سر گزشت معراج کا تسلسل پس آپ نے نہ تو صخرہ کی ایسی تعظیم کی جیسے یہود کرتے تھے کہ نماز بھی اسی کے پیچھے پڑھتے تھے بلکہ اسی کو قبلہ بنا رکھا تھا ۔ چونکہ حضرت کعب رحمۃ اللہ عیہ بھی اسلام سے پہلے یہودی تھے اسی لئے آپ نے ایسی رائے پیش کی تھی جسے خلیفۃ المسلمین نے ٹھکرا دیا اور نہ آپ نے نصرانیوں کی طرح صخرہ کی اہانت کی کہ انہوں نے تو اسے کوڑا کرکٹ ڈالنے کی جگہ بنا رکھا ۔ بلکہ آپ نے خود اس کے آس پاس سے کوڑا اٹھا کر پھینکا یہ بالکل اس حدیث کے مشابہ ہے جس میں ہے کہ نہ تو قبروں پر بیٹھو نہ ان کی طرف نماز ادا کرو ۔ ایک طویل روایت معراج کی بابت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے غرب والی بھی مروی ہے ، اس میں ہے کہ جبرائیل اور میکائیل علیہ السلام کے لائے ہوئے پانی کے طشت سے اسے دھویا اور آپ کے سینے کو کھول دیا سب غل و غش دور کر دیا اور علم و حلم ایمان و یقین سے اس پر کیا اسلام میں بھر دیا اور آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت لگا دی ۔ اور ایک گھوڑے پر بٹھا کر آپ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام لے چلے دیکھا ایک قوم ہے ادھر کھیتی کاٹتی ہے ادھر بڑھ جاتی ہے ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ اللہ کی راہ کے مجاہد ہیں جن کی نیکیاں سات سات سو تک بڑھتی ہیں جو خرچ کریں اس کا بدلہ پاتے ہیں اللہ تعالیٰ بہترین رزاق ہے ۔ پھر آپ کا گزر اس قوم پر ہوا جن کے سر پتھروں سے کچلے جار ہے تھے ہر بار ٹھیک ہو جاتے اور پھر کچلے جاتے دم بھر کی انہیں مہلت نہ ملتی تھی میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ فرض نمازوں کے وقت ان کے سر بھاری ہو جایا کرتے تھے ۔ ؟ پھر کچھ لوگوں کو میں نے دیکھا کہ ان کے آگے پیچھے دھجیاں لٹک رہی ہیں اور اونٹ اور جانوروں کی طرح کانٹوں دار جہنمی درخت چر چگ رہے اور جہنم کے پتھر اور انگارے کھا رہے ہیں میں نے کہا یہ کیسے لوگ ہیں ؟ فرمایا اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دینے والے ۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ یہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔ پھر میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سامنے ایک ہنڈیا میں تو صاف ستھرا گوشت ہے دوسری میں خبیث سڑا بھسا گندہ گوشت ہے یہ اس اچھے گوشت سے تو روک دئے گئے ہیں اور اس بدبو دار بد مزہ سڑے ہوئے گوشت کو کھا رہے ہیں میں نے سوال کیا یہ کس گناہ کے مرتکب ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ وہ مرد ہیں جو اپنی حلال بیویوں کو چھوڑ کر حرام عورتوں کے پاس رات گزارتے تھے ۔ اور وہ عورتیں ہیں جو اپنے حلال خاوند کو چھوڑ کر اوروں کے ہاں رات گزارتی تھیں ۔ پھر آپ نے دیکھا کہ راستے میں ایک لکڑی ہے کہ ہر کپڑے کو پھاڑ دیتی ہے اور ہر چیز کو زخمی کر دیتی ہے ۔ پوچھا یہ کیا ؟ فرمایا یہ آپ کے ان امتیوں کی مثال ہے جو راستے روک کر بیٹھ جاتے ہیں پھر اس آیت کو پڑھا ( وَلَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَتَبْغُوْنَهَا عِوَجًا 86 ) 7- الاعراف:86 ) یعنی ہر ہر راستے پر لوگوں کو خوفزدہ کرنے اور راہ حق سے روکنے کے لئے نہ بیٹھا کرو ۔ الخ پھر دیکھا کہ ایک شخص بہت بڑا ڈھیر جمع کئے ہوئے ہے جسے اٹھا نہیں سکتا پھر بھی وہ اور بڑھا رہا ہے ۔ پوچھا جبرائیل علیہ السلام یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ آپ کی امت کا وہ شخص ہے جس کے اوپر لوگوں کے حقوق اس قدر ہیں کہ وہ ہرگز ادار نہیں کر سکتا تاہم وہ اور حقوق چڑھا رہا ہے اور امانتیں لئے رہا ہے ۔ پھر آپ نے ایک جماعت کو دیکھا جن کی زبان اور ہونٹ لوہے کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں ادھر کٹے ، ادھر درست ہو گئے ، پھر کٹ گئے ، یہی حال برابر جاری ہے ۔ پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ فتنے کے واعظ اور خطیب ہیں ۔ پھر دیکھا کہ ایک چھوٹے سے پتھر کے سوارخ میں سے ایک بڑا بھاری بیل نکل رہا ہے پھر وہ لوٹنا چاہتا ہے لیکن نہیں جا سکتا تھا ۔ پھر آپ ایک وادی میں پہنچے وہاں نہایت نفیس خوش گوار ٹھنڈی ہوا اور دل خوش کن معطر خوشبودار راحت و سکون کی مبارک صدائیں سن کر آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ جنت کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ یا اللہ مجھ سے اپنا وعدہ پورا کر ۔ میرے بالا خانے ، ریشم ، موتی ، مونگے ، سونا ، چاندی ، جام ، کٹورے اور پانی ، دودھ ، شراب وغیر وغیرہ نعمتیں بہت زیادہ ہو گئیں ۔ اسے اللہ کی طرف سے جواب ملا کہ ہر ایک مسلمان مومن مرد و عورت جو مجھے اور میرے رسولوں کو مانتا ہو نیک عمل کرتا ہو میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو میرے برابر کسی کو نہ سمجھتا ہو وہ سب تجھ میں داخل ہوں گے ۔ سن جس کے دل میں میرا ڈر ہے وہ ہر خوف سے محفوظ ہے ۔ جو مجھ سے سوال کرتا ہم وہ محروم نہیں رہتا ۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں ، جو مجھ پر توکل کرتا ہے میں اسے کفایت کرتا ہوں وہ محروم نہیں رہتا ۔ جو مجھے قرض دیتا ہے میں اسے بدلہ دیتا ہوں ، جو مجھ پر توکل کرتا ہم میں اسے کفایت کرتا ہوں ، میں سچا معبود ہوں میرے سوا اور کوئی معبود نہیں ۔ میرے وعدے خلاف نہیں ہوتے مومن نجات یافتہ ہیں اللہ تعالیٰ بابرکت ہے جو سب سے بہتر خالق ہے ۔ یہ سن کر جنت نے کہا بس میں خوش ہو گئی ۔ پھر آپ ایک دوسری وادی میں پہنچے جہاں نہایت بری اور بھیانگ مکروہ آوازیں آ رہی تھیں اور بدبو تھی آپ نے اس کی بابت بھی جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا انہوں نے بتلایا کہ یہ جہنم کی آواز ہے وہ کہہ رہی ہے کہ اے اللہ مجھ سے اپنا وعدہ کر اور مجھے وہ دے میرے طوق و زنجیر ، میرے شعلے اور گرمائی ، میرا تھور اور لہو پیپ میرے عذاب اور سزا کے سامان بہت وافر ہو گئے ہیں میرا گہراؤ بہت زیادہ ہے میری آگ بہت تیز ہے یہ سن کر جہنم نے اپنی رضا مندی ظاہر کی ۔ آپ پھر چلے یہاں تک کہ بیت المقدس پہنچے اتر کر صخرہ میں اپنے گھوڑے کو باندھا اندر جا کر فرشتوں کے ساتھ نماز ادا کی فراغت کے بعد انہوں نے پوچھا کہ جبرائیل یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ آپ نے فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ انہوں نے کہا آپ کی طرف بھیجا گیا ؟ فرمایا ہاں ، سب نے مرحبا کہا کہ بہترین بھائی اور بہت ہی اچھے خلیفہ ہیں اور بہت اچھائی اور عزت سے آئے ہیں ۔ پھر آپ کی ملاقات نبیوں کی روحوں سے ہوئی سب نے اپنے پروردگار کی ثنا بیان کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اپنا خلیل بنایا اور مجھے بہت بڑا ملک دیا اور میرے امت کو ایسے فرمانبردار بنایا کہ ان کی اقتدا کی جاتی ہے ، اسی نے مجھے آگ سے بچا لیا اور اسے میرے لئے ٹھنڈک اور سلامتی بنا دی ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اللہ ہی کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ سے کلام کیا میرے دشمنوں کو ، آل فرعون کو ہلاک کیا ، ۔ بنی اسرائیل کو میرے ہاتھوں نجات دی میرے امت میں ایسی جماعت رکھی جو حق کی ہادی اور حق کے ساتھ عدل کرنے والی تھی ۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی ثنا بیان کرنی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے مجھے عظیم الشان ملک دیا مجھے زبور کا علم دیا میرے لئے لوہا نرم کر دیا پہاڑوں کو مسخر کر دیا اور پرندوں کو بھی جو میرے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے مجھے حکمت اور پر زور کلام عطا فرمایا ۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ثنا خوانی شروع کی کہ الحمد للہ اللہ نے ہواؤں کو میری تابع کر دیا اور شیاطین کو بھی کہ وہ میری فرمان کے ماتحت بڑے بڑے محلات اور نقشے اور برتن وغیر بناتے تھے ۔ اس نے مجھے جانوروں کی گفتگو کے سمجھنے کا علم فرمایا ۔ ہر چیز میں مجھے فضیلت دی ، انسانوں کے ، جنوں کے ، پرندوں کے لشکر میرں ماتحت کر دئے اور اپنے بہت سے مومن بندوں پر مجھے فضیلت دی اور مجھے وہ سلطنت دی جو میرے بعد کسی کے لائق نہیں اور وہ بھی ایسی جس میں پاکیزگی تھی اور کوئی حساب نہ تھا ۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرنی شروع کی کہ اس نے مجھے اپنا کلمہ بنایا اور میری مثال حضرت آدم علیہ السلام کی سی کی ۔ جسے مٹی سے پیداکر کے کہہ دیا تھا کہ ہو جا اور وہ ہو گئے تھے اس نے مجھے کتاب و حکمت تورات انجیل سکھائی میں مٹی کا پرند بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ بحکم الہٰی زندہ پرند بن کر اڑ جاتا ۔ میں بچپن کے اندھوں کو اور جذامیوں کو بحکم الہی اچھا کر دیتا تھا مردے اللہ کی اجازت سے زندہ ہو جاتے تھے مجھے اس نے اٹھا لیا مجھے پاک صاف کر دیا مجھے اور میری والدہ کو شیطان سے بچا لیا ہم پر شیطان کا کچھ دخل نہ تھا ، اب جناب رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سب نے اللہ کی تعریفیں بیان کرلیں اب میں کرتا ہوں ۔ اللہ ہی کے لئے حمد و ثنا ہے جس نے مجھے رحمت للعالمین بنا کر اپنی تمام مخلوق کے لئے ڈرانے اور خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا مجھ پر قرآن کریم نازل فرمایا ۔ جس میں ہر چیز کا بیان ہے میری امت کو تمام اور امتوں سے افضل بنایا جو کہ اوروں کی بھلائی کے لئے بنائی گئی ہے ۔ اسے بہترین امت بنایا انہی کو اول کی اور آخر کی امت بنایا ۔ میرا سینہ کھول دیا میرے بوچھ دور کر دئے میرا ذکر بلند کر دیا مجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا انہی وجوہ سے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل ہیں ۔ امام ابو جعفر رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں شروع کرنے والے آپ ہیں یعنی بروز قیامت شفاعت آپ ہی سے شروع ہو گی ، پھر آپ کے سامنے تین ڈھکے ہوئے برتن پیش کئے گئے ۔ پانی کے برتن میں سے آپ نے تھوڑا سا پی کر واپس کر دیا پھر دودھ کا برتن لے کر آپ نے پیٹ بھر کر دودھ پیا ۔ پھر شراب کا برتن لایا گیا تو آپ نے اس کے پینے سے انکار کر دیا کہ میں شکم سیر ہو چکا ہوں ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا یہ آپ کی امت پر حرام کر دی جانے والی ہے اور اگر آپ اسے پی لیتے تو آپ کی امت میں سے آپ کے تابعدار بہت ہی کم ہوتے ۔ پھر آپ کو آسمان کی طرف چڑھایا گیا دروازہ کھلوانا چاہا تو پوچھا گیا یہ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے کہا محمد ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوچھا گیا کیا آپ کی طرف بھیج دیا گیا ؟ فرمایا ہاں انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ اس بھائی اور خلیفہ کو خوش رکھے یہ بڑے اچھے بھائی اور نہایت عمدہ خلیفہ ہیں اسی وقت دروازہ کھول دیا گیا ۔ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص ہیں پوری پیدائش کے عام لوگوں کی طرح انکی پیدائش میں کوئی نقصان نہیں ان کے دائیں ایک دروازہ ہے جہاں سے خوشبو کی لپٹیں آ رہی ہیں اور بائیں جانب ایک دروازہ ہے جہاں سے خبیث ہوا آ رہی ہے داہنی طرف کے دروازے کو دیکھ کر ہنس دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف کے دروازے کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں میں نے کہا جبرائیل علیہ السلام یہ شیخ پوری پیدائش والے کون ہیں ؟ جن کی خلقت میں کچھ بھی نہیں گھٹا ۔ اور یہ دونوں دروازے کیسے ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ آپ کے والد حضرت آدم علیہ السلام ہیں دائیں جانب جنت کا دروازہ ہے اپنی جنتی اولاد کو دیکھ کر خوش ہو کر ہنس دیتے ہیں اور بائیں جانب جہنم کا دروازہ ہے آب اپنی دوزخی اولاد کو دیکھ کر رو دیتے ہیں اور غمگین ہو جاتے ہیں ۔ پھر دوسرے آسمان کی طرف چڑھے اسی طرح کے سوال جواب کے بعد دروازہ کھلا وہاں آپ نے دو جوانوں کو دیکھا دریافت پر معلوم ہوا کہ یہ حضرت عیسیٰ بن مریم اور حضرت یحیٰی بن زکریا علیہما السلام ہیں یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں ۔ پھر اسی طرح تیسرے آسمان پر پہنچے وہاں حضرت یوسف علیہ السلام کو پایا جنہیں حسن میں اور لوگوں پر وہی فضیلت تھی جو چاند کو باقی ستاروں پر ۔ پھر چوتھے آسمان پر اسی طرح پہنچے وہاں حضرت ادریس علیہ السلام کو پایا جنہیں اللہ تعالیٰ نے بلند مکان پر چڑھا لیا ہے پھر آپ پانچویں آسمان پر بھی انہی سوالات و جوابات کے بعد پہنچے دیکھا کہ ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ لوگ ہیں جو ان سے باتیں کر رہے ہیں پوچھا یہ کون ہیں ؟ جواب ملا کہ حضرت ہارون علیہ السلام ہیں جو اپنی قوم میں ہر دلعزیز تھے اور یہ لوگ بنی اسرائیل ہیں ۔ پھر اسی طرح چھٹے آسمان پر پہنچے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا آپ کے ان سے بھی آگے نکل جانے پر وہ رو دئے ، دریافت کرنے پر سبب یہ معلوم ہوا کہ نبی اسرائیل میری نسبت یہ سمجھتے تھے کہ تمام اولاد آدم میں اللہ کے پاس سب سے زیادہ بزرگ میں ہوں لیکن یہ ہیں میرے خلیفہ جو دنیا میں ہیں اور میں آخرت میں ہوں خیر صرف یہی ہوتے تو بھی چنداں مضائقہ نہ تھا لیکن ہر نبی کے ساتھ ان کی امت ہے ۔ پھر آپ اسی طرح ساتویں آسمان پر پہنچے وہاں ایک صاحب کو دیکھا جن کی داڑھی میں کچھ سفید بال تھے وہ جنت کے دروازے پر ایک کرسی لگائے بیٹھے ہوئے ہیں ان کے پاس کچھ اور لوگ بھی ہیں بعض کے چہرے تو روشن ہیں اور بعض کے چہروں پر کچھ کم چمک ہے بلکہ رنگ میں کچھ اور بھی ہے یہ لوگ اٹھے اور نہر میں ایک غوطہ لگایا جس سے رنک قدرے نکھر گیا پھر دوسری نہر میں نہائے کچھ اور نکھر گئے پھر تیسری میں غسل کیا بالکل روشن سفید چہرے ہو گئے ۔ آ کر دوسروں کے ساتھ مل کر بیٹھ گئے اور انہی جیسے ہو گئے ۔ آپ کے سوال پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتلایا کہ یہ آپ کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں روئے زمین پر سفید بال سب سے پہلے ان ہی کے نکلے یہ سفید منہ والے وہ ایماندار لوگ ہیں جو برائیوں سے بالکل بچے رہے اور جن کے چہروں کے رنگ میں کچھ کدورت تھی یہ وہ لوگ ہیں جن سے نیکیوں کے ساتھ کچھ بدیاں بھی سرزد ہو گئی تھیں ان کی توبہ پر اللہ تعالیٰ مہربان ہو گیا ۔ اول نہر اللہ کی رحمت ہے ، دوسری نعمت ہے ، تیسری شراب طہور کی نہر ہے جو جنتیوں کی خاص شراب ہے ۔ پھر آپ سدرۃ المنتہی تک پہنچے تو آپ سے کہا گیا کہ آپ ہی کی سنتوں پر جو پابندی کرے وہ یہاں تک پہچایا جاتا ہے اس کی جڑ سے پاکیزہ پانی کی صاف ستھرے دودھ کی لذیذ بےنشہ شراب کی اور صاف شہد کی نہریں جاری تھیں اس درخت کے سائے میں کوئی سوار اگر ستر سال بھی چلا جائے تاہم اس کا سایہ ختم نہیں ہوتا ۔ اس کا ایک ایک پتہ اتنا بڑا ہے کہ ایک ایک امت کو ڈھانپ لے ۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کے نور نے اسے چاروں طرف ڈھک رکھا تھا اور پرند کی شکل کے فرشتوں نے اسے چھپا لیا تھا جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت میں وہاں تھے ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ جل شانہ نے آپ سے باتین کیں فرمایا کہ مانگو کیا مانگتے ہو ؟ آپ نے گزارش کی کہ اے اللہ تو نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا اور انہیں بڑا ملک دیا ، موسیٰ علیہ السلام سے تونے باتیں کیں ، داؤد علیہ السلام کو عظیم الشان سلطنت دی اور ان کے لئے لوہا نرم کر دیا ، سلیمان علیہ السلام کو تو نے بادشاہت دی ، جنات انسان شیاطین ہوائیں ان کے تابع فرمان کیں اور وہ بادشاہت دی جو کسی کے لائق ان کے سوا نہیں ۔ عیسیٰ علیہ السلام کو تو نے تورات و انجیل سکھائی اپنے حکم سے اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرنے والا اور مردوں کو جلانے والا بنایا انہیں اور ان کی والدہ کو شیطان رجیم سے بچایا کہ اسے ان پر کوئی دخل نہ تھا میری نسبت فرمان ہو ۔ رب العالمین عز و جل نے فرمایا تو میرا خلیل ہے توراۃ میں میں نے تجھے خلیل الرحمن کا لقب دیا ہے تجھے تمام لوگوں کی طرف بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے ، تیرا سینہ کھول دیا ہے ، تیرا بوجھ اتار دیا ہے ، تیرا ذکر بلند کر دیا ہے جہاں میرا ذکر آئے وہاں تیرا ذکر بھی ہوتا ہے اور تیری امت کو میں نے سب امتوں سے بہتر بنایا ہے ۔ جو لوگوں کے لئے ظہور میں لائی گی ہے ۔ تیری امت کو بہترین امت بنایا ہے ، تیری ہی امت کو اولین اور آخرین بنایا ہے ۔ ان کا خطبہ جائز نہیں جب تک وہ تیرے بندے اور رسول ہونے کی شہادت نہ دے لیں ۔ میں نے تیری امت میں ایسے لوگ بنائے ہیں جن کے دل میں الکتاب ہے ۔ تجھے از روئے پیدائش سب سے اول کیا اور از روئے بعثت کے سب سے آخر کیا اور از روئے فیصلہ کے بھی سب سے اول کیا تجھے میں نے سات ایسی آیتیں دیں جو باربار دہرائی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملیں تجھے میں نے اپنے عرش تلے سے سورۃ بقرہ کے خاتمے کی آیتیں دیں جو تجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں میں نے تجھے کوثر عطا فرمائی اور میں نے تجھے اسلام کے آٹھ حصے دئے ۔ اسلام ، ہجرت ، جہاد ، نماز ، صدقہ ، رمضان کے روزے ، نیکی کا حکم ، برائی سے روک اور میں نے تجھے شروع کرنے والا اور ختم کرنے والا بنایا ۔ پس آپ فرمانے لگے مجھے میرے رب نے چھ باتوں کی فضیلت مرحمت فرمائی کلام کی ابتداء اور اس کی انتہا دی ۔ جامع باتیں دیں ۔ تمام لوکوں کی طرف خوشخبری دی نے والا اور آگاہ کرنے والا بنا کر بھیجا ۔ میرے دشمن مجھ سے مہینہ بھر کی راہ پر ہوں وہیں سے اس کے دل میں میرا رعب ڈال دیا گیا ۔ میرے لئے غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوئیں میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو بینائی گئی ۔ پھر آپ پر پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا اور بہ مشورہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تخفیف طلب کرنے کا اور آخر میں پانچ رہ جانے کا ذکر ہے ۔ جیسے کہ اس سے پہلے گزر چکا ہے پس پانچ رہیں اور ثواب پچاس کا جس سے آپ بہت ہی خوش ہوئے ۔ جاتے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سخت تھے اور آتے وقت نہایت نرم اور سب سے بہتر ۔ اور کتاب کی ایس حدیث میں بھی ہے کہ اسی آیت ( سبحان الذی ) کی تفسیر میں آپ نے یہ واقعہ بیان فرمایا یہ بھی واضح رہے کہ اس لمبی حدیث کا ایک راوی ابو جعفر رازی بظاہر حافظہ کے کچھ ایسے اچھے نہیں معلوم ہوتے اس کے بعد الفاظ میں سخت غرابت اور بہت زیادہ نکارت ہے ۔ انہیں ضعیف بھی کہا کیا ہے اور صرف انہی کی روایت والی حدیث قابل توجہ ہے ۔ ایک اور بات یہ ہے کہ خواب والی حدیث کا کچھ حصہ بھی اس میں آگیا ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سی اجادیث کا مجموعہ ہو یا خواب یا معراج کے سوا کم واقعہ کی اس میں روایت ہو ۔ واللہ اعلم ۔ بخاری مسلم کی ایک روایت میں آپ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حلیہ بیان کرنا وغیرہ بھی مروی ہے ۔ صحیح مسلم کی حدیث میں حطیم میں آپ سے بیت المقدس کے سوالات کئے جانے اور پہر اس کے ظاہر ہو جانے کا واقعہ بھی ہے ، اس میں بھی ان تینوں نبیوں سے ملاقات کرنے کا اور ان کے حلیہ بیان ہے اور یہ بھڈ کہ آپ نے انہیں نماز میں کھڑا پایا ۔ آپ نے مالک خازن جہنم کو بھی دیکھا اور انہوں نے ہی ابتدء آپ سے سلام کیا ۔ بیہقی وغیرہ میں کئی ایک صحابہ علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہانی کے مکان پر سوئے ہوئے تھے آب عشا کی نماز سے فارغ ہو گئے تھے وہیں سے آپ کو معراج ہوئی ۔ پھر امام حاکم نے بہت لمبی حدیث بیان فرمائی ہے جس میں درجوں کا اور فرشتوں وغیرہ کا ذکر ہے اللہ کی قدرت سے تو کوئی چیز بعید نہیں بشرطیکہ وہ روایت صحیح ثابت ہو جائے ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کو بیان کر کے فرماتے ہیں کہ مکے شریف سے بیت المقدس تک جانے اور معراج کے بارے میں اس حدیث میں پوری کفایت ہے لیکن اس راویت کو بہت ائمہ حدیث نے مرسل بیان کیا ہے واللہ اعلم ۔ اب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سنئے ۔ بیہقی میں ہے کہ جب صبح کے وقت لوگوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا ذکر کیا تو بہت سے لوگ مرتد ہو گئے جو اس سے پہلے با ایمان اور تصدیق کرنے والے تھے ، پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس ان کا جانا اور آپ کا سچا ماننا اور صدیق لقب پانا مروی ہے ۔ خود حضرت ام ہانی سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میرے ہی مکان سے کرائی گئ ہے اس رات آپ نماز عشاء کے بعد میرے مکان پر آرام فرما تھے ۔ آپ بھی سو گئے اور ہم سب بھی ۔ صبح سے کجھ ہی پہلے ہم نے حضور علیہ السلام کو جگایا ۔ پھر آپ کے ساتھ ہی ہم نے صبح کی نماز ادا کی تو آپ نے فرمایا ام ہانی میں نے تمہارے ساتھ ہی عشاء کی نماز ادا کی اور اب صبح کی نماز میں بھی تمہارے ساتھ ہی ہوں اس درمیان میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بیت المقدس پہنچایا اور میں نے وہاں نماز بھی پڑھی ۔ ایک راوی کلبی متروک ہے اور بالکل ساقط ہے لیکن اسے ابو یعلی میں اور سند سے خوب تفصیل سے روایت کیا ہے ۔ طبرانی میں حضرت ام ہانی علیہ السلام سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شب معراج میرے ہاں سوئے ہوئے تھے میں نے رات کو آپ کی ہر چند تلاش کی لیکن نہ پایا ڈر تھا کہ کہیں قریشیوں نے کوئی دھوکا نہ کیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور میرا ہاتھ تھام کر مجھے لے چلے دروازے پر ایک جانور تھا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے اونچا تھا مجھے اس پر سوار کیا پھر مجھے بیت المقدس پہنچایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھایا وہ اخلاق میں اور صورت شکل میں بالکل میرے مشابہ تھے ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کو دیکھایا لانبے قد کے سیدھے بالوں کے ایسے تھے جیسے ازدشنوہ کے قبیلے کے لوگ ہوا کرتے ہیں ۔ اسی طرح مجھے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بھی دکھایا درمیانہ قد سفید سرخی مائل رنگ بالکل ایسے جیسے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں ۔ دجال کو دیکھا ایک آنکھ اس کی بالکل مٹی ہوئی تھی ۔ ایسا تھا جیسے قطن بن عبد العزی ۔ یہ فرما کر اچھا اب میں جاتا ہوں جو کچھ دیکھا ہے وہ قریش سے بیان کرتا ہوں ۔ میں نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا للہ آپ اپنی قوم میں اس خواب کو بیان نہ کریں وہ آپ کو جھٹلائیں گے آپ کی بات ہرگز نہ مانیں گے اور اگر بس چلا تو آپ کی بے ادبی کریں گے ۔ لیکن آپ نے جھٹکا مار کر اپنا دامن میرے ہاتھ سے چھڑا لیا اور سیدھے قریش کے مجمع میں پہنچ کر ساری باتیں بیان فرما دیں ۔ جبیر من مطعم کہنے لگا بس حضرت آج ہمیں معلوم ہو گیا اگر آپ سچے ہوتے تو ایسی بات ہم میں بیٹھ کر نہ کہتے ۔ ایک شخص نے کہا کیوں حضرت ؟ راستے میں ہمارا فلاں قافلہ بھی ملا تھا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور ان کا ایک اونٹ کھو گیا تھا جس کی تلاش کر رہے تھے ۔ کسی نے کہا اور فلاں قبیلے والوں کے اونٹ بھی راستے میں ملے ؟ آپ نے فرمایا وہ بھی ملے تھے فلاں جگہ تھے ان میں ایک سرخ رنگ اونٹنی تھے جس کا پاؤں ٹوٹ کیا تھا ان کے پاس ایک بڑے پیالے میں پانی تھا ۔ جسے میں نے بھی پیا ۔ انہوں نے کہا اچھا ان کے اونٹوں کی گنتی بتاؤ ان میں چرواہے کون کون تھے یہ بھی بتاؤ ؟ اسی وقت اللہ تعالیٰ نے قافلہ آپ کے سامنے کر دیا آپ نے ساری گنتی بھی بتا دی اور چرواہوں کے نام بھی بتا دئے ایک چرواہا ان میں ابن ابی قحافہ تھا اور یہ بھی فرما دیا کہ کل صبح کو وہ ثنیہ پہنچ جائیں گے ۔ چنانچہ اس وقت اکثر لوگ بطور آزمائش ثنیہ جا پہنچے دیکھا کہ واقعی قافلہ آ گیا ان سے پوچھا کہ تمہارا اونٹ گم ہو گیا تھا ؟ انہوں نے کہا درست ہے گم ہو گیا تھا ۔ دوسرے قافلے والوں سے پوچھا تمہاری کسی سرخ رنگ اونٹنی کا پاؤں ٹوٹ گیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں یہ بھی صحیح ہے ۔ پوچھا کیا تمہارے پاس بڑا پیالہ پانی کپ بھی تھا ۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں اللہ کی قسم اسے تو میں نے خود رکھا تھا اور ان میں سے نہ کسی نے اسے پیا نہ وہ پانی گرایا گیا ۔ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں ۔ یہ آپ پر ایمان لائے اور اس دن سے ان کا نام صدیق رکھا گیا ۔ فصل ان تمام احادیث کی واقفیت کے بعد جن میں صحیح بھی ہیں حسن بھی ہیں ضعیف بھی ہیں ۔ کم از کم اتتنا تو ضرور معلوم ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مکے شریف سے بیت المقدس تک لے جانا ہوا ۔ اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ صرف ایک ہی مرتبہ ہوا ہے ۔ گو راویوں کی عبارتیں اس باب میں مختلف الفاظ سے ہیں ۔ گو ان میں کمی بیشی بھی ہے یہ کوئی بات نہیں اور سوائے انبیاء علیہم السلام کے خطا سے پاک ہے کون ؟ بعض لوگوں نے ہر ایسی روایت کو ایک الگ واقعہ کہا جاتا ہے اور اس کے قائل ہوئے ہیں کہ یہ وافعہ کئی بار ہوا لیکن یہ لوگ بہت دور نکل گئے اور بالکل انوکھی بات کہی اور نہ جانے کی جگہ چلے گئے اور پہر بھی مطلب حاصل نہ ہوا ۔ متاخرین میں سے بعض نے ایک اور ہی توجیہہ پیش کی ہے اور اس پر انہیں بڑا ناز ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ تو آپ کو مکے سے صرف بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکے سے آسمانوں پر چڑھائے گے اور ایک مرتبہ مکے سے بیت المقدس تک کی سیر ہوئی ایک مرتبہ مکے سے آسمانوں پر چڑھائے گئے اور ایک مرتبہ مکے سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمانوں تک ۔ لیکن یہ قول بھی بعید از قیاس اور بالکل غریب ہے ۔ سلف میں سے تو اس کا کوئی قائل نہیں اگر ایسا ہوتا تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اسے کھول کر بیان فرما دیتے اور راوی آپ سے اس کے بار بار ہونے کی روایت بیان کرتے ۔ بقول حضرت زہری معراج کا یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے کا ہے ۔ عروہ بھی یہی کہتے ہیں ۔ سدی کہتے ہیں چھ ماہ پہلے کا ہے ۔ لہذا حق بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جاگتے میں نہ کہ خواب میں مکہ شریف سے بیت المقدس تک کی اسرا کرائی گئی اس وقت آپ براق پر سوار تھے ۔ مسجد قدس کے دروازے پر آپ نے براق کو باندھا وہاں جا کر اس کے قبلہ رخ تحیۃ المسجد کے دور پر دو رکعت نماز ادا کی ۔ پھر معراج لائے گئے جو درجوں والی ہے اور بطور سیڑھی کے ہے اس سے آپ آسمان دنیا پر چڑھائے گئے پھر ساتوں آسمانوں پر پہنچائے گئے ہر آسمان کے مقربین الہی سے ملاقاتیں ہوئیں انبیاء علیہم السلام سے ان کے منازل و درجات کے مطابق سلام علیک ہوئی چھٹے آسمان میں کلیم اللہ علیہ السلام سے اور ساتوں میں خلیل اللہ علیہ السلام سے ملے پھر ان سے بھی آگے بڑھ گئے ۔ صلی اللہ علیہ وسلم وعلی سائر الانبیاء علیہم الصلوۃ و السلام ۔ یہاں تک کہ آپ مستوی میں پہنچے جہاں قضا و قدر کی قلموں کی آوازیں آپ نے سنیں ۔ سدرۃالمنتہی کو دیکھا جس پر عظمت ربی چھا رہی تھی ۔ سونے کی ٹڈیاں اور طرح طرح کے رنگ وہاں پر نظر آ رہے تھے فرشتے چاروں طرف سے اسے گھیرے ہوئے تھے ۔ وہیں پر آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا جن کے چھ سو پر تھے ۔ وہیں آپ نے رف رف سبز رنگ کا دیکھا ۔ جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا ۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے ، یہی آسمان کے کناروں کو ڈھک رکھا تھا ۔ بیت المعمور کی زیارت کی جو خلیل اللہ علیہ و صلوات اللہ کے زمینی کعبے کے ٹھیک اوپر آسمانوں پر ہے ، یہی آسمانی کعبہ ہے ۔ خلیل اللہ علیہ السلام اس سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے تھے ۔ اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے عبادت ربانی کے لئے جاتے ہیں مگر جو آج گئے پھر ان کی باری قیامت تک نہیں آتی ۔ آپ نے جنت دوزخ دیکھی ، یہیں اللہ تعالیٰ رحمن و رحیم نے پچاس نمازیں فرض کر کے پھر تخفیف کر دی ۔ اور پانچ رکھیں جو خاص اس کی رحمت تھی ۔ اس سے نماز کی بزرگی اور فضیلت بھی صاف طور پر ظاہر ہے پھر آپ واپس بیت المقدس کی طرف اترے اور آپ کے ساتھ ہی تمام انبیاء علیہم السلام بھی اترے وہاں آپ نے ان سب کو نماز پڑھائی جب کہ نماز کا وقت ہو گیا ممکن ہے وہ اس دن کی صبح کی نماز ہو ۔ ہاں بعض حضرات کا قول ہے کہ امامت انبیاء آپ نے آسمانوں میں کی ۔ لیکن صحیح روایات سے بظاہر یہ واقعہ بیت المقدس کا معلوم ہوتا ہے ۔ گو بعض روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جاتے ہوئے آپ نے یہ نماز پڑھائی لیکن ظاہر یہ ہے کہ آپ نے واپسی میں امامت کرائی ۔ اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ جب آسمانوں پر انبیاء علیہم السلام سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے تو آپ ہر ایک کی بابت حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟ اگر بیت المقدس میں ہی ان کی امامت آپ نے کرائی ہوئی ہوتی تو اب چنداں اس سوال کی ضرورت نہیں رہتی دوسرے یہ کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑی غرض تو بلندی پر جناب باری تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہونا تھا تو بظاہر یہی بات سب پر مقدم تھی ۔ جب یہ ہو چکا اور آپ پر اور آپ کی امت پر اس رات میں جو فریضہ نماز مقرر ہونا تھا تو بھی ہو چکا ، اب آپ کو اپنے بھائیوں کے ساتھ جمع ہونے کا موقعہ ملا اور ان سب کے سامنے آپ کی بزرگی اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے اشارے سے آپ نے امام بن کر انہیں نماز پڑھائی ۔ پھر بیت المقدس سے بذریعہ براق آپ واپس رات کے اندھیرے اور صبح کے کچھ ہی اجالے کے وقت مکہ شریف پہنچ گئے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ۔ اب یہ جو مروی ہے کہ آپ کے سامنے دودھ اور شہد اور شراب یا دودھ اور پانی پیش کیا گیا یا چاروں ہی چیزیں اس کی بابت روایتوں میں یہ بھی ہے کہ یہ واقعہ بیت المقدس کا ہے اور یہ بھی کہ یہ واقعہ آسمانوں کا ہو ، لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں ہی جگہ یہ چیز آپ کے سامنے پیش ہوئی ہو اس لئے کہ جیسے کسی آنے والے کے سامنے بطور مہمانی کے کچھ چیز رکھی جاتی ہے اسی طرح یہ تھا واللہ اعلم ۔ پھر اس میں بھی لوگوں نے اختلاف کیا ہے کہ معراج آپ کے جسم و روح سمیت کرائی گئی تھی ؟ یا صرف روحانی طور پر ؟ اکثر علماء کرام تو یہی فرماتے ہیں کہ جسم و روح سمیت آپ کو معراج ہوئی اور ہوئی بھی جاگتے میں نہ کہ بطور خواب کے ۔ ہاں اس کا انکار نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے خواب میں یہی چیزیں دکھائی گئی ہوں ۔ آپ خواب میں جو کچھ ملاحظہ فرماتے اسے اسی طرح پھر واقعہ میں جاگتے ہوئے بھی ملاحظہ فرما لیتے ۔ اس کی بڑی دلیل ایک تو یہ ہے کہ اس کے بعد کی بات کوئی بڑی اہم ہے ۔ اگر یہ واقعہ خواب کا مانا جائے تو خواب میں ایسی باتیں دیکھ لینا اتنا اہم نہیں کہ اس کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ پہلے سے بطور احسان اور بطور اظہار قدرت اپنی تسبیح بیان کرے ۔ پھر اگر یہ واقعہ خواب کا ہی تھا تو کفار اس طرح جلدی سے آپ کی تکذیب نہ کرتے ایک شخص اپنا خواب اور خواب میں دیکھی ہوئی عجیب چیزیں بیان کر رہا ہے یا کرے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بھڑ بھڑا کر آ جائیں اور سنتے ہی سختی سے انکار کرنے لگیں ۔ پھر جو لوگ کہ اس سے پہلے آپ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ کی رسالت کو قبول کر چکے تھے کیا وجہ ہے کہ وہ واقعہ معراج کو سن کر اسلام سے پھر جاتے ہیں ؟ اس سے بھی ظاہر ہے کہ آپ نے خواب کا قصہ بیان نہیں فرمایا تھا پھر قرآن کے لفظ بعبدہ پر غور کیجئے ۔ عبد کا اطلاق روح اور جسم دونوں کے مجموعے پر آتا ہے ۔ پھر اسری بعبدہ لیلا کا فرمانا اس چیز کو اور صاف کر دیتا ہے کہ وہ اپنے بندے کو رات کے تھوڑے سے حصے میں لے گیا ۔ اس دیکھنے کو لوگوں کی آزمائش کا سبب آیت ( وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا 60ۧ ) 17- الإسراء:60 ) میں فرمایا گیا ہے ۔ اگر یہ خواب ہی تھا تو اس میں لوگوں کی ایسی بڑی کون سی آزمائش تھی جسے مستقل طور پر بیان فرمایا جاتا ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا ( بخاری ) خود قرآن فرماتا ہے آیت ( مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى 17 ) 53- النجم:17 ) نہ تو نگاہ بہکی نہ بھٹکی ۔ ظاہر ہے کہ بصر یعنی نگاہ انسان کی ذات کا ایک وصف ہے نہ کہ صرف روح کا ۔ پھر براق کی سواری کا لایا جانا اور اس سفید چمکیلے جانور پر سوار کرا کر آپ کو لے جانا بھی اسی کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ جاگنے کا اور جسمانی ہے ورنہ صرف روح کے لئے سواری کی ضرورت نہیں واللہ اعلم ۔ اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ معراج صرف روحانی تھی نہ کہ جسمانی ۔ چنانچہ محمد بن اسحاق لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان کا یہ قول مروی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جسم غائب نہیں ہوا تھا بلکہ روحانی معراج تھی ۔ اس قول کا انکار نہیں کیا گیا کیونکہ حسن رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں آیت ( وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ 60ۧ ) 17- الإسراء:60 ) آیت اتری ہے ۔ اور حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی نسبت خبر دی ہے کہ انہوں نے فرمایا میں نے خواب میں تیرا ذبح کرنا دیکھا ہے اب تو سوچ لے کیا دیکھتا ہے ؟ پھر یہی حال رہا پس ظاہر ہے کہ انبیاء علیہم السلام پر وحی جاگتے میں بھی آتی ہے اور خواب میں بھی ۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں اور دل جاگتا رہتا ہے ۔ واللہ اعلم اس میں سے کون سی سچی بات تھی؟ آپ گئے اور آپ نے بہت سی باتیں دیکھیں جس حال میں بھی آپ تھے سوتے یا جاگتے سب حق اور سچ ہے ۔ یہ تو تھا محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا قول ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی بہت کچھ تردید کی ہے اور ہر طرح اسے رد کیا ہے اور اسے خلاف ظاہر قرار دیا ہے کہ الفاظ قرآنی کے سراسر خلاف یہ قول ہے پھر اس کے خلاف بہت سی دلیلیں پیش کی ہیں جن میں سے چند ہم نے بھی اوپر بیان کر دی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ فائدہ ایک نہایت عمدہ اور بہت زبردست فائدہ اس بیان میں اس روایت سے ہوتا ہے جو حافظ ابو نعیم اصبہانی کتاب دلائل النبوۃ میں لائے ہیں کہ جب وحیہ بن خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کے پاس بطور قاصد کے اپنے نامہ مبارک کے ساتھ بھیجا ۔ یہ گئے ، پہنچے اور عرب تاجروں کو جو ملک شام میں تھے ہرقل نے جمع کیا ان میں ابو سفیان صخر بن حرب تھا اور اس کے ساتھی مکے کے دوسرے کافر بھی تھے پھر اس نے ان سے بہت سے سوالات کئے جو بخاری و مسلم وغیرہ میں مذکور ہیں ۔ ابو سفیان کی اول سے آخر تک یہی کوشش رہی کہ کسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی اور حقارت اس کے سامنے کرے تاکہ بادشاہ کے دل کا میلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ ہو وہ خود کہتا ہے کہ میں صرف اس خوف سے غلط باتیں کرنے اور تہمتیں دھرنے سے باز رہا کہ کہیں میرا کوئی جھوٹ اس پر کھل نہ جائے پھر تو یہ میری بات کو جھٹلا دے گا اور بڑی ندامت ہو گی ۔ اسی وقت دل میں خیال آ گیا اور میں نے کہا بادشاہ سلامت سنئے میں ایک واقعہ بیان کروں جس سے آپ پر یہ بات کھل جائے گی کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بڑے جھوٹے آدمی ہیں سنئے ایک دن وہ کہنے لگا کہ اس رات وہ مکہ سے چلا اور آپ کی اس مسجد میں یعنی بیت المقدس کی مسجد قدس میں آیا اور پھر واپس صبح سے پہلے مکہ پہنچ گیا ۔ میری یہ بات سنتے ہی بیت المقدس کا لاٹ پادری جو شاہ روم کی اس مجلس میں اس کے پاس پڑی عزت سے بیٹھا تھا فورا ہی بول اٹھا کہ یہ بالکل سچ ہے مجھے اس رات کا علم ہے ۔ قیصر نے تعجب خیز نظر سے اس کی طرف دیکھا اور ادب سے پوچھا جناب کو کیسے معلوم ہوا ؟ اس نے کہا سنئے میری عادت تھی اور یہ کام میں نے اپنے متعلق کر رکھا تھا کہ جب تک مسجد شریف کے تمام دروازے اپنے ہاتھ سے بند نہ کروں سوتا نہ تھا ۔ اس رات میں دروازے بند کرنے کو کھڑا ہوا سب دروازے اچھی طرح بند کر دئے لیکن ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہو سکا ۔ میں نے ہر چند زور لگایا لیکن کو اڑ اپنی جگہ سے سرکا بھی نہیں میں نے اسی وقت اپنے آدمیوں کو آواز دی وہ آئے ہم سب نے مل کر طاقت لگائی لیکن سب کے سب ناکام رہے ۔ بس یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا ہم کسی پہاڑ کو اس کی جگہ سے سرکانا چاہتے ہیں لیکن اس کا پہیہ تک بھی تو نہیں ہلا ۔ میں نے بڑھئی بلوائے انہوں نے بہت ترکیبیں کیں ، کوششیں کیں لیکن وہ بھی ہار گئے اور کہنے لگے صبح پر رکھئے چنانچہ وہ دروازہ اس شب یونہی رہا دونوں کواڑ بالکل کھلے رہے ۔ صبح ہی جب میں اسی دروازے کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے پاس کونے میں جو چٹان پتھر کی تھی اس میں ایک سوراخ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رات کو کسی نے کوئی جانور باندھا ہے اس کے اثر اور نشان موجود تھے ۔ میں سمجھ گیا اور میں نے اسی وقت اپنی جماعت سے کہا کہ آج کی رات ہماری یہ مسجد کسی نبی کے لئے کھلی رکھی گئی اور اس نے یہاں ضرور نماز ادا کی ہے ۔ یہ حدیث بہت لمبی ہے ۔ فائدہ حضرت ابو الخطاب عمر بن وحیہ اپنی کتاب التنویر فی مولد السراج المنیر میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے معراج کی حدیث وارد کر کے اس کے متعلق نہایت عمدہ کلام کر کے پھر فرماتے ہیں معراج کی حدیث متواتر ہے ۔ حضرت عمر بن خطاب ، حضرت علی ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابو ذر ، حضرت مالک بن صعصعہ ، حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابو سعید ، حضرت ابن عباس ، حضرت شداد بن اوس ، حضرت ابی بن کعب ، حضرت عبد الرحمن بن قرظ ، حضرت ابو حبہ ، حضرت ابو لیلی ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت جابر ، حضرت حذیفہ ، حضرت بریدہ ، حضرت ابو ایوب ، حضرت ابو امامہ ، حضرت سمرہ بن جندب ، حضرت ابو الخمراء ، حضرت صہیب رومی ، حضرت ام ہانی ، حضرت عائشہ ، اور حضرت اسماء وغیرہ سے مروی ہے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ ان میں سے بعض نے تو اسے مطول بیان کیا ہے اور بعض نے مختصر ۔ گو ان میں سے بعض روایتیں سندا صحیح نہیں لیکن بالجملہ صحت کے ساتھ واقعہ معراج ثابت ہے اور مسلمان اجماعی طور پر اس کے قائل ہیں ہاں بیشک زندیق اور ملحد لوگ اس کے منکر ہیں وہ اللہ کے نوارانی چراغ کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے یہں ۔ لیکن وہ پوری روشنی کے ساتھ چمکتا ہوا ہی رہے گا کافروں کو برا لگے ۔
یہ سورت مکی ہے۔ اسے سورت الاسراء بھی کہتے ہیں، اس لئے کہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اسراء (رات کو مسجد اقصیٰ لے جانے) کا ذکر ہے۔ صحیح بخاری میں ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) مرفوعا حدیث فرماتے ہیں کہ سورة کہف، مریم اور بنی اسرائیل یہ عتاق اول میں سے ہیں اور میرے تلاد میں سے ہیں، تلاد قدیم مال کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ سورتیں ان قدیم سورتوں میں سے ہیں جو مکہ میں اول اول نازل ہوئیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر رات کو بنی اسرائیل اور سورة زمر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ مسند احمد جلد 6، ص 48،۔ 1۔ 1 سُبْحَا نَ عام طور پر اس کا استعمال ایسے موقع پر ہوتا ہے جب کسی عظیم الشان واقعے کا ذکر ہو۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے یہ واقعہ کتنا محال ہو، اللہ کے لئے مشکل نہیں، اس لئے کہ وہ اسباب کا پابند نہیں، وہ لفظ کُنْ سے پلک جھپکنے میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ اسباب تو انسانوں کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان پابندیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے۔ 1۔ 2 اِسْرَآء کے معنی ہوتے ہیں، رات کو لے جانا۔ آگے لَیْلًا اس لیے ذکر کیا گیا تاکہ رات کی قلت واضح ہوجائے۔ یعنی رات ایک حصے یا تھوڑے سے حصے میں۔ یعنی چالیس راتوں کا دور دراز کا سفر، پوری رات میں بھی نہیں بلکہ رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہوا۔ 1۔ 3 اقصیٰ دور کو کہتے ہیں بیت المقدس، جو القدس یا ایلیاء (قدیم نام) شہر میں اور فلسطین میں واقع ہے، مکہ سے القدس تک مسافت (40) دن کی ہے، اس اعتبار سے مسجد حرام کے مقابلے میں بیت المقدس کو مسجد اقصٰی (دور کی مسجد) کہا گیا ہے۔ 1۔ 4 یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن و مدفن ہونے کے لحاظ سے ممتاز ہے، اس لئے اسے بابرکت قرار دیا گیا ہے۔ 1۔ 5 یہ اس سیر کا مقصد ہے تاکہ ہم اپنے بندے کو عجائبات اور آیات کبریٰ دکھائیں۔ جن میں سے ایک آیت اور معجزہ یہ سفر بھی ہے کہ اتنا لمبا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں ہوگیا نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو معراج ہوئی یعنی آسمانوں پر لے جایا گیا، وہاں مختلف آسمانوں پر انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقاتیں ہوئیں اور سدرۃ المنتہٰی پر، جو عرش سے نیچے ساتویں آسمان پر ہے، اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے نماز اور دیگر بعض چیزیں عطا کیں۔ جس کی تفصیلات صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہیں اور صحابہ وتابعین سے لے کر آج تک امت کے اکثر علماء فقہاء اس بات کے قائل چلے آرہے ہیں کہ یہ معراج حالت بیداری میں ہوئی ہے۔ یہ خواب یا روحانی سیر اور مشاہدہ نہیں ہے، بلکہ عینی مشاہدہ ہے جو اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اپنے پیغمبر کو کرایا ہے۔ اس معراج کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ اسراء کہلاتا ہے، جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اور جو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ہے، یہاں پہنچنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے پھر آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، یہ سفر کا دوسرا حصہ ہے جسے معراج کہا جاتا ہے۔ اس کا تذکرہ سورة نجم میں کیا گیا ہے اور باقی تفصیلات احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ عام طور پر اس پورے سفر کو معراج سے ہی تعبیر کیا جاتا ہے۔ معراج سیڑھی کو کہتے ہیں یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ عُرِجَ بِیْ اِلَی السّمَاءِ (مجھے آسمان پر لے جایا یا چڑھایا گیا) سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ اس سفر کا یہ دوسرا حصہ پہلے سے بھی زیادہ اہم اور عظیم الشان ہے، اس لئے معراج کا لفظ ہی زیادہ مشہور ہوگیا۔ اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ تاہم اس میں اتفاق ہے کہ یہ ہجرت سے قبل کا واقعہ ہے۔ بعض کہتے ہیں ایک سال قبل اور بعض کہتے ہیں کئی سال قبل یہ واقعہ پیش آیا۔ اسی طرح مہینے اور اس کی تاریخ میں اختلاف ہے۔ کوئی ربیع الاول کی 17 یا 27، کوئی رجب کی 27 اور بعض کوئی اور مہینہ اس کی تاریخ بتلاتے ہیں۔ (فتح القدیر)
