ہے۔ اگرچہ معراج کے واقعے کی ٹھیک ٹھیک تاریخ یقینی طور پر متعین کرنا مشکل ہے، لیکن زیادہ تر روایات کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ عظیم واقعہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے دس سال بعد اور ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس وقت تک اسلام کی دعوت کا پیغام نہ صرف عرب کے بت پرستوں تک، بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں تک بھی پہنچ چکا تھا۔ اس سورت میں معراج کے غیر معمولی واقعے کا حوالہ دے کر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد بنو اسرائیل کے واقعے کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ کس طرح انہیں دو مرتبہ اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح مشرکین عرب کو سبق دیا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی مخالفت سے بازآجائیں، ورنہ ان کو بھی اسی قسم کے انجام سے سابقہ پیش آسکتا ہے، کیونکہ اس وقت قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اعتدال کے ساتھ سیدھے راستے کی طرف ہدایت کر رہی ہے۔ ( آیت نمبر ٩) پھر آیت نمبر ٢٢ سے ٣٨ تک مسلمانوں کو ان کے دینی، معاشرتی اور اخلاقی طرز عمل کے بارے میں نہایت اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ اور مشرکین کے نامعقول اور معاندانہ طرز عمل کی مذمت کر کے ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتے رہیں۔ چونکہ سورت کے شروع میں بنو اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے دو اہم واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے سورت کا نام سورۃ بنی اسرائیل ہے۔ اور اس کا دوسرا نام سورۃ الاسراء بھی ہے۔ اسراء سفر معراج کو اور خاص طور پر اس سفر کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے جایا گیا، سورت کا آغاز ہی چونکہ اس معجزانہ سفر کے تذکرے سے ہوا ہے، اس لیے اس کو سورۃ الاسراء بھی کہا جاتا ہے۔