[١] واقعہ معراج کے جسمانی ہونے کے دلائل :۔ یہ واقعہ ہجرت نبوی سے تقریباً ایک سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کے دو حصے ہیں۔ مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کو اسرائ کہا جاتا ہے اور قرآن میں صرف واقعہ اسراء کا ہی ذکر ہے۔ دوسرا حصہ مسجد اقصیٰ سے آسمانوں کی سیاحت اور واپسی ہے اسے معراج کہا جاتا ہے اور واقعہ معراج بہت سی احادیث میں مذکور ہے حتیٰ کہ واقعہ کے راوی صحابہ کی تعداد پچیس سے زائد ہی ہے کم نہیں۔- جمہور امت کا قول یہ ہے کہ یہ سفر جسمانی تھا۔ محض روحانی (جیسے خواب میں ہوتا ہے) یا کشفی قسم کا نہ تھا۔ تاہم بعض لوگ اسے روحانی بھی سمجھتے ہیں اور منکرین حدیث تو واقعہ معراج کا انکار ہی کردیتے ہیں اور واقعہ اسراء چونکہ قرآن میں مذکور ہے۔ اس لیے اس کی غلط سلط تاویل کرلیتے ہیں۔- ہمارے نزدیک یہ واقعہ ایک جسمانی سفر تھا اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں :- ١۔ واقعہ کا آغاز (سُبْحَانَ الَّذِی) جیسے پرزور الفاظ سے کیا جارہا ہے اور یہ لفظ عموماً حیرت واستعجاب کے مقام پر اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نمایاں اظہار کے لیے آتا ہے۔ اگر یہ واقعہ محض ایک خواب یا کشف ہی ہوتا تو ابتدا میں یہ الفاظ لانے کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔- ٢۔ عبد کا لفظ جسم اور روح دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے۔ اس لفظ کا اطلاق نہ صرف جسم پر ہوتا ہے اور نہ روح پر۔- ٣۔ اگر واقعہ کے بعد کافروں کا تکرار ثابت ہوجائے تو وہ خرق عادت واقعہ یا معجزہ ہوتا ہے۔ چناچہ ارشاد باری ہے :- ( وَاِنْ يَّرَوْا اٰيَةً يُّعْرِضُوْا وَيَقُوْلُوْا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ) 54 ۔ القمر :2) اور یہ (کافر) جب کوئی نشانی یا معجزہ دیکھتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو جادو ہے چلا آتا - اور یہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جب صبح کو آپ نے یہ واقعہ سنایا تو کفار نے اس کا خوب مضحکہ اڑایا کہ مکہ سے بیت المقدس کا ٤٠ دن کا سفر ہے اور یہ آمدورفت کا ٨٠ دن کا سفر راتوں رات کیسے ممکن ہے۔ اور اس بات کو (نعوذ باللہ) آپ کی دیوانگی پر محمول کیا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو لوگ بیت المقدس کا سفر کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے کچھ سوالات پوچھنا شروع کردیئے۔ اس وقت آپ حطیم میں کھڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے درمیان سے سب پردے ہٹادیئے تو آپ مسجد اقصیٰ کو سامنے دیکھ کر کافروں کے سوالوں کے جواب دیتے گئے جیسا کہ جابر بن عبداللہ انصاری (رض) کی حدیث سے واضح ہے جو آگے مذکور ہے۔ اور جن لوگوں نے اسے خواب کا واقعہ سمجھا ان کی دلیل اسی سورة کی آیت نمبر ٦٠ کے درج ذیل الفاظ ہیں :- (وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُوْنَةَ فِي الْقُرْاٰنِ ۭ وَنُخَوِّفُهُمْ ۙ فَمَا يَزِيْدُهُمْ اِلَّا طُغْيَانًا كَبِيْرًا 60ۧ) 17 ۔ الإسراء :60) اور یہ (واقعہ) جو ہم نے تمہیں دکھایا تو یہ محض لوگوں کی آزمائش کے لیے تھا - روحانی سفر سمجھنے والوں کی تردید :۔ اس آیت میں لفظ رء یا چونکہ خواب کے لیے بھی آتا ہے اس لیے ان لوگوں کو روحانی سفر کا اشتباہ ہوا اس مسلک کی کمزوری کی تین وجوہ ہیں۔- ١۔ لغوی لحاظ سے رء یا کا اطلاق ہر ایسے واقعہ پر ہوسکتا ہے جو آنکھ سے دیکھا گیا ہو خواہ یہ دیکھنا بیداری کی حالت میں ہو یا نیند کی حالت میں۔- ٢۔ اگر یہ واقعہ خواب ہی ہوتا تو اس میں لوگوں کے لیے کوئی آزمائش نہیں۔ ایسا خواب ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔- ٣۔ یہ مسلک جمہور امت کے مقابلہ میں شاذ ہے۔- منکرین حدیث کی تاویلات اور ان کا رد :۔ اور منکرین حدیث آیت کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اسراء سے مراد آپ کا واقعہ ہجرت ہے جس کا آغاز رات کو ہوا تھا اور مسجد اقصیٰ سے مراد دور کی مسجد یعنی مسجد نبوی ہے۔ یہ تاویل کئی لحاظ سے غلط ہے مثلاً- ١۔ بخاری کی صحیح روایت کے مطابق ہجرت کے سفر کا آغاز سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کے گھر سے ہوا تھا جبکہ اس واقعہ کا آغاز مسجد حرام سے ہوا۔- ٢۔ واقعہ ہجرت بخاری کی اس روایت کے مطابق دوپہر کی کڑکڑاتی دھوپ کے وقت ہوا تھا جبکہ لوگ آرام کر رہے ہوتے ہیں مگر معراج کا آغاز رات کو ہوا۔- ٣۔ واقعہ ہجرت ایک رات یا راتوں رات نہیں ہوا تھا بلکہ اس سفر میں پندرہ دن اور پندرہ راتیں لگ گئے تھے جبکہ معراج کا واقعہ ایک ہی رات میں ہوا تھا۔- ٤۔ مسجد اقصیٰ کے عرفی مفہوم کو چھوڑ کر اس کے لغوی معنیٰ دور کی مسجد مراد لینا خلاف دستور فلہٰذا باطل ہے۔- ٥۔ مسجد نبوی کی تو تعمیر ہی بہت بعد ہوئی پھر یہ آپ کے سفر کی آخری منزل کیسے بن سکتی ہے۔- اور واقعہ معراج سے اس بنا پر انکار کیا جاتا ہے کہ اس میں اللہ کے لیے سمت مقرر ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ ہر جگہ موجود ہے۔ یہ بحث دراصل استواء علی العرش کی بحث ہے اور طویل ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں (تفصیل کے لیے دیکھئے میری تصنیف آئینہ پرویزیت)- اب ہم اسراء اور معراج کے متعلق چند احادیث درج کرتے ہیں تاکہ اس واقعہ کی تفاصیل سامنے آجائیں۔- ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جس رات مجھے بیت المقدس لے جایا گیا تو میرے سامنے دو پیالے لائے گئے ایک دودھ کا اور دوسرا شراب کا تھا۔ میں نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ لے لیا۔ اس وقت جبرئیل نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے آپ کو فطری راستہ (یعنی اسلام) کی رہنمائی کی آپ اگر شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔- ٢۔ سیدنا انس سے روایت ہے کہ معراج کی رات نبی اکرم کے پاس براق لایا گیا جسے لگام دیا گیا اور اس پر کاٹھی ڈالی گئی تھی۔ اس نے شوخی کی تو جبرئیل نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے شوخی کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ کے ہاں ان سے زیادہ بزرگ کوئی نہیں جو تم پر سوار ہو راوی کہتا ہے کہ پھر براق کا پسینہ ٹپکنے لگا۔ (ترمذی، کتاب التفسیر)- ٣۔ سیدنا بریدہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : معراج کی رات جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبریل (علیہ السلام) نے اپنی انگلی سے اشارہ کرکے ایک پتھر چیر دیا۔ پھر اس سے براق کو باندھ دیا۔ (ترمذی۔ ایضاً )- ٤۔ سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب قریش کے کافروں نے مجھے جھٹلایا تو میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو میرے سامنے کردیا اور اس کی جو جو نشانیاں وہ مجھ سے پوچھتے۔ میں دیکھ کربتاتا جاتا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٥۔ سیدنا ابوذر غفاری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا۔ جبریل اترے۔ انہوں نے میرا سینہ چیرا۔ پھر اس کو زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر سونے کا ایک طشت لائے جو ایمان اور حکمت سے بھرا تھا، اسے میرے سینے میں ڈال دیا گیا۔ پھر سینہ جوڑ دیا۔ پھر جبریل نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے لے کر آسمان کی طرف چڑھے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبریل نے آسمان کے داروغہ سے کہا۔ دروازہ کھولو اس نے پوچھا کون جبریل بولے میں ہوں جبریل اس نے پوچھا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ جبریل نے کہا ہاں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے ساتھ ہیں اس نے پوچھا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ جبریل نے کہا ہاں تب داروغہ نے دروازہ کھول دیا۔ تو ہم آسمان دنیا (پہلے آسمان) پر چڑھے۔ وہاں ایک شخص بیٹھا تھا جس کے دائیں طرف بھی ایک مجمع تھا اور بائیں طرف بھی۔ جب وہ دائیں طرف دیکھتا تو ہنس پڑتا اور بائیں طرف دیکھتا تو رو پڑتا۔ اس نے کہا نیک پیغمبر اور نیک بیٹے مرحبا میں نے جبرئیل (علیہ السلام) سے پوچھا : یہ کون لوگ ہیں ؟ جبریل نے کہا یہ آدم ہیں ان کے دائیں طرف اہل جنت ہیں اور بائیں طرف اہل دوزخ ہیں۔ جب یہ دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنس پڑتے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔ پھر جبریل (علیہ السلام) مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اور داروغہ سے کہا دروازہ کھولو اس نے بھی وہی کچھ کہا جو پہلے آسمان والے نے کہا تھا۔ پھر آپ نے آسمانوں میں سیدنا آدم، ادریس، موسیٰ ، عیسیٰ اور ابراہیم کو دیکھا مگر ان کے مقام بیان نہیں کیے۔ البتہ یہ بتایا کہ پہلے آسمان پر سیدنا آدم کو اور چھٹے پر سیدنا ابراہیم کو پایا۔ جب جبریل کو لے کر ادریس پیغمبر کے پاس سے گزرے تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا نیک پیغمبر اور نیک بھائی مرحبا میں نے جبریل سے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جبریل نے کہا یہ ادریس ہیں پھر میں موسیٰ پر سے گزرا تو انہوں نے وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل سے پوچھا۔ یہ کون ہیں ؟ جبریل نے بتایا۔ یہ موسیٰ ہیں پھر میں عیسیٰ پر سے گزرا تو انہوں نے بھی وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل سے پوچھا تو انہوں نے بتادیا یہ عیسیٰ ہیں پھر میں ابراہیم کے پاس سے گزرا تو انہوں نے وہی کچھ کہا۔ میں نے جبریل سے پوچھا تو انہوں نے بتایا یہ ابراہیم ہیں۔ پھر جبریل مجھے لے کر اوپر چڑھے۔ حتیٰ کہ میں ایک بلند ہموار مقام پر پہنچا۔ وہاں میں قلموں کے چلنے کی آواز سن رہا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر لوٹا۔ جب موسیٰ کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا اپنے پروردگار کے پاس واپس جاؤ۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی طاقت نہیں رکھتی۔ میں لوٹا تو اللہ نے اس کا کچھ حصہ معاف کردیا، پھر موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے کہا۔ پھر اپنے رب کے پاس جاؤ۔ تمہاری امت اتنی طاقت نہیں رکھتی میں پھر لوٹا (اور ایسا کئی بار ہوا) یہ پانچ نمازیں درحقیقت پچاس ہی ہیں۔ (دس گناہ اجر کے حساب سے) اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی پھر میں موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی۔ تو میں نے کہا اب مجھے اپنے مالک کے ہاں جاتے ہوئے شرم آتی ہے پھر جبریل مجھے لے کر چلے تو ہم سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ اسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپا ہوا تھا۔ میں نہیں جانتا وہ کیا تھے۔ پھر مجھے جنت میں لے گئے۔ وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ گنبد تو موتیوں کے ہیں اور اس کی مٹی کستوری کی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب کیف فرضت الصلوۃ) (نیز کتاب بدأ الخلق۔ باب ادریس علیہ السلام)- ٦۔ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے (شب معراج میں) نماز فرض کی تو (ہر نماز کی) دو رکعتیں فرض کیں خواہ سفر ہو یا حضر۔ پھر سفر کی نماز تو وہی دو رکعت رہی اور حضر کی نماز بڑھا دی گئی۔ (حوالہ ایضاً )- ٧۔ مالک بن صعصعہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ایک دفعہ میں کعبہ کے پاس نیند اور بیداری کی درمیانی کیفیت میں بیٹھا تھا اور تین مردوں میں سے درمیان والے نے میرا سینہ چیر کر اس میں ایمان و حکمت بھر دیا۔ پھر میرے پاس براق لایا گیا جو خچر سے ذرا چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ پھر جبریل کے ساتھ پہلے آسمان پر پہنچا (مکالمہ وہی ہے جو اوپر والی روایت میں ہے) تو وہاں سیدنا آدم سے ملاقات ہوئی۔ دوسرے پر سیدنا عیسیٰ اور یحییٰ سے، تیسرے پر یوسف سے چوتھے پر ادریس سے پانچویں پر ہارون سے چھٹے پر موسیٰ اور ساتویں پر ابراہیم سے۔ پھر مجھے بیت المعمور (فرشتوں کا کعبہ) دکھلایا گیا۔ میں نے جبریل سے اس کا حال پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہاں ہر روز ستر ہزار فرشتے نماز پڑھتے ہیں اور جب وہ چلے جاتے ہیں تو ان کی پھر باری نہیں آتی پھر مجھے سدرۃ المنتہیٰ دکھایا گیا جس کے بیر ہجر کے مٹکوں کے برابر ہیں اور پتے ایسے جیسے ہاتھی کے کان۔ اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی ہیں۔ دو پوشیدہ اور دو ظاہر۔ پوشیدہ تو جنت میں (سلسبیل اور کوثر) جاتی ہیں اور ظاہری نیل اور فرات ہیں۔ پھر مجھ پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ میں سیدنا موسیٰ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے کہا (میں لوگوں کا حال تم سے زیادہ جانتا ہوں اور بنی اسرائیل پر بہت بڑی کوشش کرچکا ہوں لہذا تم واپس جاؤ۔ چناچہ دس نمازوں کی تخفیف ہوئی (حسب روایت سابق) پھر تیس ہوئیں، پھر بیس، پھر دس اور پھر پانچ۔ پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے پھرجانے کو کہا تو میں نے کہا میں انھیں اچھی طرح تسلیم کرچکا ہوں پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی میں نے اپنا فرض پورا کردیا۔ میں نے اپنے بندوں سے تخفیف کی۔ جبکہ ہر نیکی (نماز) کا دس گناہ بدلہ دوں گا (بخاری۔ کتاب بدأ الخلق۔ باب ذکر الملائکہ) (بخاری۔ کتاب المناقب، باب المعراج)- اس واقعہ کی بیشتر تفصیل تو ان احادیث میں آگئی ہے تاہم کچھ تفصیل بعض دوسری احادیث میں بھی مذکور ہے اور ان تفاصیل کے قابل ذکر عنوانات درج ذیل ہیں :- ١۔ بیت المقدس میں تمام سابقہ انبیاء کا جمع ہونا اور جبریل کا آپ کو امامت کے لیے آگے بڑھانا اور آپ کا امامت کرانا جس سے آپ کی تمام انبیاء پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔- ٢۔ مختلف آسمانوں پر بعض اولوالعزم رسولوں سے آپ کی ملاقات۔ جس سے ان رسولوں کے مدارج کا پتہ چلتا ہے۔- ٣۔ پانچ نمازوں کی فرضیت یا معراج کا تحفہ جس کے بعد پانچ اوقات میں نماز ادا کی جانے لگی۔- ٤۔ سات آسمانوں سے اوپر سدرۃ المنتہیٰ کی سیاحت اور اللہ تعالیٰ کے عجائب کا مشاہدہ، جنت اور دوزخ کا مشاہدہ اور بعض جرائم کی تمثیلی سزاؤں کا مشاہدہ وغیرہ۔- اس سفر کا آغاز کہاں سے ہوا تھا ؟ اس واقعہ سے متعلق ایک بحث یہ رہ جاتی ہے کہ سفر اسراء کا آغاز کہاں سے ہوا تھا ؟ سیدنا ابوذر غفاری کی حدیث کے مطابق یہ آغاز آپ کے گھر سے ہوا۔ مالک بن صعصعہ کی روایت کے مطابق کعبہ سے ہوا۔ اور ایک تیسری روایت کے مطابق ام ہانی (رض) کے گھر سے ہوا۔ اس سلسلہ میں قول فیصل یہی ہے کہ یہ آغاز مسجد الحرام سے ہوا اور قرآن اسی کی تائید کرتا ہے۔ رہیں دوسری روایات تو ان کی تطبیق کی دو صورتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ مکہ پورے کا پورا مسجد الحرام ہے اور اس پر دلائل بھی مل جاتے ہیں۔ دوسری صورت تطبیق یہ ہے کہ آپ جس گھر میں بھی تھے۔ وہاں سے پہلے آپ کو مسجد حرام میں لایا گیا۔ پھر مسجد اقصیٰ کا سفر شروع ہوا۔- [ ٢] یعنی ظاہری لحاظ سے بھی یہ علاقہ زرخیز، سرسبز و شاداب ہے اور روحانی لحاظ سے وہ بہت سے انبیاء کا مرکز تبلیغ، مسکن اور مدفن ہے۔ اس لیے وہاں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات کا نزول ہوتا رہتا ہے اور اس سے مراد شام و فلسطین کا علاقہ ہے۔- [ ٣] ان الفاظ سے بھی واقعہ معراج کی تائید ہوتی ہے اور اس سے غرض یہ تھی کہ آپ کو مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰاتِ وَالاَرْضِ کا مشاہدہ کرا دیا جائے۔ حتیٰ کہ آپ کو جنت اور دوزخ کے مناظر بھی دکھائے گئے۔ اور تمام اولوالعزم پیغمبروں کو ایسا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو پورے وثوق سے ان غیب کی چیزوں کی طرف دعوت دے سکیں جنہیں وہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرچکے ہوتے ہیں۔
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ : اس سورت کی ابتدا اللہ تعالیٰ کو ہر ایسی چیز سے پاک قرار دینے سے کی جو اس کے جلال کے لائق نہیں، چناچہ فرمایا : (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ) طنطاوی نے فرمایا، اس کی سب سے اچھی نحوی ترکیب یہ ہے کہ ” سُبْحٰنَ “ اسم مصدر ہے اور فعل محذوف ” سَبَّحْتُ “ یا ” اُسَبِّحُ “ کا مفعول مطلق ہے اور ” الَّذِيْٓ“ کی طرف مضاف ہے، یعنی میں اس (اللہ) کا ہر عیب اور کمی سے پاک ہونا بیان کرتا ہوں جو اپنے بندے۔۔ (التفسیر الوسیط) معلوم ہوا کہ آگے کوئی ایسا کام بیان ہونے والا ہے جس کا واقع ہونا انسانی طاقت سے باہر ہے، اس لیے بات یہیں سے شروع فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیبوں، کمزوریوں اور نارسائیوں سے پاک ہے جو مخلوق میں پائی جاتی ہیں اور وہ ان کاموں پر قادر ہے جن پر اس کے سوا کوئی قدرت نہیں رکھتا۔ - اَسْرٰى : شیخ سلیمان الجمل نے فرمایا : ” اَسْرٰى“ اور ” سَرٰی “ دونوں کا معنی ہے، وہ رات کو چلا، دونوں فعل لازم ہیں، پہلے کا مصدر ” اَلإِْسْرَاءُ “ ہے اور دوسرے کا ” اَلسُّرٰی “ بروزن ” اَلْھُدٰی “ ، اس لیے اسے متعدی بنانے کے لیے ” بِعَبْدِهٖ “ میں باء لائی گئی ہے، جس سے معنی ” وہ رات کو چلا “ کے بجائے ” اس نے (اپنے بندے کو) رات کو چلایا “ ہوگیا۔ “ اس سے رات کی فضیلت بھی ثابت ہوتی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا راتوں کو قیام، دعائیں، اسراء و معراج، راتوں کا سفر سب اس کی دلیل ہیں۔ - بِعَبْدِهٖ : ” اپنے بندے “ کا لفظ اس محبت اور تعلق کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کو اپنے آخری پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ اگر پیار و محبت اور آپ کی عظمت و شان کے اظہار کے لیے اس سے زیادہ یہاں کوئی لفظ موزوں ہوتا تو اللہ تعالیٰ اسی کو ذکر فرماتا، لفظ ” عَبْدٌ“ منتخب ہی اس لیے فرمایا کہ تمام مخلوقات کی صفات میں سب سے اونچی اور بڑی صفت اللہ تعالیٰ کی عبودیت اور بندگی ہے، پھر خاص اپنی طرف نسبت کرکے مزید رتبہ بڑھا دیا۔ - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا عبد (بندہ، غلام) قرار دینے میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مالک اور معبود صرف اللہ تعالیٰ ہے، باقی سب اس کے بندے، غلام، اس کے سامنے عاجز اور مطیع ہیں، کیونکہ ” عَبْدٌ“ کا معنی یہی ہے، جیسا کہ فرمایا : (اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا ) [ مریم : ٩٣ ] ” زمین و آسمان میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمٰن کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔ “ مقصد یہ ہے کہ عبودیت اور الوہیت، یعنی بندگی اور خدائی کے مقام کا فرق بالکل واضح ہوجائے، انھیں ایک نہ سمجھ لیا جائے، جیسا کہ مسیحیت میں ہوا کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کو، عیسیٰ (علیہ السلام) کو اور ان کی والدہ کو ایک ہی معبود قرار دے دیا، انھوں نے عبودیت اور الوہیت کے فرق کو نہ سمجھا۔ بعض جھوٹے مسلمانوں نے بھی احد اور احمد کو ایک قرار دے لیا۔ یہ آیت ان کی واضح تردید کرتی ہے۔ علامہ قاسمی نے امام ابن قیم (رض) کی کتاب ” طَرِیْقُ الْہِجْرَتَیْنِ “ سے نقل فرمایا کہ تمام مخلوق میں سے کامل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبودیت (بندگی) میں سب سے کامل ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پوری مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب اور بلند مرتبہ تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے : ( وَاللّٰہِ مَا أُحِبُّ أَنْ تَرْفَعُوْنِيْ فَوْقَ مَنْزِلَتِيَ الَّتِيْ أَنْزَلَنِيَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ ) [ مسند أحمد : ٣؍١٥٣: ١٢٥٥٨، سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ١٠٩٧، عن أنس ]” اللہ کی قسم اے لوگو میں پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے میرے اس مرتبے سے بلند قرار دو جو مجھے اللہ عزوجل نے عطا کیا ہے۔ “ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے تھے : ( لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہُ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( واذکر فی الکتاب مریم۔۔ ) : ٣٤٤٥ ] ” مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھاؤ جیسا کہ نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا، میں تو صرف اس کا عبد (بندہ) ہوں، سو تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔ “ اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر آپ کے بلند ترین مقام اسراء و معراج میں عبودیت کے نام سے فرمایا، چناچہ فرمایا : (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ) اور دعوت کے مقام میں فرمایا : (وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا) [ الجن : ١٩ ] اور چیلنج کے مقام میں فرمایا : (وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا ) [ البقرۃ : ٢٣ ] - لَيْلًا : زمحشری نے فرمایا، اگر تم کہو کہ ” إِسْرَاءٌ“ کا معنی ہی رات کو چلنا ہے، پھر ” لَيْلًا “ کہنے کا مقصد کیا ہے ؟ تو میں کہتا ہوں کہ ” لَيْلًا “ کا لفظ نکرہ کی صورت میں لانے سے رات کی اس مدت کو جس میں سفر کیا، کم بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں مکہ سے شام تک کا چالیس راتوں کا فاصلہ طے کروا دیا، کیونکہ تنکیر یہاں بعضیہ (بلکہ بقول بعض تقلیل و تحقیر) کا معنی دے رہی ہے (یہ بات ترجمہ میں بھی ملحوظ رکھی گئی ہے) ۔ یاد رہے چالیس راتوں یا ایک مہینے سے زائد دنوں کا سفر ایک طرف کا ہے، آنے جانے کا دگنا سمجھ لیں۔ - مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا : مسجد حرام کعبہ کے اردگرد والی مسجد، کیونکہ اسے کئی طرح کی حرمت حاصل ہے۔ بعض علماء پورے حرم کو مسجد حرام کہتے ہیں۔ جس رات یہ سفر ہوا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ام ہانی (رض) کے گھر سوئے ہوئے تھے۔ وہاں سے آپ کو حطیم کعبہ میں لایا گیا اور پھر آپ حطیم سے براق پر سوار ہو کر مسجد اقصیٰ (دور ترین مسجد) یعنی بیت المقدس پہنچے، اس وقت مکہ سے سب مسجدوں سے دور پائی جانے والی مسجد یہی تھی، چونکہ سفر کی ابتدا حطیم سے ہوئی، اس لیے کئی علماء صرف مسجد کے حصے ہی کو مسجد حرام کہتے ہیں۔ بیت المقدس سے معراج (سیڑھی) کے ذریعے سے اوپر ساتوں آسمانوں سے گزر کر سدرۃ المنتہیٰ پہنچے، راستے میں متعدد جلیل القدر انبیاء ( علیہ السلام) سے ملاقاتیں ہوئیں، جنت و دوزخ کا مشاہدہ بھی کیا، سدرہ کے پاس ہی جبریل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دیکھا، وہیں آپ کو پہلے پچاس نمازوں اور آخر میں روزانہ پانچ نمازوں کا حکم ہوا، پھر پلٹ کر بیت المقدس آئے تو آپ نے امام بن کر تمام انبیاء ( علیہ السلام) کے ساتھ نماز ادا کی۔ ابن کثیر (رض) نے اسی کو ترجیح دی ہے، لیکن قاضی عیاض وغیرہ کا خیال ہے کہ انبیاء کی امامت آپ نے واپسی پر نہیں بلکہ معراج کو جاتے ہوئے کروائی ہے۔ بہرحال اس کے بعد مسجد حرام تشریف لائے۔ واقعۂ اسراء و معراج کی تفصیلات کے لیے تفسیر ابن کثیر اور کتب احادیث کا مطالعہ فرمائیں۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے بڑی تفصیل، ترتیب اور سلیقے سے روایات جمع فرما دی ہیں۔ - 3 مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کے سفر کا نام ” اسراء “ ہے، جو یہاں مذکور ہے اور وہاں سے سدرۃ المنتہیٰ تک کا سفر ” معراج “ کہلاتا ہے۔ اس کا ذکر سورة نجم اور کتب احادیث میں ہے۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں بہت سی احادیث مع سند ذکر فرمائی ہیں، ان میں سے بعض روایات کے آخر میں فرمایا کہ امام بیہقی (رض) نے فرمایا : ” اس حدیث کے الفاظ دلیل ہیں کہ معراج اسی رات ہوئی ہے جب آپ مکہ سے بیت المقدس گئے ہیں اور یہی حق ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ “ - 3 قرطبی نے فرمایا کہ اسراء کا واقعہ حدیث کی تمام کتابوں میں ثابت ہے اور اسلام کے زیر نگیں تمام علاقوں کے صحابہ سے مروی ہے، اس لحاظ سے یہ متواتر ہے۔ نقاش نے اسے نقل کرنے والے بیس صحابہ ذکر کیے ہیں۔ گو بعض جزئیات میں اختلاف ہے مگر اصل واقعہ بلاشک و شبہ ثابت ہے۔ (قرطبی) - 3 علمائے سلف و خلف کا عقیدہ ہے کہ یہ واقعہ بیداری میں روح اور جسم سمیت پیش آیا اور قرآن میں لفظ ” بعبدہ “ سے بھی اس کی شہادت ملتی ہے، کیونکہ عبد صرف روح کو نہیں کہتے، بلکہ روح مع جسد کو کہتے ہیں۔ پھر اگر یہ خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار قریش اسے نہ جھٹلاتے، کیونکہ خواب میں تو ہر ایک کو عجیب و غریب واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور نہ قرآن ہی ” سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ“ کی تمہید کے ساتھ اسے بیان کرتا، کیونکہ ان تمہیدی الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم اور خرق عادت واقعہ بیان کیا جا رہا ہے، پھر ” لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیَاتِنَا “ اور ”ۙمَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى“ ( نجم : ١٧) میں بھی سر کی آنکھوں سے دیکھنے کا ذکر ہے، پھر براق پر سواری بھی جسمانی معراج کی دلیل ہے۔ بعض علماء نے آیت کریمہ : ( وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ اِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ ) [ بنی إسرائیل : ٦٠ ] میں لفظ ” اَلرُّوْیَا “ سے استدلال کیا ہے کہ یہ خواب کا واقعہ ہے، مگر محققین علمائے لغت نے تصریح کی ہے کہ لفظ ” اَلرُّوْیَا “ (جو ” رَأَی یَرَی “ کا مصدر ہے) بیداری میں آنکھوں کے دیکھنے پر بھی استعمال ہوتا ہے، یہاں یہی مراد ہے اور عبداللہ بن عباس (رض) نے تصریح فرمائی ہے : ( ھِیَ رُؤْیَا عَیْنٍ أُرِیَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ لَیْلَۃَ أُسْرِيَ بِہِ إِلٰی بَیْتِ الْمَقْدِسِ ) [ بخاری، مناقب الأنصار، باب المعراج : ٣٨٨٨ ] ” یہ آنکھوں کا دیکھنا تھا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس رات دکھایا گیا جس رات آپ کو بیت المقدس لے جایا گیا۔ “ معلوم ہوا کہ اس آیت سے ان علماء کا استدلال درست نہیں ہے، تمام صحابہ روایتاً و درایتاً اس پر متفق ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو معراج بیداری کی حالت میں ہوئی اور جسم کے ساتھ ہوئی۔ صرف عائشہ اور معاویہ (رض) سے مروی ہے کہ معراج خواب میں ہوئی، مگر ایک تو یہ روایت سنداً منقطع ہے اور پھر ان کی اپنی رائے اور آیت کریمہ ( وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ ) [ بنی إسرائیل : ٦٠ ] سے استدلال ہے جو صحابہ کے متفقہ فیصلے کے مقابلے میں توجہ کے قابل نہیں۔ (شوکانی، ابن کثیر)- 3 علامہ جمال الدین قاسمی کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ اسراء بعثت نبوی کے بعد ہوا ہے اور یہ کہ وہ ہجرت سے ایک سال پہلے تھا۔ زہری اور ابن سعد وغیرہ کا یہی کہنا ہے، امام نووی نے بھی یہ بات یقین سے کہی ہے، ابن حزم (رض) نے مبالغہ کرتے ہوئے اس پر اجماع نقل فرمایا ہے اور کہا ہے کہ یہ (اسراء و معراج) رجب ١٢ نبوی میں ہوئی ہے۔ طبیعت کو اطمینان اس بات پر ہوتا ہے کہ اسراء و معراج کے واقعات ابوطالب اور خدیجہ (رض) کی وفات کے بعد ہوئے ہیں، کیونکہ اس دوران میں مشرکین کی ایذا بہت بڑھ گئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ انعام ان کی طرف سے پیش آنے والی ایذا سے تسلی دینے کے لیے اور آپ کی عزت افزائی اور تکریم کے لیے عطا فرمایا۔ اشرف الحواشی میں ہے کہ اکثر روایات کے مطابق یہ قصہ ہجرت سے ایک سال قبل کا ہے۔ امام ابن حزم (رض) نے اس پر اجماع نقل کیا ہے اور ملا امین عمری نے اسے قطعی قرار دیا ہے۔ بعض روایات میں تین سال قبل بھی مذکور ہے۔ - علامہ شنقیطی (رض) فرماتے ہیں کہ صحیحین میں ” شریک عن انس “ کی سند سے جو مذکور ہے کہ اسراء مذکور خواب میں واقع ہوا، وہ کتاب و سنت کی صریح نصوص اور اہل السنۃ والجماعہ کے عقیدے (کہ اسراء و معراج بیداری میں جسمانی ہوئی) کے خلاف نہیں، کیونکہ یہ عین ممکن ہے کہ پہلے یہ سب کچھ آپ کو خواب میں دکھایا گیا ہو اور پھر اس کی تصدیق بیداری میں دکھا کر کی گئی ہو، جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا : (لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ اِنْ شَاۗءَ اللّٰهُ اٰمِنِيْنَ ۙ مُحَلِّقِيْنَ رُءُوْسَكُمْ وَمُقَصِّرِيْنَ ) [ الفتح : ٢٧ ] ” تم مسجد حرام میں ضرور بصرور داخل ہوگے، اگر اللہ نے چاہا، امن کی حالت میں، اپنے سر منڈاتے ہوئے اور کتراتے ہوئے۔ “ پھر بیداری میں اس کی تصدیق بالفعل بھی فرما دی گئی۔ اس کی تصدیق عائشہ (رض) کی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ صبح کے طلوع ہونے کی طرح دن کو سامنے آجاتا۔ علاوہ ازیں انس (رض) سے شریک کے علاوہ بہت سے حفاظ نے یہ روایت بیان کی ہے، لیکن کسی نے بھی شریک کے خواب میں دیکھنے والے الفاظ بیان نہیں کیے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے فرمایا کہ شریک بن عبداللہ بن ابی نمر نے انس (رض) سے یہ روایت صحیح یاد نہیں رکھی۔ امام مسلم نے فرمایا کہ شریک نے یہ حدیث ثابت بنانی (انس (رض) کے شاگرد) کی طرح بیان کی اور اس میں کچھ چیزیں آگے پیچھے کردیں اور کچھ کم زیادہ کردیں۔ دوسرے تمام حفاظ کی روایت صحیح ہے اور اس میں شریک والے الفاظ نہیں ہیں۔ - 3 بعض لوگ معراج کی رات میں لیلۃ القدر کی طرح خصوصی قیام اور تلاوت و ذکر کا اہتمام کرتے ہیں، اگر اس کی کوئی حقیقت ہوتی تو کم از کم کسی صحیح سند کے ساتھ اس مہینے اور دن کی تعیین ضرور معلوم ہوتی، جس میں یہ واقعہ ہوا اور صحابہ بھی اس رات اس کا اہتمام کرتے، جبکہ ستائیس (٢٧) رجب کی کوئی صحیح روایت موجود نہیں اور نہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا صحابہ سے اس رات کی خاص عبادت کا کہیں ذکر ہے، رہی آتش بازی اور چراغاں تو وہ آتش پرستوں کے ساتھ مشابہت ہے جس سے پرہیز لازم ہے۔ - 3 اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے یا نہیں، یہ بحث سورة نجم (٩) (فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى) میں آئے گی اور معراج کے واقعہ کا بقدر ضرورت ذکر بھی وہیں ہوگا۔ (ان شاء اللہ)- الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ : یعنی وہاں ظاہری اور مادی برکات بھی ہیں کہ وہاں چشموں، نہروں اور ہر قسم کے غلے اور پھلوں کی بہتات ہے اور معنوی و باطنی اعتبار سے بھی وہ خطہ بابرکت ہے کہ بیت المقدس میں چاروں مقدس کتابیں پڑھی گئیں، بہت سے انبیاء و رسل وہاں مبعوث ہوئے، وہاں دنیا میں کعبۃ اللہ کے بعد بنائی جانے والی دوسری مسجد ہے، جو ان تین مساجد میں شامل ہے جن کے علاوہ کسی جگہ ثواب کی نیت سے کجاوے کس کر جانا منع ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ یہ اصطلاح بیت المقدس اور شام کے لیے آئی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَنَجَّيْنٰهُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْن) [ الأنبیاء : ٧١] ” اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سرزمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے جہانوں کے لیے برکت رکھی۔ “ اور فرمایا : (وَلِسُلَيْمٰنَ الرِّيْحَ عَاصِفَةً تَجْرِيْ بِاَمْرِهٖٓ اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا ) [ الأنبیاء : ٨١ ] ” اور سلیمان کے لیے ہوا (مسخر کردی) جو تیز چلنے والی تھی، اس کے حکم سے اس زمین کی طرف چلی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی۔ “ ان تمام آیات سے مراد سرزمین شام ہے۔ - لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا : اسراء میں پیش آنے والی نشانیاں، مثلاً آپ کے مکان کی چھت کا کھولا جانا، جبریل (علیہ السلام) کا آپ کا سینہ مبارک چاک کرکے دل کو زم زم سے دھو کر ایمان و حکمت سے بھر کر پھر ملا دینا، براق کی سواری جس کا قدم حد نگاہ پر پڑتا تھا، مہینوں کا سفر لمحوں میں طے ہونا، بیت المقدس میں دودھ اور شراب کا پیش کیا جانا اور آپ کا دودھ کو پسند فرمانا، انبیاء ( علیہ السلام) کی ملاقات اور امامت وغیرہ، پھر سفر معراج کی بیشمار نشانیاں ان کے علاوہ ہیں جن کے متعلق فرمایا : (لَقَدْ رَاٰى مِنْ اٰيٰتِ رَبِّهِ الْكُبْرٰى ) [ النجم : ١٨ ] ” بلاشبہ یقیناً اس نے اپنے رب کی بعض بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔ “- اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے ” سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى“ میں اپنا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ فرمایا، پھر ” بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ “ اور ” لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا “ میں تین مرتبہ جمع متکلم برائے تعظیم کے ساتھ، پھر اس آیت کے آخر میں ”ۭ اِنَّهٗ هُوَ “ غائب کے ساتھ اور اس سے اگلی آیت میں پھر جمع متکلم کے ساتھ فرمایا ہے، پھر بھی سمجھنے میں کسی جگہ کوئی الجھن پیش نہیں آئی بلکہ لطف محسوس ہوتا ہے۔ کلام کا یہ اسلوب بلاغت کا کمال ہے، اسے عربی میں التفات کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ واقعۂ اسراء سن کر اہل ایمان کے اسے تسلیم کرنے کو اور کفار کے اس سے انکار کو اور دونوں نے اس پر جو کچھ کہا اور کیا یقیناً وہ صرف وہی (اللہ) ہے جو سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا اور اس کے مطابق ہر ایک سے معاملہ کرنے والا اور جزا و سزا دینے والا ہے۔
خلاصہ تفسیر :- وہ ذات پاک ہے جو اپنے بندہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شب کے وقت مسجد حرام (یعنی مسجد کعبہ) سے مسجداقصی (یعنی بیت المقدس) تک جس کے آس پاس (کہ ملک شام ہے) ہم نے (دینی اور دنیوی) برکتیں کر رکھی ہیں (دینی برکت یہ ہے کہ وہاں بکثرت انبیاء (علیہم السلام) مدفون ہیں اور دنیوی برکت یہ ہے کہ وہاں باغات اور نہروں چشموں اور پیداوار کی کثرت ہے غرض اس مسجد اقصی تک عجیب طور پر اس واسطے) لے گیا تاکہ ہم ان کو اپنے کچھ عجائبات قدرت دکھلا دیں (جن میں بعض تو خود وہاں کے متعلق ہیں مثلا اتنی بڑی مسافت کو بہت تھوڑے سے وقت میں طے کرلینا اور سب انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقات کرنا اور ان کی باتیں سننا وغیرہ اور بعض آگے کے متعلق ہیں مثلا آسمانوں پر جانا اور وہاں عجائبات کا مشاہدہ کرنا) بیشک اللہ تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے دیکھنے والے ہیں (چونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال کو سنتے اور احوال کو دیکھتے تھے اس کے مناسب ان کو یہ خاص امتیاز اور اعزاز بخشا اور اپنے قرب خاص کا وہ مقام عطا کیا جو کسی کو نہیں ملا)- معارف و مسائل :- اس آیت میں واقعہ معراج کا بیان ہے جو ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک خصوصی اعزاز اور امتیازی معجزہ ہے لفظ اَسْرٰى اسراء سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی رات کو لے جانا ہیں اس کے بعد لَيْلًا کے لفظ سے صراحۃ بھی اس مفہوم کو واضح کردیا اور لفظ لَيْلًا کے نکرہ لانے اس طرف بھی اشارہ کردیا کہ اس تمام واقعہ میں پوری رات بھی صرف نہیں بلکہ رات کا ایک حصہ صرف ہوا ہے مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کا سفر جس کا ذکر اس آیت میں ہے اس کو اسراء کہتے ہیں اور یہاں سے جو سفر آسمانوں کی طرف ہوا اس کا نام معراج ہے اسراء اس آیت کی نص قطعی سے ثابت ہے اور معراج کا ذکر سورة نجم کی آیات میں ہے اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے بِعَبْدِهٖ اس مقام اعزازو اکرام میں لفظ بِعَبْدِهٖ ایک خاص محبوبیت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ حق تعالیٰ کس کو خود فرما دیں کہ یہ میرا بندہ ہے اس سے بڑھ کر کسی بشر کا بڑا اعزاز نہیں ہوسکتا حضرت حسن دہلوی نے خوب فرمایا۔- بندہ حسن بصد زبان گفت کہ بندہ توام تو بزبان خود بگوبندہ نواز کیستی - یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک دوسری آیت میں (آیت) عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ الَّذِین الخ فرما کر اپنے مقبولان بارگاہ کا اعزاز بڑھانا مقصود ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اللہ کا عبد کامل بن جائے اس لئے کہ خصوصی اعزاز کے مقام پر آپ کی بہت سی صفات کمال میں سے صفت عبدیت کو اختیار کیا گیا اور اس لفظ سے ایک بڑا فائدہ یہ بھی مقصود ہے کہ اس حیرت انگیز سفر سے جس میں اول سے آخر تک سب فوق العادت معجزات ہی ہیں کسی کو خدائی کا وہم نہ ہوجائے جیسے عیسیٰ (علیہ السلام) کے آسمان پر اٹھائے جانے سے عیسائیوں کو دھوکہ لگا ہے اس سے لفظ عَبْد کہہ کر یہ بتلا دیا کہ ان تمام صفات و کمالات اور معجزات کے باوجود آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے بندے ہی ہیں خدا نہیں۔- معراج کے جسمانی ہونے پر قرآن وسنت کے دلائل اور اجماع :- قرآن مجید کے ارشادات اور احادیث متواترہ سے جن کا ذکر آگے آتا ہے ثابت ہے کہ اسراء و معراج کا تمام سفر صرف روحانی نہیں تھا بلکہ جسمانی تھا جیسے عام انسان سفر کرتے ہیں قرآن کریم کے پہلے ہی لفظ سُبْحٰنَ میں اس طرف اشارہ موجود ہے کیونکہ یہ لفظ تعجب اور کسی عظیم الشان امر کے لئے استعمال ہوتا ہے اگر معراج صرف روحانی بطور خواب کے ہوتی تو اس میں کون سی عجیب بات ہے خواب تو ہر مسلمان بلکہ ہر انسان دیکھ سکتا ہے کہ میں آسمان پر گیا فلاں فلاں کام کئے۔- دوسرا اشارہ لفظ عَبْد سے اسی طرف ہے کیونکہ عَبْد صرف روح نہیں بلکہ جسم و روح کے مجموعہ کا نام ہے اس کے علاوہ۔- واقعہ معراج آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ام ہانی کو بتلایا تو انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ مشورہ دیا کہ آپ اس کا کسی سے ذکر نہ کریں ورنہ لوگ اور زیادہ تکذیب کریں گے اگر معاملہ خواب کا ہوتا تو اس میں تکذیب کی کیا بات تھی۔- پھر جب آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں پر اس کا اظہار کیا تو کفار مکہ نے تکذیب کی اور مذاق اڑایا یہاں تک کہ بعض نو مسلم اس خبر کو سن کر مرتد ہوگئے اگر معاملہ خواب کا ہوتا تو ان معاملات کا کیا امکان تھا اور یہ بات اس کے منافی نہیں کہ آپ کو اس سے پہلے اور بعد میں کوئی معراج روحانی بصورت خواب بھی ہوئی ہو جمہور امت کے نزدیک آیت قرآنی (آیت) وَمَا جَعَلْنَا الرُّءْيَا الَّتِيْٓ اَرَيْنٰكَ ۔ میں الرُّءْيَا سے مراد رویت ہے مگر اس کو بلفظ الرُّءْيَا (جو اکثر خواب دیکھنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے) تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس معاملہ کو تشبیہ کے طور پر رؤ یا کہا گیا ہو کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی خواب دیکھ لے اور اگر رؤ یا کے معنی خواب ہی کے لئے جائیں تو یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ واقعہ معراج جسمانی کے علاوہ اس سے پہلے یا پیچھے یہ معراج روحانی بطور خواب بھی ہوئی ہو اس لئے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور حضرت عائشہ ام المؤ منین (رض) سے جو اس کا واقعہ خواب ہونا منقول ہے وہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ معراج جسمانی نہ ہوئی ہو۔ - تفسیر قرطبی میں ہے کہ احادیث اسراء کی متواتر ہیں اور نقاش میں بیس صحابہ کرام (رض) اجمعین کی روایات اس باب میں نقل کی ہیں اور قاضی عیاض نے شفاء میں اور زیادہ تفصیل دی ہے (قرطبی)- اور امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ان تمام روایات کو پوری جرح وتعدیل کے ساتھ نقل کیا ہے پھر پچیس صحابہ کرام (رض) اجمعین کے اسماء ذکر کئے ہیں جن سے یہ روایات منقول ہیں ان کے اسماء یہ ہیں ١ حضرت عمر ابن خطاب ٢ علی مرتضی ٣ ابن مسعود ٤ ابوذرغفاری ٥ مالک بن صعصیہ ٦ ابوہریرہ ٧ ابو سعید ٨ ابن عباس ٩ شداد بن اوس ١٠ ابی بن کعب ١١ عبد الرحمن بن قرظ ١٢ ابوحیہ ١٣ ابو لیلے ١٤ عبداللہ بن عمر ١٥ جابر بن عبداللہ ١٦ حذیفہ بن یمان ١٧ بریدہ ١٨ ابو ایوب انصاری ١٩ ابو امامہ ٢٠ سمرہ بن جندب ٢١ ابو الحمراء ٢٢ صہیب الرومی ٢٣ ام ہانی ٢٤ عائشہ ام المؤ منین ٢٥ اسماء بنت ابی بکر (رض) اجمعین اس کے بعد ابن کثیر نے فرمایا۔- فحدیث الاسراء اجمع علیہ المسلمون واعرض عنہ الزنادقۃ والملحدون (ابن کثیر) واقعہ اسراء کی حدیث پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے صرف ملحد وزندیق لوگوں نے اس کو نہیں مانا،۔- مختصر واقعہ معراج ابن کثیر کی روایت سے :- امام ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں آیت مذکورہ کی تفسیر اور احادیث متعلقہ کی تفصیل بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ حق بات یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سفر اسراء بیداری میں پیش آیا خواب میں نہیں مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک یہ سفر براق پر ہوا جب دروازہ بیت المقدس پر پہنچے تو برق کو دروازہ کے قریب باندھ دیا اور آپ مسجد بیت المقدس میں داخل ہوئے اور اس کے قبلہ کی طرف تحیۃ المسجد کی دو رکعتیں ادا فرمائیں اس کے بعد ایک زینہ لایا گیا جس میں نیچے سے اوپر جانے کے درجے بنے ہوئے تھے اس زینہ کے ذریعہ آپ پہلے آسمان پر تشریف لے گئے اس کے بعد باقی آسمانوں پر تشریف لے گئے (اس زینہ کی حقیقت تو اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے کہ کیا اور کیسا تھا آج کل بھی زینہ کی بہت سی قسمیں دینا میں رائج ہیں ایسے زینے بھی ہیں جو خود حرکت میں لفٹ کی صورت کے زینے بھی ہیں اس معجزانہ زینہ کے متعلق کسی شک وشبہ میں پڑنے کا کوئی مقام نہیں) ہر آسمان میں وہاں کے فرشتوں نے آپ کا استقبال کیا اور ہر آسمان میں ان انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقات ہوئی جن کا مقام کسی معین آسمان میں ہے مثلا چھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ساتویں میں حضرت خلیل اللہ ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی پھر آپ ان تمام انبیاء (علیہم السلام) کے مقامات سے بھی آگے تشریف لے گئے اور ایک ایسے میدان میں پہنچے جہاں قلم تقدیر کے لکھنے کی آواز سنائی دے رہی تھی اور آپ نے سدرۃ المنتہی کو دیکھا جس پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے سونے کے پروانے اور مختلف رنگ کے پروانے گر رہے تھے اور جس کو اللہ کے فرشتوں نے گھیرا ہوا تھا اسی جگہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اصلی شکل میں دیکھا جن کے چھ سو بازو تھے اور وہیں پر ایک رفرف سبز رنگ کا دیکھا جس نے افق کو گھیرا ہوا تھا رفرف مسند سبز ہرے رنگ کی پالکی اور آپ نے بیت المعمور کو بھی دیکھا جس کے پاس بانی کعبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دیوار سے کمر لگائے بیٹھے ہوئے تھے اس بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جن کی باری دوبارہ داخل ہونے کی قیامت تک نہیں آتی اور آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت اور دوزخ کا بچشم خود معائنہ فرمایا اس وقت آپ کی امت پر اول پچاس نمازوں کے فرض ہونے کا حکم ملا پھر تخفیف کر کے پانچ کردی گئیں اس سے تمام عبادات کے اندر نماز کی خاص اہمیت اور فضیلت ثابت ہوتی ہے۔- اس کے بعد آپ واپس بیت المقدس میں اترے اور جن انبیاء (علیہم السلام) کی ساتھ مختلف آسمانوں میں ملاقات ہوئی تھی وہ بھی آپ کے ساتھ اترے (گویا) آپ کو رخصت کرنے کے لئے بیت المقدس تک ساتھ آئے اس وقت آپ نے نماز کا وقت ہوجانے پر سب انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ نماز ادا فرمائی یہ بھی احتمال ہے کہ یہ نماز اسی دن صبح کی نماز ہو ابن کثیر فرماتے ہیں کہ یہ امامت انبیاء (علیہم السلام) کا واقعہ بعض حضرات کے نزدیک آسمان پر جانے سے پہلے پیش آیا تھا لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ واقعہ واپسی کے بعد ہوا کیونکہ آسمانوں پر انبیاء (علیہم السلام) سے ملاقات کے واقعہ میں یہ منقول ہے کہ سب انبیاء (علیہم السلام) سے جبرائیل امین نے آپ کا تعارف کرایا اگر واقعہ امامت پہلے ہوچکا ہوتا تو یہاں تعارف کی ضرورت نہ ہوتی اور یوں بھی ظاہر یہی ہے کہ اس سفر کا اصل مقصد ملا اعلیٰ میں جانے کا تھا پہلے اسی کو پورا کرنا اقرب معلوم ہوتا ہے پھر جب اس اصلی کام سے فراغت ہوئی تو تمام انبیاء (علیہم السلام) آپ کے ساتھ مشایعت (رخصت) کے لئے بیت المقدس تک آئے اور آپ کو جبرئیل امین کے اشارہ سے سب کا امام بنا کر آپ کی سیادت اور سب پر فضیلت کا عملی ثبوت دیا گیا۔- اس کے بعد آپ بیت المقدس سے رخصت ہوئے اور براق پر سوار ہو کر اندھیرے وقت میں مکہ معظمہ پہنچ گئے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔- واقعہ معراج کے متعلق ایک غیر مسلم کی شہادت :- تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حافظ ابو نعیم اصبہانی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں محمد بن عمر واقدی کی سند سے بروایت محمد بن کعب قرظی یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ۔- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شاہ روم قیصر کے پاس اپنا نامہ مبارک دے کر حضرت دحیہ ابن خلیفہ کو بھیجا اس کے بعد حضرت دحیہ (رض) کے خط پہونچانے اور شاہ روم تک پہنچنے اور اس کے صاحب عقل و فراست ہونے کا تفصیلی واقعہ بیان کیا ( جو صحیح بخاری اور حدیث کی سب معتبر کتب میں موجود ہے جس کے آخر میں ہے کہ شاہ روم ہرقل نے نامہ مبارک پڑھنے کے بعد آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات کی تحقیق کرنے کے لئے عرب کے ان لوگوں کو جمع کیا جو اس وقت ان کے ملک میں بغرض تجارت آئے ہوئے تھے شاہی حکم کے مطابق ابو سفیان ابن حرب اور ان کے رفقاء جو اس وقت مشہور تجارتی قافلہ لے کر شام میں آئے ہوئے تھے وہ حاضر کئے گئے شاہ ہرقل نے ان سے سوالات کئے جن کی تفصیل صحیح بخاری ومسلم وغیرہ میں موجود ہے ابوسفیان کی دلی خواہش یہ تھی کہ وہ اس موقع پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق کچھ ایسی باتیں بیان کریں جن سے آپ کی حقارت اور بےحیثیت ہونا ظاہر ہو مگر ابو سفیان کہتے ہیں کہ مجھے اپنے اس ارادہ سے کوئی چیز اس کے سوا مانع نہیں تھی کہ مبادا میری زبان سے کوئی ایسی بات نکل جائے جس کا جھوٹ ہونا کھل جائے اور میں بادشاہ کی نظر سے گر جاؤں اور میرے ساتھی بھی ہمیشہ مجھے جھوٹا ہونے کا طعنہ دیا کریں البتہ مجھے اس وقت خیال آیا کہ اس کے سامنے واقعہ معراج بیان کروں جس کا جھوٹ ہونا بادشاہ خود سمجھ لے گا تو میں نے کہا کہ میں ان کا ایک معاملہ آپ سے بیان کرتا ہوں جس کے متعلق آپ خود معلوم کرلیں گے کہ وہ جھوٹ ہے ہرقل نے پوچھا وہ کیا واقعہ ہے ابوسفیان نے کہا کہ یہ مدعی نبوت یہ کہتے ہیں کہ وہ ایک رات میں مکہ مکرمہ سے نکلے اور آپ کی اس مسجد بیت المقدس میں پہنچے اور پھر اسی رات میں صبح سے پہلے مکہ مکرمہ میں ہمارے پاس پہنچ گئے۔- ایلیاء (بیت المقدس) کا سب سے بڑا عالم اس وقت شاہ روم ہرقل کے سرہانے پر قریب کھڑا ہوا تھا اس نے یبان کیا کہ میں اس رات سے واقف ہوں شاہ روم اس کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ آپ کو اس کا علم کیسے اور کیونکر ہوا اس نے عرض کیا کہ میری عادت تھی کہ میں رات کو اس وقت تک سوتا نہیں تھا جب تک بیت المقدس کے تمام دروازے بند نہ کر دوں اس رات میں نے حسب عادت تمام دروازے بند کردیئے مگر ایک دروازہ مجھ سے بند نہ ہوسکا تو میں نے اپنے عملہ کے لوگوں کو بلایا انہوں نے مل کر کوشش کی مگر وہ ان سے بھی بند نہ ہوسکا دروازے کے کواڑ اپنی جگہ سے حرکت نہ کرسکے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ہم کسی پہاڑ کو ہلا رہے ہیں میں نے عاجز ہو کر کاریگروں اور نجاروں کو بلوایا انہوں نے دیکھ کر کہا کہ ان کو اڑوں کے اوپر دروازہ کی عمارت کا بوجھ پڑگیا ہے اب صبح سے پہلے اس کے بند ہونے کی کوئی تدبیر نہیں صبح کو ہم دیکھیں گے کہ کس طرح کیا جاوے میں مجبور ہو کر لوٹ آیا اور دونوں کواڑ اس دروازے کے کھلے رہے صبح ہوتے ہی میں پھر اس دروازے پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ دروازہ مسجد کے پاس ایک پتھر کی چٹان میں روزن کیا ہوا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کوئی جانور باندھ دیا گیا ہے اس وقت میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ آج اس دروازہ کو اللہ تعالیٰ نے شاید اس لئے بند ہونے سے روکا ہے کہ کوئی نبی یہاں آنے والے تھے اور پھر بیان کیا کہ اس رات آپ نے ہماری مسجد میں نماز بھی پڑھی ہے اس کے بعد اور تفصیلات بیان کی ہیں (ابن کثیر ص ٢٤ ج ٣)- اسراء و معراج کی تاریخ :- امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ معراج کی تاریخ میں روایات بہت مختلف ہیں موسیٰ بن عقبہ کی روایت یہ ہے کہ یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے چھ ماہ قبل پیش آیا اور حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ حضرت خدیجہ (رض) کی وفات کا واقعہ بعثت نبوی کے سات سال بعد ہوا ہے - بعض روایات میں ہے کہ واقعہ معراج بعثت نبوی سے پانچ سال بعد میں ہوا ہے ابن اسحاق کہتے ہیں کہ واقعہ معراج اس وقت پیش آیا جبکہ اسلام عام قبائل عرب میں پھیل چکا تھا ان تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ واقعہ معراج ہجرت مدینہ سے کئی سال پہلے کا ہے۔- حربی کہتے ہیں کہ واقعہ اسراء و معراج ربیع الثانی کی ستائیسویں شب میں ہجرت سے ایک سال پہلے ہوا ہے اور ابن قاسم ذہبی کہتے ہیں کہ بعثت سے اٹھارہ مہینے کے بعد واقعہ پیش آیا ہے حضرات محدثین نے روایات مختلفہ ذکر کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کن چیز نہیں لکھی اور مشہور عام طور پر یہ ہے کہ ماہ رجب کی ستائیسویں شب شب معراج ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔- مسجد حرام اور مسجد اقصے :- حضرت ابوذر غفاری (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد کون سی ہے تو آپ نے فرمایا کہ مسجد حرام پھر میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد کون سی تو آپ نے فرمایا مسجد اقصے میں نے دریافت کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنی مدت کا فاصلہ ہے تو آپ نے فرمایا چالیس سال پھر فرمایا کہ (مسجدوں کی ترتیب تو یہ ہے) لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ساری زمین کو مسجد بنادیا ہے جس جگہ نماز کا وقت آجائے وہیں نماز ادا کرلیا کرو (رواہ مسلم)- امام تفسیر مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی جگہ کو پوری زمین سے دوہزار سال پہلے بنایا ہے اور اس کی بنیادیں ساتویں زمین کے اندر تک پہنچی ہوئی ہیں اور مسجد اقصے کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بنایا ہے (رواہ النسائی باسناد صحیح عن عبداللہ بن عمر) تفسیر قرطبی ص ١٣٧ ج ٤۔- اور مسجد حرام اس مسجد کا نام ہے جو بیت اللہ کے گرد بنی ہوئی ہے اور بعض اوقات پورے حرم کو بھی مسجد حرام سے تعبیر کیا جاتا ہے اس دوسرے معنی کے اعتبار سے دو روایتوں کا یہ تعارض بھی رفع ہوجاتا ہے کہ بعض روایات میں آپ کا اسراء کے لئے تشریف لیجانا حضرت ام ہانی کے مکان سے منقول ہے اور بعض میں حطیم بیت اللہ سے اگر مسجد حرام کے عام معنی لئے جائیں تو یہ کچھ مستبعد نہیں کہ پہلے آپ ام ہانی کے مکان میں ہوں وہاں سے چل کر حطیم کعبہ میں تشریف لائے پھر وہاں سے سفر اسراء کی ابتدا ہوئی واللہ اعلم۔- مسجد اقصے اور ملک شام کی برکات :- آیت میں بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ میں حَوْلَ سے مراد پوری زمین شام ہے ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش سے دریائے فرات تک مبارک زمین بنائی ہے اور اس میں سے فلسطین کی زمین کو تقدس خاص عطا فرمایا ہے (روح المعانی)- اس کی برکات دینی بھی ہیں اور دنیاوی بھی دینی برکات تو یہ ہیں کہ وہ تمام انبیاء سابقین کا قبلہ اور تمام انبیاء (علیہم السلام) کا مسکن و مدفن ہے اور دنیوی برکات اس کی زمین کا سرسبز ہونا اور اس میں عمدہ چشمے نہریں باغات وغیرہ کا ہونا ہے۔- حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ملک شام تو تمام شہروں میں سے میرا منتخب خطہ ہے اور میں تیری طرف اپنے منتخب بندوں کو پہونچاؤں گا (قرطبی) اور مسند احمد میں حدیث ہے کہ دجال ساری زمین میں پھرے گا مگر چار مسجدوں تک اس کی رسائی نہ ہوگی۔ ١ مسجد مدینہ ٢ مسجد مکہ مکرمہ۔ ٣ مسجد اقصی ٤ مسجد طور
سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ - سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- سری - السُّرَى: سير اللّيل، يقال : سَرَى وأَسْرَى. قال تعالی: فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود 81] ، وقال تعالی: سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء 1]- ( س ر ی و ) السریٰ- کے معنی رات کو سفر کرنے کے ہیں اور اس معنی میں سریٰ ( ض ) واسریٰ ( افعال ) دونوں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ [هود 81] تو کچھ رات رہے سے اپنے گھر والوں کو لے کر چل دو ۔ سُبْحانَ الَّذِي أَسْرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا [ الإسراء 1] ( وہ ذات ) پاک ) ہے جو ایک رات اپنے بندے کو لے گیا ۔ - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - برك - أصل البَرْك صدر البعیر وإن استعمل في غيره، ويقال له : بركة، وبَرَكَ البعیر : ألقی بركه، واعتبر منه معنی اللزوم، فقیل : ابْتَرَكُوا في الحرب، أي : ثبتوا ولازموا موضع الحرب، وبَرَاكَاء الحرب وبَرُوكَاؤُها للمکان الذي يلزمه الأبطال، وابْتَرَكَتِ الدابة : وقفت وقوفا کالبروک، وسمّي محبس الماء بِرْكَة، والبَرَكَةُ : ثبوت الخیر الإلهي في الشیء .- قال تعالی: لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96]- ( ب رک ) البرک - اصل میں البرک کے معنی اونٹ کے سینہ کے ہیں ( جس پر وہ جم کر بیٹھ جاتا ہے ) گو یہ دوسروں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے سینہ کو برکۃ کہا جاتا ہے ۔ برک البعیر کے معنی ہیں اونٹ اپنے گھٹنے رکھ کر بیٹھ گیا پھر اس سے معنی لزوم کا اعتبار کر کے ابترکوا ا فی الحرب کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور جم کر لڑنے کے ہیں براکاء الحرب الحرب وبروکاءھا سخت کا ر زار جہاں بہ اور ہی ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔ ابترکت الدبۃ چو پائے کا جم کر کھڑا ہوجانا برکۃ حوض پانی جمع کرنے کی جگہ ۔ البرکۃ کے معنی کسی شے میں خیر الہٰی ثابت ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات - ( کے دروازے ) کھول دیتے ۔ یہاں برکات سے مراد بارش کا پانی ہے اور چونکہ بارش کے پانی میں اس طرح خیر ثابت ہوتی ہے جس طرح کہ حوض میں پانی ٹہر جاتا ہے اس لئے بارش کو برکات سے تعبیر کیا ہے ۔- حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصیر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، وللقوّة التي فيها، ويقال لقوة القلب المدرکة :- بَصِيرَة وبَصَر، نحو قوله تعالی: فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] ، ولا يكاد يقال للجارحة بصیرة، ويقال من الأوّل : أبصرت، ومن الثاني : أبصرته وبصرت به «2» ، وقلّما يقال بصرت في الحاسة إذا لم تضامّه رؤية القلب، وقال تعالیٰ في الأبصار : لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] ومنه : أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] أي : علی معرفة وتحقق . وقوله : بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] أي : تبصره فتشهد له، وعليه من جو ارحه بصیرة تبصره فتشهد له وعليه يوم القیامة، - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں ، نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ اور آنکھ سے دیکھنے کے لئے بصیرۃ کا لفظ استعمال نہیں ہوتا ۔ بصر کے لئے ابصرت استعمال ہوتا ہے اور بصیرۃ کے لئے ابصرت وبصرت بہ دونوں فعل استعمال ہوتے ہیں جب حاسہ بصر کے ساتھ روئت قلبی شامل نہ ہو تو بصرت کا لفظ بہت کم استعمال کرتے ہیں ۔ چناچہ ابصار کے متعلق فرمایا :۔ لِمَ تَعْبُدُ ما لا يَسْمَعُ وَلا يُبْصِرُ [ مریم 42] آپ ایسی چیزوں کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنیں اور نہ دیکھیں ۔- اور اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ أَدْعُوا إِلَى اللَّهِ عَلى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي [يوسف 108] یعنی پوری تحقیق اور معرفت کے بعد تمہیں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ( اور یہی حال میرے پروردگار کا ہے ) اور آیت کریمہ ؛۔ بَلِ الْإِنْسانُ عَلى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ [ القیامة 14] کے معنی یہ ہیں کہ انسان پر خود اس کے اعضاء میں سے گواہ اور شاہد موجود ہیں جو قیامت کے دن اس کے حق میں یا اس کے خلاف گواہی دینگے
سفر معراج کا آغاز - قول باری ہے (سبحان الذی اسری بعبدہ لیلاً من المسجد الحرام الی المسجد لاقصی الذی بارکنا حولہ پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے) حضرت ام ہانی (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے گھر سے اس رات معراج کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (من المسجد الحرام) اس لئے کہ حرم سارے کا سارا مسجد ہے۔ اس بارے میں گزشتہ اوراق میں گفتگو ہوچکی ہے حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرام میں تشریف فرما تھے اور وہیں سے آپ معراج کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔
(١) وہ اولاد اور شریک سے پاک ذات ہے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حرم شریف یعنی حضرت ام ہانی کے مکان سے رات کے ابتدائی حصہ میں مسجد اقصی تک لے گیا جو کہ مکہ مکرمہ سے بہت دور اور گویا کہ آسمان کے قریب ہے جس کے گروہم نے پانی درختوں اور پھلوں کی برکتیں رکھی تھیں تاکہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے عجائبات قدرت دکھا دیں چناچہ اس رات میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو کچھ دیکھا وہ سب عجائبات خداوندی میں سے تھا بیشک اللہ تعالیٰ قریش کی باتوں کو بڑے سننے والے اور قریش کے طرز عمل اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس سفر کو بڑے دیکھنے والے ہیں۔
آیت ١ (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا)- یہ رسول اللہ کے سفر معراج کے پہلے مرحلے کی طرف اشارہ ہے جو مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) تک کے زمینی سفر پر مشتمل تھا۔ ” سُبْحٰن “ تنزیہہ کا کلمہ ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہر نقص و عیب سے پاک و منزہ ہے۔ اس کلمہ سے بات کا آغاز کرنا خود دلالت کرتا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارق عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا ‘ بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم کو کرایا۔- (الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ )- اس علاقے کی برکت دنیوی اعتبار سے بھی ہے اور روحانی اعتبار سے بھی۔ دنیوی اعتبار سے یہ علاقہ بہت زرخیز ہے اور یہاں کی آب و ہوا خصوصی طور پر بہت اچھی ہے۔ روحانی اعتبار سے دیکھیں تو یہ علاقہ بہت سے جلیل القدر انبیاء کا مسکن رہا ہے اور حضرت ابراہیم سمیت بہت سے انبیاء یہاں مدفون ہیں۔ ہیکل سلیمانی بنی اسرائیل کی مرکزی عبادت گاہ تھی۔ اس لحاظ سے نہ معلوم اللہ کے کیسے کیسے نیک بندے کس کس انداز میں یہاں عبادت کرتے رہے ہوں گے۔ اس کے علاوہ بیت المقدس کو بنی اسرائیل کے قبلہ کی حیثیت بھی حاصل تھی۔ چناچہ مادی و روحانی دونوں اعتبار سے اس علاقے کو اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ برکتوں سے نوازا ہے۔- سفر معراج کے پہلے مرحلے میں رسول اللہ کو مکہ مکرمہ سے یروشلم لے جایا گیا وہاں بیت المقدس میں تمام انبیاء کی ارواح کو جمع کیا گیا انہیں جسد عطا کیے گئے (ہمارے حواس اس کیفیت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں) اور وہاں حضور نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ حضور کے سفر معراج کے اس حصے کا ذکر جس انداز میں یہاں ہوا ہے اس کی ایک خصوصی اہمیت ہے۔ یہ گویا اعلان ہے کہ نبی آخر الزماں اور آپ کی امت کو توحید کے ان دونوں مراکز (بیت اللہ اور بیت المقدس) کا متولی بنایا جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے آپ کو پہلے بیت المقدس لے جایا گیا اور پھر وہاں سے آپ کے آسمانی سفر کا مرحلہ شروع ہوا۔ سفر معراج کے اس دوسرے مرحلے کا ذکر بہت اختصار کے ساتھ سورة النجم میں کیا گیا ہے۔- (لِنُرِيَهٗ مِنْ اٰيٰتِنَا ۭ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ )- بنی اسرائیل کے اہم ترین تاریخی مقام کا ذکر کرنے کے بعد اب آئندہ آیات میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کی تاریخ کا حوالہ دیا جا رہا ہے ۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :1 یہ وہی واقعہ ہے جو اصطاحا ”معراج“ اور ”اسراء“ کے نام سے مشہور ہے ۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا ۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس واقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں جن کی تعداد ۲۵ تک پہنچتی ہے ۔ ان میں سے مفصل ترین روایت حضرت انس بن مالک ، حضرت مالک بن صَعصَعہ ، حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہیں ۔ ان کے علاوہ حضرت عمر ، حضرت علی ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت ابو سعید خدری ، حضرت حذیفہ بن یمان ، حضرت عائشہ اور متعدد دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں ۔ قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام ( یعنی بیت اللہ ) سے مسجد اقصٰی ( یعنی بیت المقدس ) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا ۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی ہے ۔ حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل علیہ السلام آپ کو اٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصی تک براق پر لے گئے ۔ وہاں آپ نے انبیاء علہیم السلام کے ساتھ نماز ادا کی ۔ پھر وہ آپ کو عالم بالا کی طرف لےچلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ آخر کار آپ انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضوری کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حکم ہوا ۔ اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے ۔ اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا ۔ نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے ۔ حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں ، اور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا ۔ تا ہم اگر کوئی شخص ان تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانےجو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی ، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے ۔ اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں ؟ اور آیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود تشریف لے گئے تھے یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر ہی آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا ؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں ۔ سُبْحٰنَ الّذِیْ اَسْریٰ سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا خارق عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا ۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا ، یا کشف کے طور پر دیکھنا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لیے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا ۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ ”ایک رات اپنے بندے کو لے گیا“جسمانی سفر مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرایا ۔ اب اگر ایک رات میں ہوائی جہاز کے بغیر مکہ سے بیت المقدس جانا اور آنا اللہ کی قدرت سے ممکن تھا ، تو آخر ان دوسری تفصیلات ہی کو ناممکن کہہ کر کیوں رد کر دیا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں؟ ممکن اور ناممکن کی بحث تو صرف اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کسی مخلوق کے باختیار خود کوئی کام کرنے کا معاملہ زیر بحث ہو ۔ لیکن جب ذکر یہ ہو کہ خدا نے فلاں کام کیا ، تو پھر امکان کا سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے خدا کے قادر مطلق ہونے کا یقین نہ ہو ۔ اس کے علاسہ جو وسری تفصیلات حدیث میں آئی ہیں ان پر منکرین حدیث کی طرف سے متعدد اعتراضات کیے جاتے ہیں ، مگر ان میں سے صرف دو ہی اعتراضات ایسے ہیں جو کچھ وزن رکھتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس سے اللہ تعالی کا کسی خاص مقام پر مقیم ہونا لازم آتا ہے ، ورنہ اس کے حضور بندے کی پیشی کے لیے کیا ضرورت تھی اسے سفر کرا کے ایک مقام خاص تک لے جایا جاتا ؟ دوسرے یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوزخ اور جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرا دیا گیا جبکہ ابھی بندوں کے مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے؟ یہ کیا کہ سزا و جزا کا فیصلہ تو ہونا ہے قیامت کے بعد ، اور کچھ لوگوں کو سزا دے ڈالی گئی ابھی سے؟ لیکن دراصل یہ دونوں اعتراض بھی قلت فکر کا نتیجہ ہیں ۔ پہلا اعتراض اس لیے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں تو بلا شبہ اطلاقی شان رکھتا ہے ۔ مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بنا پر محدود و سائط اختیار کرتا ہے ۔ مثلا جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کرتا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سے ، حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاقی شان رکھتا ہے ۔ اسی طرح جب وہ اپنے بندے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے ، کیونکہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے ۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لیے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی ، مگر بندے کو ہوتی ہے ۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذات خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے ، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لیے ایک جگہ کا محتاج ہے جہاں اس کے لیے تجلیات کو مرکوز کیا جائے ۔ ورنہ اس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندہ محدود کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے غلط ہے کہ معراج کے موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں کو ممثل کر کے دکھا یا گیا تھا ۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جا سکا ۔ یا زناکاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں ۔ اسی طرح برے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائیں گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں ۔ اصل بات جو معراج کے سلسلے سے سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیم السلام میں سےہر ایک کو اللہ تعالی نے ان کے منصب کی مناسبت سے ملکوت سموات و ارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بالغیب لانے کی دعوت دینے پر وہ مامور کیے گئے تھے ، تاکہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالکل ممیز ہوجائے ۔ فلسفی جو کچھ بھی کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے ، وہ خود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا ۔ مگر انبیاء جو کچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کے بنا پر کہتے ہیں ، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں ۔
1: اس سے معراج کے واقعے کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیل حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور رات کے وقت انہیں ایک جانور پر سوار کیا جس کا نام براق تھا، وہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ آپ کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے گیا، یہ سفر معراج کا پہلا مرحلہ تھا، جسے اسراء کہا جاتا ہے، پھر وہاں سے حضرت جبریئل (علیہ السلام) آپ کو ساتوں آسمانوں پر لے گئے، ہر آسمان پر آپ کی ملاقات پچھلے پیغمبروں میں کسی پیغمبر سے ہوئی، اس کے بعد جنت کے ایک درخت سدرۃ المنتہی پر تشریف لے گئے، اور آپ کو اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلامی کا شرف عطا ہوا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض فرمائیں، پھر رات ہی رات میں آپ واپس مکہ مکرمہ تشریف لے آئے، اس آیت میں اس سفر کے صرف پہلے حصے کا بیان اس لئے کیا گیا ہے کہ آنے والے تذکرے سے اسی کا تعلق زیادہ تھا، البتہ سفر کے دوسرے حصے کا تذکرہ سورۃ نجم : ٢٧۔ ١٣ تا ١٨ میں آیا ہے، صحیح روایات کے مطابق یہ معجزانہ سفر بیداری کی حالت میں پیش آیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ایک عظیم نشانی آپ کو دکھائی گئی تھی، یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ واقعہ بیداری کے بجائے خواب میں دکھایا گیا ؛ کیونکہ یہ بات صحیح احادیث کے تو خلاف ہے ہی قرآن کریم کا اسلوب واضح طور پر یہ بتارہا ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نشانی قرار دیا ہے، اگر یہ صرف ایک خواب کا واقعہ ہوتا تو یہ کوئی غیر معولی بات نہیں تھی، انسان خواب میں بہت کچھ دیکھتا رہتا ہے، پھر اسے اپنی ایک نشانی قرار دینے کے کوئی معنی نہیں تھے۔